Geek
Chief Minister (5k+ posts)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ایاز امیر نے مطالبہ کیا ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں شراب نوشی سمیت مختلف سماجی پابندیوں کے بارے میں نافذ کردہ قوانین کو ختم کرنا چاہیے۔
یہ بات انہوں نے بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران ایک پاکستانی اداکارہ سے مبینہ طور پر شراب کی دو بوتلیں برآمد ہونے پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے نوٹس لیے جانے کی خبر کا ذکر کرتے ہوئے کہی۔
ایاز امیر نے چیف جسٹس کے اس اقدام پر ان پر تنقید کی۔ یہ کون سا جنون سر پر اٹھا رکھا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کو متفقہ آئین دینے کی خاطر شراب کی کھلے عام خرید و فروخت یا شراب خانے پر پابندی لگانے کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی جماعتوں کی فرمائش پر کیا اور اس سلسلے میں مزید پابندیاں عائد کرنے اور ان پر سختی سے عمل کرانے کے اقدامات ضیاءالحق نے کیے۔
ضیاءالحق نے پاکستانی معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی خاطر رمضان کے مہینے میں کھلے عام کھانے پینے پر پابندی، سرکاری دفاتر میں نماز پڑھنے، ریاستی ٹی وی پر خواتین پر دوپٹہ پہننے کی پابندی عائد کرنے، شرعی عدالتوں کے قیام، حدود آرڈیننس اور ناموس رسالت کے قوانین متارف کروائے۔
ایاز امیر نے کسی مخصوص قانون کا نام لیے بنا شراب برآمد ہونے کی خبر کے تناظر میں کہا کہ اب بھی وقت نہیں گیا اور پورے پارلیمان کو مل کر ضیاء دور کے سماجی قانون سازی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔۔۔ہمیں ماضی کے تلخ و تاریک ورثے کو ختم کرنا چاہیے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار اعجاز مہر کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی رکن پارلیمان نے کھل کر اس موضوع پر بات کی ہے اور یہ کہ وہ بات مسلم لیگ (ن) کا کوئی رکن اسمبلی کرے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر چھاپ لگی ہے کہ وہ ضیاالحق کے دور میں پروان چڑھی اور بقول پرویز مشرف کے کہ وہ بغیر داڑھی والے مولوی ہیں۔
یاد رہے کہ مقامی ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہوئی ہیں کہ بیرون ملک سے اسلام آباد آتے ہوئے اداکارہ عتیقہ اوڈھو سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں۔ جس پر سپریم کورٹ نے کسٹم اور پولیس حکام سے یہ جواب طلب کیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا۔
کسٹم حکام کے مطابق تین لاکھ سے کم مالیت کی شراب برآمد ہونے پر قانون کے مطابق وہ مقدمہ درج نہیں کرتے اور ہوائی اڈے پر اس طرح کے واقعات معمول ہیں اور حکام ان کا شراب ضبط کرکے متعلقہ لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن ایاز امیر اور دیگر ارکان نے بجٹ پر بحث کے دوران فوج کے سیاسی معاملات میں عمل دخل اور ملکی دفاع میں ناکامی (ایبٹ آباد واقعہ اور مہران بیس پر حملہ) پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور دفاعی بجٹ کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف ڈرون حملے بند کرنے کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف الیاس کشمیری کو مروانے کے لیے امریکہ سے انٹیلی جنس شیئر کی جاتی ہے۔
ایاز امیر نے بھارت کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانے اور افغانستان پر تسلط قائم کرنے کی پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے فوج پر تنقید کی کہ وہ اپنی پرانی پالیسی تبدیل کرے۔ انہوں نے صحافی سید سلیم شہزاد کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا شک بھی آبپارہ کی طرف جاتا ہے اور وہ اپنی ماضی کی روش سے باز آجائے۔
بجٹ پر بحث کے دوران سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ہی جماعت کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہ بجٹ عوامی امنگوں کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لیے نئی دور اندیش، ایماندار اور اہل قیادت کی ضرورت ہے۔ ان کی حکومت پر تنقید کے دوران حزب مخالف کی مسلم لیگ نون نے خوب ڈیسک بجائے۔
بجٹ پر بحث کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے بھی تقریر کی اور دیگر مقررین کی طرح بجٹ کے بجائے سیاسی باتیں زیادہ کیں۔ انہوں نے حکومت پر ماضی کی نسبت کھل کر تنقید سے اجتناب کیا۔ جس کی وجہ شاید ان کی جماعت کے مولانا غفور حیدری کو سینیٹ میں قائد حزب مخالف بنانا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ایاز امیر کی طرح اس بات پر زور دیا کہ پاکستان بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر کرے اور کاروباری تعلقات استوار کرے۔ ان کے بقول پاکستان جب تک پڑوسی ممالک سے کاروبار نہیں کرے گا تو ترقی نہیں کرسکتا۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پر چودہ جون تک بحث ہوگی اور اس کے بعد اس کی منظوری کا مرحلہ شروع ہوگا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110608_ayaz_alcohol_a.shtml