سیکولر ذہن کی سطح -- شاہنواز فاروقی

Muslimonly

Senator (1k+ posts)

سیکولر ذہن کی سطح
از
شاہنواز فاروقی


bl6My.jpg


پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقات نے تمام مذہبی لوگوں کو ’’طالبان‘‘ بنادیا ہے، اور طالبان بھی اپنی پسند کا۔ سیکولر اور لبرل عناصر کے طالبان انتہا پسند ہیں۔ دہشت گرد ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر وقت اسلحہ ہوتا ہے۔ وہ دستی بموں اور خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹس سے لیس ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں سے ہر وقت وحشت اور درندگی ٹپکتی رہتی ہے۔ وہ دائمی طور پر خون کے پیاسے ہیں۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ خود کو ’’طالبان‘‘ کہتے ہیں مگر پڑھنے لکھنے سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ علم، تعلیم، شعور، آگہی اور کتاب اور قلم کے دشمن ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی عورتوں کو گھروں میں قید کیا ہوا ہے۔ وہ انہیں دنیا کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔
پاکستان کے مذہبی لوگوں کی یہ تصویر سیکولر لوگوں نے بڑی محنت سے بنائی ہے اور وہ اس تصویر میں مسلسل رنگ بھرتے رہتے ہیں۔

i4HKK.jpg

ان لوگوں میں ایک نام ندیم فاروق پراچہ کا بھی ہے۔ ندیم فاروق پراچہ روزنامہ ڈان میں ہفتہ وار کالم تحریر کرتے ہیں۔ ان کی خاص بات صرف یہ نہیں ہے کہ وہ سیکولر اور لبرل ہیں، بلکہ ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انہیں حقیقی معنوں میں مذہبی لوگوں، مذہبی جماعتوں اور مذہبی خیالات سے نفرت ہے۔ ان کی نفرت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کے اکثر کالموں میں یہ نفرت شدت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ندیم فاروق پراچہ نفرت کے مسلسل اظہار سے نہ اکتاتے ہیں، نہ تھکتے ہیں۔ لیکن 16 دسمبر 2012ء کے کالم میں انہوں نے مذہبی لوگوں اور مذہبی خیالات سے نفرت کی ایورسٹ کو سر کیا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ندیم فاروق پراچہ نے کراچی میں ہونے والے تین روزہ عالمی میلۂ کتب کا دورہ کیا تو انہیں یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ کتابوں کے عالمی میلے میں کتابوں کے اکثر اسٹالز پر مذہبی کتب فروخت ہورہی تھیں۔ یہاں تک کہ جن اسٹالز پر عام ادب اور موسیقی سے متعلق کتب فروخت کے لیے رکھی گئی تھیں ان پر بھی ایک حصہ مذہبی لٹریچر کے لیے مخصوص تھا۔ ندیم فاروق پراچہ نے لکھا ہے کہ کتب میلے کا ایک پہلو یہ تھا کہ اس میں ’’ڈاڑھی والوں کی‘‘ اکثریت تھی۔ یہ لوگ اپنی برقع پوش خواتین اور بچوں کے ہمراہ کتب میلے میں آئے ہوئے تھے اور دھڑادھڑ کتابیں خرید رہے
تھے۔ مذہبی لوگوں کے بارے میں سیکولر لوگوں کے قائم کیے ہوئے ’’امیج‘‘ کو دیکھا جائے تو ندیم فاروق پراچہ کو کتب میلے کے مناظر سے خوش ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ کتب میلے میں مذہبی لوگ اسلحہ نہیں کتابیں خریدنے آئے تھے، اور وہ کتاب میلے سے ’’اسلحہ بردار‘‘ نہیں بلکہ ’’کتاب بردار‘‘ بن کر نکل رہے تھے۔ بظاہر سیکولر اور لبرل لوگ یہی تو چاہتے ہیں کہ مذہبی لوگ بھی ان کی طرح ’’لکھنے پڑھنے والے‘‘ بن جائیں۔ مگر ندیم فاروق پراچہ کو اس پر خوشی نہیں ہوئی بلکہ وہ یہ دیکھ کر دکھ کے سمندر میں ڈوب گئے کہ کتاب میلہ اور وہ بھی بین الاقوامی کتاب میلہ مذہبی لٹریچر اور مذہبی لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’مذہبی مرد‘‘ اکیلے نہیں آئے ہوئے تھے، بلکہ ’’روشن خیالی‘‘ کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی کتاب میلے میں لے آئے تھے۔ اصولی اعتبار سے ندیم فاروق پراچہ کو مذہبی لوگوں کی اس ’’کشادہ نظری‘‘ پر خوش ہونا چاہیے تھا اور کہنا چاہیے تھا کہ چلیے دیر سے سہی مگر مذہبی لوگوں نے بھی عورتوں کو کتاب میلے میں لانے کے قابل تو سمجھا۔ مگر ندیم فاروق پراچہ یہ منظر دیکھ کر اذیت میں مبتلا ہوگئے۔ کتابیں علم اور تخلیقی صلاحیت کا حاصل ہوتی ہیں، اور یہ چیزیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ضد ہیں، چنانچہ کتاب میلے میں مذہبی ادب کی فراوانی سے صاف ظاہر ہے کہ مذہبی ذہن سیکولر اور لبرل ذہن سے کہیں زیادہ خلاّق ہوگیا ہے اور اپنی مذہبی کائنات کی تخلیق کے لیے وجود کی ساری توانائی صرف کررہا ہے۔
سیکولر اور لبرل خود کو علم دوست اور تخلیقی رجحانات کا پاسبان کہتے ہیں، چنانچہ ندیم فاروق پراچہ کو یہ دیکھ کر دلی مسرت ہونی چاہیے تھی کہ مذہبی لوگ علم اور تخلیق کے عاشق بن گئے ہیں اور انہوں نے ٹنوں کے حساب سے لٹریچر تخلیق کرڈالا ہے۔ لیکن ندیم فاروق پراچہ اس بات پر خوش ہونے کے بجائے سینہ کوبی کرتے ہوئے پائے گئے۔ ندیم فاروق پراچہ کتاب میلے میں ترکی کے اسٹال پر گئے مگر یہاں بھی ان کے لیے اذیت کا سامان مہیا تھا، کیونکہ ترکی کے اسٹال پر ترکی کے مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن صاحب کی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ مذہبی لوگوں سے ندیم فاروق پراچہ کی نفرت کا اشتہار ان کا یہ بیان ہے کہ میلے میں آئے ہوئے مذہبی لوگ لمبی لمبی ’’ڈاڑھی والے ‘‘ تھے، عورتیں باپردہ تھیں اور ان کے ساتھ آئے ہوئے بچے پُرشور یا ندیم فاروق پراچہ کے اپنے الفاظ میں “Very Noisy” تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے سیکولر اور لبرل لوگوں کے بچے بہت ’’خاموش طبع‘‘ ہوتے ہیں۔ دنیا میں تہذیب کا جو بھی معیار متعین کیا جائے گا اُس کے تحت بچوں کے شور شرابے کو کوئی بھی برا نہ کہے گا۔ اس لیے کہ بچے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ مگر ندیم فاروق پراچہ صاحب کی مذہبی لوگوں سے نفرت نے بچوں تک کو ’’معاف‘‘ نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کالم میں اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں بخشا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کتب میلے کے ایک ہال میں ایک صاحب مائک پر پوچھ رہے تھے ’’پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘ اور بچے پوری قوت کے ساتھ اس کا جواب دے رہے تھے ’’لا الہ الا اللہ‘‘۔ تجزیہ کیا جائے تو ندیم فاروق پراچہ کو مذکورہ سوال ہی سے نہیں بلکہ مذکورہ سوال کے جواب سے بھی تکلیف ہوئی۔ وہ اس سلسلے میں اپنی شخصی، اجتماعی اور فکری تہذیب کو اس سطح تک لے گئے کہ انہوں نے یہ لکھنا ضروری سمجھا کہ جو بچے ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ کا جواب ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہہ کر دے رہے تھے اُن کے ہاتھ میں پاپ کارن، لالی پاپ اور جوسز کے ڈبے تھے، اور یہ بچے لا الہ الا اللہ تو کہہ رہے تھے مگر پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس کے ڈبے کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ یہ بات ندیم فاروق پراچہ نے اس طرح لکھی ہے جیسے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ بچوں کو پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس پینے سے روکتا ہے۔ غالباً ندیم فاروق پراچہ کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس ’’جدیدیت‘‘ کی علامت ہیں اور لا الہ الا اللہ ’’قدامت‘‘ کی علامت ہے، اور ان دونوں میں ایک تضاد ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سیکولر اور لبرل لوگوں کی فکری سطح کتنی بلند ہے اور وہ جدیدیت اور قدامت کی کشمکش کو کتنی ’’گہرائی‘‘ میں اتر کر دیکھ اور بیان کررہی ہے۔
کتاب میلے ’’ذہین‘‘ اور “Smart” لوگوں کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ لیکن ندیم فاروق پراچہ کے کالم کے ساتھ ڈان کے ابڑو صاحب کی بنائی ہوئی جو “Illustration” شائع ہوئی ہے اس میں مذہبی عورتیں برقع میں چھپی ہوئی ہیں اور مذہبی لوگ کرتے، پاجامے اور ٹوپی میں دکھائے گئے ہیں۔ بیچاروں کی ڈاڑھیاں ہی نہیں پیٹ بھی بڑھے ہوئے ہیں، بلکہ عوامی زبان میں ان کی توندیں نکلی ہوئی ہیں۔ مطلب یہ کہ مذہبی لوگ کیا سمجھتے ہیں وہ کتاب میلے میں جائیں گے تو دنیا ان کو علم دوست، مہذب، ذہین اور Smart سمجھے گی؟ یہ ان کی بھول ہے۔ پاکستان کے سیکولر عناصر ان کو یہ ’’امیج‘‘ کبھی “Enjoy” نہیں کرنے دیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ندیم فاروق پراچہ کے کالم میں سب کچھ نفرت میں ڈوبا ہوا ہے۔ کالم کے آخری دو فقرے بہت اچھے ہیں۔ ان کا لطف انگریزی ہی میںہے۔ چنانچہ انہیں انگریزی ہی میں ملاحظہ کیجیے۔ ندیم فاروق پراچہ نے لکھا ہے:
Also never underestimate the myth of subliminal messaging. Guess which book i did end up buying at the fair: Islam in South East Asia
مطلب یہ کہ میلے کی فضا کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں نے بھی میلے کے دورے کے اختتام پر اسلام سے متعلق کتاب خریدلی





---------------------------


Nadeem F. Paracha's Original Column

http://dawn.com/2012/12/16/smokers-corner-no-country-for-old-men/
 
Last edited:

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
وھ سچا لکھتا ھے کیونکہ پاکستان میں مذھبی کتب نے مسلمانوں کو جوڑا نھیں بلکہ توڑا ھے۔مسجدوں کی عزت قائم نھیں کی بلکہ خودکش حملوں کا سبب بنی ھیں۔مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ نھیں کیا بلکہ فتاوی کی صورت انمیں کمی ھی کی ھے۔ملک کو بھی توڑ دیا اور باقی کی خیر بھی نھیں لگتی۔مسجدوں کے قالین عبادت کرنے والوں کے آنسووں سے نھیں بلکہ خون سے سرخ کیے ھیں۔ایسی کتب کو جلا دینا چاھیے۔
 

Altaf Lutfi

Chief Minister (5k+ posts)
is zehniyyat k log ek samjhotay k tehat zindagi ko tarteeb detay hain keh dunyawi taraqqi k liay mazhab se bezari ka chalan apna kar koi maqam banaya jaey aur dollars sametay jaen. lekin andar khanay Allah se bhi naata qaim rakha jaey keh marna bhi tu hai. In ka tasawwur na sirf dunya k baray ghalat hai balkeh in ko Allah ki zaat baray bhi azeem ghalat fehmi hai.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
سیکولر لبرل فاشٹوں نے مسلمانوں میں ایک عالمی تفریق پیدا کی ہے. ہر مسلمان یا بنیاد پرست ہے یا لا دین. ایک طرف یہ لا دین گماشتے مغرب کے ساتھ مل کر پاکستان میں مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور دوسری طرف قوم کو لسان، صوبے اور قومیت کے تقسیم کر کے اسمبلیوں میں مزے کر رہے ہیں. سڑکوں پر اردو بولنے والے، پٹھان، سندھی، بلوچی اور پنجابیوں کا خون بہہ رہا ہے اور اسمبلیوں میں ٹرم پوری کرنے کے عہد و پیما کئے جا رہے ہیں

ندیم پراچہ اور اس جیسے کتنے سچے ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے کے مذہب نے ملک بنایا تھا. توڑا سیکولر، لبرل فاشٹوں کی لسانی لڑائی نے، مگر جھوٹ بولو اور اتنا کے سچ لگنے لگے کا مصداق مذھب کے خلاف بھرپور پروپگنڈا کیا جا رہا ہے

سیکولر لبرل فاشٹ کتنے روادار، معتدل ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے ہی ہو جاتا ہے. سیکولر ازم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، لیکن اس جھوٹ نے انسانیت میں حزب اللہ اور حزب الشیطان کی تقسیم کو واضح کر دیا ہے، کون کس کی کتابوں کو جلائے گا اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا

 

Wadaich

Prime Minister (20k+ posts)
سیکولر لبرل فاشٹوں نے مسلمانوں میں ایک عالمی تفریق پیدا کی ہے. ہر مسلمان یا بنیاد پرست ہے یا لا دین. ایک طرف یہ لا دین گماشتے مغرب کے ساتھ مل کر پاکستان میں مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور دوسری طرف قوم کو لسان، صوبے اور قومیت کے تقسیم کر کے اسمبلیوں میں مزے کر رہے ہیں. سڑکوں پر اردو بولنے والے، پٹھان، سندھی، بلوچی اور پنجابیوں کا خون بہہ رہا ہے اوراسمبلیوں میں ٹرم پوری کرنے کے عہد و پیما کئے جا رہے ہیں

ندیم پراچہ اور اس جیسے کتنے سچے ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے کے مذہب نے ملک بنایا تھا. توڑا سیکولر، لبرل فاشٹوں کی لسانی لڑائی نے، مگر جھوٹ بولو اور اتنا کے سچ لگنے لگے کا مصداق مذھب کے خلاف بھرپور پروپگنڈا کیا جا رہا ہے

سیکولر لبرل فاشٹ کتنے روادار، معتدل ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے ہی ہو جاتا ہے. سیکولر ازم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، لیکن اس جھوٹ نے انسانیت میں حزب اللہ اور حزب الشیطان کی تقسیم کو واضح کر دیا ہے، کون کس کی کتابوں کو جلائے گا اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا


Mr. Paracha and his likes are the frogs of well. Actually there is seal on their hearts and minds. The well that makes up the whole universe for them too is just limited to Liberal Fascism.
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Is saari mazhabi aur secular kashmakash par agar ghor kiya jaaye to insaniyat ahista ahista is ki wajah se jaag rahee hai. jab do yaksaan magar mukhaalif taaqaten aik doosre se takraati hen to nateejah kisi had tak achha nikalta hai.

islam na to secularism hai na mazhab hai. yeh aik achhi zindagi guzaarne ka raasta hai magar kyunkeh log us ka asal ilm haasil karne main bahot kam dilchasbi rakhte hen is liye fil aakhir muqaabla malukiyati aur mullaiyati aamriyatun ka hi hai. Aur sarmaayadar araam se aik taraf baithe tamaashe dekh rehe hen in ko aapas main ladaa kar. rahee baat ulemaaye deen ki un ki koi sunta hi nahin. jab zor aawar log apni zor aazmayee kar chuken ge aur zaroorat mehsoos karen ge ulema ki rahnumayee ki tab hi kuchh khatir khawa nateeja nikalne ka imkaan hai.
 

maksyed

Siasat.pk - Blogger
@Muslimonly

دوست! آپ کا یہ تھریڈ دیسی لبلرز کے پیٹ میں مڑوڑ کا سبب گا ، جسکے لیے آپ کو مطلع کرنا میرا فرض تھا ، اب آپ پڑھے لکھے جاھلوں کے لمبے چوڑے جہالت سے بهرے ہوے لکچرز کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں ، جن کی جہالت کی ابتدا رمشا مسیح سے شروع آج کل ملاله پر ختم ہوتی ہے

 

BuTurabi

Chief Minister (5k+ posts)
طالبان انتہا پسند ہیں۔ دہشت گرد ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر وقت اسلحہ ہوتا ہے۔ وہ دستی بموں اور خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹس سے لیس ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں سے ہر وقت وحشت اور درندگی ٹپکتی رہتی ہے۔ وہ دائمی طور پر خون کے پیاسے ہیں۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ خود کو طالبان کہتے ہیں مگر پڑھنے لکھنے سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ علم، تعلیم، شعور، آگہی اور کتاب اور قلم کے دشمن ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی عورتوں کو گھروں میں قید کیا ہوا ہے۔ وہ انہیں دنیا کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔

کیسی لفظی تصویر کشی کی ہے اپنی
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Bhai itna bata den keh is pooray colmun men apko kis chez say ikhtlaaf hay?

Muslimonly bhai sb, mujhe har us shakhs se ikhtilaaf hai jo apni zindagi ka maqsad amno salaamti ko nahin banaata us ka naam chahye kuchh bhi ho. mujhe har us shakhs se ikhtilaaf hai jo is maqsad ke hasool ke liye kuchh sharaait ko apnaane ki koshish nahin karta. afraad ki aik doosre se azaadi, afraad ka aik doosre ke saath aadilaana aur musifaana bartao, afraad ki aik doosre ke saath rehmdili aur bhaichaara, logoon ka aik doosre ki taraqi aur khushhaali ke liye kaam karna.

jo log is maqsad aur is ki aisi sharaait ko tasleem nahin karte apne qol yaa fail se mere nazdeeq woh achhe insaan hi nahin hen chejaaye ke achhe musalmaan.

jis kisi nazriye ki bunyaad hi ghalat ho main us ko drust kaise keh sakta hun aur us nazriye pe chalne waalun ko insaaniyat ka dost kaise tasawur kar sakta hun? isi liye mujhe na to secular log insaan dost lagte hen na mazhab ke thekedaar.

islam mere nazdeek sirf aur sirf woh hai jo quran main hai aur jis ko samjhne ke liye qurani tasawuraat ka samajhna az bas zaroori hai.

meri samajh ke mutaabiq quran ka maqsad murde bakhshwaana hai hi nahin balkeh is ka maqsad insaanu ki zinda rehene ke liye rahnumayee karna hai ke woh amno salaamti ki zindagi basar karen.

aamriyat aur malukiyat, mullaiyat aur sarmayadariyat sab aik hi cheez hen asoolan. in sab ka maqsad insaniyat ko apne apne naarawaa maqaasid ke liye istemall karna hai zaleel karna hai.

mullah bhi logoon ko waise hi zaleelo khawaar karte rehe hen jaise baadshah, baat sirf in ke apne apne daaira kaar ki hai. jo jis ko zaleel kar sakta hai kar rahaa hai.

mullah ke naam dekhiye khud hi pata chal jaaye ga keh kitne kitne lambe alqabaat hote hen in ke baadshahon ki tarah balkeh un se bhi lambe. woh doosre insaanu ko insaan hi nahin samjhte. yahee wajah hai aik molvi jab kisi ghareeb ko bulaata hai to oye keh kar magar jab kisi ameer ko bulaata hai to alqabaat ke saath. ghulaam aur londiyun ka nazriya mullah hi ka ghada huwa hai.

aik kahawat hai keh oont se kisi ne poochha utrayee aasaan hai yaa chadhayee, us ne kaha dono hi aik doosre se badtar hen. bas secular hun yaa molvi dono hi insaaniyat ke dost nahin hen haan in ki ab apas main power struggle hai aur ise hamesha kuchh behtar nateeja nikalta hai.

is ko aap yun samjho keh jab koi molvi kisi ko quran sikhaata hai to yeh amal is ka achha hai. aur yehee amal agar aik kaafir bhi kare to bhi achha hai. magar jab quran ko samajhne ki baat aaye gi molvi is ko apne hisaab se samjhjaaye ga aur kaafir apne hisaab se aur yun quran par in ke kiye ge kaam befaaida ho jaayen ge agar padne waalun ne apne apne dimaagh istemaal na kiye. to agarche quran ko padhna padhaana achhi baat thi magar maqsad badalne ki wajah se nateeja shaaid drust na nikle.

yahee wajah hai afghanistan ke talebaan agarche apna difaa main lad rehe hen aur yeh achhi baat hai magar agar un ki zehni sata islam ke mutaabiq na hui to agar woh jang jeet gaye to mulak kayee saalun tak taraqi na kar sake ga. in ki jaga agar woh log aage aa saken jo quran ko saheeh tarah se samajh sakte hen to phir secular taaqatun ki shikast laazmi honi chahiye kyunkeh secular log duniya aur insaaniyat ko utna kuchh nahin de sakte jo saheeh ddeni rahnumaa de sakte hen. isis tarah agar zehni mafloog talebaan jang jeet jaayen to phir jahan tak insaani taraqi ho saki hai mazhabi mudaakhilat ke bagher woh aainda jaari nahin rehe gi is liye aisi haalat main agar saheeh islam nahin aa sakta to phir secularism ka aana islam aur musalmaanu ke liye behtar hai.

aaj duniya main log kkul kar baat isi liye kar sakte hen kyunkeh mazhabi logoon ke paas taaqat hi nahin rahee jis ki wajah se in logoon ne insaniyat ko dabaaya huwa tha sadiyun se.

mere nazdeek isi liye malukiyati mullaiyat se secularism behtar hai kyunkeh abhi insaniyat us maqaam par nahin pohnchi jahan se is ko quran ki khoobia nazar aa saken. aur mullah ne insaniyat ko us satah par aane bhi nahin dena jesa in logoon ne sadiyun se ap[ne amal se saabit kiya huwa hai.

yaheen waja hai ehle ilm bahot kam tadaad main hen aur un ki daal galne waali maloom nahin hoti.

agar aap ghor karen to taqleed aur ijtihaad par itni lambi chori behsen kyun ho rahee hen? isi liye ke kuchh log doosre logoon ko apna ghulaam banaaye rakhna chahte hen.

aap poochh kar dekhen khilaafat kia hoti hai? kahen ge kisi naik shalkhs ki hakumat. in se poochho naik shakhs kon hota hai? kahen ge woh jo namaaz roze ka paband ho.

yeh woh log hen jo insaanu ko khudaa se draate hen jaise khudaa koi balaa ho. din raat apne gunahun ki bakhshish ke liye rishwat talaash karte rehte hen jo khudaa ko de kar khud ko use chhuraa len. bahot hi ajeebo ghareeb islam ki tasweer pesh karte hen.

agar waqt mile to is link ko suniye. http://archive.org/details/Al-Quran_922 kaafi tahamul ka muzahira karna pade ga aap ko kyunkeh awaaz saaf nahin hai.

aaj agar koi quran ki zubaan padhna seekh gayaa to kal das aur log seek jaayen ge aur yun waqt ke saath saath tadaad badhti jaaye gi. us tadaad main se kuchh arbi samajhna seekh jayen ge aur phir un main se muchh duniya ko saamne rakhte huwe quran ko samajhne ki koshish shuru kar den ge aur yun ahista ahista duniya badalti jaaye gi. albatta agar musalmaan kehlwaane waale shuru hi se aiase logoon ka saath den jo quran ko achhi tarah se samajhte hen to waqt bachaaya jaa sakta hai magar aiasa kare ga kon? is forum par hi log un logoon ko achhi nigaah se nahin dekhte jo quran ko samjhaane ki koshish karte hen aqalo fikar ki roshni main.

behar haal aap suniye is link ko aur apna tabsra zaroor dijiye.

Allah ham sab ko apna kalaam samajhne ki tofeeq de.