سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا,وفاقی پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کےفیصلے سے متعلق گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انتباہ جاری کیا گیا,اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کچھ عناصر افواہوں کی آڑ میں امن عامہ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے کہا گیا شہری کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں، بصورت دیگرغیرقانونی عوامل پراکسانے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی, توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار ملزم کی درخواستِ ضمانت پر چیف جسٹس کی جانب سے6 فروری 2024 کو دیے گئے فیصلے پر ان کیخلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم کو جنم دیا جس میں اب پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے فیصلے کو آئین اور دین سے متصادم قرار دہتے ہوئے اُن پر توہینِ مذہب جیسے سنگین الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے جمعرات 23 فروری کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بھی عدلیہ کے خلاف ’منظم مہم‘ پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم سے انحراف کیا، یا مذہب کیخلاف جرائم سے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعات ختم کرنے کا کہا ۔ تنقید کی آڑ میں عدلیہ یا ججز کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے میڈیا پر سپریم کورٹ کے فیصلےکی غلط تشریح پر وضاحتی اعلامیہ جاری کیا ہے,اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلےکی غلط رپورٹنگ ہو رہی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلےکی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں، ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم (مسلمان کی تعریف) سےانحراف کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ غلط تاثر دیا جا رہا ہےکہ "مذہب کے خلاف جرائم" پر مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ختم کرنےکا کہا گیا، فیصلے میں قرار دیا کہ ایف آئی آر کو جوں کا توں درست تسلیم کیا جائے تو دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا، مذہب کے خلاف جرائم سے متعلق مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ختم کرنے کا تاثر بالکل غلط ہے۔
اعلامیہ کے مطابق ایف آر آئی میں الزامات تسلیم بھی کرلیں تو کیس میں فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932 کی دفعہ 5 لگتی ہے، فوجداری ترمیمی ایکٹ کے تحت ممنوعہ کتاب کی نشرواشاعت پر 6 ماہ قید دی جاسکتی ہے۔