Shiki Jokalian
Senator (1k+ posts)
پانامہ کیس کی سماعت زوروشور سے جاری ہے... کل وزیراعظم صاحب کی طرف سے جواب داخل کرایا گیا .. وزیراعظم نے جواب میں موقف اختیار کیا ہے کہ..میرا کوئی بچہ میرے زیر کفالت نہیں... میرے تمام اثاثہ جات ڈیکلیئر ہیں.. میں باقاعدگی سے انکم و دیگر ویلتھ ٹیکسز ادا کرتا ہوں.... نیز آفشور کمپنیز کا جو اسکینڈل پانامہ لیکس میں آیا اس میں میرا نام شامل نہیں ہے........ میاں صاحب نے تقریبا یہ موقف اپنایا کہ، تحقیقات مجھ سے کرنا بیکار ہیں..
اور دوسرے لفظوں میں سارا ملبہ بچوں پر ڈال دیا گیا ہے.. بچے بھی یقینا سوچ رہے ہوں گےکہ ہم نے ایسا ابا کہاں سے لبھا تھا.. بہرحال میاں صاحب کے تینوں بچوں کی طرف سے تاحال جواب موصول نہیں ہوا..... اس کیس کی سپریم کورٹ سماعت سے پہلے میرا یہ موقف تھا کہ.. سپریم کورٹ اس کیس کی تمام تر تحقیقات نہیں کرا سکے گی... اٹرنی جنرل، نیب و دیگر ادارے سپریم کورٹ کا اہم سورس ہوں گے... مگر ان اداروں کے آزاد ہونے پر کافی شکوک ہیں.. نیز نیب کا دائرہ کار بھی کچھ محدود ہے.... سپریم کورٹ ظاہر ہے مہیا کردہ شواہد پر چلے گی.... میاں صاحب نے 2015 کے جو گواشورے فراہم کیے.. اس کے تحت ان کی پاکستان سے باہر کوئی جائیداد نہیں... اور ان کے اثاثہ جات کی کل تعداد دو بلین ہے.... میاں نواز شریف نے سال دو ہزار پندرہ میں بیٹے حسین نواز سے 225 ملین وصول کیے.. جو کہ دو ہزار چودہ اور تیرہ میں بالترتیب 239 اور 194.5 تھے.... اس رقم کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ کس بزنس سے ہوئی.. اور پاکستان میں کیسے ٹرانسفر ہوئیں... اور اگر یہ قانونی طریقے سے حاصل اور ٹرانسفر ہوئی ہیں تو مدعا کلیئر ہے...
اور اگر یہ آفشور بزنس سے ہونے والی انکم ہے تو، معاملہ گھمبیر ہو گا.... حسین نواز اگر اپنا آفشور کلین ثابت کر دیتے ہیں تو ٹھیک.. ورنہ دوسرے معنوں میں میاں نواز شریف کے پاکستانی اثاثہ جات بھی آفشور انکم کے پیسے میں شمار ہوں گے جو اپنے بیٹے سے وصول کر رہے ہیں.. اسی طرح مزید تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ..یہ پیسہ میاں صاحب کے ذاتی استعمال میں ہے یا ملک کے اندر کسی اور وجہ سرمایہ کاری کے لیے یوز ہو رہا ہے.... میاں صاحب کے کچھ فارن اکاؤنٹس بھی ہیں.. سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے بچوں نے اتنے بڑے لیول پر بزنس کس ذرائع سے کیا.... لون حاصل کیا تو کس پراپرٹی کے عوض لیا... کافی سوالات ہو سکتے ہیں مگر شاید عدالت خود سے اتنی ٹیکنیکلٹیز نہیں دیکھے گی.. میاں صاحب کے مختلف جگہوں پر دیے گئے موقف میں تضاد پایا جاتا ہے... لندن فلیٹس پر میاں صاحب کا موقف تھا کہ جدہ میں ایک موجود سٹیل مل اور پلاٹ 2005 میں فروخت کر کے 2006 میں فلیٹ خریدے گئے...
جبکہ شواہد ایسے ہیں کہ یہ فلیٹ نوے کی دہائی میں خریدے گئے اور صرف ایک فلیٹ 2004 میں خریدا گیا تھا.. اسی طرح باقی فمیلی کے بیانات میں بھی تضاد موجود ہے... کیپٹن صفدر نے جو الیکشن کمیشن میں گواشورے جمع کرائے ہیں... اس کے تحت ان کے پاس زمین اور زیورات جو کہ ان کی بیوی کے نام ہیں کے علاوہ کوئی جائیداد نہیں.. اب اگر مریم صاحبہ والد صاحب کی زیر کفالت سے انکاری ہوئی ہیں تو کیپٹن صفدر پر سوال ہو گا اپنی بیوی کے اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے پر.... اب شاید ایک یہ ممکن صورت نکل سکتی ہیں کہ کیپٹن صفدر خود مریم بی بی کے زیر کفالت آ جائیں... مریم بی بی نے جو اثاثہ جات ڈیکلیئر کیے ہیں اس کےتحت وہ ایک بی ایم ڈبلیو کار اور زیوارت کی مالک ہیں... باقی کوئی ڈیکلیئر اثاثہ نہیں ہے... کیس پر کیا فیصلہ آتا ہے... سب کو انتظار ہے...
سپریم کورٹ کتنی سپریم ہے میرا خیال ہے یہ اس کیس سے صحیح اندازہ لگانا ممکن ہو گا.. سپریم اگر اختیرات کے درست استعمال پر آئے تو کسی کو بھی طلب کر سکتی ہے.. ہر جگہ رسائی لے سکتی ہے... اس کا دارومدار اب معزز جج صاحبان پر ہو گا... باقی شریف فیملی ہو یا عمران خان، جہانگیر ترین ہو یا کوئی اور.. جس نے بھی غبن کیا ہم دعا گو ہیں کہ وہ ایکسپوز ہو...عوام کی دولت عوام کو واپس ملے.. اور جس کے ہاتھ صاف ہیں وہ سرخرو نکلے.... یہ ہی قانون کی جیت ہے.. #صدف
اور دوسرے لفظوں میں سارا ملبہ بچوں پر ڈال دیا گیا ہے.. بچے بھی یقینا سوچ رہے ہوں گےکہ ہم نے ایسا ابا کہاں سے لبھا تھا.. بہرحال میاں صاحب کے تینوں بچوں کی طرف سے تاحال جواب موصول نہیں ہوا..... اس کیس کی سپریم کورٹ سماعت سے پہلے میرا یہ موقف تھا کہ.. سپریم کورٹ اس کیس کی تمام تر تحقیقات نہیں کرا سکے گی... اٹرنی جنرل، نیب و دیگر ادارے سپریم کورٹ کا اہم سورس ہوں گے... مگر ان اداروں کے آزاد ہونے پر کافی شکوک ہیں.. نیز نیب کا دائرہ کار بھی کچھ محدود ہے.... سپریم کورٹ ظاہر ہے مہیا کردہ شواہد پر چلے گی.... میاں صاحب نے 2015 کے جو گواشورے فراہم کیے.. اس کے تحت ان کی پاکستان سے باہر کوئی جائیداد نہیں... اور ان کے اثاثہ جات کی کل تعداد دو بلین ہے.... میاں نواز شریف نے سال دو ہزار پندرہ میں بیٹے حسین نواز سے 225 ملین وصول کیے.. جو کہ دو ہزار چودہ اور تیرہ میں بالترتیب 239 اور 194.5 تھے.... اس رقم کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ کس بزنس سے ہوئی.. اور پاکستان میں کیسے ٹرانسفر ہوئیں... اور اگر یہ قانونی طریقے سے حاصل اور ٹرانسفر ہوئی ہیں تو مدعا کلیئر ہے...
اور اگر یہ آفشور بزنس سے ہونے والی انکم ہے تو، معاملہ گھمبیر ہو گا.... حسین نواز اگر اپنا آفشور کلین ثابت کر دیتے ہیں تو ٹھیک.. ورنہ دوسرے معنوں میں میاں نواز شریف کے پاکستانی اثاثہ جات بھی آفشور انکم کے پیسے میں شمار ہوں گے جو اپنے بیٹے سے وصول کر رہے ہیں.. اسی طرح مزید تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ..یہ پیسہ میاں صاحب کے ذاتی استعمال میں ہے یا ملک کے اندر کسی اور وجہ سرمایہ کاری کے لیے یوز ہو رہا ہے.... میاں صاحب کے کچھ فارن اکاؤنٹس بھی ہیں.. سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے بچوں نے اتنے بڑے لیول پر بزنس کس ذرائع سے کیا.... لون حاصل کیا تو کس پراپرٹی کے عوض لیا... کافی سوالات ہو سکتے ہیں مگر شاید عدالت خود سے اتنی ٹیکنیکلٹیز نہیں دیکھے گی.. میاں صاحب کے مختلف جگہوں پر دیے گئے موقف میں تضاد پایا جاتا ہے... لندن فلیٹس پر میاں صاحب کا موقف تھا کہ جدہ میں ایک موجود سٹیل مل اور پلاٹ 2005 میں فروخت کر کے 2006 میں فلیٹ خریدے گئے...
جبکہ شواہد ایسے ہیں کہ یہ فلیٹ نوے کی دہائی میں خریدے گئے اور صرف ایک فلیٹ 2004 میں خریدا گیا تھا.. اسی طرح باقی فمیلی کے بیانات میں بھی تضاد موجود ہے... کیپٹن صفدر نے جو الیکشن کمیشن میں گواشورے جمع کرائے ہیں... اس کے تحت ان کے پاس زمین اور زیورات جو کہ ان کی بیوی کے نام ہیں کے علاوہ کوئی جائیداد نہیں.. اب اگر مریم صاحبہ والد صاحب کی زیر کفالت سے انکاری ہوئی ہیں تو کیپٹن صفدر پر سوال ہو گا اپنی بیوی کے اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے پر.... اب شاید ایک یہ ممکن صورت نکل سکتی ہیں کہ کیپٹن صفدر خود مریم بی بی کے زیر کفالت آ جائیں... مریم بی بی نے جو اثاثہ جات ڈیکلیئر کیے ہیں اس کےتحت وہ ایک بی ایم ڈبلیو کار اور زیوارت کی مالک ہیں... باقی کوئی ڈیکلیئر اثاثہ نہیں ہے... کیس پر کیا فیصلہ آتا ہے... سب کو انتظار ہے...
سپریم کورٹ کتنی سپریم ہے میرا خیال ہے یہ اس کیس سے صحیح اندازہ لگانا ممکن ہو گا.. سپریم اگر اختیرات کے درست استعمال پر آئے تو کسی کو بھی طلب کر سکتی ہے.. ہر جگہ رسائی لے سکتی ہے... اس کا دارومدار اب معزز جج صاحبان پر ہو گا... باقی شریف فیملی ہو یا عمران خان، جہانگیر ترین ہو یا کوئی اور.. جس نے بھی غبن کیا ہم دعا گو ہیں کہ وہ ایکسپوز ہو...عوام کی دولت عوام کو واپس ملے.. اور جس کے ہاتھ صاف ہیں وہ سرخرو نکلے.... یہ ہی قانون کی جیت ہے.. #صدف
Last edited by a moderator: