atensari
(50k+ posts) بابائے فورم
‘سابق فوجی اور امریکہ کے ’بائیکر گینگ
امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں مخالف گروہوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے واقعے کے بعد ملک میں سرگرم پرتشدد بائیکر گینگز پر ایک بار پھر توجہ مرکوز ہوگئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اس واقعے میں نو افراد ہلاک ہوئے ہیں اور کم از کم 170 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
چارلس فالکو ایک سابق سرکاری مخبر ہیں جو امریکہ کے بعض پرتشدد اور بدنام زمانہ بائیکر گروہوں کے درمیان رہ چکے ہیں اور وہ اب گمنام زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو ان بائیکر گینگز کی طرز زندگی کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اتوار کو جو تشدد پھوٹا اس کی وجوہات کیا ہیں۔
یورپ اور کینیڈا میں سرگرم بائیکر گینگز ایک علاقے پر اس لیے اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ وہاں منشیات کے غیر قانونی بازار کو کنٹرول کرسکیں لیکن امریکہ میں بائیکر گینگز کا مقصد ہی ایک علاقے پر قبضہ کرنا ہوتے ہے۔
چارلس فالکو کا کہنا ہے ’وہ صرف ایک علاقے یا خطے پر قبضہ کرنے کی لڑائی لڑتے رہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اتوار کو ہونے والی شوٹنگ میں ملوث بینڈیڈوس نامی بائیکر گروپ کا ٹیکساس پر قبضہ ہے، یہ ان کا علاقہ ہے۔
دوسرے گروپ کے ارکان ٹیکساس سے گزر سکتے ہیں، یا پھر بغیر کسی پریشانی کے وہاں رہ بھی سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بائیکر کی کمر کے نچلے حصے پر پہنے جانے والے ’ بو ٹم راکر پیچ‘ یا اپنے گروپ کے نشان کی نمائش نہ کریں، اس ’پیچ‘ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس شخص کا تعلق کس گینگ سے ہے اور اس کا کس علاقے پر قبضہ ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے کہ اتوار کو پیش آنے والے واقعے میں ملوث دوسرا گروپ ’کوسکاکس‘ نے اپنا بائیکر گروپ ایک فیملی گروپ کے طور پر شروع کیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا گروپ بڑا ہوا، ان کا درجہ بڑھا اور وہ بینڈیڈوس کے مخالف گروپ کے طور پر ٹیکساس بوٹم راکر کا بیج پہن کر گھومنے لگے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے ’ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وہ اس علاقہ کا سب سے بڑا گینگ ہے۔ وہ اپنے گروہوں کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں اور یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ علاقے پر ان کا قبضہ ہے۔ وہ اپنے علاقے سے ایسے کسی بھی حریف گروہوں کو نکال پھینک دینا چاہتے ہیں جو علاقے پر اپنے قبضے کا دعوی کرسکے۔‘
بینڈیڈوس گروپ ٹیکساس میں ہی وجود میں آیا تھا لیکن اب وہ ملک سے باہر پھیل چکا ہے اور برلن میں بھی یہ گروپ سرگرم ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے کہ ان بائیکر گروپس کے بہت سے پرتشدد ممبران سابق فوجی ہیں اور ان گینگز کے فوج جیسے سخت اصول و ضوابط ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’ ایک بائیکر گینگ کا جو نظام ہوتا ہے وہ بالکل فوج کی طرز پر ہوتا ہے جہاں بہت سارے سخت قوانین ہوتے ہیں اور ان گینگز کو جنگی خطوط کے انداز پر بنایا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو افراد ان گینگز کو تشکیل دیتے ہیں وہ عام طور پر عمر دراز اور تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں جنہیں لڑائی کا دیگر گروہوں کی بنسبت بہتر تجربہ ہوتا ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے کہ ’ان گروہوں کو شروع کرنے والے بیشتر لوگ وہ تھے جو دوسری جنگ عظیم اور ویتنیام جنگ میں فوج میں جانوروں کے ڈاکٹر تھے۔ اور اب جو گروپ تشکیل دیئے جارہے ہیں ان میں عراق اور افغانستان سے واپس آنے والے فوجی شامل ہیں۔ اسی لیے امریکہ میں بائیکر گینگز کا سیلاب سا آرہا ہے۔‘
بینڈیڈوس بھی ایسا ہی ایک گروپ ہے جو ویتنام جنگ کے دوران وجود میں آیا تھا۔
ان گروہوں میں شامل ہونا آسان کام نہیں ہے۔ ہر گینگ میں شامل ہونے کے اصول مختلف ہیں، شمولیت کی مدت بھی مختلف ہے۔ مسٹر فالکو کے مطابق ایک گروپ میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والے شخص کو اپنی وفاداریوں کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
گروپ میں پہلے سے شامل ممبر نئے لوگوں کو اپنے کلب اور پارٹیوں میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور ان پارٹیوں میں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شراب پیش کرنے کے علاوہ دیگر چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں تاکہ وہ گروپ سے اپنی وفاداری کا ثبوت دے سکیں۔ وقت کے ساتھ ان لوگوں پر یقین پختہ ہوتا ہے اور ان کے گروپ میں شامل ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں اور ان کو ایک امیدورا کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اس شخص کو بعض ایسی توہین آمیز حرکات کرنی پڑتی ہیں جو کسی بھی نئے ممبر کو کرنی ہوتی ہیں۔ لیکن کیونکہ ان امیدواروں کو گینگ کی ایک طرح کی یونیفارم دے دی جاتی ہے تو اس سے گروپ کے ممبران کو اس شخص کے رویہ اور حرکات پر نظر رکھنے اور اس کے بارے میں آخری فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
فالکو بتاتے ہیں ’وہ یہ دیکھتے ہیں کہ پولیس کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہے۔ کیونکہ ایک بار آپ جب گینگ کی یونیفارم پہنتے ہیں تو پولیس آپ کو تنگ کرنا شروع کردیتی ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا جب ایک بار نئے شخص پر اعتماد ہوجاتا ہے تو انہیں گینگ کا مستقل ممبر بنادیا جاتا ہے۔ ہر گینگ میں شمولیت کے مختلف اصول ہوتے ہیں، بعض میں ممبران کی جانب سے ووٹنگ ہوتی ہے تو بعض نئے ممبر کو اس کے رویہ اور وفاداری سے مطمئن ہوکر گروپ میں شامل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔
ہر بائیکر گینگ ایک علاقے پر اپنا قبضہ چاہتا ہے
بہت سارے لوگ یہ سوچ کر ان گینگز میں شامل ہوتے ہیں کہ انہیں ایک محفوظ اور آرام کی زندگی ملے گی لیکن ان گروپوں کے ممبران کو اس بات کا احساس ہے کہ بائیکر گروپ میں شامل ہونے کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے گروپ کے ممبران کو حریف گروپوں پر تو مستقل نظر رکھنی پڑتی ہی ہے ساتھ ہی اس بات کا بھی خيال رکھنا پڑتا ہے کہ ان کے گروپ میں تو کوئی مخبر نہیں ہے۔ ایک ممبر کو اپنے گروپ کے اندر اور اور ديگر گروپوں کے طاقت اور وقار کی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے ’وہ اقتدار اور طاقت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایک منٹ میں آپ کے پاس طاقت ہے اور اگر آپ اقتدار کھو دیتے ہو تو سب آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘۔
’ان میں سے بعض لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں، بعض ممبر ایک دوسرے کی کھلے دل سے مدد کرتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے ارے یہ تو بہت اچھے ہیں۔ لیکن اصل میں وہ سب صرف ان کے اپنے لیے ہے، تاکہ ان کے پاس طاقت رہے اور جو گروپ کا ہے وہ ان کا رہے۔‘
Source

امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں مخالف گروہوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے واقعے کے بعد ملک میں سرگرم پرتشدد بائیکر گینگز پر ایک بار پھر توجہ مرکوز ہوگئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اس واقعے میں نو افراد ہلاک ہوئے ہیں اور کم از کم 170 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
چارلس فالکو ایک سابق سرکاری مخبر ہیں جو امریکہ کے بعض پرتشدد اور بدنام زمانہ بائیکر گروہوں کے درمیان رہ چکے ہیں اور وہ اب گمنام زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو ان بائیکر گینگز کی طرز زندگی کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اتوار کو جو تشدد پھوٹا اس کی وجوہات کیا ہیں۔
یورپ اور کینیڈا میں سرگرم بائیکر گینگز ایک علاقے پر اس لیے اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ وہاں منشیات کے غیر قانونی بازار کو کنٹرول کرسکیں لیکن امریکہ میں بائیکر گینگز کا مقصد ہی ایک علاقے پر قبضہ کرنا ہوتے ہے۔
چارلس فالکو کا کہنا ہے ’وہ صرف ایک علاقے یا خطے پر قبضہ کرنے کی لڑائی لڑتے رہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اتوار کو ہونے والی شوٹنگ میں ملوث بینڈیڈوس نامی بائیکر گروپ کا ٹیکساس پر قبضہ ہے، یہ ان کا علاقہ ہے۔
دوسرے گروپ کے ارکان ٹیکساس سے گزر سکتے ہیں، یا پھر بغیر کسی پریشانی کے وہاں رہ بھی سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بائیکر کی کمر کے نچلے حصے پر پہنے جانے والے ’ بو ٹم راکر پیچ‘ یا اپنے گروپ کے نشان کی نمائش نہ کریں، اس ’پیچ‘ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس شخص کا تعلق کس گینگ سے ہے اور اس کا کس علاقے پر قبضہ ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے کہ اتوار کو پیش آنے والے واقعے میں ملوث دوسرا گروپ ’کوسکاکس‘ نے اپنا بائیکر گروپ ایک فیملی گروپ کے طور پر شروع کیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا گروپ بڑا ہوا، ان کا درجہ بڑھا اور وہ بینڈیڈوس کے مخالف گروپ کے طور پر ٹیکساس بوٹم راکر کا بیج پہن کر گھومنے لگے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے ’ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وہ اس علاقہ کا سب سے بڑا گینگ ہے۔ وہ اپنے گروہوں کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں اور یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ علاقے پر ان کا قبضہ ہے۔ وہ اپنے علاقے سے ایسے کسی بھی حریف گروہوں کو نکال پھینک دینا چاہتے ہیں جو علاقے پر اپنے قبضے کا دعوی کرسکے۔‘

بینڈیڈوس گروپ ٹیکساس میں ہی وجود میں آیا تھا لیکن اب وہ ملک سے باہر پھیل چکا ہے اور برلن میں بھی یہ گروپ سرگرم ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے کہ ان بائیکر گروپس کے بہت سے پرتشدد ممبران سابق فوجی ہیں اور ان گینگز کے فوج جیسے سخت اصول و ضوابط ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’ ایک بائیکر گینگ کا جو نظام ہوتا ہے وہ بالکل فوج کی طرز پر ہوتا ہے جہاں بہت سارے سخت قوانین ہوتے ہیں اور ان گینگز کو جنگی خطوط کے انداز پر بنایا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو افراد ان گینگز کو تشکیل دیتے ہیں وہ عام طور پر عمر دراز اور تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں جنہیں لڑائی کا دیگر گروہوں کی بنسبت بہتر تجربہ ہوتا ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے کہ ’ان گروہوں کو شروع کرنے والے بیشتر لوگ وہ تھے جو دوسری جنگ عظیم اور ویتنیام جنگ میں فوج میں جانوروں کے ڈاکٹر تھے۔ اور اب جو گروپ تشکیل دیئے جارہے ہیں ان میں عراق اور افغانستان سے واپس آنے والے فوجی شامل ہیں۔ اسی لیے امریکہ میں بائیکر گینگز کا سیلاب سا آرہا ہے۔‘
بینڈیڈوس بھی ایسا ہی ایک گروپ ہے جو ویتنام جنگ کے دوران وجود میں آیا تھا۔
ان گروہوں میں شامل ہونا آسان کام نہیں ہے۔ ہر گینگ میں شامل ہونے کے اصول مختلف ہیں، شمولیت کی مدت بھی مختلف ہے۔ مسٹر فالکو کے مطابق ایک گروپ میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والے شخص کو اپنی وفاداریوں کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
گروپ میں پہلے سے شامل ممبر نئے لوگوں کو اپنے کلب اور پارٹیوں میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور ان پارٹیوں میں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شراب پیش کرنے کے علاوہ دیگر چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں تاکہ وہ گروپ سے اپنی وفاداری کا ثبوت دے سکیں۔ وقت کے ساتھ ان لوگوں پر یقین پختہ ہوتا ہے اور ان کے گروپ میں شامل ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں اور ان کو ایک امیدورا کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اس شخص کو بعض ایسی توہین آمیز حرکات کرنی پڑتی ہیں جو کسی بھی نئے ممبر کو کرنی ہوتی ہیں۔ لیکن کیونکہ ان امیدواروں کو گینگ کی ایک طرح کی یونیفارم دے دی جاتی ہے تو اس سے گروپ کے ممبران کو اس شخص کے رویہ اور حرکات پر نظر رکھنے اور اس کے بارے میں آخری فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
فالکو بتاتے ہیں ’وہ یہ دیکھتے ہیں کہ پولیس کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہے۔ کیونکہ ایک بار آپ جب گینگ کی یونیفارم پہنتے ہیں تو پولیس آپ کو تنگ کرنا شروع کردیتی ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا جب ایک بار نئے شخص پر اعتماد ہوجاتا ہے تو انہیں گینگ کا مستقل ممبر بنادیا جاتا ہے۔ ہر گینگ میں شمولیت کے مختلف اصول ہوتے ہیں، بعض میں ممبران کی جانب سے ووٹنگ ہوتی ہے تو بعض نئے ممبر کو اس کے رویہ اور وفاداری سے مطمئن ہوکر گروپ میں شامل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔
ہر بائیکر گینگ ایک علاقے پر اپنا قبضہ چاہتا ہے
بہت سارے لوگ یہ سوچ کر ان گینگز میں شامل ہوتے ہیں کہ انہیں ایک محفوظ اور آرام کی زندگی ملے گی لیکن ان گروپوں کے ممبران کو اس بات کا احساس ہے کہ بائیکر گروپ میں شامل ہونے کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
مسٹر فالکو کا کہنا ہے گروپ کے ممبران کو حریف گروپوں پر تو مستقل نظر رکھنی پڑتی ہی ہے ساتھ ہی اس بات کا بھی خيال رکھنا پڑتا ہے کہ ان کے گروپ میں تو کوئی مخبر نہیں ہے۔ ایک ممبر کو اپنے گروپ کے اندر اور اور ديگر گروپوں کے طاقت اور وقار کی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے ’وہ اقتدار اور طاقت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایک منٹ میں آپ کے پاس طاقت ہے اور اگر آپ اقتدار کھو دیتے ہو تو سب آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘۔
’ان میں سے بعض لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں، بعض ممبر ایک دوسرے کی کھلے دل سے مدد کرتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے ارے یہ تو بہت اچھے ہیں۔ لیکن اصل میں وہ سب صرف ان کے اپنے لیے ہے، تاکہ ان کے پاس طاقت رہے اور جو گروپ کا ہے وہ ان کا رہے۔‘
Source
Last edited by a moderator: