اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ہم نے جائزہ لیا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بیانات میں کچھ راز عیاں نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ایک طرف آپ ایک ملک کو اُسکے اقدام پر ڈی مارش کر رہے ہیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ اُسی ملک سے تعلقات خراب نہ ہوں اور اُس کیلئے آپ نے سابق وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا، ایک دوسرے ملک نے آپکو بہت خوفناک بات کہی ہے جس پر ڈی مارش کر رہے ہیں لیکن چونکہ وہ سائفر میں آئی تو آپ کسی کو بتا نہیں سکتے؟۔
اس موقع پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ’ہاتھی آپ نکال چکے، دم بھی نکال دیں۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ریاست کے دشمن کیلئے بنے قانون کو سیاسی دشمن کے خلاف استعمال کر لیا گیا،
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ قانون تو اب غیرضروری ہو چکا ہے لیکن 75 سالوں میں کونسی اسمبلی نے اس قانون کو ختم کیا؟
جسغس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے جائزہ لیا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بیانات میں کچھ ڈسکلوز نہیں کیا، آپ کے پاس سائفر کی کاپی آئی اور وہ واپس نہ دینے پر دو سال کی سزا سنائی گئی، آپ نے سائفر کاپی واپس دینی تھی جو واپس نہیں دی گئی، اس پر دلائل دیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ صرف بانی پی ٹی آئی نے نہیں بلکہ سب نے کاپی واپس دینا تھی لیکن نہیں دی۔باقی کاپیاں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد واپس آئیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سلمان صفدر کو مخطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلمان صاحب آپ کل تیاری کے ساتھ اس پر دلائل دیں،
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ آپکے فائدے کی بات ہے، ہاتھی آپ نکال چکے دم بھی نکال دیں۔
اس سے قبل وکیل بانی پی ٹی آئی سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کبھی بھی عوامی جلسے میں نہیں پڑھا گیا۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر کی جب ڈی کوڈ ہونے کے بعد کاپیاں بن جاتی ہیں تو وہ سائفر ہی رہتا ہے؟
سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر دفتر حارجہ میں رہ گیا اور اسکی کاپیاں آگے بھیجی جاتی ہیں، سپریم کورٹ کے ججز نے مجھے سائفر کہنے سے روکا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ "سائفر کی جو کاپیاں بنتی ہیں وہ Transliteration کہلاتی ہیں"،