Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
صحن میں سنہری دھوپ ہر طرف چھائی ہوئی تھی، اور اسکی ہلکی ہلکی تمازت سمیٹنے تقریباً سارے ہی گھر والے صحن میں اکٹھے ہوئے بیٹھے تھے۔ صبح سے بارش کا سلسلہ جاری تھا، مگر اب وہ تھم چکی تھی۔ بارش کے بعدتو جیسے سارے منظر دھل سے گئے تھے، پیڑ، پودے، پھول، سب ہی نکھرے نکھرے، اور اس پر دھنک کی قوس، اس منظر کی مثال کوئی جنت نظیری سے کم دے بھی تو کیا؟
لیکن انشا صحن کے کونے میں اوپر مچان پر جانے والے زینے سے ٹیک لگائے، اپنا سر گھٹنوں میں دیئے خاموش بیٹھی تھی۔
اسکا باپ ابھی عصر کی نماز کے بعد گھر داخل ہوا تھا۔ اسکی ماں اس کے لیئے چائے بنانے میں مصروف تھی۔
انشا کے چھوٹے بہن بھایئوں نے باپ کی چارپائی کو گھیر رکھا تھا۔ یہ ایک معمول تھا کہ اسکا باپ عصر کے بعد گھر آ کر تمام گھر والوں سے انکی ضروریات پوچھتا اور پھر بازار کی طرف نکل جاتا اور یہ سب سامان خرید کر مغرب تک گھر آجاتا۔
’’بابا، میرے لیئے اس مرتبہ جامنی رنگ کے کپڑے لانا‘‘، انشا کی چھوٹی بہن کی آواز کھنکی،
’’ اور ہاں، اس مرتبہ چوڑیاں بعد میں خریدنا، کپڑوں کے رنگ سے ملا کر، اور ہاں مجھے جوتے بھی لینے ہیں، وہ بھی کپڑوں اور چوڑیوں کے رنگ سے ملا کر لیجیئے گا۔۔۔۔ مجھے اس مرتبہ شادو باجی کی شادی میں جانا ہے، اگر کپڑوں اور جوتوں کے رنگ صحیح نہ ہوئے تو لوگ مجھے مسخرہ کہیں گے‘‘
’’ بابا، میرے اسکول کا بستہ پرانا ہو گیا ہے، اور اس مرتبہ میرے لیئے کوئی خاکی رنگ کا بستہ لیجیئے گا، اس پر گرد کے نشان اتنے نمایاں نہیں ہوتے‘‘، اس مرتبہ انشا کے چھوٹے بھائی کی آواز فضا میں بلند ہوئی۔
انشا کے باپ نے اسکے چھوٹے بھائی بہن کی فرمائشیں نوٹ کر لیں،
پھر کچھ ڈرتے ڈرتے اسکی نظر انشا کی طرف اٹھی، چہرے پر بکھری وہ مدھم سے مسکراہٹ جو دوسرے بچوں سے بات کرتے ابھر آیا کرتی تھی، یکلخت کہیں غائب ہو گئی۔
’’ بیٹے انشا، آپ نے کچھ منگوانا ہے بازار سے؟‘‘، اس کے منہ سے یہ الفاظ کچھ عجب استفسار سے نکلے
’’نہیں بابا، مجھے کچھ نہیں چاہیئے‘‘، انشا نے بیٹھے بیٹھے ویسے ہی چہرے کو گھٹنوں کے درمیان چھپائے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
اسی وقت آسمان پر ایک گہرے سرمئی رنگ کا بادل سورج کے سامنے آگیا
اس سنہری دھوپ کی تمازت یکلخت ایک چبھتی ہوئی سرد رو بن گئی۔
باپ نے ایک لمبی سانس کھینچی، اسکا سر نیچے کی طرف کچھ ایسے جھک گیا جیسے کسی نے اسکی گردن میں سے ساری جان ہی کھینچ لی ہو،
اسکی آنکھوں میں کچھ گلابی ڈوریں ابھر آیئں۔
پھر کچھ دل کو کڑا کر کے بولا، ’’ ارے بیٹا شادو کی شادی میں کیا پرانے کپڑے پہن کر جاو گی؟‘‘
لیکن اس مرتبہ اسکی آواز میں بیچارگی کی صدا صاف سنی جا سکتی تھی
’’ہاں بابا، اگر کوئی پسند آئے تو لے لیجیئے گا‘‘، انشا نے ایک انچ بھی ہلے بغیر جواب دیا۔
لیکن اس سے اسکے باپ نے یہ نہیں پوچھا کہ کس رنگ کے کپڑے لاوٗں؟ نہ ہی انشا نےمزید کچھ کہا۔
بس وہ اٹھا اور باہر جاتے ہوئے انشا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا، ’’ بیٹے اب سردی بڑھ رہی ہے، آپ اندر چلی جاوٗ، کہیں طبیعت نہ خراب ہو جائے‘‘
’’ جی بابا، جاتی ہوں‘‘ انشا نے ویسے ہی بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔ اسکے باپ نے کچھ سوچ کر سر کو ہلکی سی جنبش دی اور پھر تیزی سے باہر کے دروازے کی طرف مڑگیا۔ جیسے ہی دروازے کے کواڑ بند ہونے کی کھٹک ہوئی ، انشا نے اپنا سر اٹھایا
اسکے گال پر کچھ نمی سی تھی، آنسووں کی نمی۔ اس رنگین منظر میں اس کے بے رنگ اور خاموش آنسو کچھ عجب سے لگ رہے تھے۔
.انشا نے ٹٹولتے ہوئے دیوار کا سہارا لیا، اور ایسے ہی ٹٹولتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چلنے لگی۔ سردی واقعی کچھ بڑھ گئی تھی، شائد نمی بھی
سورج کے بادلوں میں جانے کے بعد سے سب رنگ ویسے بھی ماند پڑ چکے تھے، اور پھر ہر چیز پر شام کی گہری ہوتی سیاہی کا رنگ غالب آنے لگا تھا
لیکن انشا صحن کے کونے میں اوپر مچان پر جانے والے زینے سے ٹیک لگائے، اپنا سر گھٹنوں میں دیئے خاموش بیٹھی تھی۔
اسکا باپ ابھی عصر کی نماز کے بعد گھر داخل ہوا تھا۔ اسکی ماں اس کے لیئے چائے بنانے میں مصروف تھی۔
انشا کے چھوٹے بہن بھایئوں نے باپ کی چارپائی کو گھیر رکھا تھا۔ یہ ایک معمول تھا کہ اسکا باپ عصر کے بعد گھر آ کر تمام گھر والوں سے انکی ضروریات پوچھتا اور پھر بازار کی طرف نکل جاتا اور یہ سب سامان خرید کر مغرب تک گھر آجاتا۔
’’بابا، میرے لیئے اس مرتبہ جامنی رنگ کے کپڑے لانا‘‘، انشا کی چھوٹی بہن کی آواز کھنکی،
’’ اور ہاں، اس مرتبہ چوڑیاں بعد میں خریدنا، کپڑوں کے رنگ سے ملا کر، اور ہاں مجھے جوتے بھی لینے ہیں، وہ بھی کپڑوں اور چوڑیوں کے رنگ سے ملا کر لیجیئے گا۔۔۔۔ مجھے اس مرتبہ شادو باجی کی شادی میں جانا ہے، اگر کپڑوں اور جوتوں کے رنگ صحیح نہ ہوئے تو لوگ مجھے مسخرہ کہیں گے‘‘
’’ بابا، میرے اسکول کا بستہ پرانا ہو گیا ہے، اور اس مرتبہ میرے لیئے کوئی خاکی رنگ کا بستہ لیجیئے گا، اس پر گرد کے نشان اتنے نمایاں نہیں ہوتے‘‘، اس مرتبہ انشا کے چھوٹے بھائی کی آواز فضا میں بلند ہوئی۔
انشا کے باپ نے اسکے چھوٹے بھائی بہن کی فرمائشیں نوٹ کر لیں،
پھر کچھ ڈرتے ڈرتے اسکی نظر انشا کی طرف اٹھی، چہرے پر بکھری وہ مدھم سے مسکراہٹ جو دوسرے بچوں سے بات کرتے ابھر آیا کرتی تھی، یکلخت کہیں غائب ہو گئی۔
’’ بیٹے انشا، آپ نے کچھ منگوانا ہے بازار سے؟‘‘، اس کے منہ سے یہ الفاظ کچھ عجب استفسار سے نکلے
’’نہیں بابا، مجھے کچھ نہیں چاہیئے‘‘، انشا نے بیٹھے بیٹھے ویسے ہی چہرے کو گھٹنوں کے درمیان چھپائے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
اسی وقت آسمان پر ایک گہرے سرمئی رنگ کا بادل سورج کے سامنے آگیا
اس سنہری دھوپ کی تمازت یکلخت ایک چبھتی ہوئی سرد رو بن گئی۔
باپ نے ایک لمبی سانس کھینچی، اسکا سر نیچے کی طرف کچھ ایسے جھک گیا جیسے کسی نے اسکی گردن میں سے ساری جان ہی کھینچ لی ہو،
اسکی آنکھوں میں کچھ گلابی ڈوریں ابھر آیئں۔
پھر کچھ دل کو کڑا کر کے بولا، ’’ ارے بیٹا شادو کی شادی میں کیا پرانے کپڑے پہن کر جاو گی؟‘‘
لیکن اس مرتبہ اسکی آواز میں بیچارگی کی صدا صاف سنی جا سکتی تھی
’’ہاں بابا، اگر کوئی پسند آئے تو لے لیجیئے گا‘‘، انشا نے ایک انچ بھی ہلے بغیر جواب دیا۔
لیکن اس سے اسکے باپ نے یہ نہیں پوچھا کہ کس رنگ کے کپڑے لاوٗں؟ نہ ہی انشا نےمزید کچھ کہا۔
بس وہ اٹھا اور باہر جاتے ہوئے انشا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا، ’’ بیٹے اب سردی بڑھ رہی ہے، آپ اندر چلی جاوٗ، کہیں طبیعت نہ خراب ہو جائے‘‘
’’ جی بابا، جاتی ہوں‘‘ انشا نے ویسے ہی بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔ اسکے باپ نے کچھ سوچ کر سر کو ہلکی سی جنبش دی اور پھر تیزی سے باہر کے دروازے کی طرف مڑگیا۔ جیسے ہی دروازے کے کواڑ بند ہونے کی کھٹک ہوئی ، انشا نے اپنا سر اٹھایا
اسکے گال پر کچھ نمی سی تھی، آنسووں کی نمی۔ اس رنگین منظر میں اس کے بے رنگ اور خاموش آنسو کچھ عجب سے لگ رہے تھے۔
.انشا نے ٹٹولتے ہوئے دیوار کا سہارا لیا، اور ایسے ہی ٹٹولتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چلنے لگی۔ سردی واقعی کچھ بڑھ گئی تھی، شائد نمی بھی
سورج کے بادلوں میں جانے کے بعد سے سب رنگ ویسے بھی ماند پڑ چکے تھے، اور پھر ہر چیز پر شام کی گہری ہوتی سیاہی کا رنگ غالب آنے لگا تھا



Source: Losing Sight in Kashmir (Amnesty International Report)
NOTE: The above link will direct you to the latest released AMNESTY INTERNATIONAL REPORT (2017), which has established that INDIA is involved in this state sponsored terrorism of targeting unarmed and potentially non-threatening, innocent, CIVILIANS with pallet guns, directly aimed at their faces.
Insha, is just another one of these sad stories. But the characters and situations in the writing above are pure imaginations. Any relevance to an incidence, person or place would merely be a chance.
- Featured Thumbs
- http://cdn.bartarinha.ir/files/fa/news/1395/7/10/1014380_999.jpg
Last edited: