وہ تمام لوگ جو مہاجروں اور ایم کیو ایم کو پتا نہیں درندہ یا کیا سمجھتے ہیں، وہ بہت ناانصافی کرتے ہیں۔ ہم بھی آپ ہی کی طرح کے انسان ہیں۔ یہ تحریر پڑھئیے تو آپ کو معلوم ہو کہ صرف عمران خان ہی نہیں،بلکہ دوسرے لوگ بھی ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق انسانیت کی خدمت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک دوست کا نقصان
سورس: شوخی ءتحریر
بدھ, 04 اگست 2010 11:58
ایک دوست کا نقصان
سورس: شوخی ءتحریر
بدھ, 04 اگست 2010 11:58
یہ ایسا موقع ہے پہ جب کچھ لوگ یہ ثابت کرنے پہ لگے ہوئے ہیں کہ ایم کیو ایم کے منتخب رکن صوبائ اسمبلی رضا حیدر کا قتل عین اصولی ہے۔ اور جو ہوا وہ بالکل صحیح ہوا اور اس پارٹی کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئیے۔ باقی سب دہشت گردوں کے ساتھ ہم راضی باضی ہیں۔ اور دوسری طرف ایم کیو ایم کے نوجوان افسوس اور غصے میں سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کر ڈالیں۔ اور کسے انجام تک پہنچا دیں۔ پارٹی نے اسکا سارا الزام اے این پی پہ ڈالا ہے۔ بعد میں پیش آنے والے واقعات میں جو کہ حکومت سندھ کی نا اہلی کا واضح ثبوت ہیں۔ شہر میں ساٹھ کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یوں شہر ایک دفعہ پھر دہشت کی زد میں ہے۔
چونکہ میں اس نسل سے ہوں جس نے کراچی میں جنم لیا اورانیس سوچھیاسی میں بپا ہونے والے ہنگاموں میں قتل و غارت گری کو قریب سے نہ صرف دیکھا بلکہ سینکڑوں خاندانوں کو ایکدن میں تباہ ہوتے دیکھا اور اسکے بعد کراچی کو ایک لمبے عرصے تک اپنی بقا کی جنگ لڑتے دیکھا بلکہ خود بھی اس میں شامل رہی مع اپنے خاندان کے اس لئے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سلسلہ کہاں تک جا سکتا ہے۔ چونکہ اس بات کی امید ہے کہ میں دفن بھی اسی شہر میں ہونگی تو میں ان لوگوں میں سے نہیں ہو سکتی جو اس واقعے پہ دلی چین اور سکون پائیں اور یہ سوچیں کہ خس کم جہاں پاک۔ در حقیقت اس شہر سے تھوڑی سی بھی انسیت رکھنے والا شخص ایسا نہیں سوچ سکتا۔
آج ڈان اخبار پہ سے گذرتے ہوئے جب میں نے لیٹرز ٹو ایڈیٹر میں کراچی کے فسادت کے حوالے سے خط پڑھے تو میری نظر ڈاکٹر شیر شاہ سید کے خط پہ رک گئ۔ وہ کراچی کی ان شخصیات میں سے ہیں جن سے مل کر ہی نہیں صرف دور سے ہی دیکھ کر مجھے کیا سینکڑوں کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اہل کراچی کو ان پہ فخر ہے۔ انکے والدین انڈیا کے صوبے بہار سے آکر کراچی میں آباد ہوئے۔ تعیلم اور پیشے کے لحاظ سے وہ ایک گائناکولوجسٹ ہیں اور اپنے پیشے ہی نہیں اپنے مریضوں کے بھی وفادار۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے ایک ہسپتال کراچی کے نواح میں واقع ایک گاءوں کوہی گوٹھ میں کھولاہے۔ اس گوٹھ کی بیشتر آبادی سندھی اور بلوچی خاندانوں پہ مشتمل ہے۔ یہاں غریب خواتین کے امراض اور بالخصوص فسچولا کا علاج اور آپریشن مفت کیا جاتا ہے۔
وہ کراچی کے ایک محنت کش طبقے کی آبادی اورنگی ٹاءون میں واقع سندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال سے بھی وابستہ ہیں۔ اور یہاں گائنی کا شعبہ دیکھتے ہیں۔ انکی خدمات کی ایک لمبی لسٹ ہے جس کا تذکرہ فی الوقت ممکن نہیں۔ غیر ممالک سے انہوں نے اس سلسلے میں بہت سے ایوارڈ وصول کئے البتہ حکومت پاکستان انکی خدمات کی پذیرائ کرنے سے قاصر ہے۔ اپنے سوشل ویلفیئر کے کاموں کی وجہ سے بالخصوص خواتین کی صحت کے سلسلے میں کئے جانے والے کاموں کی وجہ سے وہ ایک ہر دلعزیز ڈاکٹر ہیں۔ وہ ایک ادیب بھی ہیں۔ میں نے انہیں کبھی سیاسی جانبداری برتتے نہیں دیکھا۔
اورنگی ٹاءون سے میری دلی وابستگی بھی ہے کہ میں اس سے ملحق آبادی علی گڑھ کالونی میں پیدا ہوئ اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گذارا۔ جی وہی آبادی جو انیس سو چھیاسی میں کراچی میں ہونے والے بد ترین فسادات کا شکار ہوئ۔ میں اس وقت وہاں موجود تھی۔ اورنگی ٹاءون میں نہ صرف انڈیا کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگ موجود ہیں بلکہ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے بہاریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور ان پہاڑوں پہ پٹھانوں کی بستیاں آباد ہیں۔ اسکا کچھ حصہ بلوچ آبادیوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اسی میں پنجاب سے مزدور طبقے کے لوگ بھی آکر رہتے ہیں۔ اس طرح اس ہسپتال سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہر طبقے کے غریب لوگ موجود ہیں۔
وہ اپنے اس خط مِں لکھتے ہیں کہ رضا حیدرسندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال کے حقیقی سپورٹر تھے۔ انہوں نے اس چیز کے لئے ان تھک محنت کی کہ زچگی کے کے ایمرجینسی سیکشن میں غریب خواتین کو ضروری سہولیات میسر رہیں۔
انکی شروع کی گئ کوششوں کی وجہ سے ہزاروں خواتین کا علاج کیا گیا اورسینکڑوں ماءووں اور بچوں کی زندگیاں بچائ گئیں۔
وہ اکثر اوقات ہسپتال آ جایا کرتے تھے اور کبھی بھی ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل عملے کے ساتھ برے سلوک سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ اکثر ایم پی ایز اور ایم اینز کرتے ہیں۔ وہ ہسپتال کی انتظامیہ کی مدد کے لئے ہمیشہ موجود رہتے اور بہتر نگہداشت کے منصوبوں میں مددگار رہتے۔ انہوں نے کبھی اپنی اتھارٹی دوسروں پہ جمانے کی کوشش نہیں کی۔
سندھ گورننٹ قطر ہسپتال کے مریضوں اور خاص طور پہ کمیونٹی کی خواتین نے اپنا ایک عظیم دوست کھو دیا۔ رضا حیدر نے ثابت کیا کہ ایک ایم پی اے اپنی ذاتی توجہ سے ایک ہسپتال کو بالکل تبدیل کر سکتا ہے اور اس طرح لوگوں کی سچی خدمت کر سکتا ہے۔ یہ مریضوں اور کمیونٹی کے لئے ایک عظیم نقصان ہے۔
اورنگی کی خواتین کی حالت زار سے واقفیت رکھتے ہوئے مجھے بھی دکھ ہے کہ ایک بہتر امید رکھنے والے شخص کو قتل کیا گیا۔ اور ڈاکٹر شیر شاہ سید کے اس خط کو سراہنا بھی چاہونگی کہ انہوں نے بغض و عناد کے اس زمانے میں قتل ہونے والے شخص کی انسان دوستی کا تذکرہ کیا۔
خط کا انگریزی متن
MPA Raza Haider was a real supporter of the Sindh Government Qatar Hospital, Orangi. He worked very hard to make sure that emergency obstetrical care was available to poor women.
Because of his initiative thousands of women were treated and hundreds of lives of mothers and children were saved in the maternity unit of the SGQH.
He used to visit the hospital at odd hours and never misbehaved with doctors, nurses and paramedics, unlike the usual practice followed by many MNAs and MPAs. He was always available for the hospital administration and supported plans for better patient care. He never tried to thrust his authority on the staff.
The SGQH, patients in Orangi, especially women of the community, have lost a great friend. Raza Haider showed that with personal interest, an MPA can improve hospitals drastically and truly serve the people. This is a great loss for patients and the community. DR SHERSHAH SYED Qatar Hospital Karachi
چونکہ میں اس نسل سے ہوں جس نے کراچی میں جنم لیا اورانیس سوچھیاسی میں بپا ہونے والے ہنگاموں میں قتل و غارت گری کو قریب سے نہ صرف دیکھا بلکہ سینکڑوں خاندانوں کو ایکدن میں تباہ ہوتے دیکھا اور اسکے بعد کراچی کو ایک لمبے عرصے تک اپنی بقا کی جنگ لڑتے دیکھا بلکہ خود بھی اس میں شامل رہی مع اپنے خاندان کے اس لئے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سلسلہ کہاں تک جا سکتا ہے۔ چونکہ اس بات کی امید ہے کہ میں دفن بھی اسی شہر میں ہونگی تو میں ان لوگوں میں سے نہیں ہو سکتی جو اس واقعے پہ دلی چین اور سکون پائیں اور یہ سوچیں کہ خس کم جہاں پاک۔ در حقیقت اس شہر سے تھوڑی سی بھی انسیت رکھنے والا شخص ایسا نہیں سوچ سکتا۔
آج ڈان اخبار پہ سے گذرتے ہوئے جب میں نے لیٹرز ٹو ایڈیٹر میں کراچی کے فسادت کے حوالے سے خط پڑھے تو میری نظر ڈاکٹر شیر شاہ سید کے خط پہ رک گئ۔ وہ کراچی کی ان شخصیات میں سے ہیں جن سے مل کر ہی نہیں صرف دور سے ہی دیکھ کر مجھے کیا سینکڑوں کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اہل کراچی کو ان پہ فخر ہے۔ انکے والدین انڈیا کے صوبے بہار سے آکر کراچی میں آباد ہوئے۔ تعیلم اور پیشے کے لحاظ سے وہ ایک گائناکولوجسٹ ہیں اور اپنے پیشے ہی نہیں اپنے مریضوں کے بھی وفادار۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے ایک ہسپتال کراچی کے نواح میں واقع ایک گاءوں کوہی گوٹھ میں کھولاہے۔ اس گوٹھ کی بیشتر آبادی سندھی اور بلوچی خاندانوں پہ مشتمل ہے۔ یہاں غریب خواتین کے امراض اور بالخصوص فسچولا کا علاج اور آپریشن مفت کیا جاتا ہے۔
وہ کراچی کے ایک محنت کش طبقے کی آبادی اورنگی ٹاءون میں واقع سندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال سے بھی وابستہ ہیں۔ اور یہاں گائنی کا شعبہ دیکھتے ہیں۔ انکی خدمات کی ایک لمبی لسٹ ہے جس کا تذکرہ فی الوقت ممکن نہیں۔ غیر ممالک سے انہوں نے اس سلسلے میں بہت سے ایوارڈ وصول کئے البتہ حکومت پاکستان انکی خدمات کی پذیرائ کرنے سے قاصر ہے۔ اپنے سوشل ویلفیئر کے کاموں کی وجہ سے بالخصوص خواتین کی صحت کے سلسلے میں کئے جانے والے کاموں کی وجہ سے وہ ایک ہر دلعزیز ڈاکٹر ہیں۔ وہ ایک ادیب بھی ہیں۔ میں نے انہیں کبھی سیاسی جانبداری برتتے نہیں دیکھا۔
اورنگی ٹاءون سے میری دلی وابستگی بھی ہے کہ میں اس سے ملحق آبادی علی گڑھ کالونی میں پیدا ہوئ اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گذارا۔ جی وہی آبادی جو انیس سو چھیاسی میں کراچی میں ہونے والے بد ترین فسادات کا شکار ہوئ۔ میں اس وقت وہاں موجود تھی۔ اورنگی ٹاءون میں نہ صرف انڈیا کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگ موجود ہیں بلکہ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے بہاریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور ان پہاڑوں پہ پٹھانوں کی بستیاں آباد ہیں۔ اسکا کچھ حصہ بلوچ آبادیوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اسی میں پنجاب سے مزدور طبقے کے لوگ بھی آکر رہتے ہیں۔ اس طرح اس ہسپتال سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہر طبقے کے غریب لوگ موجود ہیں۔
وہ اپنے اس خط مِں لکھتے ہیں کہ رضا حیدرسندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال کے حقیقی سپورٹر تھے۔ انہوں نے اس چیز کے لئے ان تھک محنت کی کہ زچگی کے کے ایمرجینسی سیکشن میں غریب خواتین کو ضروری سہولیات میسر رہیں۔
انکی شروع کی گئ کوششوں کی وجہ سے ہزاروں خواتین کا علاج کیا گیا اورسینکڑوں ماءووں اور بچوں کی زندگیاں بچائ گئیں۔
وہ اکثر اوقات ہسپتال آ جایا کرتے تھے اور کبھی بھی ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل عملے کے ساتھ برے سلوک سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ اکثر ایم پی ایز اور ایم اینز کرتے ہیں۔ وہ ہسپتال کی انتظامیہ کی مدد کے لئے ہمیشہ موجود رہتے اور بہتر نگہداشت کے منصوبوں میں مددگار رہتے۔ انہوں نے کبھی اپنی اتھارٹی دوسروں پہ جمانے کی کوشش نہیں کی۔
سندھ گورننٹ قطر ہسپتال کے مریضوں اور خاص طور پہ کمیونٹی کی خواتین نے اپنا ایک عظیم دوست کھو دیا۔ رضا حیدر نے ثابت کیا کہ ایک ایم پی اے اپنی ذاتی توجہ سے ایک ہسپتال کو بالکل تبدیل کر سکتا ہے اور اس طرح لوگوں کی سچی خدمت کر سکتا ہے۔ یہ مریضوں اور کمیونٹی کے لئے ایک عظیم نقصان ہے۔
اورنگی کی خواتین کی حالت زار سے واقفیت رکھتے ہوئے مجھے بھی دکھ ہے کہ ایک بہتر امید رکھنے والے شخص کو قتل کیا گیا۔ اور ڈاکٹر شیر شاہ سید کے اس خط کو سراہنا بھی چاہونگی کہ انہوں نے بغض و عناد کے اس زمانے میں قتل ہونے والے شخص کی انسان دوستی کا تذکرہ کیا۔
خط کا انگریزی متن
MPA Raza Haider was a real supporter of the Sindh Government Qatar Hospital, Orangi. He worked very hard to make sure that emergency obstetrical care was available to poor women.
Because of his initiative thousands of women were treated and hundreds of lives of mothers and children were saved in the maternity unit of the SGQH.
He used to visit the hospital at odd hours and never misbehaved with doctors, nurses and paramedics, unlike the usual practice followed by many MNAs and MPAs. He was always available for the hospital administration and supported plans for better patient care. He never tried to thrust his authority on the staff.
The SGQH, patients in Orangi, especially women of the community, have lost a great friend. Raza Haider showed that with personal interest, an MPA can improve hospitals drastically and truly serve the people. This is a great loss for patients and the community. DR SHERSHAH SYED Qatar Hospital Karachi