رؤف کلاسرا کو جب بھی دیکھیں خان صاحب کو مشورہ دیتے پائے جاتے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ وہ اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر عمران خان رؤف کلاسرا کی مرضی اور منشاء کے بغیر کام کرے تو رؤف کلاسرا کہنا شروع کردیتے ہیں کہ بہت بڑا بلنڈر ہوگیا اور آدھا یا پورا شو ہی اس پر کردیتے ہیں۔رؤف کلاسرا کا پہلا تعارف جلاوطنی کے دور میں لندن میں ہوا جب یہ اور ارشد شریف نوازشریف کے بہت بڑے فین تھے اورانکے ساتھ بیٹھ کر مختلف ریستوران میں کھابے کھاتے تھے۔ ان کے حق میں کالم لکھ کر صفحات کالے کرتے اور یہ تاثردینے کی کوشش کرتے کہ جیسے پاکستان میں کوئی امام خمینی آرہا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ رؤف کلاسرا کو یہ کہنا پڑا کہ میں تو نوازشریف سے دھوکہ کھاگیا تھا۔ جو وہ ہیں ویسے نہیں ہیں۔ وجہ معلوم نہیں کیا تھا لیکن نوازشریف نے وطن واپس پہنچنے کے بعد رؤف کلاسرا اور ارشد شریف کو لفٹ کرانا بند کردی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ دھرنوں کے دنوں میں رؤف کلاسرا نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ دھاندلی کمیشن پر جنرل راحیل نے جو آفر کی ہے اس پر مان جائیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر عمران خان دھاندلی ایشو پر جنرل راحیل کی پیشکش مان لیتا تو آج عمران خان کی سیاست کہاں کھڑی ہوتی؟ اگر عمران خان جنرل راحیل کی بات مان کر دھاندلی کمیشن بنوالیتا اور کمیشن نتیجہ ن لیگ کے خلاف آتا تون لیگ اور اسکے حامیوں نے یہ شور مچادینا تھا کہ فوج نے جان بوجھ کر ہمارے خلاف فیصلہ دلوایا ہے اور پھر الیکشن ہوتا ، ن لیگ یہ بیانیہ لیکر عوام میں جاتی تو آسانی سے الیکشن جیت جاتی اور نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آجاتا اور الیکشن 2018 کی بجائے 2019 کے آخر میں ہورہے ہوتے۔
اگر فیصلہ ن لیگ کے حق میں بھی آتا تو ن لیگ کا یہ بیانیہ ہوتا ہے عمران خان اور فوج نے ملکر ہماری حکومت ختم کرنے کی کوشش کی اور عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہونے کا مستقل لیبل لگ جاتا اور اسکی سیاست ہی ختم ہوجاتی۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے جنرل راحیل کی بات نہ مانی اور واپس دھرنے پر بیٹھ گیا۔ ایک بات جو میڈیا پر بھی آچکی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ کو کلین چٹ دلوانے میں جنرل راحیل کا ہاتھ ہے جو بندہ شریف خاندان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کلین چٹ دلواسکتا ہے وہ دھاندلی ایشو پر بھی شریف برادران کو کلین چٹ دلواسکتا ہے۔
عمران خان کو اللہ کے حضور سجدہ شکر کرنا چاہئے کہ وہ رؤف کلاسرا کا غلط مشورہ ماننے سے بچ گئے جو ان کی سیاست اور پارٹی کو ختم کرسکتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ دھرنوں کے دنوں میں رؤف کلاسرا نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ دھاندلی کمیشن پر جنرل راحیل نے جو آفر کی ہے اس پر مان جائیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر عمران خان دھاندلی ایشو پر جنرل راحیل کی پیشکش مان لیتا تو آج عمران خان کی سیاست کہاں کھڑی ہوتی؟ اگر عمران خان جنرل راحیل کی بات مان کر دھاندلی کمیشن بنوالیتا اور کمیشن نتیجہ ن لیگ کے خلاف آتا تون لیگ اور اسکے حامیوں نے یہ شور مچادینا تھا کہ فوج نے جان بوجھ کر ہمارے خلاف فیصلہ دلوایا ہے اور پھر الیکشن ہوتا ، ن لیگ یہ بیانیہ لیکر عوام میں جاتی تو آسانی سے الیکشن جیت جاتی اور نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آجاتا اور الیکشن 2018 کی بجائے 2019 کے آخر میں ہورہے ہوتے۔
اگر فیصلہ ن لیگ کے حق میں بھی آتا تو ن لیگ کا یہ بیانیہ ہوتا ہے عمران خان اور فوج نے ملکر ہماری حکومت ختم کرنے کی کوشش کی اور عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہونے کا مستقل لیبل لگ جاتا اور اسکی سیاست ہی ختم ہوجاتی۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے جنرل راحیل کی بات نہ مانی اور واپس دھرنے پر بیٹھ گیا۔ ایک بات جو میڈیا پر بھی آچکی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ کو کلین چٹ دلوانے میں جنرل راحیل کا ہاتھ ہے جو بندہ شریف خاندان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کلین چٹ دلواسکتا ہے وہ دھاندلی ایشو پر بھی شریف برادران کو کلین چٹ دلواسکتا ہے۔
عمران خان کو اللہ کے حضور سجدہ شکر کرنا چاہئے کہ وہ رؤف کلاسرا کا غلط مشورہ ماننے سے بچ گئے جو ان کی سیاست اور پارٹی کو ختم کرسکتا تھا۔
۔۔جاری ہے۔۔