Bubber Shair
Chief Minister (5k+ posts)
اس سے پہلے کسے معلوم تھا کہ خوشاب کے لوگ اس قدر باشعور اور پڑھے لکھے ہیں؟ توہین کے الزام میں ایک بندے کے قتل کے بعد بھی انہوں نے اپنے دماغ ٹھنڈے رکھے یہاں تک کہ سچ اور جھوٹ کا فرق کھل کرسامنے آگیا ، شاباش خوشاب ، پورے ملک میں صرف آپ ہیں جنکی طرف سے یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے اور امید ہے کہ آپ کی دیکھا دیکھی ملک کے دیگر شہروں میں بھی عوام ایسا ہی مہذب رویہ اپنانے لگیں گے۔ لگتا ہے پاکستان میں اب مذہب کے سوداگروں کا یہ بزنس بھی تلپٹ ہونے کوہے، انہی مذہبی سوداگروں نے ماضی میں اپنے مخالفین کو مذہب کا استعمال کرکے حکومت سے باہر بھی کیا ہے۔
خوشاب میں ہزاروں کے مجمع کو امام کا یہ کہنا کہ مینیجر قادیانی نہیں تھا مگر کوی قادیانی بھی ہو تو اس کو مارنا جائز نہیں ایک دلیرانہ اور قابل قدر موقف تھا اس پر اس امام کو بھی کریڈٹ دینا بنتا ہے کیونکہ اختلاف راے ہونے کے باوجود ضروری نہٰیں کہ ہر بندہ توہین کرتا پھرتا ہے ایسا تو غیر مسلم ممالک میں بھی نہیں ہوتا سواے چند ایک بدقسمتوں کے جیسے فرانس میں ایک جریدہ کے دس بارہ لوگوں نے یہ ابلیسیت کی تھی اور پوری دنیا کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیا تھا
خوشاب میں توہین کے الزام پر ایک بے گناہ کا وحشیانہ قتل، پھر قتل کے بعد قاتل کا وحشیانہ رقص، بندر کی طرح اچھل کود، قاتل کے حق میں لوگوں کا جمع ہونا، اسکے گالوں کو چومنا اور اپنی سپورٹ کا یقین دلانا، یہ سب کچھ ہم نے پہلی بار نہیں دیکھا تھا ایسے واقعات ملک کے ہر گوشے میں آے روز ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر جو ہم نے پہلی بار دیکھا اسی کا ذکر میں نے اس تھریڈ میں کیا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ایسے خون آشام واقعات، مقتول کے پیاروں کو ساری زندگی خون کے آنسو رلاتے رہتے ہیں۔ ایک تو ان کا واحد کمانے والا بے رحمی سے مار دیا جتا ہے اوپر سے توہین کے الزامات لگا کر ان کی روح کو چھلنی کیا جاتا ہے بلکہ ان کا اس شہر میں رہنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے
کاش کہ مشال حسین کے واقعہ میں بھی قاتلوں اور ماسٹر مائینڈز کو سزاے موت دی جاتی تو اس کی فیملی کو شہر چھوڑ کر کسی دوسرے دیس پناہ نہ لینا پڑتی؟
آسیہ کے کیس میں بھی اگر شہر کے لوگ خوشاب والوں کی طرح کا رویہ اپناتے تو کئی جانیں ضائع نہ جاتیں، اس وقت گورنر نے ایک دلیرانہ سٹانس لیا تھا مگر اسے شہید کردیا گیا اور پھر شہباز بھٹی کو بھی قتل کردیا گیا، گورنر کے قاتل نے خود گرفتاری دے دی تھی مگر شہباز بھٹی کے قاتل مشال حسین کی طرح غائب ہوچکے ہیں بلکہ غائب کہاں ہوے وہیں کہیں پھرتے ہونگے
امید ہے کہ اب قانون سازی کے ذریعے توہین کے الزامات کے تحت آنے والوں کا تحفظ بھی کیا جاے گا تاکہ خوشاب جیسا واقعہ یا مشال حسین اور آسیہ بیبی جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
آخر پر پھر کہوں گا کہ ویل ڈن خوشاب ویل ڈن، اہالیان خوشاب تم امید کی ایک کرن ہو جس سے اس تاریک سیاہ اندھیرے میں تھوڑا بہت اجالا ہوا ہے
خوشاب میں ہزاروں کے مجمع کو امام کا یہ کہنا کہ مینیجر قادیانی نہیں تھا مگر کوی قادیانی بھی ہو تو اس کو مارنا جائز نہیں ایک دلیرانہ اور قابل قدر موقف تھا اس پر اس امام کو بھی کریڈٹ دینا بنتا ہے کیونکہ اختلاف راے ہونے کے باوجود ضروری نہٰیں کہ ہر بندہ توہین کرتا پھرتا ہے ایسا تو غیر مسلم ممالک میں بھی نہیں ہوتا سواے چند ایک بدقسمتوں کے جیسے فرانس میں ایک جریدہ کے دس بارہ لوگوں نے یہ ابلیسیت کی تھی اور پوری دنیا کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیا تھا
خوشاب میں توہین کے الزام پر ایک بے گناہ کا وحشیانہ قتل، پھر قتل کے بعد قاتل کا وحشیانہ رقص، بندر کی طرح اچھل کود، قاتل کے حق میں لوگوں کا جمع ہونا، اسکے گالوں کو چومنا اور اپنی سپورٹ کا یقین دلانا، یہ سب کچھ ہم نے پہلی بار نہیں دیکھا تھا ایسے واقعات ملک کے ہر گوشے میں آے روز ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر جو ہم نے پہلی بار دیکھا اسی کا ذکر میں نے اس تھریڈ میں کیا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ایسے خون آشام واقعات، مقتول کے پیاروں کو ساری زندگی خون کے آنسو رلاتے رہتے ہیں۔ ایک تو ان کا واحد کمانے والا بے رحمی سے مار دیا جتا ہے اوپر سے توہین کے الزامات لگا کر ان کی روح کو چھلنی کیا جاتا ہے بلکہ ان کا اس شہر میں رہنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے
کاش کہ مشال حسین کے واقعہ میں بھی قاتلوں اور ماسٹر مائینڈز کو سزاے موت دی جاتی تو اس کی فیملی کو شہر چھوڑ کر کسی دوسرے دیس پناہ نہ لینا پڑتی؟
آسیہ کے کیس میں بھی اگر شہر کے لوگ خوشاب والوں کی طرح کا رویہ اپناتے تو کئی جانیں ضائع نہ جاتیں، اس وقت گورنر نے ایک دلیرانہ سٹانس لیا تھا مگر اسے شہید کردیا گیا اور پھر شہباز بھٹی کو بھی قتل کردیا گیا، گورنر کے قاتل نے خود گرفتاری دے دی تھی مگر شہباز بھٹی کے قاتل مشال حسین کی طرح غائب ہوچکے ہیں بلکہ غائب کہاں ہوے وہیں کہیں پھرتے ہونگے
امید ہے کہ اب قانون سازی کے ذریعے توہین کے الزامات کے تحت آنے والوں کا تحفظ بھی کیا جاے گا تاکہ خوشاب جیسا واقعہ یا مشال حسین اور آسیہ بیبی جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
آخر پر پھر کہوں گا کہ ویل ڈن خوشاب ویل ڈن، اہالیان خوشاب تم امید کی ایک کرن ہو جس سے اس تاریک سیاہ اندھیرے میں تھوڑا بہت اجالا ہوا ہے