سائیں کالوجسٹ
Citizen
کچھ دن قبل انٹرنیٹ پر پرانی گاڑیوں کے اشتہارات دیکھ کر ایک گاڑی پسند کی اور اپنے ایک تجربہ کار دوست شیدے کے ہمراہ گاڑی کا معائنہ کرنے گیا۔ ای میل میں پتہ دیکھ کر جب مطلوبہ جگہ پہنچے تو گاڑی گھر سے باہر سڑک پر ہی کھڑی تھی۔ شیدے نے گھوم پھر کر چاروں طرف سے ایک نگاہ ڈالی اور اپنی ٹھوڈی کھجاتے ہوئے بولا کہ مرد تو اپنی گاڑیوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں، یہ گاڑی کسی خاتونِ خانہ خراب کی لگتی ہے۔
دستک دی تو جانگیے میں ملبوس تین چار سالہ بچے نے دروازہ کھولا اور ہم پر تجسّس بھری نظر ڈال کر اپنی ماں کو پکارتا ہوا گھر کے اندر ہو لیا۔ شیدے کا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ کچھ لمحے میں ایک پینتیس چھتیس سالہ خاتون نے جو اپنے حلیے سے پاکستانی لگتی تھی، اپنے دس گیارہ سالہ بیٹے کے ہاتھ چابی بھجوائی اور باقی دو بچوں کے ہمراہ بیٹھک کی کھڑکی سے ہمیں گاڑی کا معائنہ کرتے دیکھنے لگی۔
ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوتے ہی شیدے کے منہ سے "یا اللّہ خیر" کے الفاظ سن کر استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ گاڑی پارکنگ بریک کے بغیر ہی پارک کر رکھی تھی۔ سیدھے ہاتھ کا آئینہ عقبی منظر دکھانے کے بجائے ڈرائیور کا چہرہ دکھانے کے لیے ترتیب دے رکھا تھا اور الٹے ہاتھ کے آئینے پر کسی کارٹون کردار کا سٹیکر چسپاں ہونے سے عقبی جائزہ لینا نا ممکن تھا۔ گاڑی کے فرش پر بسکٹ اور چاکلیٹ کے ٹکڑے بکھرے ہوئے پائے گئے اور ڈیش بورڈ پر رنگین پنسلوں سے کسی بچے کی فنکاری کے جوہر بھی دیکھنے کو ملے۔
انجن کے معائنے سے معلوم ہوا کہ گاڑی میں تیل اور پانی دونوں کی سطح مطلوبہ حد سے کافی کم تھی اور تیل کی حالت بتاتی تھی کہ اسے کئی مہینے پہلے تبدیل ہو جانا چاہئے تھا۔ صرف تین سال پرانی ہونے کے باوجود اسکی حالت دس سال پرانی گاڑیوں جیسی تھی۔
خاتون سے گاڑی کی قیمت، سروس ہسٹری اور رجسٹریشن وغیرہ کے بارے میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اسے گاڑی کی مالکن ہوتے ہوئے بھی ان معاملات کا نہ تو زیادہ علم ہے اور نہ ہی ان باتوں میں دلچسپی۔ تاہم ہمیں گاڑی کی رجسٹریشن دستاویزات دکھانے کے لیے جب پانچ دس منٹ تک مختلف درازوں کو کھنگالتی رہی تو معذرت خواہانہ لہجے میں بولی کہ دراصل اسے پتہ ہی نہیں کہ رجسٹریشن دستاویزات دیکھنے میں کیسی لگتی ہیں، ممکن ہے ان درازوں میں ہی کہیں موجود ہوں لیکن وہ انہیں پہچاننے سے قاصر ہے۔ ہمارے سوالوں کے جواب پوچھنے کے لیے محترمہ نے شوہر سے فون پر بات کرنا چاہی لیکن کال ریسیو نہ ہو سکی تو کچھ دیر کے بعد ہم نے معذرت کر کے واپسی کی راہ لی۔
واپسی کے سفر کے دوران شیدے نے جو آدھ گھنٹے کا لیکچر دیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم پردیس میں آباد ہونے والے اکثر دیسی لوگ اپنی خواتین کو امورِ خانہ داری میں تو ماہر دیکھنا چاہتے ہیں لیکن گھر سے باہر کے ان معاملات میں ان کی راہنمائی نہیں کرتے جن سے پردیس کی زندگی میں ان کا واسطہ پڑتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ہماری اکثر خواتین بیرونِ خانہ پیش آنے والے معاملات کا خانہ خراب کرتی ہیں اور بظاہر انتہائی سادہ معاملات کو اپنے لیے پیچیدہ اور مشکل بنا لیتی ہیں۔
یہاں اس بات کا خیال رہے کہ ان خواتین کی اکثریت کا تعلق ان گھریلو خواتین سے ہے جو اپنے آبائی ممالک میں ہی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بعد ازاں اپنے خاندان کے ہمراہ پردیس منتقل ہو جاتی ہیں۔ پردیس کی زندگی میں بینکوں، انشورنس کمپنیوں، محکمہ ٹرانسپورٹ اور محکمہ ٹیکس سمیت روز مرہ زندگی کے دوران ان کا بہت سے ایسے اداروں سے واسطہ پڑتا ہے جن سے معاملات طے کرنے کا انہیں پہلے سے تجربہ نہیں ہوتا اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ یہ سب سیکھتے ہوئے انہیں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ گھریلو خواتین جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرتی ہیں یا بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں سے پہلے ہی پردیس کی زندگی اختیار کر لیتی ہیں، بہت جلد یہ سب کچھ سیکھ کر پُر اعتماد زندگی گزارنا شروع کر دیتی ہیں۔
شیدے کے مطابق خواتینِ خانہ کے خواتینِ خانہ خراب ہونے میں اصل قصوروار ان کے شوہر ہیں جو بہتر معاشی مستقبل کی غرض سے اپنی خواتین کو بیرون ملک تو لے آتے ہیں لیکن یہاں کی زندگی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہ تو ان کی مناسب راہنمائی کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ سب سیکھنے کے لیے وقت دیتے ہیں۔ شیدے کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خواتین کو مناسب وقت دیا جائے اور زندگی کے ہر مرحلے پر ان کی مشکلات کو حل کر کے آسانی اور آسائش کا عادی بنانے کے بجائے ان کی اس انداز سے راہنمائی کی جائے کہ وہ اپنی مشکلات خود حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔
سائیں کالوجسٹ
دستک دی تو جانگیے میں ملبوس تین چار سالہ بچے نے دروازہ کھولا اور ہم پر تجسّس بھری نظر ڈال کر اپنی ماں کو پکارتا ہوا گھر کے اندر ہو لیا۔ شیدے کا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ کچھ لمحے میں ایک پینتیس چھتیس سالہ خاتون نے جو اپنے حلیے سے پاکستانی لگتی تھی، اپنے دس گیارہ سالہ بیٹے کے ہاتھ چابی بھجوائی اور باقی دو بچوں کے ہمراہ بیٹھک کی کھڑکی سے ہمیں گاڑی کا معائنہ کرتے دیکھنے لگی۔
ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوتے ہی شیدے کے منہ سے "یا اللّہ خیر" کے الفاظ سن کر استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ گاڑی پارکنگ بریک کے بغیر ہی پارک کر رکھی تھی۔ سیدھے ہاتھ کا آئینہ عقبی منظر دکھانے کے بجائے ڈرائیور کا چہرہ دکھانے کے لیے ترتیب دے رکھا تھا اور الٹے ہاتھ کے آئینے پر کسی کارٹون کردار کا سٹیکر چسپاں ہونے سے عقبی جائزہ لینا نا ممکن تھا۔ گاڑی کے فرش پر بسکٹ اور چاکلیٹ کے ٹکڑے بکھرے ہوئے پائے گئے اور ڈیش بورڈ پر رنگین پنسلوں سے کسی بچے کی فنکاری کے جوہر بھی دیکھنے کو ملے۔
انجن کے معائنے سے معلوم ہوا کہ گاڑی میں تیل اور پانی دونوں کی سطح مطلوبہ حد سے کافی کم تھی اور تیل کی حالت بتاتی تھی کہ اسے کئی مہینے پہلے تبدیل ہو جانا چاہئے تھا۔ صرف تین سال پرانی ہونے کے باوجود اسکی حالت دس سال پرانی گاڑیوں جیسی تھی۔
خاتون سے گاڑی کی قیمت، سروس ہسٹری اور رجسٹریشن وغیرہ کے بارے میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اسے گاڑی کی مالکن ہوتے ہوئے بھی ان معاملات کا نہ تو زیادہ علم ہے اور نہ ہی ان باتوں میں دلچسپی۔ تاہم ہمیں گاڑی کی رجسٹریشن دستاویزات دکھانے کے لیے جب پانچ دس منٹ تک مختلف درازوں کو کھنگالتی رہی تو معذرت خواہانہ لہجے میں بولی کہ دراصل اسے پتہ ہی نہیں کہ رجسٹریشن دستاویزات دیکھنے میں کیسی لگتی ہیں، ممکن ہے ان درازوں میں ہی کہیں موجود ہوں لیکن وہ انہیں پہچاننے سے قاصر ہے۔ ہمارے سوالوں کے جواب پوچھنے کے لیے محترمہ نے شوہر سے فون پر بات کرنا چاہی لیکن کال ریسیو نہ ہو سکی تو کچھ دیر کے بعد ہم نے معذرت کر کے واپسی کی راہ لی۔
واپسی کے سفر کے دوران شیدے نے جو آدھ گھنٹے کا لیکچر دیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم پردیس میں آباد ہونے والے اکثر دیسی لوگ اپنی خواتین کو امورِ خانہ داری میں تو ماہر دیکھنا چاہتے ہیں لیکن گھر سے باہر کے ان معاملات میں ان کی راہنمائی نہیں کرتے جن سے پردیس کی زندگی میں ان کا واسطہ پڑتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ہماری اکثر خواتین بیرونِ خانہ پیش آنے والے معاملات کا خانہ خراب کرتی ہیں اور بظاہر انتہائی سادہ معاملات کو اپنے لیے پیچیدہ اور مشکل بنا لیتی ہیں۔
یہاں اس بات کا خیال رہے کہ ان خواتین کی اکثریت کا تعلق ان گھریلو خواتین سے ہے جو اپنے آبائی ممالک میں ہی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بعد ازاں اپنے خاندان کے ہمراہ پردیس منتقل ہو جاتی ہیں۔ پردیس کی زندگی میں بینکوں، انشورنس کمپنیوں، محکمہ ٹرانسپورٹ اور محکمہ ٹیکس سمیت روز مرہ زندگی کے دوران ان کا بہت سے ایسے اداروں سے واسطہ پڑتا ہے جن سے معاملات طے کرنے کا انہیں پہلے سے تجربہ نہیں ہوتا اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ یہ سب سیکھتے ہوئے انہیں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ گھریلو خواتین جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرتی ہیں یا بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں سے پہلے ہی پردیس کی زندگی اختیار کر لیتی ہیں، بہت جلد یہ سب کچھ سیکھ کر پُر اعتماد زندگی گزارنا شروع کر دیتی ہیں۔
شیدے کے مطابق خواتینِ خانہ کے خواتینِ خانہ خراب ہونے میں اصل قصوروار ان کے شوہر ہیں جو بہتر معاشی مستقبل کی غرض سے اپنی خواتین کو بیرون ملک تو لے آتے ہیں لیکن یہاں کی زندگی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہ تو ان کی مناسب راہنمائی کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ سب سیکھنے کے لیے وقت دیتے ہیں۔ شیدے کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خواتین کو مناسب وقت دیا جائے اور زندگی کے ہر مرحلے پر ان کی مشکلات کو حل کر کے آسانی اور آسائش کا عادی بنانے کے بجائے ان کی اس انداز سے راہنمائی کی جائے کہ وہ اپنی مشکلات خود حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔
سائیں کالوجسٹ
Last edited by a moderator: