
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ نومبر کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر حکومت کیلئے صورتحال انتہائی پریشان کن تھی۔ کیونکہ کچھ عناصر نے حکومت کی پریشانی اس قدر بڑھا دی تھی کہ شہبازشریف کو مصر میں ماحولیاتی تبدیلی کی عالمی کانفرنس کے بعد لندن جانا پڑا۔
سینئر تحقیقاتی صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی کا دعویٰ ہے کہ ن لیگ کے دو سینئر رہنماؤں خواجہ آصف اور ملک احمد خان کو خصوصی طور پر کہا گیا کہ وہ لندن میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں شامل ہونے کیلئے آئیں۔ ان دنوں کسی نے معروف انگریزی اخبار کو بتایا تھا کہ ’’حالات اچھے نہیں ہیں۔‘‘
جب کہ شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ آخر تک نئے آرمی چیف کا نام سامنے نہیں لائیں گے۔ تاہم اس اخبار کو بتایا گیا تھا کہ کچھ عناصر حکومت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے کہ توسیع کا بندوبست کریں۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ان عناصر میں سے ایک شخص نے تو وزیراعظم سے کہا کہ وہ جنرل باجوہ کو توسیع کیلئے راضی کریں۔ تاہم وزیراعظم نے جواب نہیں دیا۔ کہا جاتا رہا کہ مارشل لاء کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جبکہ جنرل باجوہ کے قریبی رفقا بتاتے تھے کہ باجوہ 29 نومبر کے بعد کام نہیں کرنا چاہتے۔
ادھر ن لیگ کے کیمپ میں نواز شریف وزیراعظم اور دیگر رہنماؤں سے کہہ رہے تھے کہ جو بھی ہو رہا ہے اس سے مکمل طور پر لاتعلقی دکھائیں اور باتیں نظر انداز کریں۔
لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو آرمی چیف لگانے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ لیکن نواز اور شہباز شریف اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے اور نواز شریف نے توسیع نہ لینے کا اعلان کرنے پر جنرل باجوہ کو تعریفی پیغام بھی بھیجا۔
نواز شریف نے سابق آرمی چیف تک پیغام پہنچایا تھا کہ ان کا اصل ترکہ یہ ہوگا کہ وہ با عزت انداز سے ریٹائر ہو جائیں اور آئین کے مطابق حکومت کو نیا آرمی چیف لگانے دیں۔ جبکہ نومبر کے پہلے ہفتے میں حکومت کو تجویز دی گئی کہ جنرل باجوہ کو توسیع دے کر جنرل ساحر کو وائس چیف لگا دیا جائے۔
اس تجویز میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وزیراعظم حکومت تحلیل کر دیں اور سات ماہ کیلئے عبوری حکومت لائیں تاکہ معاملات کو استحکام ملے جس کے بعد الیکشن کرا دیے جائیں۔ تاہم اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ یہ تجویز بھی دی کہ حکومت اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نواز شریف کی واپسی میں مدد فراہم کی جائیگی۔ ن لیگ کی قیادت کو یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن ذرا تاخیر سے کرائے جائیں گے تاکہ نون لیگ کو دو تہائی اکثریت سے جیتنے کا موقع دیا جا سکے۔
جبکہ ان تمام پیغامات پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ لندن میں جب نواز اور شہباز شریف کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسی کسی تجویز پر دھیان نہیں دیا جائے گا چاہے حکومت کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔
انصار عباسی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ شریف برادران کے علاوہ خواجہ آصف اور ملک محمد خان کو علم ہے کہ اُن دنوں میں کیا کچھ ہو رہا تھا۔
Last edited by a moderator: