سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جنت کے سردار کیوں ہیں؟
اور حق و باطل کے درمیان مقدس ترین خون سے کھینچی گئی واضح لکیر کو مٹانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف میری ایک حقیر سی کوشش۔
تحریر طویل ہے لیکن گذارش ہے کہ جب بھی ٹائم ملے پڑھیے گا ضرور۔ جزاک اللہ خیر۔
-------------------------------------------------
میرے ہیں حسین۔۔۔
میں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت پر لکھنے کے بارے میں بہت عرصے سے سوچ رہا تھا۔ لیکن سوچ رہا تھا کہ کن الفاظ میں لکھوں گا اورکیا لکھوں گا؟۔ لیکن لکھنا ضرور چاہتا تھا جب سے میں نے کچھ کتابیں دیکھیں جن کے ٹائٹل “امیر المومنین سیدنا یزید“، ‘‘رشید ابنِ رشید سیدنا یزید‘‘، ''حیاتِ سیدنا یزید'' وغیرہ ہیں اور یہ کتابیں مسلمانوں کی ہی لکھی ہوئی ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی نے میری مشکل آسان کردی کے مجھے حق بات کہنے والے ایسے علماء کرام سے متعارف کروادیا جو صحیح معنوں میں انبیاء علیہماالسلام کے ورثاء ہوتے ہیں اور یہود کے علماء کی طرح ذاتی پسند ناپسند اور شخصیت پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوکر حق بات چھپاتے نہیں ہیں۔ انہیں علماء کرام کی بدولت میں امام عالی مقام علیہ السلام اور واقعہ کربلا کو سمجھ سکا اور اب لکھنے کی حقیر سی کوشش کررہا ہوں۔ میں اپنی بات ایک صحیح حدیث سے شروع کرتا ہوں۔ میں اورآپ اپنی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں احادیث سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن یہ حدیثِ پاک میں جب بھی پڑھتا اور سنتا ہوں تو روئے بغیر نہیں رہ پاتا کہ اتنے شفیق، اتنے کریم، اتنے رحیم اور اپنی اُمت سے اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار کرنے والے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی آلِ پاک کے ساتھ اُن کی اُمت نے کیا کیا۔ ایک طرف میں تصور کرتا ہوں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات اپنی اُمت کے لیے دعائیں مانگ رہیں ہیں اور رو رہے ہیں اور دوسری طرف ان کا یہ حُلیہ مبارک تصور میں لانے کی کوشش کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دوپہر وہ سورہے تھے کہ انھوں نے خواب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ وہ کھڑے تھے، ان کے بال مبارک بکھرے ہوئے تھے، بدن مبارک، داڑھی مبارک اور سر مبارک پر مٹی پڑی ہوئی تھی اور ہاتھ میں ایک شیشی تھی جس میں خون بھرا ہوا تھا۔ میں نے گھبرا کر پوچھا آقا صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کی یہ حالت کیسی ہے؟ اور یہ خون کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ میرے حُسین اوراس کے ساتھیوں کا خون ہے اور میں صبح سے اسے اکٹھا کررہا ہوں۔ حضرت عبداللہ بنِ عباس کہتے ہیں کہ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور وہ دن اور گھڑی یاد کرلی۔ خاندانِ نبوت کے اجڑنے کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی دن اور ساعت تھی جب کربلا میں امامِ حسین علیہ السلام کو شہید کیا جارہا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ ارواح میں بے چین تھے۔ اس حدیثِ مبارکہ کو سننے کے بعد یزید کے چاہنے والوں کا دل بھی ایک بار ضرور لرزتا ہے اور بہت سے حق کو قبول بھی کرلیتے ہیں۔ صرف پچاس سال ہی ہوئے تھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے پردہ فرمائے۔ وہ آقا جن کے بارے میں سنا کہ رات رات بھر اپنی امت کے لیے دعائیں فرماتے تھے، وہ آقا جو اس وقت بھی اُمتی اُمتی پکار رہے ہونگے جب ساری خلقت کی زبان پر نفسی نفسی ہوگا، وہ آقا جو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ہر نبی کو ایک خاص دعا عطا فرمائی. میں نے وہ دعا اپنی اُمت کے لیے محفوظ کرلی ہے جو قیامت کے دن اس کے حق میں کروں گا۔ اس آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر دکھ دیا اس اُمت نے؟؟
قرآنِ پاک میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ و نائب بنا کر بھیجا۔ کیا اللہ تعالٰی کا انسان کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس سے صرف اپنی عبادت کروائے، گھٹنوں پر جھکائےاورماتھے رگڑوائے؟ یقینا صرف یہ مقصد نہیں تھا کیونکہ اس کام کے لیے ملائکہ موجود ہیں جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا جو جب سے وجود میں لائے گئے ہیں کوئی سجدے میں پڑا ہے، کوئی رکوع میں، کوئی قیام کی حالت میں ہے اور کوئی مسلسل تسبیح اور حمد وثناء بیان کررہا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اللہ تعالٰی چاہے گا۔ اس بیچ اللہ تعالٰی نے ایک ایسی مخلوق کی تخلیق فرمائی جسے عقل و سمجھ بھی عطا فرمائی اور اپنے خالق کو ماننے نا ماننے، اس کی بندگی اختیار کرنے ناکرنے سمیت بہت سے کاموں میں اسے خود مختار بھی بنادیا۔ اب ایسی علیحدہ مخلوق سے یقینا اللہ تعالٰی صرف اپنی عبادت نہیں چاہتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے خود ہی فرشتوں کو تخلیقِ انسانی کا مقصد بھی بتادیا کہ انسان زمین پر میرا نائب اور خلیفہ ہوگا یعنی میرا قانون اور نظام زمین پر قائم کرے گا۔ پھراللہ تعالٰی نے پہلا انسان ہی جو بنایا وہ بہت محترم و معظم اور اسے پیغمبر کا درجہ دیا یعنی جسے اللہ تعالٰی خود سکھاتا اور تعلیم دیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی کا خود انسانوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے جو باقی انسانوں کو سکھاتے تھے کہ اللہ تعالٰی کا نائب اور خلیفہ کیسے بننا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تقریبا ٩٥٠ سال اللہ تعالٰی کے پیغام کی تبلیغ کی لیکن جب قوم نہیں مانی تو عذاب آیا۔ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے لیے سلامتی کی دعا کرنی چاہی تو اللہ تعالٰی نے تنبیہ فرمادی۔ کیا اللہ تعالٰی اپنے اس نبی کی جس نے شب و روز اپنی جان مار کر ٩٥٠ سال تک اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل کی، بیٹے کے حق میں دعا قبول نہیں فرماسکتا تھا؟؟ لیکن وہاں پر اللہ تعالٰی نے انسان کو واضح اور دوٹوک تعلیم دے دی کہ اُس کے نزدیک حسب نسب، ذات پات، قبیلہ برادری, تعلق رشتہ داری وغیرہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ہر انسان کو بدلہ اس کے اعمال کے مطابق ہی ملے گا۔ پھرایک واقعہ ہم لوط علیہ السلام کا بھی سنتے ہیں کہ ان کی بیوی بھی پیچھے رہ جانے والوں اور ہلاک ہونے والوں میں سے ہوگئی۔ پھر فرعون کا سنتے ہیں کہ دنیا میں خدائی کا دعوٰی کرنے والا واحد شخص یعنی خود کو اللہ تعالٰی کے برابر کھڑا کرنے والا لیکن اس کی بیوی جنت کی مقرب ترین عورتوں میں سے ایک۔ اسی طرح نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی آلِ پاک کو یہی تلقین فرماتے نظر آتے ہیں کہ اپنے اعمال کے بارے میں فکرمند رہنا کہیں یہ بات تمہیں بے فکر نا کردے کہ تم آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ یعنی دین کی بنیادی ترین تعلیمات میں سے ایک بالکل واضح ہوگئی کہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہوگا اوراعمال کا بدلہ اعمال کے مطابق ہی ملے گا جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد فرمادیا کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔
لیکن پھر ہم ایک بہت عجیب بات سنتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ حُسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ یہ کون کہہ رہے ہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے ذریعے اللہ تعالٰی نے اپنے دین کی تکمیل فرمادی کہ اب اس میں مزید کسی کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ قیامت تک آنے والوں انسانوں کے لیے ایک ضابطہء حیات ہے۔ اور دین کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ کوئی حسب نسب، کوئی ذات پات، کوئی رنگ نسل قبیلہ، کوئی تعلق رشتہ داری اور قرابت کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکے گی اور جس کو جو بھی اچھا یا برا بدلہ ملے گا وہ اس کے اعمال کی بدولت ہی ہوگا۔ لیکن یہاں دین کی تکمیل فرمانے والے مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین، چار سالہ نواسے کے لیے یہ بشارت عطا فرما رہے ہیں کہ وہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ گود میں کھیلتے ہوئے امام حُسین علیہ السلام نے اتنی چھوٹی سی عمر میں دین کی ایسی کیا خدمت کی تھی یا ایسا کیا معرکہ سرانجام دے دیا تھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جنت کے نوجوانوں کا سردار قرار دے رہے ہیں؟ اوراگر یہ بشارت اس لیے تھی کہ امام حسین علیہ السلام آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے پناہ مُحبت فرماتے تھے یا وہ آپ کی سب سے لاڈلی بیٹی سیدہ خاتون جنت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹے تھے تو پھر تو اللہ تعالٰی کے دین اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں بشمول مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا..؟؟
لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ اللہ تعالٰی علم نبوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے چکا تھا کہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کیا کام لیا جانے والا تھا جس کی بنیاد پر وہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہونگے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ اللہ تعالٰی نے جو پہلا انسان ہی تخلیق کیا اسے اپنا پیغمبر ہونے کا شرف دیا اور اسے خود تعلیم دی کہ زمین پر جاکر میرا نائب اور خلیفہ کیسے بننا ہے۔ اللہ تعالٰی کا یہ پیغام لے کر ہزاروں سال کی مدت میں لگ بھگ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور پھر اللہ تعالٰی نے اپنے آخری نبی کو بھیج کر اپنے پیغام اور دین کی تکمیل کردی۔ جب اللہ تعالٰی آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمارہا تھا تو فرشتوں نے عرض کی کہ یہ تو زمین پر فتنہ و فساد برپا کرے گا۔ فرشتوں کے پاس کوئی غیب کا علم تو نہیں سو یقینا یہ بات اللہ تعالٰی نے ہی انہیں سجھائی ہوگی اور پھر اللہ تعالٰی قرآن پاک میں خود بھی فرماتا ہے کہ انسان بلا کا سرکش اور جھگڑالو ہے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو ارشاد فرمادیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ انسان نے اللہ تعالٰی کی طرف سے فرشتوں کو سجھائی ہوئی وہ بات کہ یہ زمین پر فتنہ و فساد پیدا کرے گا اور خود اللہ تعالٰی کا ارشاد کہ انسان بلا کا سرکش اور جھگڑالو ہے کا عملی مظاہرہ وقتا فوقتا کرتا آیا لیکن پھر اس کے سدھار کے لیے اللہ تعالٰی انبیاء کرام علیہماالسلام کو بھیجتا رہا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے ساتھ ہی یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آنا۔ اللہ تعالٰی کا دین، اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات بشمول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری ہوگئیں اور انسان سیکھ گیا کہ زمین پر اللہ تعالٰی کا نائب اور خلیفہ کیسے بننا ہے۔ اس کا عملی نمونہ انسان نے ابوبکر صدیق، عمرفاروق، عثمانِ غنی اور علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہما کی خلافت کی شکل میں پیش کردیا۔
لیکن فرشتوں اور خود اللہ تعالٰی نے انسان کی جو سرشت بیان کی تھی وہ اس سے کہاں باز آنے والا تھا چنانچہ انبیاء کرام علیہم السلام کی اس ہزاہا سال کی محنت اور اللہ تعالٰی کا نائب اور خلیفہ بننے کی تعلیم آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے صرف نصف صدی کے اندر اندر ہی ملیامیٹ ہونے لگی، قیصروکسرٰی کی طرز پر دربار لگالیے گیے، ریشمی لباس زیب تن ہونے لگے، غرباء اور مساکین کا حق یعنی بیت المال رشوتوں اور تحفے تحائف کے لیے استعمال ہونے لگا، عہدے صلاحیتوں کی بجائے اقرباء پروی کی بنیاد پر دیے جانے لگے، ممبر رسول پر سرعام خطبوں میں اصحاب کبائر خصوصا سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہُ پر دشنمان طرازی اور گالم گلوچ شروع ہوگیا۔ اللہ تعالٰی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک برگذیدہ ترین چار خلفاء راشدین میں سے تین شہید کردیے گئے۔ دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد ہونے لگیں، جمعہ کے خطبوں میں اپنے قصیدے اور مخالفین پر تبرے اتنا طول پکڑجاتے کہ عصر کا وقت ہوجاتا۔ سب سے بڑی اور بنیادی بات جو کہ دینِ اسلام کی روح ہے کہ زمین پر اللہ تعالٰی کی خلافت قائم ہوگی وہ خلافت، خلافتِ راشدہ کی صورت میں قائم ہونے کے صرف تیس سال بعد ملوکیت میں تبدیل ہوگئی۔ یعنی دینِ اسلام کی وہ عمارت جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی محنت پر کھڑی تھی یوں دیکھتے ہی دیکھتے مسمار ہونے لگی۔
کیا اللہ تعالٰی کو یہ گوارہ ہوتا کہ اس کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی محنت اور قربانیاں یوں رائیگاں چلی جاتیں؟ نبوت کا سلسلہ تو منقطع ہوچکا تھا اس لیے اب اللہ تعالٰی نے امام حسین علیہ السلام کو چُنا کہ وہ اللہ تعالٰی کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات یعنی دینِ اسلام اور اس کی روح یعنی خلافت کو بچالیں۔ چنانچہ کربلا کے میدان میں امامِ عالی مقام علیہ السلام نے اپنی اور اپنے جانثار ساتھیوں کی انتہائی مظلومانہ شہادت پیش کردی۔ زمین پر موجود مقدس ترین خون مٹی میں ملا دیاگیا، حوضِ کوثر پر اپنے ہاتھوں سے جام بھر بھر کر پیاسی اُمت کو سیراب کرنے والے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو پانی تک پینے کی اجازت نا دی گئی۔ سیدہ خاتونِ جنت جن کا بالِ مبارک نظر آنے پر سورج چھپ جاتا تھا, کی بیٹیوں کو قیدی بناکر درباروں میں پیش کیا گیا۔ یہ ان عظیم ترین قربانیوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جنہیں امامِ عالی مقام علیہ السلام نے پیش کرکے اُمت پر یہ واضح کردیا اور قیامت تک کے لیے حُجت قائم کردی کہ یہ وہ دین نہیں اور یہ وہ خلافت نہیں جسے میرے نانا صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاءکرام علیہم السلام لے کر آئے۔ چنانچہ یہ اللہ تعالٰی کے دین کو بچانے اور قیامت تک کے لیے حق و باطل کے درمیان لائن کھینچ دینے کا ہی صلہ تھا کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام جنت کے سردار قرار پائے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک وہ موقع جب سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ کی گردن پر چھری چلا رہے تھے اور ایک یہ موقع جب سیدنا امام عالی مقام علیہ السلام کا سرِ مبارک نیزے پر تلاوت کررہا تھا تو اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو وہ بات یاد دلائی کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان موجود ہر شے بیک وقت یہ نظارہ دیکھ رہی تھی کہ انسان کس حد تک سرکش ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے محبوب کے محبوب کا سر نیزوں پر لہراتا پھرے اور کس حد تک بندگی کا حق ادا کرسکتا ہے کہ سجدے میں سرکٹائے اور نیزے پر قرآن سنائے۔
اگر اِمام حسین علیہ السلام حق کا علم بلند ناکرتے اور جیسے دھونس، دھن، دھاندلی، دھوکے اور تلوار کے ذریعے زبردستی بیعت لی جاتی تھی, بیعت کرلیتے یا بہت سے کبائر اصحاب کی طرح مسلمانوں میں آپس کی خون ریزی کے ڈر سے خاموش بیٹھے رہتے تو خلافت کے نام پر قائم اس بدترین ملوکیت پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی کہ یہی دین ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، فاطمہ و علی کے بیٹے نے بھی اسے قبول کرلیا ہے۔ اس بدترین ملوکیت کے بارے میں بھی صحیح احادیث موجود ہیں کہ جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک میری نبوت کی طرز پر خلافت قائم ہوگی اور اس کے بعد بدترین اور کاٹ کھانے والی ملوکیت کا دور ہوگا۔ یہاں علم نبوت کی ایک اور مثال دیکھیں تو یہ تیس سال ان چار خلفاء پر پورے ہوجاتے ہیں جنہیں ہم خلفاءراشدین کہتے ہیں. اگراب کوئی ان چار خُلفاءِ راشدین میں سے کسی ایک کو بھی جھٹلائے تو وہ شخصیت پرستی کے بت کی پوجا کرتے ہوئے نعوذ بااللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہا ہے اور اگر کوئی ان چار کے بعد والوں کو بھی زبردستی خلیفہ راشد یا ان کے قریب تر بھی گرداننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی بالکل ان چار میں سے تین کو جھٹلانے والوں کی طرح کسی شخصیت کے بُت کی پوجا کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جُھٹلا رہا ہے۔
بقول شاعر۔۔۔
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اپنی اس تحریر کے شروع میں میں نے کچھ عجیب و غریب کتابوں کا ذکر کیا جو میری اس تحریر کو لکھنے کا باعث بنیں اور جن کے ٹائٹلز دیکھ کر میں ایک عرصے سے بے چین تھا۔ لیکن یہ سوچ کر قرار آگیا کہ جب اللہ تعالٰی نے ہی انسان کو سرکش قرار دے دیا ہے تو کیونکر سرکشی سے باز آئے گا۔ یہ مسلمان تو صرف ان کی تعریفیں اور قصیدے بیان کرنے والے ہیں وہ لوگ خود بھی تو مسلمان ہی تھے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلشنِ اقدس کو تہہ و تیغ کیا اور یقینا انسان کی سرکشی قیامت تک قائم رہے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلشن کو اجاڑنے والوں کے ہمدرد بھی قیامت تک موجود رہیں گے۔ مجھ حقیر کی ان باتوں کا ان لوگوں پر کیا اثر ہوسکتا ہے جب یہ اس سجدے کو بھی نہیں دیکھتے کہ امامِ حسین علیہ السلام آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوگئے ہیں اور فرض نماز کا سجدہ اتنا طویل ہوجاتا ہےکہ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرماگئے، لوگوں کی ہٹ دھرمی تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات سن کرکہ حُسینُ منی وَاَنا مِن حُسین بھی دور نہیں ہوتی، ان لوگوں کو تو یہ بات بھی متاثر نہیں کرتی کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم حُسین علیہ السلام کو کندھے پر سوار کرائے بازار سے گذر رہے ہیں تو ایک صحابی فرماتے ہیں، واہ واہ کیا شاندار سواری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سوار بھی تو دیکھو کتنا شاندار ہے۔ سب سے بڑھ کر۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ حسن و حسین میرے پھول ہیں، اے اللہ میں ان سے مُحبت کرتا ہوں تو بھی ان سے مُحبت فرما اور اے اللہ جو ان سے مُحبت رکھے تو ان سے بھی مُحبت فرما اور جو ان سے بغض رکھیں تو بھی ان سے بُغض رکھ۔ یہاں ایک اور نکتہ واضح ہوگیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا گیا تھا کہ آپ کے ان پیاروں سے بغض رکھنے والے بھی پیدا ہوجائیں گے۔
تو اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں جس کی ناجائز، بدترین اور کاٹ کھانے والی ملوکیت کے خلاف امام حسین علیہ السلام نے علم بلند کیا اور جنت کا سردار ہونے کی بشارتیں ملیں وہ بھی رضی اللہ تعالٰی عنہ نعوذ بااللہ اور امام حُسین بھی رضی اللہ تعالٰی عنہ؟ وہ بھی سیدنا اور امام حسین بھی سیدنا؟ وہ بھی رشید اور سیدنا امامِ حُسین بھی رشید؟ وہ بھی حق پر اور امامِ حُسین بھی حق پر؟ یہ کیسا دین ہے؟ کیا یہ آپ کی عقل میں سماتا ہے؟ یہ تو کچھ بھی نہیں یہ لوگ تو سرکشی میں اس حد تک آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ بکتے ہیں کہ امامِ حُسین علیہ السلام باغی تھے، یہ جنگ اقتدار کی جنگ تھی، امامِ حُسین سے غلطی ہوئی، یا وہ تو یزید کی بیعت کرنا چاہتے تھے یعنی ہمارا دین, دین نہیں ایک مذاق ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ ایک باغی، ایک اقتدار کی جنگ لڑنے والے، ایک غلطی کرنے والے کو جنت کا سردار قرار دے رہے ہیں۔؟؟؟ یہ دین نہیں یہ شخصیت پرستی کا وہ بُت ہے جس کی پرستش انسان کو اس حد تک گِرا دیتی ہے کہ اسے حق اور باطل میں فرق محسوس نہیں ہوتا اور دونوں ایک سے دکھنے لگتے ہیں۔ یاد رکھیں حق اور باطل کبھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یعنی حق سے بھی پیار ہے اور باطل بھی ٹھیک ہی تھا یا خاموشی اختیار کرو۔ کم از کم جس دینِ اسلام کو میں جانتا ہوں وہ مجھے یہ منافقت نہیں سکھاتا۔ حق پورا کا پوار حق ہی ہوتا ہے اور باطل پورا کا پورا باطل۔ بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ حُسین علیہ السلام پورے کے پورے حق تھے اور یزید پورا کا پورا باطل۔ وہ اتنے حق پر تھے کہ قیامت تک جب بھی حق کا ذکر کیا جاتا ہے تو استعارہ امام حسین کا استعمال کیا جاتا ہے اور یزید اتنا باطل تھا کہ جب بھی باطل کا ذکر کرنا ہو تو استعارہ یزید کا استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی یا دیدہ دلیری کا ذکر ضروری ہے کہ یہ لوگ قسطنطنیہ کی ایک حدیث کو زبردستی یزید کے ساتھ جوڑ کر اس کو جنت کے سرٹیفیکٹ بانٹے پھرتے ہیں حالانکہ وہ حدیث یہ تھی کہ قسطنطنیہ کو جانے والا پہلا لشکر جنتی ہوگا۔ اگر ان علماء کرام جو کہ اہلِ بیعت کے بغض اور یزید کی محبت میں مبتلا نہیں دریافت کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یزید اس پہلے لشکر میں شامل نہیں تھا بلکہ وہ چھٹا یا ساتواں لشکر تھا جس کے ساتھ یزید نے شرکت کی تھی۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یزید نے قتلِ حسین کا حکم نہیں دیا تھا۔ چلیں ایک لمحے کے لیے یہ بات مان لیتے ہیں لیکن کیا امامِ حسین کا علمِ حق بلند کرنے کا باعث یزید ہی کی ملوکیت نہیں تھی؟ یا بتائیں وہ کس کے خلاف نکلے تھے؟ یا اگر کسی کے خلاف نہیں نکلے تھے تم لوگوں کے بقول دھوکے میں مارے گئے تو اس پر جنت کی سرداری اور اتنی بشارتیں؟ یا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور تم سے تمہاری رعایا کہ بارے میں سوال ہوگا۔ تو یزید کیسے قتلِ حسین کے سوال سے بری الذمہ ہوگیا؟ اگر تاریخ اسلامی بلکہ دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین حکمران سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھیں تو وہ اس حد تک خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ اگر فرات کے کنارے جانور بھی پیاسا مرگیا تو عمر سے سوال ہوگا لیکن یزید کے دور میں آل رسول پیاسی شہید کردی گئی تو یزید بری الذمہ ہے۔ واہ امتیوں واہ کیا وہ تم ہی ہو جن کے لیے ساری ساری رات آقا صلی اللہ علیہ وسلم روتے تھے؟؟ پھر اگر یزید کو شہادتِ حسین کا غم تھا تو ابنِ زیاد واقعہ کربلا کے بعد بھی اس کا گورنر کیسے رہا؟
آخر میں ایک مختصر سا ذکر امام حسین علیہ السلام کی قربانی کے مقصد کا۔ ان کی قربانی کا مقصد اللہ تعالٰی کے دین کو بچانا اور حق وباطل کے فرق کو قیامت تک کے لیے ظاہر کردیتا تھا۔ انہوں نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کی یہ سبق دے دیا کہ حق کہ لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریز نہیں کرنا۔ انہوں نے سجدے میں سر کٹا کر اور نیزے پر قرآن سنا کر رہتی دنیا تک کہ انسانوں کو بتادیا کہ اپنے خالق کی بندگی کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے۔ ان کی قربانی کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ سال میں دس دن ان کو یاد کرلیا جائے ان کے تابوت اور جلوس نکالے جائیں یا اُمت کے کبائر پر لعن طعن کی جائے۔ یاد رکھیں اصحاب کبائر پر لعن طعن کرنے کی روایت بنو امیہ نے شروع کی تھی جب سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تبراء کیا جاتا تھا۔ تو جو بھی اصحاب پر لعن طعن کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ یزید کا پیروکار ہے۔ حسین علیہ السلام کا دین تبراء اور گالم گلوچ نہیں سکھاتا، حسین علیہ السلام نے بتادیا کہ رب جانے تے حسین جانے نہیں بلکہ جب سر بھی کاٹا جارہا ہو تو اللہ کے احکامات کی پیروی نہیں چھوڑنی یہ بات نشتر اور تیر کھاتے ہوئے حسین نے اپنی آخری نماز پڑھ کر بتادی تھی۔ حسین علیہ السلام پر صرف ماتم اور گریہ زاری کرکے یہ سمجھ لینا کہ اب رب جانے تھے حسین جانے، خود آپ کی تعلیمات کا مذاق ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہوتا تو وہ اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اپنی اور اپنی اولاد کی قربانی نا دیتے بلکہ فرمادیتے کہ دین جانے, محمد صلی اللہ علیہ وسلم جانیں اور ان کا اللہ۔ یہ اسلام نہیں بلکہ عیسائیت ہے کہ عیسائی سمجھتے ہیں کہ عیسٰی علیہ السلام ہمارے لیے مصلوب ہوگئے اب ہم جو چاہے کریں بخشے بخشائے ہیں۔ آخر میں ایک بات کہ جتنا مرضی توحید توحید پیٹ لیں، ماتھے رگڑ رگڑ کر گھسا لیں اگر حسین علیہ السلام کو ناسمجھ سکے تو دین کو نا سمجھ سکے۔ اللہ تعالٰی ہمیں پورا حق قبول کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین!
(محمد تحسین)
اور حق و باطل کے درمیان مقدس ترین خون سے کھینچی گئی واضح لکیر کو مٹانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف میری ایک حقیر سی کوشش۔
تحریر طویل ہے لیکن گذارش ہے کہ جب بھی ٹائم ملے پڑھیے گا ضرور۔ جزاک اللہ خیر۔
-------------------------------------------------
میرے ہیں حسین۔۔۔
میں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت پر لکھنے کے بارے میں بہت عرصے سے سوچ رہا تھا۔ لیکن سوچ رہا تھا کہ کن الفاظ میں لکھوں گا اورکیا لکھوں گا؟۔ لیکن لکھنا ضرور چاہتا تھا جب سے میں نے کچھ کتابیں دیکھیں جن کے ٹائٹل “امیر المومنین سیدنا یزید“، ‘‘رشید ابنِ رشید سیدنا یزید‘‘، ''حیاتِ سیدنا یزید'' وغیرہ ہیں اور یہ کتابیں مسلمانوں کی ہی لکھی ہوئی ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی نے میری مشکل آسان کردی کے مجھے حق بات کہنے والے ایسے علماء کرام سے متعارف کروادیا جو صحیح معنوں میں انبیاء علیہماالسلام کے ورثاء ہوتے ہیں اور یہود کے علماء کی طرح ذاتی پسند ناپسند اور شخصیت پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوکر حق بات چھپاتے نہیں ہیں۔ انہیں علماء کرام کی بدولت میں امام عالی مقام علیہ السلام اور واقعہ کربلا کو سمجھ سکا اور اب لکھنے کی حقیر سی کوشش کررہا ہوں۔ میں اپنی بات ایک صحیح حدیث سے شروع کرتا ہوں۔ میں اورآپ اپنی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں احادیث سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن یہ حدیثِ پاک میں جب بھی پڑھتا اور سنتا ہوں تو روئے بغیر نہیں رہ پاتا کہ اتنے شفیق، اتنے کریم، اتنے رحیم اور اپنی اُمت سے اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار کرنے والے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی آلِ پاک کے ساتھ اُن کی اُمت نے کیا کیا۔ ایک طرف میں تصور کرتا ہوں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات اپنی اُمت کے لیے دعائیں مانگ رہیں ہیں اور رو رہے ہیں اور دوسری طرف ان کا یہ حُلیہ مبارک تصور میں لانے کی کوشش کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دوپہر وہ سورہے تھے کہ انھوں نے خواب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ وہ کھڑے تھے، ان کے بال مبارک بکھرے ہوئے تھے، بدن مبارک، داڑھی مبارک اور سر مبارک پر مٹی پڑی ہوئی تھی اور ہاتھ میں ایک شیشی تھی جس میں خون بھرا ہوا تھا۔ میں نے گھبرا کر پوچھا آقا صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کی یہ حالت کیسی ہے؟ اور یہ خون کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ میرے حُسین اوراس کے ساتھیوں کا خون ہے اور میں صبح سے اسے اکٹھا کررہا ہوں۔ حضرت عبداللہ بنِ عباس کہتے ہیں کہ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور وہ دن اور گھڑی یاد کرلی۔ خاندانِ نبوت کے اجڑنے کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی دن اور ساعت تھی جب کربلا میں امامِ حسین علیہ السلام کو شہید کیا جارہا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ ارواح میں بے چین تھے۔ اس حدیثِ مبارکہ کو سننے کے بعد یزید کے چاہنے والوں کا دل بھی ایک بار ضرور لرزتا ہے اور بہت سے حق کو قبول بھی کرلیتے ہیں۔ صرف پچاس سال ہی ہوئے تھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے پردہ فرمائے۔ وہ آقا جن کے بارے میں سنا کہ رات رات بھر اپنی امت کے لیے دعائیں فرماتے تھے، وہ آقا جو اس وقت بھی اُمتی اُمتی پکار رہے ہونگے جب ساری خلقت کی زبان پر نفسی نفسی ہوگا، وہ آقا جو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ہر نبی کو ایک خاص دعا عطا فرمائی. میں نے وہ دعا اپنی اُمت کے لیے محفوظ کرلی ہے جو قیامت کے دن اس کے حق میں کروں گا۔ اس آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر دکھ دیا اس اُمت نے؟؟
قرآنِ پاک میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ و نائب بنا کر بھیجا۔ کیا اللہ تعالٰی کا انسان کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس سے صرف اپنی عبادت کروائے، گھٹنوں پر جھکائےاورماتھے رگڑوائے؟ یقینا صرف یہ مقصد نہیں تھا کیونکہ اس کام کے لیے ملائکہ موجود ہیں جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا جو جب سے وجود میں لائے گئے ہیں کوئی سجدے میں پڑا ہے، کوئی رکوع میں، کوئی قیام کی حالت میں ہے اور کوئی مسلسل تسبیح اور حمد وثناء بیان کررہا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اللہ تعالٰی چاہے گا۔ اس بیچ اللہ تعالٰی نے ایک ایسی مخلوق کی تخلیق فرمائی جسے عقل و سمجھ بھی عطا فرمائی اور اپنے خالق کو ماننے نا ماننے، اس کی بندگی اختیار کرنے ناکرنے سمیت بہت سے کاموں میں اسے خود مختار بھی بنادیا۔ اب ایسی علیحدہ مخلوق سے یقینا اللہ تعالٰی صرف اپنی عبادت نہیں چاہتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے خود ہی فرشتوں کو تخلیقِ انسانی کا مقصد بھی بتادیا کہ انسان زمین پر میرا نائب اور خلیفہ ہوگا یعنی میرا قانون اور نظام زمین پر قائم کرے گا۔ پھراللہ تعالٰی نے پہلا انسان ہی جو بنایا وہ بہت محترم و معظم اور اسے پیغمبر کا درجہ دیا یعنی جسے اللہ تعالٰی خود سکھاتا اور تعلیم دیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی کا خود انسانوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے جو باقی انسانوں کو سکھاتے تھے کہ اللہ تعالٰی کا نائب اور خلیفہ کیسے بننا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تقریبا ٩٥٠ سال اللہ تعالٰی کے پیغام کی تبلیغ کی لیکن جب قوم نہیں مانی تو عذاب آیا۔ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے لیے سلامتی کی دعا کرنی چاہی تو اللہ تعالٰی نے تنبیہ فرمادی۔ کیا اللہ تعالٰی اپنے اس نبی کی جس نے شب و روز اپنی جان مار کر ٩٥٠ سال تک اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل کی، بیٹے کے حق میں دعا قبول نہیں فرماسکتا تھا؟؟ لیکن وہاں پر اللہ تعالٰی نے انسان کو واضح اور دوٹوک تعلیم دے دی کہ اُس کے نزدیک حسب نسب، ذات پات، قبیلہ برادری, تعلق رشتہ داری وغیرہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ہر انسان کو بدلہ اس کے اعمال کے مطابق ہی ملے گا۔ پھرایک واقعہ ہم لوط علیہ السلام کا بھی سنتے ہیں کہ ان کی بیوی بھی پیچھے رہ جانے والوں اور ہلاک ہونے والوں میں سے ہوگئی۔ پھر فرعون کا سنتے ہیں کہ دنیا میں خدائی کا دعوٰی کرنے والا واحد شخص یعنی خود کو اللہ تعالٰی کے برابر کھڑا کرنے والا لیکن اس کی بیوی جنت کی مقرب ترین عورتوں میں سے ایک۔ اسی طرح نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی آلِ پاک کو یہی تلقین فرماتے نظر آتے ہیں کہ اپنے اعمال کے بارے میں فکرمند رہنا کہیں یہ بات تمہیں بے فکر نا کردے کہ تم آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ یعنی دین کی بنیادی ترین تعلیمات میں سے ایک بالکل واضح ہوگئی کہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہوگا اوراعمال کا بدلہ اعمال کے مطابق ہی ملے گا جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد فرمادیا کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔
لیکن پھر ہم ایک بہت عجیب بات سنتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ حُسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ یہ کون کہہ رہے ہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے ذریعے اللہ تعالٰی نے اپنے دین کی تکمیل فرمادی کہ اب اس میں مزید کسی کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ قیامت تک آنے والوں انسانوں کے لیے ایک ضابطہء حیات ہے۔ اور دین کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ کوئی حسب نسب، کوئی ذات پات، کوئی رنگ نسل قبیلہ، کوئی تعلق رشتہ داری اور قرابت کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکے گی اور جس کو جو بھی اچھا یا برا بدلہ ملے گا وہ اس کے اعمال کی بدولت ہی ہوگا۔ لیکن یہاں دین کی تکمیل فرمانے والے مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین، چار سالہ نواسے کے لیے یہ بشارت عطا فرما رہے ہیں کہ وہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ گود میں کھیلتے ہوئے امام حُسین علیہ السلام نے اتنی چھوٹی سی عمر میں دین کی ایسی کیا خدمت کی تھی یا ایسا کیا معرکہ سرانجام دے دیا تھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جنت کے نوجوانوں کا سردار قرار دے رہے ہیں؟ اوراگر یہ بشارت اس لیے تھی کہ امام حسین علیہ السلام آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے پناہ مُحبت فرماتے تھے یا وہ آپ کی سب سے لاڈلی بیٹی سیدہ خاتون جنت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹے تھے تو پھر تو اللہ تعالٰی کے دین اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں بشمول مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا..؟؟
لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ اللہ تعالٰی علم نبوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے چکا تھا کہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کیا کام لیا جانے والا تھا جس کی بنیاد پر وہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہونگے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ اللہ تعالٰی نے جو پہلا انسان ہی تخلیق کیا اسے اپنا پیغمبر ہونے کا شرف دیا اور اسے خود تعلیم دی کہ زمین پر جاکر میرا نائب اور خلیفہ کیسے بننا ہے۔ اللہ تعالٰی کا یہ پیغام لے کر ہزاروں سال کی مدت میں لگ بھگ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور پھر اللہ تعالٰی نے اپنے آخری نبی کو بھیج کر اپنے پیغام اور دین کی تکمیل کردی۔ جب اللہ تعالٰی آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمارہا تھا تو فرشتوں نے عرض کی کہ یہ تو زمین پر فتنہ و فساد برپا کرے گا۔ فرشتوں کے پاس کوئی غیب کا علم تو نہیں سو یقینا یہ بات اللہ تعالٰی نے ہی انہیں سجھائی ہوگی اور پھر اللہ تعالٰی قرآن پاک میں خود بھی فرماتا ہے کہ انسان بلا کا سرکش اور جھگڑالو ہے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو ارشاد فرمادیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ انسان نے اللہ تعالٰی کی طرف سے فرشتوں کو سجھائی ہوئی وہ بات کہ یہ زمین پر فتنہ و فساد پیدا کرے گا اور خود اللہ تعالٰی کا ارشاد کہ انسان بلا کا سرکش اور جھگڑالو ہے کا عملی مظاہرہ وقتا فوقتا کرتا آیا لیکن پھر اس کے سدھار کے لیے اللہ تعالٰی انبیاء کرام علیہماالسلام کو بھیجتا رہا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے ساتھ ہی یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آنا۔ اللہ تعالٰی کا دین، اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات بشمول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری ہوگئیں اور انسان سیکھ گیا کہ زمین پر اللہ تعالٰی کا نائب اور خلیفہ کیسے بننا ہے۔ اس کا عملی نمونہ انسان نے ابوبکر صدیق، عمرفاروق، عثمانِ غنی اور علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہما کی خلافت کی شکل میں پیش کردیا۔
لیکن فرشتوں اور خود اللہ تعالٰی نے انسان کی جو سرشت بیان کی تھی وہ اس سے کہاں باز آنے والا تھا چنانچہ انبیاء کرام علیہم السلام کی اس ہزاہا سال کی محنت اور اللہ تعالٰی کا نائب اور خلیفہ بننے کی تعلیم آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے صرف نصف صدی کے اندر اندر ہی ملیامیٹ ہونے لگی، قیصروکسرٰی کی طرز پر دربار لگالیے گیے، ریشمی لباس زیب تن ہونے لگے، غرباء اور مساکین کا حق یعنی بیت المال رشوتوں اور تحفے تحائف کے لیے استعمال ہونے لگا، عہدے صلاحیتوں کی بجائے اقرباء پروی کی بنیاد پر دیے جانے لگے، ممبر رسول پر سرعام خطبوں میں اصحاب کبائر خصوصا سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہُ پر دشنمان طرازی اور گالم گلوچ شروع ہوگیا۔ اللہ تعالٰی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک برگذیدہ ترین چار خلفاء راشدین میں سے تین شہید کردیے گئے۔ دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد ہونے لگیں، جمعہ کے خطبوں میں اپنے قصیدے اور مخالفین پر تبرے اتنا طول پکڑجاتے کہ عصر کا وقت ہوجاتا۔ سب سے بڑی اور بنیادی بات جو کہ دینِ اسلام کی روح ہے کہ زمین پر اللہ تعالٰی کی خلافت قائم ہوگی وہ خلافت، خلافتِ راشدہ کی صورت میں قائم ہونے کے صرف تیس سال بعد ملوکیت میں تبدیل ہوگئی۔ یعنی دینِ اسلام کی وہ عمارت جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی محنت پر کھڑی تھی یوں دیکھتے ہی دیکھتے مسمار ہونے لگی۔
کیا اللہ تعالٰی کو یہ گوارہ ہوتا کہ اس کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی محنت اور قربانیاں یوں رائیگاں چلی جاتیں؟ نبوت کا سلسلہ تو منقطع ہوچکا تھا اس لیے اب اللہ تعالٰی نے امام حسین علیہ السلام کو چُنا کہ وہ اللہ تعالٰی کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات یعنی دینِ اسلام اور اس کی روح یعنی خلافت کو بچالیں۔ چنانچہ کربلا کے میدان میں امامِ عالی مقام علیہ السلام نے اپنی اور اپنے جانثار ساتھیوں کی انتہائی مظلومانہ شہادت پیش کردی۔ زمین پر موجود مقدس ترین خون مٹی میں ملا دیاگیا، حوضِ کوثر پر اپنے ہاتھوں سے جام بھر بھر کر پیاسی اُمت کو سیراب کرنے والے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو پانی تک پینے کی اجازت نا دی گئی۔ سیدہ خاتونِ جنت جن کا بالِ مبارک نظر آنے پر سورج چھپ جاتا تھا, کی بیٹیوں کو قیدی بناکر درباروں میں پیش کیا گیا۔ یہ ان عظیم ترین قربانیوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جنہیں امامِ عالی مقام علیہ السلام نے پیش کرکے اُمت پر یہ واضح کردیا اور قیامت تک کے لیے حُجت قائم کردی کہ یہ وہ دین نہیں اور یہ وہ خلافت نہیں جسے میرے نانا صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاءکرام علیہم السلام لے کر آئے۔ چنانچہ یہ اللہ تعالٰی کے دین کو بچانے اور قیامت تک کے لیے حق و باطل کے درمیان لائن کھینچ دینے کا ہی صلہ تھا کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام جنت کے سردار قرار پائے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک وہ موقع جب سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ کی گردن پر چھری چلا رہے تھے اور ایک یہ موقع جب سیدنا امام عالی مقام علیہ السلام کا سرِ مبارک نیزے پر تلاوت کررہا تھا تو اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو وہ بات یاد دلائی کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان موجود ہر شے بیک وقت یہ نظارہ دیکھ رہی تھی کہ انسان کس حد تک سرکش ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے محبوب کے محبوب کا سر نیزوں پر لہراتا پھرے اور کس حد تک بندگی کا حق ادا کرسکتا ہے کہ سجدے میں سرکٹائے اور نیزے پر قرآن سنائے۔
اگر اِمام حسین علیہ السلام حق کا علم بلند ناکرتے اور جیسے دھونس، دھن، دھاندلی، دھوکے اور تلوار کے ذریعے زبردستی بیعت لی جاتی تھی, بیعت کرلیتے یا بہت سے کبائر اصحاب کی طرح مسلمانوں میں آپس کی خون ریزی کے ڈر سے خاموش بیٹھے رہتے تو خلافت کے نام پر قائم اس بدترین ملوکیت پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی کہ یہی دین ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، فاطمہ و علی کے بیٹے نے بھی اسے قبول کرلیا ہے۔ اس بدترین ملوکیت کے بارے میں بھی صحیح احادیث موجود ہیں کہ جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک میری نبوت کی طرز پر خلافت قائم ہوگی اور اس کے بعد بدترین اور کاٹ کھانے والی ملوکیت کا دور ہوگا۔ یہاں علم نبوت کی ایک اور مثال دیکھیں تو یہ تیس سال ان چار خلفاء پر پورے ہوجاتے ہیں جنہیں ہم خلفاءراشدین کہتے ہیں. اگراب کوئی ان چار خُلفاءِ راشدین میں سے کسی ایک کو بھی جھٹلائے تو وہ شخصیت پرستی کے بت کی پوجا کرتے ہوئے نعوذ بااللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہا ہے اور اگر کوئی ان چار کے بعد والوں کو بھی زبردستی خلیفہ راشد یا ان کے قریب تر بھی گرداننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی بالکل ان چار میں سے تین کو جھٹلانے والوں کی طرح کسی شخصیت کے بُت کی پوجا کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جُھٹلا رہا ہے۔
بقول شاعر۔۔۔
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اپنی اس تحریر کے شروع میں میں نے کچھ عجیب و غریب کتابوں کا ذکر کیا جو میری اس تحریر کو لکھنے کا باعث بنیں اور جن کے ٹائٹلز دیکھ کر میں ایک عرصے سے بے چین تھا۔ لیکن یہ سوچ کر قرار آگیا کہ جب اللہ تعالٰی نے ہی انسان کو سرکش قرار دے دیا ہے تو کیونکر سرکشی سے باز آئے گا۔ یہ مسلمان تو صرف ان کی تعریفیں اور قصیدے بیان کرنے والے ہیں وہ لوگ خود بھی تو مسلمان ہی تھے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلشنِ اقدس کو تہہ و تیغ کیا اور یقینا انسان کی سرکشی قیامت تک قائم رہے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلشن کو اجاڑنے والوں کے ہمدرد بھی قیامت تک موجود رہیں گے۔ مجھ حقیر کی ان باتوں کا ان لوگوں پر کیا اثر ہوسکتا ہے جب یہ اس سجدے کو بھی نہیں دیکھتے کہ امامِ حسین علیہ السلام آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوگئے ہیں اور فرض نماز کا سجدہ اتنا طویل ہوجاتا ہےکہ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرماگئے، لوگوں کی ہٹ دھرمی تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات سن کرکہ حُسینُ منی وَاَنا مِن حُسین بھی دور نہیں ہوتی، ان لوگوں کو تو یہ بات بھی متاثر نہیں کرتی کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم حُسین علیہ السلام کو کندھے پر سوار کرائے بازار سے گذر رہے ہیں تو ایک صحابی فرماتے ہیں، واہ واہ کیا شاندار سواری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سوار بھی تو دیکھو کتنا شاندار ہے۔ سب سے بڑھ کر۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ حسن و حسین میرے پھول ہیں، اے اللہ میں ان سے مُحبت کرتا ہوں تو بھی ان سے مُحبت فرما اور اے اللہ جو ان سے مُحبت رکھے تو ان سے بھی مُحبت فرما اور جو ان سے بغض رکھیں تو بھی ان سے بُغض رکھ۔ یہاں ایک اور نکتہ واضح ہوگیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا گیا تھا کہ آپ کے ان پیاروں سے بغض رکھنے والے بھی پیدا ہوجائیں گے۔
تو اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں جس کی ناجائز، بدترین اور کاٹ کھانے والی ملوکیت کے خلاف امام حسین علیہ السلام نے علم بلند کیا اور جنت کا سردار ہونے کی بشارتیں ملیں وہ بھی رضی اللہ تعالٰی عنہ نعوذ بااللہ اور امام حُسین بھی رضی اللہ تعالٰی عنہ؟ وہ بھی سیدنا اور امام حسین بھی سیدنا؟ وہ بھی رشید اور سیدنا امامِ حُسین بھی رشید؟ وہ بھی حق پر اور امامِ حُسین بھی حق پر؟ یہ کیسا دین ہے؟ کیا یہ آپ کی عقل میں سماتا ہے؟ یہ تو کچھ بھی نہیں یہ لوگ تو سرکشی میں اس حد تک آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ بکتے ہیں کہ امامِ حُسین علیہ السلام باغی تھے، یہ جنگ اقتدار کی جنگ تھی، امامِ حُسین سے غلطی ہوئی، یا وہ تو یزید کی بیعت کرنا چاہتے تھے یعنی ہمارا دین, دین نہیں ایک مذاق ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ ایک باغی، ایک اقتدار کی جنگ لڑنے والے، ایک غلطی کرنے والے کو جنت کا سردار قرار دے رہے ہیں۔؟؟؟ یہ دین نہیں یہ شخصیت پرستی کا وہ بُت ہے جس کی پرستش انسان کو اس حد تک گِرا دیتی ہے کہ اسے حق اور باطل میں فرق محسوس نہیں ہوتا اور دونوں ایک سے دکھنے لگتے ہیں۔ یاد رکھیں حق اور باطل کبھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یعنی حق سے بھی پیار ہے اور باطل بھی ٹھیک ہی تھا یا خاموشی اختیار کرو۔ کم از کم جس دینِ اسلام کو میں جانتا ہوں وہ مجھے یہ منافقت نہیں سکھاتا۔ حق پورا کا پوار حق ہی ہوتا ہے اور باطل پورا کا پورا باطل۔ بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ حُسین علیہ السلام پورے کے پورے حق تھے اور یزید پورا کا پورا باطل۔ وہ اتنے حق پر تھے کہ قیامت تک جب بھی حق کا ذکر کیا جاتا ہے تو استعارہ امام حسین کا استعمال کیا جاتا ہے اور یزید اتنا باطل تھا کہ جب بھی باطل کا ذکر کرنا ہو تو استعارہ یزید کا استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی یا دیدہ دلیری کا ذکر ضروری ہے کہ یہ لوگ قسطنطنیہ کی ایک حدیث کو زبردستی یزید کے ساتھ جوڑ کر اس کو جنت کے سرٹیفیکٹ بانٹے پھرتے ہیں حالانکہ وہ حدیث یہ تھی کہ قسطنطنیہ کو جانے والا پہلا لشکر جنتی ہوگا۔ اگر ان علماء کرام جو کہ اہلِ بیعت کے بغض اور یزید کی محبت میں مبتلا نہیں دریافت کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یزید اس پہلے لشکر میں شامل نہیں تھا بلکہ وہ چھٹا یا ساتواں لشکر تھا جس کے ساتھ یزید نے شرکت کی تھی۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یزید نے قتلِ حسین کا حکم نہیں دیا تھا۔ چلیں ایک لمحے کے لیے یہ بات مان لیتے ہیں لیکن کیا امامِ حسین کا علمِ حق بلند کرنے کا باعث یزید ہی کی ملوکیت نہیں تھی؟ یا بتائیں وہ کس کے خلاف نکلے تھے؟ یا اگر کسی کے خلاف نہیں نکلے تھے تم لوگوں کے بقول دھوکے میں مارے گئے تو اس پر جنت کی سرداری اور اتنی بشارتیں؟ یا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور تم سے تمہاری رعایا کہ بارے میں سوال ہوگا۔ تو یزید کیسے قتلِ حسین کے سوال سے بری الذمہ ہوگیا؟ اگر تاریخ اسلامی بلکہ دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین حکمران سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھیں تو وہ اس حد تک خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ اگر فرات کے کنارے جانور بھی پیاسا مرگیا تو عمر سے سوال ہوگا لیکن یزید کے دور میں آل رسول پیاسی شہید کردی گئی تو یزید بری الذمہ ہے۔ واہ امتیوں واہ کیا وہ تم ہی ہو جن کے لیے ساری ساری رات آقا صلی اللہ علیہ وسلم روتے تھے؟؟ پھر اگر یزید کو شہادتِ حسین کا غم تھا تو ابنِ زیاد واقعہ کربلا کے بعد بھی اس کا گورنر کیسے رہا؟
آخر میں ایک مختصر سا ذکر امام حسین علیہ السلام کی قربانی کے مقصد کا۔ ان کی قربانی کا مقصد اللہ تعالٰی کے دین کو بچانا اور حق وباطل کے فرق کو قیامت تک کے لیے ظاہر کردیتا تھا۔ انہوں نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کی یہ سبق دے دیا کہ حق کہ لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریز نہیں کرنا۔ انہوں نے سجدے میں سر کٹا کر اور نیزے پر قرآن سنا کر رہتی دنیا تک کہ انسانوں کو بتادیا کہ اپنے خالق کی بندگی کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے۔ ان کی قربانی کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ سال میں دس دن ان کو یاد کرلیا جائے ان کے تابوت اور جلوس نکالے جائیں یا اُمت کے کبائر پر لعن طعن کی جائے۔ یاد رکھیں اصحاب کبائر پر لعن طعن کرنے کی روایت بنو امیہ نے شروع کی تھی جب سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تبراء کیا جاتا تھا۔ تو جو بھی اصحاب پر لعن طعن کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ یزید کا پیروکار ہے۔ حسین علیہ السلام کا دین تبراء اور گالم گلوچ نہیں سکھاتا، حسین علیہ السلام نے بتادیا کہ رب جانے تے حسین جانے نہیں بلکہ جب سر بھی کاٹا جارہا ہو تو اللہ کے احکامات کی پیروی نہیں چھوڑنی یہ بات نشتر اور تیر کھاتے ہوئے حسین نے اپنی آخری نماز پڑھ کر بتادی تھی۔ حسین علیہ السلام پر صرف ماتم اور گریہ زاری کرکے یہ سمجھ لینا کہ اب رب جانے تھے حسین جانے، خود آپ کی تعلیمات کا مذاق ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہوتا تو وہ اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اپنی اور اپنی اولاد کی قربانی نا دیتے بلکہ فرمادیتے کہ دین جانے, محمد صلی اللہ علیہ وسلم جانیں اور ان کا اللہ۔ یہ اسلام نہیں بلکہ عیسائیت ہے کہ عیسائی سمجھتے ہیں کہ عیسٰی علیہ السلام ہمارے لیے مصلوب ہوگئے اب ہم جو چاہے کریں بخشے بخشائے ہیں۔ آخر میں ایک بات کہ جتنا مرضی توحید توحید پیٹ لیں، ماتھے رگڑ رگڑ کر گھسا لیں اگر حسین علیہ السلام کو ناسمجھ سکے تو دین کو نا سمجھ سکے۔ اللہ تعالٰی ہمیں پورا حق قبول کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین!
(محمد تحسین)