جہانگیر خان ترین - ٥٠ نسلوں کی کمائی ایک نسل میں کرنے والا

Syed Haider Imam

Chief Minister (5k+ posts)
جہانگیر ترین کا ایک ہی پیغام ہے محنت کر حسد نہ کر
  • آصف فاروقی
  • بی بی سی اردو، اسلام آباد
15 دسمبر 2017

جہانگیر ترین کے کریئر پر نظر

(پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر خان ترین لگ بھگ سات ماہ لندن گزارنے کے آج صبح پاکستان واپس پہنچے ہیں۔ ان کی واپسی پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کافی بحث جاری ہے۔ بی بی سی نے دسمبر 2017 میں ان کے کریئر پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھی جو آج دوبارہ شائع کی جا رہی ہے۔)

جہانگیر ترین نے آج تک جس بھی چیز کو ہاتھ لگایا وہ سونا ہو گئی۔

یہ بات ان کے ناقدین بھی مانتے ہیں لیکن اس کی وجہ وہ قسمت سے زیادہ جہانگیر ترین کی دولت سے کامیابی خرید لینے کی صلاحیت کو قرار دیتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے ایک لیکچرر سے لے کر ارب پتی کاروباری تک اور ’جہیز‘ میں ملنے والی سیاست سے لے کر ملک کی اہم جماعت کے اہم ترین عہدیدار تک جہانگیر ترین نے کامیابیوں کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جن کی مثال پاکستان میں شاید کہیں اور نہ ملیں۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی متنازع ترین سیاسی شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ ان کے ناقدین میں خاندان والوں سے لے کر ان کی اپنی جماعت کے رہنما تک شامل ہیں جو ان پر زمینوں اور عہدوں پر قابض ہونے کا الزام دھرتے ہیں۔
ان سب کے لیے جہانگیر ترین کا ایک ہی پیغام ہے۔ محنت کر حسد نہ کر۔

جہانگیر ترین کے والد اللہ نواز ترین ایوب خان کے دور میں کراچی پولیس میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں اس عہدے تک رسائی میں ان کی قابلیت سے زیادہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے ان کی رشتہ داری کا دخل رہا۔ ان کی آبائی زمینیں تربیلا کے مقام پر بننے والے ڈیم میں آگئں جن کے بدلے انھیں جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں میں زرعی زمین الاٹ کی گئی۔

پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ نواز نے ملتان میں رہائش اور لودھراں میں کاشتکاری اختیار کر لی۔ جہانگیر ترین نے اپنی زندگی کے ابتدائی بیس برس اسی دو کمروں کے مکان میں بسر کیے۔
جہانگیر ترین کو تعلیم کے لیے لاہور بھجوایا گیا جہاں سے انھوں نے گریجویشن اور امریکہ کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے 1974 میں بزنس ایڈمنسرٹیشن میں ماسٹرز کیا۔
جہانگیر ترین کے بقول دوران تعلیم ایک دن کے لیے بھی ان کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ امریکہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لیں۔ اسی لیے تعلیم مکمل کرتے ہی وہ وطن لوٹ آئے۔
ان کا پہلا عشق درس و تدریس ہے۔ وہ کہتے ہیں انھیں نوجوانوں کے ساتھ گفتگو کر کے ہمیشہ مزا آتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی لیکن والد کی مخالفت کے باعث وہ اپنا پہلا عشق چھوڑ کر بنک کی نوکری کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ایک شام وہ دفتر سے باہر نکلے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ خوش نہیں ہیں۔ ان کا دفتر لاہور کی ایک عمارت کے تہہ خانے میں تھا۔ ’میں صبح اس تہہ خانے میں داخل ہوتا اور شام ڈھلنے کے بعد باہر نکلتا۔ ایک شام دفتر سے نکلتے میں نے سوچا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ اگلی صبح میں اس تہہ خانے میں نہیں گیا۔‘

لاھور ملتان پہنچے اور والد کو خبر سنائی کہ وہ کاشتکاری کریں گے۔ والد جیسے سکتے میں آ گئے۔ ’کیوں پتر، لاہور میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے کیا؟‘
’چند دن لودھراں میں والد صاحب کی زمینوں پر گزارتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ کاشتکاری میرے ڈی این اے میں ہے۔ میں نے سیاست کی، کاروبار کیا، دنیا دیکھی یعنی ہر کام کیا۔ لیکن جو خوشی مجھے کاشتکاری کر کے ہوتی ہے وہ دنیا کے کسی کام میں نہیں ہوتی۔ میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں کاشتکاری نہیں چھوڑ سکتا۔‘

والد کی 400 ایکڑ زمین پر انھوں نے کاشتکاری شروع کی۔ اور یہاں سے ان کی کامیابیوں کا نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوتا ہے۔

’ابھی مجھے لودھراں آئے دو سال ہوئے تھے کہ والد صاحب کی زمین سے ملحق سرکاری زمین کو محکمہ جنگلات نے فوج کو دے دیا جس نے یہ زمین میڈل لینے والے اپنے افسروں میں بانٹنا شروع کر دی۔ اب جس افسر کو یہ زمین ملتی وہ جب زمین دیکھنے وہاں آتا تو اس کا استقبال ایک بنجر ریگستان کرتا کیونکہ یہاں پانی نہیں تھا۔ میں اس زمین کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے کیا کیا کہ یہ زمینیں ان فوجی افسروں سے بہت سستی خریدنی شروع کر دیں۔ چونکہ یہ بنجر صحرائی علاقہ تھا اس لیے لوگ یہ زمین بہت ہی سستی بیچتے رہے۔ 20 سال میں یہ کام کرتا رہا کہ فوجی افسروں سے بنجر زمینیں خریدتا رہا۔‘


اس دوران انھوں نے کتنی زمین خریدی اس بارے میں جہانگیر ترین واضح بات نہیں کرتے۔ لیکن بعض اندازوں کے مطابق ان کے پاس جنوبی پنجاب سے سندھ تک 45 ہزار ایکڑ زمین ہے۔ اس زمین کو ان کی ملکیت ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں بیشتر زمین ان کے ملازمین اور رشتہ داروں کے نام پر خریدی گئی ہے۔

فوجیوں کی زمینوں سے فارغ ہونے کے بعد جہانگیر ترین نے مقامی زمین داروں کا رخ کیا اور انھیں ان کی زمین کے بدلے سالانہ اتنی رقم کی پیشکش کی جتنی وہ سال بھر محنت کر کے کماتے تھے۔ بیشتر لوگوں کو یہ پیشکش بھاگئی اور انھوں نے اپنی زمینیں ٹھیکے پر جہانگیر ترین کے حوالے کر دیں۔ اس طرح سے حاصل کی گئی زمین کا شمار جہانگیر ترین کے قریبی رشتہ دار بھی آج تک نہیں کر سکے۔

یہ ساری خرید و فروخت غیر متنازعہ نہیں رہی۔ ان کے بعض رشتہ داروں، علاقے کے زمینداروں اور بعض دیگر الاٹیوں نے ان پر زمینوں پر قبضوں اور دھوکے سے زمینیں کم داموں خریدنے کے الزامات لگائے۔ ان میں سے بہت سوں پر تصفیے اور فیصلے ہو چکے ہیں اور کچھ مقدمات ابھی تک سول عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
زمینوں سے کمائی گئی رقم جہانگیر ترین نے مختلف صنعتوں اور کاروباروں میں لگائی۔ شوگر ملیں خریدیں، حصص میں پیسہ لگایا، بنکوں میں حصہ داری کی، الغرض ہر وہ نفع بخش کام کیا جو کوئی بھی سمجھ دار کاروباری کرتا۔ یوں وہ ملک کے بڑے زمیندار کے ساتھ ساتھ کامیاب کاروباری بھی بن گئے۔

اس زمینداری کو چار چاند اس وقت لگے جب جہانگیر ترین کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنی زرعی ٹاسک فورس کا سربراہ لگایا۔ ان کے ناقدین الزام لگاتے ہیں اس دور میں پنجاب میں زمینوں سے زیادہ پیداوار لینے کے لیے غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے بہت سے تجربات ہوئے۔ ان میں سے بیشتر جہانگیر ترین کی زمینوں پر ہی کیے گیے۔ ناقدین اس عمل کو جہانگیر ترین کی زمینوں کی غیر معمولی پیداوار کی اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔

اب باری آئی انتخابی سیاست کی۔

ترین خاندان کی رشتہ داریاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے اہم ترین سیاسی خانوادوں سے ہیں۔ وہ رحیم یار خان کے مخدوموں کے داماد اور ملتان کے گیلانیوں اور سندھ کے پگاڑا کے سسرالی ہیں۔ اس لیے سیاست میں آنا ان کے لیے کچھ مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن جہانگیر ترین کاروبار کی طرح سیاست میں بھی صرف اچھے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔

پرویز مشرف کے فوجی اقتدا نے انھیں وہ نفع بخش موقع دے دیا۔ وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے اور 2002 کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے لودھراں سے رکن منتخب ہوئے۔ انھیں وفاقی وزیر بننے کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا لیکن جب وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے پاس ان کے منہ مانگے محکمے کی پیشکش لے کر آئے تو وہ ’انکار نہ کر سکے‘ اور ایک بار پھر زراعت کے صوبائی محکمے سے وابستہ ہو گئے۔ اس دوران زمینوں کی خریداری بھی جاری رہی اور سرکاری خرچ پر نت نئے تجربات بھی۔


کچھ عرصے بعد وہ وزیر اعظم شوکت عزیز کےوزیر صنعت و پیداوار بن گئے۔ ایک بار پھر ناقدین نے شور مچایا کہ اس دوران ملک کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین نے بھی خوب صنعتی ترقی کی۔

2008 میں وہ اپنے ایک اور رشتہ دار پیر صاحب پگارا کی مدد اور ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔

2011 میں انھوں نے درجن بھر ’ہم خیال‘ ارکان اسمبلی کو اکٹھا کیا اور ایک مضبوط سیاسی پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئے۔ ابھی یہ گروپ اپنی آئندہ سیاست کے بارے میں غور و فکر کر ہی رہا تھا کہ اچانک خبر آئی کہ جہانگیر ترین عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔ خود اس گروپ کے ارکان بھی حیران رہ گئے کہ کس طرح ان کی طاقت کو استعمال کر کے جہانگیر ترین نے ایک لمبی چھلانگ لگائی کہ خود یہ گروپ بھی دیکھتا ہی رہ گیا۔


پی ٹی آئی میں ان کی آمد اور پھر اہم ترین عہدے تک ترقی بھی آسان نہیں رہی۔ سنہ 2015 میں پی ٹی آئی میں پارٹی انتخابات کروانے والے پارٹی رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین نے دولت کے بل پر پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی ہے۔ عمران خان نے جسٹس وجیہہ کی بات سنی ان سنی کر دی جس پر جسٹس صاحب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو گئے۔

آج جہانگیر ترین بہت فخر سے کہتے ہیں کہ عمران خان ان کا مشورہ بہت غور سے سنتے ہیں۔ ’یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ عمران خان اس ملک کا مستقبل اور آخری امید ہیں۔ اس لحاظ سے اس ملک کی بہت بڑی ذمہ داری مجھ ہر عائد ہوتی ہے۔‘

ناقدین کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے مشورے سننے عمران خان کی ایک طرح کی مجبوری بھی ہے کیونکہ وہ کسی بھی دن سب سے زیادہ وقت جہانگیر ترین کے ساتھ گزارتے ہیں۔ جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت کے دوران اور ان کے لیے آتے جاتے بھی، چاہے یہ سفر بلٹ پروف گاڑیوں میں ہو جہانگیر ترین کے ملکیتی نجی طیارے میں۔


جہانگیر ترین کا ایک ہی پیغام ہے محنت کر حسد نہ کر - BBC News اردو
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

بی بی سی کی اس کہانی کی حقیقت جاننے کے لیے جب جہانگیر ترین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کریں۔ سال 1990 میں میرے پاس دو کمروں کا ایک بوسیدہ سا فلیٹ اور ایک سوزوکی ایف ایکس تھی۔

??
 

stargazer

Chief Minister (5k+ posts)
I don't think it is decent for anyone to make fun of JKT's situation without courts deciding on it.
JKT did not hold a government position or public office, therefore, his rise could be the result of the system greasing but then what about Malik Riaz who openly stated that he attaches wheels to files and everyone seemed to agree with the way the system works.
If JKT is held accountable then why spare the biggest Tycoon Malik Riaz, who is not even a college graduate and his only magic trick is "Wheels on files"
 
Last edited:

Syed Haider Imam

Chief Minister (5k+ posts)

بی بی سی کی اس کہانی کی حقیقت جاننے کے لیے جب جہانگیر ترین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کریں۔ سال 1990 میں میرے پاس دو کمروں کا ایک بوسیدہ سا فلیٹ اور ایک سوزوکی ایف ایکس تھی۔

??
یہ بات ان کے ناقدین بھی مانتے ہیں لیکن اس کی وجہ وہ قسمت سے زیادہ جہانگیر ترین کی دولت سے کامیابی خرید لینے کی صلاحیت کو قرار دیتے ہیں۔
????
 

Syed Haider Imam

Chief Minister (5k+ posts)
I don't think it is decent for anyone to make fun of JKT's situation without courts deciding on it.
JKT did not hold a government position of public office, therefore, his rise could be the result of the system greasing but then what about Malik Riaz who openly stated that he attaches wheels to files and everyone seemed to agree with the way the system works.
IJKT is held accountable then why spare the biggest Tycoon Malik Riaz, who is not even a college graduate and his only magic trick is "Wheels on files"

محنت کر حسد نہ کر

یا​

جیسے تیسے دولت کما اور پھر سب کو خرید لے

'Tareen was dishonest'​

The bench found PTI secretary general Jahangir Tareen to be dishonest under Article 62(1)(f) of the Constitution and Section 99 of Representation of People Act (ROPA) on one count among the multiple charges brought against him.

Article 62(1)(f) — which sets the precondition for the head of government to be "sadiq and ameen" (truthful and honest) — had led to the disqualification of Nawaz Sharif from holding public office in the July 28 judgement on the Panama Papers case.


Imran Khan not out, Jahangir Tareen disqualified for being 'dishonest': Supreme Court - Pakistan - DAWN.COM


PTI leader had returned Rs73.1 million: SECP​

Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) senior leader Jahangir Tareen was found guilty of insider trading eight years ago; however, he returned Rs70 million that he made through illegal means, the corporate sector regulator informed the apex court on Tuesday.

PTI leader had returned Rs73.1 million: SECP (tribune.com.pk)



پیدائشی بلیک میلر ---- دولت کی بنیاد پر ہر چیز خریدنے کا جنون ------محنت کر حسد نہ کر

پی ٹی آئی میں ان کی آمد اور پھر اہم ترین عہدے تک ترقی بھی آسان نہیں رہی۔ سنہ 2015 میں پی ٹی آئی میں پارٹی انتخابات کروانے والے پارٹی رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین نے دولت کے بل پر پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی ہے۔ عمران خان نے جسٹس وجیہہ کی بات سنی ان سنی کر دی جس پر جسٹس صاحب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو گئے۔
 
Last edited:

Syed Haider Imam

Chief Minister (5k+ posts)
Paindu means from a Pind (Village) so that is true but he is an MBA from North Carolina State University and a past professor of Punjab University.

What this article does not mention is his marriage to a wealthy Sugar Mill Owner's daughter that launched him in Sugar Industry
درست واضح طور پر نہیں لکھا ہے

درست ، واضح طور پر نہیں لکھا ہے مگر آپکی بات سمجھ اتی ہے
اگر کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو تو پاکستان میں اگے بڑھنا نا ممکن ہے

+++++

ترین خاندان کی رشتہ داریاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے اہم ترین سیاسی خانوادوں سے ہیں۔ وہ رحیم یار خان کے مخدوموں
کے داماد اور ملتان کے گیلانیوں اور سندھ کے پگاڑا کے سسرالی ہیں۔ اس لیے سیاست میں آنا ان کے لیے کچھ مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن جہانگیر ترین کاروبار کی طرح سیاست میں بھی صرف اچھے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔
 

The Sane

Chief Minister (5k+ posts)
جہانگیر ترین کا ایک ہی پیغام ہے محنت کر حسد نہ کر
  • آصف فاروقی
  • بی بی سی اردو، اسلام آباد
15 دسمبر 2017

جہانگیر ترین کے کریئر پر نظر

(پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر خان ترین لگ بھگ سات ماہ لندن گزارنے کے آج صبح پاکستان واپس پہنچے ہیں۔ ان کی واپسی پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کافی بحث جاری ہے۔ بی بی سی نے دسمبر 2017 میں ان کے کریئر پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھی جو آج دوبارہ شائع کی جا رہی ہے۔)

جہانگیر ترین نے آج تک جس بھی چیز کو ہاتھ لگایا وہ سونا ہو گئی۔

یہ بات ان کے ناقدین بھی مانتے ہیں لیکن اس کی وجہ وہ قسمت سے زیادہ جہانگیر ترین کی دولت سے کامیابی خرید لینے کی صلاحیت کو قرار دیتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے ایک لیکچرر سے لے کر ارب پتی کاروباری تک اور ’جہیز‘ میں ملنے والی سیاست سے لے کر ملک کی اہم جماعت کے اہم ترین عہدیدار تک جہانگیر ترین نے کامیابیوں کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جن کی مثال پاکستان میں شاید کہیں اور نہ ملیں۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی متنازع ترین سیاسی شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ ان کے ناقدین میں خاندان والوں سے لے کر ان کی اپنی جماعت کے رہنما تک شامل ہیں جو ان پر زمینوں اور عہدوں پر قابض ہونے کا الزام دھرتے ہیں۔
ان سب کے لیے جہانگیر ترین کا ایک ہی پیغام ہے۔ محنت کر حسد نہ کر۔

جہانگیر ترین کے والد اللہ نواز ترین ایوب خان کے دور میں کراچی پولیس میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں اس عہدے تک رسائی میں ان کی قابلیت سے زیادہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے ان کی رشتہ داری کا دخل رہا۔ ان کی آبائی زمینیں تربیلا کے مقام پر بننے والے ڈیم میں آگئں جن کے بدلے انھیں جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں میں زرعی زمین الاٹ کی گئی۔

پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ نواز نے ملتان میں رہائش اور لودھراں میں کاشتکاری اختیار کر لی۔ جہانگیر ترین نے اپنی زندگی کے ابتدائی بیس برس اسی دو کمروں کے مکان میں بسر کیے۔
جہانگیر ترین کو تعلیم کے لیے لاہور بھجوایا گیا جہاں سے انھوں نے گریجویشن اور امریکہ کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے 1974 میں بزنس ایڈمنسرٹیشن میں ماسٹرز کیا۔
جہانگیر ترین کے بقول دوران تعلیم ایک دن کے لیے بھی ان کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ امریکہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لیں۔ اسی لیے تعلیم مکمل کرتے ہی وہ وطن لوٹ آئے۔
ان کا پہلا عشق درس و تدریس ہے۔ وہ کہتے ہیں انھیں نوجوانوں کے ساتھ گفتگو کر کے ہمیشہ مزا آتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی لیکن والد کی مخالفت کے باعث وہ اپنا پہلا عشق چھوڑ کر بنک کی نوکری کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ایک شام وہ دفتر سے باہر نکلے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ خوش نہیں ہیں۔ ان کا دفتر لاہور کی ایک عمارت کے تہہ خانے میں تھا۔ ’میں صبح اس تہہ خانے میں داخل ہوتا اور شام ڈھلنے کے بعد باہر نکلتا۔ ایک شام دفتر سے نکلتے میں نے سوچا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ اگلی صبح میں اس تہہ خانے میں نہیں گیا۔‘

لاھور ملتان پہنچے اور والد کو خبر سنائی کہ وہ کاشتکاری کریں گے۔ والد جیسے سکتے میں آ گئے۔ ’کیوں پتر، لاہور میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے کیا؟‘
’چند دن لودھراں میں والد صاحب کی زمینوں پر گزارتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ کاشتکاری میرے ڈی این اے میں ہے۔ میں نے سیاست کی، کاروبار کیا، دنیا دیکھی یعنی ہر کام کیا۔ لیکن جو خوشی مجھے کاشتکاری کر کے ہوتی ہے وہ دنیا کے کسی کام میں نہیں ہوتی۔ میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں کاشتکاری نہیں چھوڑ سکتا۔‘

والد کی 400 ایکڑ زمین پر انھوں نے کاشتکاری شروع کی۔ اور یہاں سے ان کی کامیابیوں کا نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوتا ہے۔

’ابھی مجھے لودھراں آئے دو سال ہوئے تھے کہ والد صاحب کی زمین سے ملحق سرکاری زمین کو محکمہ جنگلات نے فوج کو دے دیا جس نے یہ زمین میڈل لینے والے اپنے افسروں میں بانٹنا شروع کر دی۔ اب جس افسر کو یہ زمین ملتی وہ جب زمین دیکھنے وہاں آتا تو اس کا استقبال ایک بنجر ریگستان کرتا کیونکہ یہاں پانی نہیں تھا۔ میں اس زمین کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے کیا کیا کہ یہ زمینیں ان فوجی افسروں سے بہت سستی خریدنی شروع کر دیں۔ چونکہ یہ بنجر صحرائی علاقہ تھا اس لیے لوگ یہ زمین بہت ہی سستی بیچتے رہے۔ 20 سال میں یہ کام کرتا رہا کہ فوجی افسروں سے بنجر زمینیں خریدتا رہا۔‘


اس دوران انھوں نے کتنی زمین خریدی اس بارے میں جہانگیر ترین واضح بات نہیں کرتے۔ لیکن بعض اندازوں کے مطابق ان کے پاس جنوبی پنجاب سے سندھ تک 45 ہزار ایکڑ زمین ہے۔ اس زمین کو ان کی ملکیت ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں بیشتر زمین ان کے ملازمین اور رشتہ داروں کے نام پر خریدی گئی ہے۔

فوجیوں کی زمینوں سے فارغ ہونے کے بعد جہانگیر ترین نے مقامی زمین داروں کا رخ کیا اور انھیں ان کی زمین کے بدلے سالانہ اتنی رقم کی پیشکش کی جتنی وہ سال بھر محنت کر کے کماتے تھے۔ بیشتر لوگوں کو یہ پیشکش بھاگئی اور انھوں نے اپنی زمینیں ٹھیکے پر جہانگیر ترین کے حوالے کر دیں۔ اس طرح سے حاصل کی گئی زمین کا شمار جہانگیر ترین کے قریبی رشتہ دار بھی آج تک نہیں کر سکے۔

یہ ساری خرید و فروخت غیر متنازعہ نہیں رہی۔ ان کے بعض رشتہ داروں، علاقے کے زمینداروں اور بعض دیگر الاٹیوں نے ان پر زمینوں پر قبضوں اور دھوکے سے زمینیں کم داموں خریدنے کے الزامات لگائے۔ ان میں سے بہت سوں پر تصفیے اور فیصلے ہو چکے ہیں اور کچھ مقدمات ابھی تک سول عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
زمینوں سے کمائی گئی رقم جہانگیر ترین نے مختلف صنعتوں اور کاروباروں میں لگائی۔ شوگر ملیں خریدیں، حصص میں پیسہ لگایا، بنکوں میں حصہ داری کی، الغرض ہر وہ نفع بخش کام کیا جو کوئی بھی سمجھ دار کاروباری کرتا۔ یوں وہ ملک کے بڑے زمیندار کے ساتھ ساتھ کامیاب کاروباری بھی بن گئے۔

اس زمینداری کو چار چاند اس وقت لگے جب جہانگیر ترین کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنی زرعی ٹاسک فورس کا سربراہ لگایا۔ ان کے ناقدین الزام لگاتے ہیں اس دور میں پنجاب میں زمینوں سے زیادہ پیداوار لینے کے لیے غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے بہت سے تجربات ہوئے۔ ان میں سے بیشتر جہانگیر ترین کی زمینوں پر ہی کیے گیے۔ ناقدین اس عمل کو جہانگیر ترین کی زمینوں کی غیر معمولی پیداوار کی اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔

اب باری آئی انتخابی سیاست کی۔

ترین خاندان کی رشتہ داریاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے اہم ترین سیاسی خانوادوں سے ہیں۔ وہ رحیم یار خان کے مخدوموں کے داماد اور ملتان کے گیلانیوں اور سندھ کے پگاڑا کے سسرالی ہیں۔ اس لیے سیاست میں آنا ان کے لیے کچھ مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن جہانگیر ترین کاروبار کی طرح سیاست میں بھی صرف اچھے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔

پرویز مشرف کے فوجی اقتدا نے انھیں وہ نفع بخش موقع دے دیا۔ وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے اور 2002 کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے لودھراں سے رکن منتخب ہوئے۔ انھیں وفاقی وزیر بننے کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا لیکن جب وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے پاس ان کے منہ مانگے محکمے کی پیشکش لے کر آئے تو وہ ’انکار نہ کر سکے‘ اور ایک بار پھر زراعت کے صوبائی محکمے سے وابستہ ہو گئے۔ اس دوران زمینوں کی خریداری بھی جاری رہی اور سرکاری خرچ پر نت نئے تجربات بھی۔


کچھ عرصے بعد وہ وزیر اعظم شوکت عزیز کےوزیر صنعت و پیداوار بن گئے۔ ایک بار پھر ناقدین نے شور مچایا کہ اس دوران ملک کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین نے بھی خوب صنعتی ترقی کی۔

2008 میں وہ اپنے ایک اور رشتہ دار پیر صاحب پگارا کی مدد اور ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔

2011 میں انھوں نے درجن بھر ’ہم خیال‘ ارکان اسمبلی کو اکٹھا کیا اور ایک مضبوط سیاسی پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئے۔ ابھی یہ گروپ اپنی آئندہ سیاست کے بارے میں غور و فکر کر ہی رہا تھا کہ اچانک خبر آئی کہ جہانگیر ترین عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔ خود اس گروپ کے ارکان بھی حیران رہ گئے کہ کس طرح ان کی طاقت کو استعمال کر کے جہانگیر ترین نے ایک لمبی چھلانگ لگائی کہ خود یہ گروپ بھی دیکھتا ہی رہ گیا۔


پی ٹی آئی میں ان کی آمد اور پھر اہم ترین عہدے تک ترقی بھی آسان نہیں رہی۔ سنہ 2015 میں پی ٹی آئی میں پارٹی انتخابات کروانے والے پارٹی رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین نے دولت کے بل پر پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی ہے۔ عمران خان نے جسٹس وجیہہ کی بات سنی ان سنی کر دی جس پر جسٹس صاحب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو گئے۔

آج جہانگیر ترین بہت فخر سے کہتے ہیں کہ عمران خان ان کا مشورہ بہت غور سے سنتے ہیں۔ ’یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ عمران خان اس ملک کا مستقبل اور آخری امید ہیں۔ اس لحاظ سے اس ملک کی بہت بڑی ذمہ داری مجھ ہر عائد ہوتی ہے۔‘

ناقدین کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے مشورے سننے عمران خان کی ایک طرح کی مجبوری بھی ہے کیونکہ وہ کسی بھی دن سب سے زیادہ وقت جہانگیر ترین کے ساتھ گزارتے ہیں۔ جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت کے دوران اور ان کے لیے آتے جاتے بھی، چاہے یہ سفر بلٹ پروف گاڑیوں میں ہو جہانگیر ترین کے ملکیتی نجی طیارے میں۔


جہانگیر ترین کا ایک ہی پیغام ہے محنت کر حسد نہ کر - BBC News اردو


بی بی سی کی اس کہانی کی حقیقت جاننے کے لیے جب جہانگیر ترین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کریں۔ سال 1990 میں میرے پاس دو کمروں کا ایک بوسیدہ سا فلیٹ اور ایک سوزوکی ایف ایکس تھی۔

??

I don't think it is decent for anyone to make fun of JKT's situation without courts deciding on it.
JKT did not hold a government position or public office, therefore, his rise could be the result of the system greasing but then what about Malik Riaz who openly stated that he attaches wheels to files and everyone seemed to agree with the way the system works.
If JKT is held accountable then why spare the biggest Tycoon Malik Riaz, who is not even a college graduate and his only magic trick is "Wheels on files"
پاکستان جیسے ملک میں کسی کے پاس وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو اسے ایک لیکچرار سے کھرب پتی بنا دے، ایک معمولی ٹھیکیدار سے پراپرٹی ٹائیکون بنا دے، بازرارِ حسن میں پھول بیچنے والے سے ۵ برِ اعظموں میں پھیلی اربوں کی جائیداد کا مالک بنا دے یا ایک معمولی سینما کی ملکیت سے بنکوں اور محلات کا ان داتا بنا دے۔۔۔۔ اور جس دولت کا ماخذ نا تو مائیکروسافٹ جیسا عہد ساز سوفٹ ویر ہو،نا ٹیسلا جیسا انقلابی ائیڈیا ہو اور نا ہی ایمیزون جیسا خریداری کا اچھوتا پلیٹ فارم ہو۔۔۔
مجھے یقین ہے کہ “محنت کر حسد نا کر” کی نصیحت جہانگیر ترین، ملک ریاض، نواز شریف اور زرداری اگر بل گیٹس، ایلان مسک یا جیف بیزوس کو بھی کر دیں تو وہ یقیناً ان پاکستانی جادوگروں کی قسمت پر رشک کریں گے، جنہیں ان سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے لیے نا تو محنت کرنی پڑی اور نا کسی سے حسد۔
بلکہ، ان ساروں سے زیادہ عظیم و فطین مگر گمنام جادوگر وہ پاکستانی ہیں جنہوں نے کبھی زندگی میں اپنی وردی کے کاندھوں پر تین یا چار ستاروں کے پلے لگائے تھے یا اونچی مسند پر بیٹھ کر آرڈر آرڈر آرڈر کی آواز لگائی تھی، اور جو اپنے سرکاری کارہائے نمایاں سے فراغت پاتے ہی سلیمانی ٹوپی پہنے پرستانوں میں جا بسے ۔
پہلی دینا کے اجڈ، جاہل اور مشرک باسیوں کو ابھی تک یہ شعور اور عقل ہی نہیں آئی کہ سات سمندر پار تیسری دنیا کی پاک سر زمین کے مومن کیا کیا معاشی چمتکار کر رہے ہیں۔
خان بالکل صحیح کہتا تھا اور جس پر ہمارے پٹوار خانے کے فکری ٹھِگنے اور ایڈز زدہ درباری ملنگ فضول میں اس کا ٹھھا اڑاتے ہیں کہ وہ دن ضرو آئے گا جب پوری دنیا سے لوگ ہمارے ہاں تعلیم اور نوکریاں لینے آیا کریں گے۔
ترین، ملک، شریف اور زرداری سکول آف اکنامکس میں داخلے جاری ہیں۔
 

Ahmed Jawad

MPA (400+ posts)
business is about competition, and if you want to excel, you need to beat the competition in their own game. JKT at least pays taxes. In Pakistan, that is much more that AZ, NS and others.
 

The Sane

Chief Minister (5k+ posts)
business is about competition, and if you want to excel, you need to beat the competition in their own game. JKT at least pays taxes. In Pakistan, that is much more that AZ, NS and others.
جناب، اگر اب ہمارا معیار یہ رہ گیا ہے، تو محترم ملک ریاض تو جنتی ہوئے کیونکہ انہوں نے ایشیا کی سب سے بڑی مسجد بنوائی اور جن کے دستر اخوان سے ملک کے کیڑے مکوڑے اور حقیر انسان مفت کھانا کھاتے ہیں۔
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
انصافی سپپورٹرز ترین کو دی گئی گالیاں واپس لے لیں اور میری پیشن گوئی کہیں لکھ لیں - اسٹیبلشمنٹ ترین اور خان کی صلح کرا دے گی اور ترین کے کیس لمبے لٹک کر عملی طور پر ختم ہو جائیں گے - باس ہمیشہ اپنے دو وورکرز کی لڑائی ختم کرا کے ان کے درمیان صلح کرا دیتا ہے آخر کو دونوں ایک ہی باس کو رپورٹ کرتے ہیں -
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

انصافی سپپورٹرز ترین کو دی گئی گالیاں واپس لے لیں اور میری پیشن گوئی کہیں لکھ لیں - اسٹیبلشمنٹ ترین اور خان کی صلح کرا دے گی اور ترین کے کیس لمبے لٹک کر عملی طور پر ختم ہو جائیں گے - باس ہمیشہ اپنے دو وورکرز کی لڑائی ختم کرا کے ان کے درمیان صلح کرا دیتا ہے آخر کو دونوں ایک ہی باس کو رپورٹ کرتے ہیں -

آپ کے خیال میں نون لیگ کے کیسز کس نے لمبے لٹکا کر ختم کیے ؟
 

usman1278

Voter (50+ posts)
Land retired officer say li
Sugar mill pir pagaro kay aik rishta dar say jub lecturer thay apnay nam benami karwai aur bad main qabza kar lia
Siasat pti par chamkai
Sub kuch to mangay tangay ka hai
Apni achievement kia hai jkt ki
He is a looter and fraud like zardari and nawaz dnt support blindly
 

Syed Haider Imam

Chief Minister (5k+ posts)
انصافی سپپورٹرز ترین کو دی گئی گالیاں واپس لے لیں اور میری پیشن گوئی کہیں لکھ لیں - اسٹیبلشمنٹ ترین اور خان کی صلح کرا دے گی اور ترین کے کیس لمبے لٹک کر عملی طور پر ختم ہو جائیں گے - باس ہمیشہ اپنے دو وورکرز کی لڑائی ختم کرا کے ان کے درمیان صلح کرا دیتا ہے آخر کو دونوں ایک ہی باس کو رپورٹ کرتے ہیں -

جہانگیر خان تالے کی وہ کنجی ہے جس سے عمران خان کو رہائی اور دوسرے مافیاز تک رسائی ملے گی

یہ ایک تلخ حقیقت ہے . آجتک ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور شائد اب بہ ایسا ہی ہو . یہ پیٹرن مستقل دیکھنے کو مل رہا ہے . پاکستان ایک دیوالیہ ملک ہے . جرنیل نظام میں خلل اور معیشیت میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کر رہے اور ہر بڑے سکینڈل کو قالین کے نیچے دباتے چلے جا رہے ہیں . مافیہ جب اپنی من مانی کرتا ہے تو قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے . جرنیل سکون سے سول حکومت کو پیغام بھیجتے ہیں کے مہنگائی کم کی جائے گڈ گورننس پر توجہ دی جائے
 

kakamuna420

Chief Minister (5k+ posts)
From your name, you also look a paindu guy. Kakamuna used to be a character in a PTV drama that was written by a Punjabi writer, performed by a Punjabi actor and aired by Lahore Center.
not the name but the action matters. Otherwise, the sons of the dengue brothers and you would have created an Islamic revolution.
 

kakamuna420

Chief Minister (5k+ posts)
Paindu means from a Pind (Village) so that is true but he is an MBA from North Carolina State University and a past professor of Punjab University.

What this article does not mention is his marriage to a wealthy Sugar Mill Owner's daughter that launched him in Sugar Industry
a person brought up in a village will always remain a villager. An MBA from a third-tier university doesn't help. Probably, at that time ethics was not part of the curriculum.
If you go to the city, every neighbour of yours is an educated person. nobody cares or ask
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
جہانگیر خان تالے کی وہ کنجی ہے جس سے عمران خان کو رہائی اور دوسرے مافیاز تک رسائی ملے گی

یہ ایک تلخ حقیقت ہے . آجتک ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور شائد اب بہ ایسا ہی ہو . یہ پیٹرن مستقل دیکھنے کو مل رہا ہے . پاکستان ایک دیوالیہ ملک ہے . جرنیل نظام میں خلل اور معیشیت میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کر رہے اور ہر بڑے سکینڈل کو قالین کے نیچے دباتے چلے جا رہے ہیں . مافیہ جب اپنی من مانی کرتا ہے تو قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے . جرنیل سکون سے سول حکومت کو پیغام بھیجتے ہیں کے مہنگائی کم کی جائے گڈ گورننس پر توجہ دی جائے
پاکستان ایک ملٹری اسٹیٹ ہے جس میں صرف ایک ادارہ ہمیشہ اقتدار میں رہتا ہے - بد قسمتی یہ ہے کہ جب بھی ایک جمہوری پارٹی ان کے خلاف اٹھ کر کھڑی ہوتی ہے دوسری اقتدار میں ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے لئے ملٹری کے ساتھ مل جاتی ہے - نواز شریف اگر ان کے خلاف کھڑا ہوا تھا تو اس وقت خان بھی ساتھ آ جاتا تو پیپلز پارٹی کو بھی آنا پڑتا اور یوں اس ملک سے ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ممکن تھا - باقی کرپشن کا بہترین علاج عوام کا ووٹ ہے زرداری نے پانچ سال کھل کر کرپشن کی فوج بھی اس کے ساتھ تھی مگر جب الیکشن ہوئے تو تین صوبوں سے اس کا خاتمہ ہو گیا اور وہ سکڑ کر دیہی سندھ کے ایک پارٹی بن کر رہ گئی - سیاست دان کمیشن کھاتے ہیں اور اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں چھوڑتے یہ ہم نے اب عملی طور پر دیکھ لیا ہے - ہر ملک جس نے ترقی کی اس نے پہلے اپنے ڈکٹیٹروں سے نجات حاصل کی پھر جمہوریت میں موجود خود ساختہ صفائی کے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہستہ ائستہ کرپشن پر بھی قابو پا لیا - خان صاحب نے قدم قدم پر سمجھوتے کئے ہیں ملٹری سے، مافیاز کے سامنے اور صرف اپنی وزارت عظمیٰ بچانے کی کوشش کی ہے ، یہ بات تلخ ہے مگر حقیت ہے - انقلاب ایسے نہیں آتے نہ ہی ایسے کوئی تبدیلی آتی ہے - خان صاحب آج بھی سب کے خلاف ایک بار اٹھ کھڑے ہوں تمام پارٹیوں بشمول اپنی پارٹی کے کرپٹ لوگوں ، مافیاز اور سب سے بڑے مافیا ملٹری کے خلاف اور اس میں اپنی وزارت عظمیٰ کی بھی پروا نہ کریں تو جمہوری تاریخ میں ہیرو بن سکیں گے ورنہ وہ کرکٹ ہیرو تو رہیں گے مگر ایک اور سابقہ وزیر اعظم بن کر تاریخ میں گم ہو جائیںگے -