w-a-n-t-e-d-
Minister (2k+ posts)
جہاد سے امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کا خا&
[h=1]شیخ ؒ کا ہدف! جہاد سے امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ[/h] [h=2]سید عمیر سلیمان[/h] [h=2]
[/h] ۱۹۸۹ء میں سویت یونین کی افواج افغانستان سے پسپا ہوکرنکل گئیں۔۔۔۔۔یہ ایک عظیم فتح تھی۔۔۔۔۔ جس کا مشاہدہ امت مسلمہ صدیوں بعد کررہی تھی۔۔۔۔۔جہاد کے نتیجے میں ایسی عظیم فتح کے ثمرات سمیٹنے اور افغانستان میں شریعت کے نفاذ کا یہی موقع تھا لیکن پاکستانی اور سعودی ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں افغان مجاہدین باہم دست و گریبان ہوگئے۔ شیخ اسامہ شہیدؒ نے اس پر آشوب دور میں کسی بھی فریق کا ساتھ نہ دیا بلکہ وہ خاموشی کے ساتھ مجاہدین کی آپس میں صلح کے لیے کام کرتے رہے مگر ان کی کوشیشں بارآور نہ ہوسکیں۔آخر کا انہوں نے افغانستان کو خیر باد کہا اور واپس سعودی عرب آگئے، یہاں اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کے ساتھ ان کا دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے رابطہ بھی برقرارتھا۔ وہ افغان جہاد میں سویت یونین کی شکست کے بعد اسلامی دنیاکے حکمرانوں کو امریکی بلاک میں جاتا دیکھ کر دُکھی تھے اور اس بدلی ہوئی صورت حال کو قبول کرنے کے لیےتیار نہ تھے،وہ امریکی عزائم سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی صورت حال میں امریکہ نے افغان جہاد کے بعد اپنا کھیل شروع کیا،یہ عراق کویت تنازعہ کی آڑ میں سرزمین حرمین پر صلیبی قبضے کا آغاز تھا۔۱۹۹۰ء میں امریکی افواج جزیرۃ العرب میں داخل ہوئیں۔ یہ بات شیخؒ کے لیے قابل قبول نہیں تھی،آپؒ نے عراق کے کویت پر قبضہ کے فورا سرزمین حرمین کے حکمرانوں کو پیش کش کی کہ آپ اور آپ کے مجاہد ساتھی حرمین کے دفاع کی خاطر عراقی فوج کا مقابلہ کریں گےاور اُنہیں اللہ کی مدد سے شکست دیں گے بشرطیکہ حکمران امریکہ کی افواج کو سر زمین آنے سے روک دیں۔لیکن آپ کی اس پیش کش کو مسترد کردیاگیا۔
[h=3]شیخؒ نے ۱۹۹۰ء میں مختلف اخبارات اورصحافیوں کو انٹرویوز کے ذدیعے جو پیغام دیا وہ یہ تھا:
[/h] ”جزیرۃ العرب پر صہیونی طاقتوں کا قبضہ ہے اور پورے علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشیشں جاری ہیں،مقامات مقدسہ پر کھلا اور خفیہ قبضہ ہوچکا ہے اب دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان عظیم مقامات سے کافروں کو نکالنے کے لیے جدوجہد شروع کردیں۔سعودی عرب سمیت دنیابھر کے جید علمائے کرام مقامات مقدسہ پر قبضہ کی جسارت کرنے والی قوتوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے چکے ہیں۔ خانہ کعبہ کو چاروں طرف سے امریکی افواج نے گھیرلیا ہے جدہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان صرف ۷۰ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور قریب کے شہروں پر بھی امریکی افواج موجود ہیں۔مسلم امت کے لیے ایک تہائی حصہ پر یہودونصاریٰ کا قبضہ ہے اسے بھی مشرکین کے قبضہ سے آزاد کرانا ہماری ذمہ داری ہے”۔ ۱۹۹۶ء سے ۱۹۹۸ء کے دوران میں شیخ اسامہؒ نے تین پیغاماتِ جہاد جاری کیے جن میں جہاد، امریکہ کی سرزمین حرمین میں موجودگی کے خلاف جہاد اور دیگر مقدس مقامات پر امریکہ کی موجودگی کے خلاف جہاد کے فتوے شامل ہیں۔شیخؒ نے ۱۹۹۶ء میں امریکہ کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد کیا۔ ۱۹۹۶ء کو انہوں نے اپنا پہلا بیان جاری کیا،جس کا عنوان تھا “اسامہ بن محمد بن لادن کی جانب سے اعلان جہاد”۔مئی۹۸ءمیں شیخؒ نے “انٹرنیشنل اسلامک فرنٹ”کے نام سے ایک محازکا اعلان کیا جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد کیا۔اس محاز کا بنیادی مقصد امریکی اور دیگر کفری افواج کو سعودی عرب کی مقدس سرزمین سے نکالنا،اسرائیل اور امریکہ کو دنیابھر میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں سے باز رکھنا بتایا گیا۔ [h=3] مارچ ۱۹۹۴ء میں سی این این کے نمائندے پیٹرآرنیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے امریکہ کے خلاف جنگ کی وجوہات بیان کیں،فرمایا:[/h] “میرے سامنے جب بھی امریکہ کا ذکر آتا ہے ،تو کسی اور بات کی بجائے مجھے اسرائیل کا وہ ظلم یاد آجاتا ہے جو لبنان میں قنعاکے مقام پر وحشیانہ بم باری کی صورت میں معصوم بچوں پر کیا گیاتھا،مجھے یہ منظر کبھی نہیں بھولتا۔ اس بم باری میں معصوم بچوں کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوئی۔جوزندہ بچے اپنے جسموں کے مختلف اعضاء کٹ جانے کی وجہ سے معذور مسخ ہوکررگئے۔ امریکہ کا اس واقعہ میں ملوث ہونے کا اس سے بڑھ کرثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس بم باری کا شکارہونے والے معصوم بچوں کے حق میں کلمئہ ہمدردی تک کہنے سے گریزکیا اور ظلم وسفاکی کی تمام حدود پھلانک گیا، اس سے پہلے دنیامیں بڑی سے بڑی سامراجی قوت کے ہاتھوں ایسا واقعہ عمل میں نہ آیا تھا۔ امریکی حکومت نے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنارکھاہے۔عراق میں ساٹھ لاکھ سے زائد بچوں پر خوراک و ادویات کے دروازے بند کر کے ان پر موت کے دروازے کھول رکھےہیں۔انہی وجوہات کی بنا پر امریکہ اپنے خلاف کسی بھی ردعمل کا خودذمہ دار ہوگاکیونکہ اُس نے جنگ کا دائرہ فوج تک نہیں بلکہ عام شہریوں تک وسیع کردیاہے”۔
[h=2] شیخ اسامہؒ جزیرۃ العرب میں قائم امریکی اڈوں کی نشان دہی کرتے ہیں:[/h] جزیرۃ العرب میں امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی یہودی اور نصرانی فوجیں ۲۳ اڈے قائم کرچکی ہیں۔۔۔۔۔پھر شیخؒ نے دیوار پر لٹکے ہوئے نقشے کو چھڑی کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی کہ امریکی اڈے جزیرۃالعرب میں کہاں کہاں قائم ہیں۔۔۔۔۔ان نشان دہی کرتے ہوئے آپؒ نے کہا: یہودی اور نصرانی فوجوں کے اڈے،(۱ )جدہ(۲) طائف(۳) تبوک(۴) ریاض(۵) خضرالباطن(۶) الجوف(۷) دمام(۸) کویت(۹) بحرین میں جفیر کے مقام پر(۱۰) قطرمیں دوحہ کے مقام پر(۱۱) متحدہ عرب امارت میں ابوظہبی کے مقام پر(۱۲) عمان میں خصب کے مقام پر(۱۳) مسقظ(۱۴) عمان کے شہر مطرح(۱۵) عمان کے شہر مصریرہ(۱۶) اردن کے علاقے ارزق(۱۷) مصر کے علاقے صحرائے سینا(۱۸) مصر کے شہر قاہرہ(۱۹) مصر کی وادی قنا(۲۰) مصر کے ساحل بیناس(۲۱) بحرااحمر کا جزیرہ دھلک میں ہے۔۔۔۔۔ جس پر اریٹیریا کے عیسائیوں کا قبضہ ہے(۲۲) جبوتی میں’جہاں فرانس کا بہت بڑا فضائی اڈہ قائم ہے(۲۳) بحراحمر کا جزیرہ خیش۔۔۔شیخؒ کا کہنا تھا کہامریکہ جزیرہ العرب سے یومیہ ہزاروں بیرل تیل چراکر امریکہ پہنچارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امام مسجد نبوی شیخ حزیفی نے سعودی عرب میں امریکی فوجوں کی موجودگی پر درست کہا ہے کہ”بھلا بھیڑیابکریوں کی کیسے رکھوالی کرسکتاہے؟” جزیرۃالعرب میں یہودونصاریٰ کے یہی ۲۳ اڈے شیخؒ کا اصل ٹارگٹ تھے۔۔۔۔۔کہ جن اڈوں کو انہوں نے ہر قیمت پر ختم کرنے کا اعلان ۹۷۔۱۹۹۶ میں افغانستان کے معسکرات میں مجاہدین کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیاتھا۔ بعد ازاں اسی قسم کے عزائم کا اظہار انہوں نے دنیابھر سے افغانستان میں آنے والے صحافیوں سے گاہے،بگاہے اپنے انٹرویوز میں بھی کیاتھا۔۔۔۔۔
[/h] [h=3]۲۰۰۰ء میں شیخؒ نے مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:[/h] “امریکہ عرب ممالک کے تیل کے ذخائر پر ناجائز قبضےکی منصوبہ بندی کررہا ہے۔۱۹۷۳ء کے بعد دنیا کی ہر شے مہنگی ہوئی ہے لیکن پٹرول زیادہ مہنگا نہیں ہوا۔۷۳ء سے اب تک پٹرول کی قیمت میں صرف ۸ ڈالر فی بیرل اضافہ ہوا ہےجبکہ دیگر اشیاتین گنا مہنگی ہوگئی ہیں لیکن عربوں کا تیل مہنگا نہیں ہوا۔ ۲۴سال میں چند ڈالر سے اضافہ اس لیے نہ ہوا کیونکہ امریکہ کی بندوق عربوں کی پیشانی پر ہے۔ہم روزانہ فی بیرل ۱۱۵ ڈالر کا نقصان اٹھارہے ہیں۔ صرف سعودی عرب میں ۱۰ ملین بیرل تیل روزانہ نکلتا ہے۔ روزانہ کا خسارہ ایک ارب ،۱۵کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔پچھلے ۱۳ برسوں میں امریکہ نے ہمیں ۵۴کھرب ۵۶ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ یہ بھاری رقم امریکہ سے وصول کرنا بہت ضروری ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ہرمسلمان خاندان کو ۵۰ہزار سے زائد ڈالر تقسیم ہوں تو ۵۴کھرب ۵۶ارب ڈالر پورا ہوسکتا ہے”۔(یادرہے یہ صرف اُس پٹرول کا سرسری حساب کتاب ہے جو سعودی عرب سے نکالا جارہا ہے،باقی مسلم خطوں کی آمدنی کو اس میں شامل کرنے سے کتنی بڑی رقم امریکہ کے ذمہ ہے،اس کا اندازہ کیا جاسکتاہے)۔
[h=2] امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ:[/h] [h=3]ایک موقع پر شیخؒ نے فرمایا:[/h] “جہادی تربیت حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن جمہوری حکومتیں امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والے رمزی یوسف کو امریکہ کے حوالے کردیتی ہیں۔جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعوے دار امریکہ کے حکم پر میرے چار بیٹے قید ہیں،چار سالہ بچی کو سفر کی اجازت نہیں مجھے کہا جاتا ہے کہ شاہ فہد اور امریکہ کے خلاف خاموش ہوجاؤں تو مجھے معاف کردیا جائے گالیکن میں امریکہ سے رحم کی بھیک نہیں مانگتا۔امریکہ میں ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرے،میری موت اللہ کی مرضی سے ہوگی ناکہ امریکہ کی مرضی سے۔میں مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں اور مسلمان امریکی جمہوریت کا بائیکاٹ کردیں۔ اس جمہوریت نے مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ امریکی موت سے ڈرتےہیں،امریکی بزدل چوہے ہیں،روس ٹوٹ سکتا ہے تو امریکہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے”۔ [h=3] سنڈےٹائمز لندن میں شیخؒ کا انٹرویو شائع ہوا جو سی این این کی ٹیم نے لیا تھا۔اس انٹرویو میں شیخؒ نے فرمایا:[/h] ”ہم نےامریکی حکومت کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے کیونکہ امریکی حکومت جابر،ظالم اور مجرمانہ ہے۔اس نے نہایت جابرانہ اور گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔اس نے کھلم کھلا اسرائیل کے ظالمانہ عزائم کی تائید کی ہے اس کی ہمت افزائی کی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ارض شب معراج پر قبضہ کرلے۔ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین اور عراق میں مسلمانوں کے قتل عام کا امریکہ براہ راست ذمہ دار ہے۔ امریکہ کی ایسی ہی جابرانہ اور ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے ہم نے اس کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے کیونکہ ہمارا دین ایسے حلات میں ہمیں حکم دیتا ہے کہ جب ظلم اور جبر حد سے بڑھ جائے تو اللہ کے حکم کے نفاذ کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ اس لیے ہم امریکہ کو تمام اسلامی سرزمینوں سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ جہاد امریکی فوجیوں کے خلاف ہے یا ان کے شہریوں کے خلاف ہے۔۔۔۔۔ تو حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ان امریکی فوجیوں کے خلاف ہے جو ہمارے مقدس مقامات پر موجود ہیں۔ہمارے دین میں ہمارے مقدس مقامات تمام اسلامی خطوں سے زیادہ قابل احترام ہیں اور وہاں کسی کافر کا وجود ناقابل برداشت ہے۔اس لیے تمام امریکی شہری وہاں سے فوراً نکل جائیں ہم ان کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ہم سواارب مسلمان ہیں،ہمارے جذبات کسی بھی وقت ردعمل دکھاسکتے ہیں کیونکہ ہمارے چھ لاکھ معصوم بچےامریکہ کی وجہ سے عراق میں کھانے اور دواؤں سے محروم ہیں۔ہمارے ردعمل کی ذمہ داری امریکہ پر ہوگی کیونکہ یہ امریکی ظلم جنگ کو امریکی فوجیوں سے امریکی شہریوں تک لے جارہا ہے’یہ بات بہت واضع ہے۔عام امریکی کے معاملے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ بری الذمہ نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعہ اس امریکی حکومت کا قائم کیا ہے جبکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی حکومت نے فلسطین،لبنان اور عراق میں جرائم کیے ہیں اور دوسری جگہوں پر بھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمارے فرزندوں اور علما کو قید خانوں میں ڈال رکھا ہے۔ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ سب آزاد ہو جائیں”۔
شیخ رحمۃاللہ کا ہدف! جہاد سے امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
[/h] ۱۹۸۹ء میں سویت یونین کی افواج افغانستان سے پسپا ہوکرنکل گئیں۔۔۔۔۔یہ ایک عظیم فتح تھی۔۔۔۔۔ جس کا مشاہدہ امت مسلمہ صدیوں بعد کررہی تھی۔۔۔۔۔جہاد کے نتیجے میں ایسی عظیم فتح کے ثمرات سمیٹنے اور افغانستان میں شریعت کے نفاذ کا یہی موقع تھا لیکن پاکستانی اور سعودی ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں افغان مجاہدین باہم دست و گریبان ہوگئے۔ شیخ اسامہ شہیدؒ نے اس پر آشوب دور میں کسی بھی فریق کا ساتھ نہ دیا بلکہ وہ خاموشی کے ساتھ مجاہدین کی آپس میں صلح کے لیے کام کرتے رہے مگر ان کی کوشیشں بارآور نہ ہوسکیں۔آخر کا انہوں نے افغانستان کو خیر باد کہا اور واپس سعودی عرب آگئے، یہاں اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کے ساتھ ان کا دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے رابطہ بھی برقرارتھا۔ وہ افغان جہاد میں سویت یونین کی شکست کے بعد اسلامی دنیاکے حکمرانوں کو امریکی بلاک میں جاتا دیکھ کر دُکھی تھے اور اس بدلی ہوئی صورت حال کو قبول کرنے کے لیےتیار نہ تھے،وہ امریکی عزائم سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی صورت حال میں امریکہ نے افغان جہاد کے بعد اپنا کھیل شروع کیا،یہ عراق کویت تنازعہ کی آڑ میں سرزمین حرمین پر صلیبی قبضے کا آغاز تھا۔۱۹۹۰ء میں امریکی افواج جزیرۃ العرب میں داخل ہوئیں۔ یہ بات شیخؒ کے لیے قابل قبول نہیں تھی،آپؒ نے عراق کے کویت پر قبضہ کے فورا سرزمین حرمین کے حکمرانوں کو پیش کش کی کہ آپ اور آپ کے مجاہد ساتھی حرمین کے دفاع کی خاطر عراقی فوج کا مقابلہ کریں گےاور اُنہیں اللہ کی مدد سے شکست دیں گے بشرطیکہ حکمران امریکہ کی افواج کو سر زمین آنے سے روک دیں۔لیکن آپ کی اس پیش کش کو مسترد کردیاگیا۔

[/h] ”جزیرۃ العرب پر صہیونی طاقتوں کا قبضہ ہے اور پورے علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشیشں جاری ہیں،مقامات مقدسہ پر کھلا اور خفیہ قبضہ ہوچکا ہے اب دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان عظیم مقامات سے کافروں کو نکالنے کے لیے جدوجہد شروع کردیں۔سعودی عرب سمیت دنیابھر کے جید علمائے کرام مقامات مقدسہ پر قبضہ کی جسارت کرنے والی قوتوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے چکے ہیں۔ خانہ کعبہ کو چاروں طرف سے امریکی افواج نے گھیرلیا ہے جدہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان صرف ۷۰ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور قریب کے شہروں پر بھی امریکی افواج موجود ہیں۔مسلم امت کے لیے ایک تہائی حصہ پر یہودونصاریٰ کا قبضہ ہے اسے بھی مشرکین کے قبضہ سے آزاد کرانا ہماری ذمہ داری ہے”۔ ۱۹۹۶ء سے ۱۹۹۸ء کے دوران میں شیخ اسامہؒ نے تین پیغاماتِ جہاد جاری کیے جن میں جہاد، امریکہ کی سرزمین حرمین میں موجودگی کے خلاف جہاد اور دیگر مقدس مقامات پر امریکہ کی موجودگی کے خلاف جہاد کے فتوے شامل ہیں۔شیخؒ نے ۱۹۹۶ء میں امریکہ کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد کیا۔ ۱۹۹۶ء کو انہوں نے اپنا پہلا بیان جاری کیا،جس کا عنوان تھا “اسامہ بن محمد بن لادن کی جانب سے اعلان جہاد”۔مئی۹۸ءمیں شیخؒ نے “انٹرنیشنل اسلامک فرنٹ”کے نام سے ایک محازکا اعلان کیا جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد کیا۔اس محاز کا بنیادی مقصد امریکی اور دیگر کفری افواج کو سعودی عرب کی مقدس سرزمین سے نکالنا،اسرائیل اور امریکہ کو دنیابھر میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں سے باز رکھنا بتایا گیا۔ [h=3] مارچ ۱۹۹۴ء میں سی این این کے نمائندے پیٹرآرنیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے امریکہ کے خلاف جنگ کی وجوہات بیان کیں،فرمایا:[/h] “میرے سامنے جب بھی امریکہ کا ذکر آتا ہے ،تو کسی اور بات کی بجائے مجھے اسرائیل کا وہ ظلم یاد آجاتا ہے جو لبنان میں قنعاکے مقام پر وحشیانہ بم باری کی صورت میں معصوم بچوں پر کیا گیاتھا،مجھے یہ منظر کبھی نہیں بھولتا۔ اس بم باری میں معصوم بچوں کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوئی۔جوزندہ بچے اپنے جسموں کے مختلف اعضاء کٹ جانے کی وجہ سے معذور مسخ ہوکررگئے۔ امریکہ کا اس واقعہ میں ملوث ہونے کا اس سے بڑھ کرثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس بم باری کا شکارہونے والے معصوم بچوں کے حق میں کلمئہ ہمدردی تک کہنے سے گریزکیا اور ظلم وسفاکی کی تمام حدود پھلانک گیا، اس سے پہلے دنیامیں بڑی سے بڑی سامراجی قوت کے ہاتھوں ایسا واقعہ عمل میں نہ آیا تھا۔ امریکی حکومت نے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنارکھاہے۔عراق میں ساٹھ لاکھ سے زائد بچوں پر خوراک و ادویات کے دروازے بند کر کے ان پر موت کے دروازے کھول رکھےہیں۔انہی وجوہات کی بنا پر امریکہ اپنے خلاف کسی بھی ردعمل کا خودذمہ دار ہوگاکیونکہ اُس نے جنگ کا دائرہ فوج تک نہیں بلکہ عام شہریوں تک وسیع کردیاہے”۔
[h=2] شیخ اسامہؒ جزیرۃ العرب میں قائم امریکی اڈوں کی نشان دہی کرتے ہیں:[/h] جزیرۃ العرب میں امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی یہودی اور نصرانی فوجیں ۲۳ اڈے قائم کرچکی ہیں۔۔۔۔۔پھر شیخؒ نے دیوار پر لٹکے ہوئے نقشے کو چھڑی کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی کہ امریکی اڈے جزیرۃالعرب میں کہاں کہاں قائم ہیں۔۔۔۔۔ان نشان دہی کرتے ہوئے آپؒ نے کہا: یہودی اور نصرانی فوجوں کے اڈے،(۱ )جدہ(۲) طائف(۳) تبوک(۴) ریاض(۵) خضرالباطن(۶) الجوف(۷) دمام(۸) کویت(۹) بحرین میں جفیر کے مقام پر(۱۰) قطرمیں دوحہ کے مقام پر(۱۱) متحدہ عرب امارت میں ابوظہبی کے مقام پر(۱۲) عمان میں خصب کے مقام پر(۱۳) مسقظ(۱۴) عمان کے شہر مطرح(۱۵) عمان کے شہر مصریرہ(۱۶) اردن کے علاقے ارزق(۱۷) مصر کے علاقے صحرائے سینا(۱۸) مصر کے شہر قاہرہ(۱۹) مصر کی وادی قنا(۲۰) مصر کے ساحل بیناس(۲۱) بحرااحمر کا جزیرہ دھلک میں ہے۔۔۔۔۔ جس پر اریٹیریا کے عیسائیوں کا قبضہ ہے(۲۲) جبوتی میں’جہاں فرانس کا بہت بڑا فضائی اڈہ قائم ہے(۲۳) بحراحمر کا جزیرہ خیش۔۔۔شیخؒ کا کہنا تھا کہامریکہ جزیرہ العرب سے یومیہ ہزاروں بیرل تیل چراکر امریکہ پہنچارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امام مسجد نبوی شیخ حزیفی نے سعودی عرب میں امریکی فوجوں کی موجودگی پر درست کہا ہے کہ”بھلا بھیڑیابکریوں کی کیسے رکھوالی کرسکتاہے؟” جزیرۃالعرب میں یہودونصاریٰ کے یہی ۲۳ اڈے شیخؒ کا اصل ٹارگٹ تھے۔۔۔۔۔کہ جن اڈوں کو انہوں نے ہر قیمت پر ختم کرنے کا اعلان ۹۷۔۱۹۹۶ میں افغانستان کے معسکرات میں مجاہدین کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیاتھا۔ بعد ازاں اسی قسم کے عزائم کا اظہار انہوں نے دنیابھر سے افغانستان میں آنے والے صحافیوں سے گاہے،بگاہے اپنے انٹرویوز میں بھی کیاتھا۔۔۔۔۔
[h=2]امت کے وسائل کا پاسبان:[/h] [h=3]۲۰۰۰ء میں شیخؒ نے مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:[/h] “امریکہ عرب ممالک کے تیل کے ذخائر پر ناجائز قبضےکی منصوبہ بندی کررہا ہے۔۱۹۷۳ء کے بعد دنیا کی ہر شے مہنگی ہوئی ہے لیکن پٹرول زیادہ مہنگا نہیں ہوا۔۷۳ء سے اب تک پٹرول کی قیمت میں صرف ۸ ڈالر فی بیرل اضافہ ہوا ہےجبکہ دیگر اشیاتین گنا مہنگی ہوگئی ہیں لیکن عربوں کا تیل مہنگا نہیں ہوا۔ ۲۴سال میں چند ڈالر سے اضافہ اس لیے نہ ہوا کیونکہ امریکہ کی بندوق عربوں کی پیشانی پر ہے۔ہم روزانہ فی بیرل ۱۱۵ ڈالر کا نقصان اٹھارہے ہیں۔ صرف سعودی عرب میں ۱۰ ملین بیرل تیل روزانہ نکلتا ہے۔ روزانہ کا خسارہ ایک ارب ،۱۵کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔پچھلے ۱۳ برسوں میں امریکہ نے ہمیں ۵۴کھرب ۵۶ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ یہ بھاری رقم امریکہ سے وصول کرنا بہت ضروری ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ہرمسلمان خاندان کو ۵۰ہزار سے زائد ڈالر تقسیم ہوں تو ۵۴کھرب ۵۶ارب ڈالر پورا ہوسکتا ہے”۔(یادرہے یہ صرف اُس پٹرول کا سرسری حساب کتاب ہے جو سعودی عرب سے نکالا جارہا ہے،باقی مسلم خطوں کی آمدنی کو اس میں شامل کرنے سے کتنی بڑی رقم امریکہ کے ذمہ ہے،اس کا اندازہ کیا جاسکتاہے)۔
[h=2] امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ:[/h] [h=3]ایک موقع پر شیخؒ نے فرمایا:[/h] “جہادی تربیت حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن جمہوری حکومتیں امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والے رمزی یوسف کو امریکہ کے حوالے کردیتی ہیں۔جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعوے دار امریکہ کے حکم پر میرے چار بیٹے قید ہیں،چار سالہ بچی کو سفر کی اجازت نہیں مجھے کہا جاتا ہے کہ شاہ فہد اور امریکہ کے خلاف خاموش ہوجاؤں تو مجھے معاف کردیا جائے گالیکن میں امریکہ سے رحم کی بھیک نہیں مانگتا۔امریکہ میں ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرے،میری موت اللہ کی مرضی سے ہوگی ناکہ امریکہ کی مرضی سے۔میں مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں اور مسلمان امریکی جمہوریت کا بائیکاٹ کردیں۔ اس جمہوریت نے مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ امریکی موت سے ڈرتےہیں،امریکی بزدل چوہے ہیں،روس ٹوٹ سکتا ہے تو امریکہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے”۔ [h=3] سنڈےٹائمز لندن میں شیخؒ کا انٹرویو شائع ہوا جو سی این این کی ٹیم نے لیا تھا۔اس انٹرویو میں شیخؒ نے فرمایا:[/h] ”ہم نےامریکی حکومت کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے کیونکہ امریکی حکومت جابر،ظالم اور مجرمانہ ہے۔اس نے نہایت جابرانہ اور گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔اس نے کھلم کھلا اسرائیل کے ظالمانہ عزائم کی تائید کی ہے اس کی ہمت افزائی کی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ارض شب معراج پر قبضہ کرلے۔ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین اور عراق میں مسلمانوں کے قتل عام کا امریکہ براہ راست ذمہ دار ہے۔ امریکہ کی ایسی ہی جابرانہ اور ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے ہم نے اس کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے کیونکہ ہمارا دین ایسے حلات میں ہمیں حکم دیتا ہے کہ جب ظلم اور جبر حد سے بڑھ جائے تو اللہ کے حکم کے نفاذ کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ اس لیے ہم امریکہ کو تمام اسلامی سرزمینوں سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ جہاد امریکی فوجیوں کے خلاف ہے یا ان کے شہریوں کے خلاف ہے۔۔۔۔۔ تو حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ان امریکی فوجیوں کے خلاف ہے جو ہمارے مقدس مقامات پر موجود ہیں۔ہمارے دین میں ہمارے مقدس مقامات تمام اسلامی خطوں سے زیادہ قابل احترام ہیں اور وہاں کسی کافر کا وجود ناقابل برداشت ہے۔اس لیے تمام امریکی شہری وہاں سے فوراً نکل جائیں ہم ان کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ہم سواارب مسلمان ہیں،ہمارے جذبات کسی بھی وقت ردعمل دکھاسکتے ہیں کیونکہ ہمارے چھ لاکھ معصوم بچےامریکہ کی وجہ سے عراق میں کھانے اور دواؤں سے محروم ہیں۔ہمارے ردعمل کی ذمہ داری امریکہ پر ہوگی کیونکہ یہ امریکی ظلم جنگ کو امریکی فوجیوں سے امریکی شہریوں تک لے جارہا ہے’یہ بات بہت واضع ہے۔عام امریکی کے معاملے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ بری الذمہ نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعہ اس امریکی حکومت کا قائم کیا ہے جبکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی حکومت نے فلسطین،لبنان اور عراق میں جرائم کیے ہیں اور دوسری جگہوں پر بھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمارے فرزندوں اور علما کو قید خانوں میں ڈال رکھا ہے۔ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ سب آزاد ہو جائیں”۔
Last edited: