سن 2004 دو ہزار چار میں ہم انجینرنگ میں داخلے کے بعد پنجاب یونیورسٹی ہوسٹل نمبر 9 میں کمرے کی تلاش میں نکلے تو پتا چلا کہ کمرہ مرضی کا لینا ہے تو جمعیت سے بنا کر رکھنی ہو گی۔ مزید بر اں الاٹمنٹ کے لیے ہوسٹل انتظامیہ کی بجاے جمعیت ناظم کے دفتر میں حاضری پیش کرنا ہو گی۔ اگلے دن پہلی کلاس لینےیونیورسٹی پہنچے تو جمعیت نے ڈیپارٹمنٹ گیٹ پر استقبالی سٹال لگایا ہوا تھااور ہر نئےآنے والے طالب علم کو گلاب کے پھول پیش کر رہے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا یونیورسٹی کی ساری باگ دوڑ انتظامیہ کی بجائے جمعیت کے ہاتھ میں ہے۔
اس دن سے دو ہزار آٹھ تک تقریبا پونے پانچ سال ہم ہر روز پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں جمعیت کا مشاہدہ کرتے رہے۔ حسن اتفاق کہ ہمارا تعلق شیعہ فرقے سے تھا جسے جماعتی شر پسند سمجھتے تھے۔ ہر سال یونیورسٹی میں تین جماعتی شہدا کی یاد میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا جاتا تھا جسے بقول ان کے شیعہ دہشت گردوں نے 1996 کے ہیر پھیر یوم حسین کے تنازع پر قتل کر دیا تھا۔ ایسے موقع پر شیعہ مخالف جذبات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جمعیت صرف شیعوں سے بیر نہیں رکھتی تھی بلکہ ہر اس گروہ سے ان کو بیر تھا جو گروہ تھا۔ کیونکہ ہر گروہ ان کو اپنی بالادستی کے لیے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی جیسے مرکزی ادارے میں اپنی مطلق العنان حکومت وہ کسی بھی قیمت پر گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھیں پنجاب یونیورسٹی اساتذہ میں موجود اپنے اسلامی ہمدردوں کی فل سپورٹ حاصل تھی۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی کی مرکزی و صوبائی قیادت کی کبھی ڈھکی چپھی تو کبھی کھلی حمایت بھی جمعیت کو حاصل تھی۔ پنجاب یونیورسٹی میں جماعت کی سیاست کا ایک ہی محور تھا اپنی طاقت اور بالادستی قائم رکھو۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی دوسرے گروہ جیسے پختون گروہ، تحریک انصاف کا گروہ، طاہر القادری کا طلبا ونگ، شیعہ طلبا گروہ حتی کا تبلیغی جماعت (جو نظریاتی طور پر جمعیت کے بہت قریب تھی ) کو سر اٹھانے سے پھلے ہی کچل دو۔ اس معاملے میں جمعیت بلکل رعایت نہیں برتتی تھی۔ اس منطق پر دلائل میں سے ایک دلیل عمران خان کی جمعیت کے ہاتھوں پٹائی بھی ہے۔ اگرچہ اس زمانے میں قاضی حسین احمد اور عمران خان کی بھت دوستی تھی مگر پھر بھی جمعیت سے عمران خان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ برداشت نا ہوا اور اسے لگام دینا ضروری سمجھا گیا۔
اس واقعہ پر مرحوم قاضی صاحب نے ایک قالم لکھ کر جمعیت کی ہلکی پھلکی کلاس بھی لی تھی۔ جو ہمارے ناقص علم کی رو سے کسی جماعت اسلامی کے سربراہ کی جانب سے جمعیت کی سرزنش کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ ورنہ عام طور سے جماعت کے وسیع تر مفاد میں جمعیت کی بدمعاشی پر وہی طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے جو طالبان کے دھماکوں پر جماعت کی جانب سے ایک لمبے عرصے تک اختیار کیا جاتا رھا۔
جمعیت کی اچھی باتیں!
جمعیت کے حامی جو دلائل جمعیت کے حق میں پیش کرتے ہیں، ان میں سے اہم اہم یہ ہیں
1) جمعیت نے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی ماحول قائم رکھا ہوا ہے جبکہ دیگر جامعات جہاں جماعت نہیں ہے ڈیٹنگ پوا ئنٹ بن چکی ہیں۔
2) یونیورسٹی میں طلبا کو جماعت کی وجہ سے بہت سارے فوائد ہیں۔ جیسے تمام کیفے وغیرہ پر قیمتیں بہت کم ہیں اور یونیورسٹی فیس میں اضافہ بھی جمعیت نہیں ہونے دیتی۔
جمعیت کی بری باتیں!
جمعیت میں جو نقائص ہم نے دیکھے ان میں سے اہم یہ ہیں
1) تشدد کا کلچر عام کرنا۔ جمعیت ہر دوسرے دن کسی نہ کسی کو پھینٹی لگا رہی ہوتی ہے۔ جس سے جامعہ میں خوف اور تشدد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
2) عدم برداشت۔ جمعیت کسی کو برداشت نہیں کرتی۔ اور اپنے موقف پر انتہائی سخت دکھائی دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے عدم برداشت پھیلتی ہے۔
3) تعلیمی معیار میں کمی : افسوس کا مقام ہے کہ تقسیم سے پہلے پاکستانی علاقے میں سب سی پہلے بننے والی یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ جمعیت بھی ہے جو اپنے نام نہاد اسلامی مقاصد کی خاطر تعلیم کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ جیسے اساتذہ میں اپنے لوگ بھرتی کروانا، اپنے لوگوں کو پاس کروانا، اپنی مرضی کے کلاس مانیٹر CR وغیرہ بنوانا۔ اچھے تحقیقی استادوں کو فضول جھگڑوں میں الجھائے رکھنا وغیرہ۔
4) اپنے کارکنوں کو بدمعاشی پر لگا کر ان کے مستقبل تباہ کرنا۔
http://www.humsub.com.pk/57101/nadir-abbas/
اس دن سے دو ہزار آٹھ تک تقریبا پونے پانچ سال ہم ہر روز پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں جمعیت کا مشاہدہ کرتے رہے۔ حسن اتفاق کہ ہمارا تعلق شیعہ فرقے سے تھا جسے جماعتی شر پسند سمجھتے تھے۔ ہر سال یونیورسٹی میں تین جماعتی شہدا کی یاد میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا جاتا تھا جسے بقول ان کے شیعہ دہشت گردوں نے 1996 کے ہیر پھیر یوم حسین کے تنازع پر قتل کر دیا تھا۔ ایسے موقع پر شیعہ مخالف جذبات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جمعیت صرف شیعوں سے بیر نہیں رکھتی تھی بلکہ ہر اس گروہ سے ان کو بیر تھا جو گروہ تھا۔ کیونکہ ہر گروہ ان کو اپنی بالادستی کے لیے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی جیسے مرکزی ادارے میں اپنی مطلق العنان حکومت وہ کسی بھی قیمت پر گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھیں پنجاب یونیورسٹی اساتذہ میں موجود اپنے اسلامی ہمدردوں کی فل سپورٹ حاصل تھی۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی کی مرکزی و صوبائی قیادت کی کبھی ڈھکی چپھی تو کبھی کھلی حمایت بھی جمعیت کو حاصل تھی۔ پنجاب یونیورسٹی میں جماعت کی سیاست کا ایک ہی محور تھا اپنی طاقت اور بالادستی قائم رکھو۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی دوسرے گروہ جیسے پختون گروہ، تحریک انصاف کا گروہ، طاہر القادری کا طلبا ونگ، شیعہ طلبا گروہ حتی کا تبلیغی جماعت (جو نظریاتی طور پر جمعیت کے بہت قریب تھی ) کو سر اٹھانے سے پھلے ہی کچل دو۔ اس معاملے میں جمعیت بلکل رعایت نہیں برتتی تھی۔ اس منطق پر دلائل میں سے ایک دلیل عمران خان کی جمعیت کے ہاتھوں پٹائی بھی ہے۔ اگرچہ اس زمانے میں قاضی حسین احمد اور عمران خان کی بھت دوستی تھی مگر پھر بھی جمعیت سے عمران خان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ برداشت نا ہوا اور اسے لگام دینا ضروری سمجھا گیا۔
اس واقعہ پر مرحوم قاضی صاحب نے ایک قالم لکھ کر جمعیت کی ہلکی پھلکی کلاس بھی لی تھی۔ جو ہمارے ناقص علم کی رو سے کسی جماعت اسلامی کے سربراہ کی جانب سے جمعیت کی سرزنش کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ ورنہ عام طور سے جماعت کے وسیع تر مفاد میں جمعیت کی بدمعاشی پر وہی طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے جو طالبان کے دھماکوں پر جماعت کی جانب سے ایک لمبے عرصے تک اختیار کیا جاتا رھا۔
جمعیت کی اچھی باتیں!
جمعیت کے حامی جو دلائل جمعیت کے حق میں پیش کرتے ہیں، ان میں سے اہم اہم یہ ہیں
1) جمعیت نے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی ماحول قائم رکھا ہوا ہے جبکہ دیگر جامعات جہاں جماعت نہیں ہے ڈیٹنگ پوا ئنٹ بن چکی ہیں۔
2) یونیورسٹی میں طلبا کو جماعت کی وجہ سے بہت سارے فوائد ہیں۔ جیسے تمام کیفے وغیرہ پر قیمتیں بہت کم ہیں اور یونیورسٹی فیس میں اضافہ بھی جمعیت نہیں ہونے دیتی۔
جمعیت کی بری باتیں!
جمعیت میں جو نقائص ہم نے دیکھے ان میں سے اہم یہ ہیں
1) تشدد کا کلچر عام کرنا۔ جمعیت ہر دوسرے دن کسی نہ کسی کو پھینٹی لگا رہی ہوتی ہے۔ جس سے جامعہ میں خوف اور تشدد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
2) عدم برداشت۔ جمعیت کسی کو برداشت نہیں کرتی۔ اور اپنے موقف پر انتہائی سخت دکھائی دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے عدم برداشت پھیلتی ہے۔
3) تعلیمی معیار میں کمی : افسوس کا مقام ہے کہ تقسیم سے پہلے پاکستانی علاقے میں سب سی پہلے بننے والی یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ جمعیت بھی ہے جو اپنے نام نہاد اسلامی مقاصد کی خاطر تعلیم کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ جیسے اساتذہ میں اپنے لوگ بھرتی کروانا، اپنے لوگوں کو پاس کروانا، اپنی مرضی کے کلاس مانیٹر CR وغیرہ بنوانا۔ اچھے تحقیقی استادوں کو فضول جھگڑوں میں الجھائے رکھنا وغیرہ۔
4) اپنے کارکنوں کو بدمعاشی پر لگا کر ان کے مستقبل تباہ کرنا۔
http://www.humsub.com.pk/57101/nadir-abbas/
Last edited by a moderator: