ججوں کا سٹیج ڈرامہ ادکاروں نے دل جیت لیے میں شروع دن سے کہہ رہا تھا یہ سب ججوں کا سٹیج ڈرامہ ہے جو انہوں نے لگایا ہوا تھا ججوں میں قاضی فائز عیسی دوسرا نواز شریف ہے ججوں کے سامنے ہر کسی کو گالیاں دیتا تھا وہ پاکستان کو اعلانیہ گٹر کہتا تھا پاکستان کے کے رہنے والے کومنافقین کہتا تھا اس کے نزدیک۔۔۔۔۔۔ وہ دعوئے کرتا ہے میرے بڑوں نے پاکستان بنایا تھا اور میں مدر پدر آزاد ہوں وہ تو اسلام کے متعلق تک کہتا ہے کہ آئین اسلام سے بھی اوپر ہے فوجیوں کو تواتر کے ساتھ گالیاں دیتا تھا اس کا مشن تھا کہ ہمیں نہ پوچھا جائے اگر کوئی ہمیں پوچھے گا تو ہم اس کی ماں بہن ایک کر دیں گیں اس سے پہلے بھی ججوں کا صدارتی ریفرنس کا خارج کرنا صاف ظاہر تھا کہ ہم ہر کسی احتساب سے پاک ہیں مخالف وکیل کو اچھل اچھل کے پڑنا اور بات نہ کرنے دینا اور ججزدیکھ کر انجوائے کر رہے ہوتے تھے اور با ر با ر قاضی فائز عیسی اور اس کی بیوی سے معافیاں مانگتے تھے پھر مزے مزے سےآپس میں بھی لڑ پڑتے تھے جیسے کہیں گولف کھیلنے آئے ہوں قوم کا پیسہ ان کی عیاشیاں دیکھنی والی تھیں قاضی فائز عیسی اور اس کی بیوی سےشہد کی بوتلوں کے تحفوں کےتبادلے اور ان کے تذکرے اورقاضی ٖ فائز عیسی بیگم سمیت چیف جسٹس ے ملاقاتیں سب ظاہر تھا یہ ڈرامہ چل رہا ہے اور ادکاریاں باخوبی نبھائی جا رہیں ہیں کہ اس کرپشن کے سائے میں ہم سب ایک ہیں کا گیت بیک گراؤند میں چل رہا تھا خیر ججوں نے آج بتا دیا اگر انصاف کا رخ ہماری طرف کیا تو ہم انصاف کے کپڑے پھاڑ کر اسے سر بازار ننگا کر دیں گیں اور کر بھی دیا
دنیا دیکھ رہی ہےابھی لوہار ہائی کورٹ میں کیا ہورہا ہے سب دیکھ رہیں ہیں چھٹی کے دن عدالتیں لگا کر ضمانتیں دی جارہی ہے ملزم کو گرفتاری سے 10 دن پہلے بتانے کا کہا جارہا ہے کس طرح نونی لیگ کو نوازنے کے لیے جج ڈسپلن کے خلاف جا کر آپس میں جھگڑ کر نونی لیگ کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ پر جج ضمانت ایسے بانٹ رہے ہیں کہ یہ کوئی جرم ہی نہیں منشیات فروش رانا ثنا اللہ کو اوٹ اف وے جا کر ضمانت دی گئی ہے ججوں کو اپوئنٹ کرنے پر جوتوں میں دال بٹ رہی ہے ہر کوئی اپنے جج لگا نے کے چکر میں ہے
ججوں کے پاس ایک موقعہ تھا کہ یہ ساری عمر انصاف کرنے پر جو تنخواہیں لیتے ہیں وہ حلال کرنے کا لیکن ججوں کے اس یو ٹرن نے ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان میں ا نصاف کی حکمرانی صرف عام عوام تک چاہتے ہیں اس جج نے کیا نہیں کیا ٹیں ٹیں سب کو گالیاں دی عام عوام ملک تک نہ چھوڑا ہر کسی کو کاٹنے کا دوڑالیکن اس کے ساتھی ججوں پھر بھی اس کا ساتھ دے کر ثابت کیا کہ پاکستان میں انصاف اندھا ہی نہیں دو ہاتھ آگے بہرہ بھی ہے پاکستان کا عدل نظام کبھی قابل تعریف نہیں رہا
آخری پیشی پر فائز عیسی عدالت کو ایک لطیفہ سنانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ججوں نے روک دیا کیوں کہ عدالت کے ججز جانتے تھے اس سے بڑا لطیفہ ہم سنانے جارہے ہیں
اتنے دن ایک لطیفہ تو کیا پورا سٹیج ڈرامہ ہی تو چلتا رہا جس سے لوگ محظوظ ہوتے رہے
بلکہ جب بھی فیصلہ پڑھیں گیں محظوظ ہی ہوں گیں آج ان سب لوگوں کی توہین ہوئی جو عدلیہ کی آزادی میں شریک تھے ہر کوئی اس کو پر شرمندہ ہے کہ ہم نے انصاف کی آزادی کے لیے کوشش کی تھی یہاں تو عدلیہ مادر پدر آزاد ہوگئی