gorgias
Chief Minister (5k+ posts)
اغوا کرنے والوں نے لڑکی کو چھوڑ دیا تو ڈیٹا چیک کرکے فون بھی واپس کردیا تھا کیونکہ سفیر کی بیٹی تھی
یار آپ اتنی اچھی کہانیاں کیسے بنا لیتے ہیں۔
اغوا کرنے والوں نے لڑکی کو چھوڑ دیا تو ڈیٹا چیک کرکے فون بھی واپس کردیا تھا کیونکہ سفیر کی بیٹی تھی
chotiay randi ka bachaاصل سٹوری سے پہلے تھوڑی یادہانی کروا تا جاوں جب تم کہتے تھے۔ اسامہ بن لادن ہمارے پاس نہیں مگر وہ ایبٹ آباد چھاونی کے ملازمین کے درمیان رہائش پزیر نکلا، تم کہتے تھے کونسی کوئٹہ شوری ہمیں کیا معلوم کہاں ہے ملا عمر اور پھر پتا چلا کہ ملا عمر بھی کوئٹہ میں تھا اس کے بعد اخوندزادہ، اور ملا عبدالغنی بھی کوئٹہ میں تھے ان کے تمام اراکین شوری بھی ادھر ہی قیام پزیر رہے۔ آپ کی کسی بات کایقین کرنے کی بجاے ہم اسی لئے غیر ملکی میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ آپ جھوٹے ہو
ملکی سیکیورٹی اور بھارت سے مخاصمت کے عروج پر کچھ سفارت خانوں کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ان پر نگرانی بھی سخت سے سخت کی جارہی تھی ۔ خفیہ کیمروں سے مانیٹرنگ کے علاوہ سادہ لباس اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے سفرتخانوں کے اردگرد موجودگی بھی یقینی بنای گئی تھی۔ سفارتخانون کے ایریاز میں افغانستان کا سفارتخانہ اور انڈین قونصلیٹ سب سے حساس جگہیں بن چکی تھیں۔ ایسے حالات میں افغان سفیر کی بیٹی پیدل واک کرتی ہوی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکلتی ہے تو اردگرد موجود ایجنسیوں کے ہرکارے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ فورا ہی اوپر اطلاعیں دی جانے لگتی ہیں کہ سفارتی پروٹوکل کے برعکس سفیر کی بیٹی پیدل جارہی ہے تاکہ اسطرف ہماری توجہ نہ جاے لگتا ہے اس کا یہ دورہ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ فورا ہی قریب موجود ایسی ٹیکسیوں کو لڑکی کا پیچھا کرنے کا آرڈر دے دیا گیا جو قرب و جوار میں انہی امور کی انجام دہی کیلئے موجود رہتی تھیں۔ ان کے ڈرائیورز خفیہ ایجنسی کی ڈیوٹی پر مامور تھے
سفیر کی بیٹی نے تحفہ خریدنا تھا وہ اپنے کام کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی تو ایجنسیوں کے اہلکار اور بھی شک میں پڑجاتے اوپر مسلسل رپورٹس بھجوای جارہی تھیں۔ باالآخر اوپر سے آرڈر آیا کہ اسے گرفتارکرلیاجاے لہذا جس ٹیکسی میں وہ موجود تھی اس کے ڈرائیور نے اسلحہ نکال کر اسے رسیون سے جکڑ دیا اور دوسرے اہلکاروں نے دائیں بائیں بیٹھ کر لڑکی سے تفتیش شروع کردی۔ یاد رہے کہ یہ وہی ایجنسی ہے جس کے اہلکار دن دیہاڑے مخالف صحافیوں کو اٹھا کر لے جاتے رہے ہیں اور کسی کی لاش راول ڈیم سے اور کسی کی بلوچستان سے ملتی رہی ہے
خیر لڑکی سے تو کچھ نہ ملا مگر اوپر سے گھبراے ہوے لہجے میں باس نے کہا کہ اسے فورا چھوڑ دو کیونکہ یہ سفیر کی بیٹی ہے جسکے بعد اس لڑکی کو چھوڑ دیا گیا
ایک لفافی ولاگر عمران ریاض خان نے ایک خودساختہ نیوی گیشن دکھا کر بتایا کہ یہ لڑکی فلاں فلاں جگہ گئی ہے۔ یوتھئیے عقل کے اندھے اس پر یقین کرکے بیٹھ گئے حالانکہ یہ بات اتنے وثوق سے کہنا ہی جہالت کی نشانی ہے۔ اگر میں کسی کو اغوا کرکے ٹیکسی میں ہی ادھر ادھر گھماتا جاوں تو اس بے چارے کے موبائل کی لوکیشن تو وہی بتاے گی جدھر جدھر ہم گئے ہونگے۔ پھر کہا گیا کہ ایک جگہ اس لڑکی نے انٹرنیٹ بھی استعمال کیا تھا۔ جواب وہی کہ جاہل انسان جب ایک فرد اغوا کرنے والے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے تو اس کا فون بھی چھین لیا جاتا ہے اب اس فون کو کوی بھی دھوکا دینے کیلئے استعمال کرے تو اس سے اغوا ہونے والا بے چارہ جھوٹا کیسے ثابت ہوگیا؟ اس میں اتنا شرلاک ہولمز بننے کی کونسی بات ہے؟ اسی ایک بات کو بنیاد بنا کر عمران ریاض نے کہا کہ لڑکی تو ادھر ادھر گھومتی رہی حالانکہ اس سے یہ ثابت نہین ہوتا کہ لڑکی اغوا نہیں ہوی۔ دوسرا نقطہ یہ دیا جس پر یوتھئے واہ واہ کررہے تھے کہ چاروں ٹیکسی ڈرائیور رابطے میں آچکے ہیں۔ عجیب جہالت ہے جب شیخو کنجر یہ بیان دے دے کہ لڑکی اغوا نہین ہوی تو ٹیکسی ڈرائیورز تو ہنستے ہوے رابطے کریں گے اور ویسے بھی یہ خفیہ اہلکار تھے تو ان کو کس کا ڈر ہے کہ وہ رابطے نہ کریں؟ ہاں کوی سویلین ڈرائیور ہوتا تو اب تک بھاگ چکا ہوتا ۔ ایک پاکستانی ایجنسی یہ بھیانک غلطی کرچکی ہے جس سے پاکستان پر پوری دنیا میں سبکی کے علاوہ پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں تو اب اس پر مٹی ڈالی جارہی ہے
ٹیکسی ڈرائیورز درحقیقت ایجنسیوں کے اہلکار ہی تھے اور ان سے جو بھیانک غلطی ہوی وہ ان کا قصور نہیں تھا بلکہ اوپر سے آرڈر تھے لہذا ان کو چھوڑ دینا چاہئے مگر اس خفیہ ایجنسی کے بڑوں کو سزا ملنی چاہئے جن کی وجہ سے یہ ایڈونچر تخیلق پایا
Foreign youthias should learn to engage in civilised discussion rather than attacking anyone who posts critical views. You all live overseas and enjoy freedom of speech and respect but when it comes to Pakistan, you guys quickly become abusive.
I think op has raised a valid question, we can’t believe whatever ispr or sheikh Rasheed says, simply because we have a history of state lying to its people.
we as common citizens don’t know the facts, So no one amongst us is a position to post a decisive judgment.
If we keep galee galoch under control, believe me, these threads can turn very interesting.
this site needs moderation.
او خانہ خراب کا بچہ تمہیں مالوم نہیں جب کوی گالی دیتا ہے تو فرشتہ اس کے گناہ لکھ لیتا ہے اور پھر اسے جہنم میں ڈالے گا میں اسی لئے جواب نہیں دیتاItna time waste karke chay panay ki thread likhta hai kion ke isaay gali khanay ka shoq hai
This is a life threat. You will be responsible for that if anything happens.تیرا باپ یا بھای بھی مار کر راول ڈیم میں پھینکا جاے گا تو مجھے یاد کرنا
جتنی گالیاں تم دو گے اتنی ہی جلدی تم جہنم میں جلو گے فراری لید خور جیHey dumbfuck, do a better job at peddling your traitorous bullshit.
Yes everybody.. let's not trust ISPR, but instead believe the haramkhor Afghani namak haramis or the khatri shuddar dalit piss drinking shit eating endian terrorists.
Those endians own the gando noora gang and how much more proof do you people still need? If this site had any moderation, then the first fucks who would be banned would be these piss drinking pigs who have sold their mothers for a few sheckles.
اصل سٹوری سے پہلے تھوڑی یادہانی کروا تا جاوں جب تم کہتے تھے۔ اسامہ بن لادن ہمارے پاس نہیں مگر وہ ایبٹ آباد چھاونی کے ملازمین کے درمیان رہائش پزیر نکلا، تم کہتے تھے کونسی کوئٹہ شوری ہمیں کیا معلوم کہاں ہے ملا عمر اور پھر پتا چلا کہ ملا عمر بھی کوئٹہ میں تھا اس کے بعد اخوندزادہ، اور ملا عبدالغنی بھی کوئٹہ میں تھے ان کے تمام اراکین شوری بھی ادھر ہی قیام پزیر رہے۔ آپ کی کسی بات کایقین کرنے کی بجاے ہم اسی لئے غیر ملکی میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ آپ جھوٹے ہو
ملکی سیکیورٹی اور بھارت سے مخاصمت کے عروج پر کچھ سفارت خانوں کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ان پر نگرانی بھی سخت سے سخت کی جارہی تھی ۔ خفیہ کیمروں سے مانیٹرنگ کے علاوہ سادہ لباس اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے سفرتخانوں کے اردگرد موجودگی بھی یقینی بنای گئی تھی۔ سفارتخانون کے ایریاز میں افغانستان کا سفارتخانہ اور انڈین قونصلیٹ سب سے حساس جگہیں بن چکی تھیں۔ ایسے حالات میں افغان سفیر کی بیٹی پیدل واک کرتی ہوی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکلتی ہے تو اردگرد موجود ایجنسیوں کے ہرکارے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ فورا ہی اوپر اطلاعیں دی جانے لگتی ہیں کہ سفارتی پروٹوکل کے برعکس سفیر کی بیٹی پیدل جارہی ہے تاکہ اسطرف ہماری توجہ نہ جاے لگتا ہے اس کا یہ دورہ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ فورا ہی قریب موجود ایسی ٹیکسیوں کو لڑکی کا پیچھا کرنے کا آرڈر دے دیا گیا جو قرب و جوار میں انہی امور کی انجام دہی کیلئے موجود رہتی تھیں۔ ان کے ڈرائیورز خفیہ ایجنسی کی ڈیوٹی پر مامور تھے
سفیر کی بیٹی نے تحفہ خریدنا تھا وہ اپنے کام کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی تو ایجنسیوں کے اہلکار اور بھی شک میں پڑجاتے اوپر مسلسل رپورٹس بھجوای جارہی تھیں۔ باالآخر اوپر سے آرڈر آیا کہ اسے گرفتارکرلیاجاے لہذا جس ٹیکسی میں وہ موجود تھی اس کے ڈرائیور نے اسلحہ نکال کر اسے رسیون سے جکڑ دیا اور دوسرے اہلکاروں نے دائیں بائیں بیٹھ کر لڑکی سے تفتیش شروع کردی۔ یاد رہے کہ یہ وہی ایجنسی ہے جس کے اہلکار دن دیہاڑے مخالف صحافیوں کو اٹھا کر لے جاتے رہے ہیں اور کسی کی لاش راول ڈیم سے اور کسی کی بلوچستان سے ملتی رہی ہے
خیر لڑکی سے تو کچھ نہ ملا مگر اوپر سے گھبراے ہوے لہجے میں باس نے کہا کہ اسے فورا چھوڑ دو کیونکہ یہ سفیر کی بیٹی ہے جسکے بعد اس لڑکی کو چھوڑ دیا گیا
ایک لفافی ولاگر عمران ریاض خان نے ایک خودساختہ نیوی گیشن دکھا کر بتایا کہ یہ لڑکی فلاں فلاں جگہ گئی ہے۔ یوتھئیے عقل کے اندھے اس پر یقین کرکے بیٹھ گئے حالانکہ یہ بات اتنے وثوق سے کہنا ہی جہالت کی نشانی ہے۔ اگر میں کسی کو اغوا کرکے ٹیکسی میں ہی ادھر ادھر گھماتا جاوں تو اس بے چارے کے موبائل کی لوکیشن تو وہی بتاے گی جدھر جدھر ہم گئے ہونگے۔ پھر کہا گیا کہ ایک جگہ اس لڑکی نے انٹرنیٹ بھی استعمال کیا تھا۔ جواب وہی کہ جاہل انسان جب ایک فرد اغوا کرنے والے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے تو اس کا فون بھی چھین لیا جاتا ہے اب اس فون کو کوی بھی دھوکا دینے کیلئے استعمال کرے تو اس سے اغوا ہونے والا بے چارہ جھوٹا کیسے ثابت ہوگیا؟ اس میں اتنا شرلاک ہولمز بننے کی کونسی بات ہے؟ اسی ایک بات کو بنیاد بنا کر عمران ریاض نے کہا کہ لڑکی تو ادھر ادھر گھومتی رہی حالانکہ اس سے یہ ثابت نہین ہوتا کہ لڑکی اغوا نہیں ہوی۔ دوسرا نقطہ یہ دیا جس پر یوتھئے واہ واہ کررہے تھے کہ چاروں ٹیکسی ڈرائیور رابطے میں آچکے ہیں۔ عجیب جہالت ہے جب شیخو کنجر یہ بیان دے دے کہ لڑکی اغوا نہین ہوی تو ٹیکسی ڈرائیورز تو ہنستے ہوے رابطے کریں گے اور ویسے بھی یہ خفیہ اہلکار تھے تو ان کو کس کا ڈر ہے کہ وہ رابطے نہ کریں؟ ہاں کوی سویلین ڈرائیور ہوتا تو اب تک بھاگ چکا ہوتا ۔ ایک پاکستانی ایجنسی یہ بھیانک غلطی کرچکی ہے جس سے پاکستان پر پوری دنیا میں سبکی کے علاوہ پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں تو اب اس پر مٹی ڈالی جارہی ہے
ٹیکسی ڈرائیورز درحقیقت ایجنسیوں کے اہلکار ہی تھے اور ان سے جو بھیانک غلطی ہوی وہ ان کا قصور نہیں تھا بلکہ اوپر سے آرڈر تھے لہذا ان کو چھوڑ دینا چاہئے مگر اس خفیہ ایجنسی کے بڑوں کو سزا ملنی چاہئے جن کی وجہ سے یہ ایڈونچر تخیلق پایا
جو مارتے ہیں ان کی بات کررہا ہوں کہ جب وہ کسی کا بیٹا مارتے ہیں تو درد اسی کو ہوتا ہے تم لوگ جوکس کرتے ہو کہ یہ غدار مار دیا وغیر ہ جب کبھی یہ وقت تم پر آے گا تو پھر بھی خوش ہولینا یا ان کو یاد کرلینا جو ظالموں کے ہاتھوں ظلم سہتے سہتے مارے گئےThis is a life threat. You will be responsible for that if anything happens.
یہ آف ٹاپک بکواس کی ہے اصل مدے پر بات کراگر یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے تو نواز کتا گانڈ مروانے کا لیڈر تھا؟؟؟
اس بیچارے کو تو اپنے گیراج کا نہیں پتا تھا تو حرامی اس عوام کے
سر پر گانڈ مروانے بیٹھا تھا؟؟
اگر یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے تو نواز کتا گانڈ مروانے کا لیڈر تھا؟؟؟
اس بیچارے کو تو اپنے گیراج کا نہیں پتا تھا تو حرامی اس عوام کے
سر پر گانڈ مروانے بیٹھا تھا؟؟
وہ کتا لیڈر تھا کے گیدڑ
مریم کنجری نے کبھی سچ بولا ہے جو شیرو کتا بولے گا؟؟؟From this article, I get the impression that the writer had a very wet dream last night, and he missed out on the first jamaat this morning.
اوجا چوتیے تیری اوقات کیا ہے؟تو بھی عابد شیر علی کی نسل ہے۔ عید کے دن بھی عوام کی گالیاں سنتا اور دیتا ہے
اصل مدا تو یہی ہے کہ نواز دلے ہاروں والے کی اولاد کنجر اگر کچھ نہیں کر سکتا تھا تو دلایہ آف ٹاپک بکواس کی ہے اصل مدے پر بات کر
ایک دلے ہاروں والے کتے کا کتا مجھ سے پوچھ رہا ہے میری اوقات کیا ہے؟؟ ہا ہا ہااوجا چوتیے تیری اوقات کیا ہے؟
میں جواب نہ دوں تو کوی تجھے جوتے بھی نہ مارے پی ٹی آی کے ممبرز تجھے کیا کہتے ہیں اسی سے تیری اوقات کا پتا چل جاتاہے
پی ٹی آئی کے ممبرز میرے اپنے ہیں۔ تیرے جیسے ڈنگر حرامخور پٹواریوں کی ان کے سامنے کیا اوقات۔اوجا چوتیے تیری اوقات کیا ہے؟
میں جواب نہ دوں تو کوی تجھے جوتے بھی نہ مارے پی ٹی آی کے ممبرز تجھے کیا کہتے ہیں اسی سے تیری اوقات کا پتا چل جاتاہے
جتنی گالیاں تم دو گے اتنی ہی جلدی تم جہنم میں جلو گے فراری لید خور جی
اگرتم لیدخور نہیں اور پنجابی ہو تو بتاو
With due respect, this is borderline treasonous, apart from being plain old stupid.اصل سٹوری سے پہلے تھوڑی یادہانی کروا تا جاوں جب تم کہتے تھے۔ اسامہ بن لادن ہمارے پاس نہیں مگر وہ ایبٹ آباد چھاونی کے ملازمین کے درمیان رہائش پزیر نکلا، تم کہتے تھے کونسی کوئٹہ شوری ہمیں کیا معلوم کہاں ہے ملا عمر اور پھر پتا چلا کہ ملا عمر بھی کوئٹہ میں تھا اس کے بعد اخوندزادہ، اور ملا عبدالغنی بھی کوئٹہ میں تھے ان کے تمام اراکین شوری بھی ادھر ہی قیام پزیر رہے۔ آپ کی کسی بات کایقین کرنے کی بجاے ہم اسی لئے غیر ملکی میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ آپ جھوٹے ہو
ملکی سیکیورٹی اور بھارت سے مخاصمت کے عروج پر کچھ سفارت خانوں کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ان پر نگرانی بھی سخت سے سخت کی جارہی تھی ۔ خفیہ کیمروں سے مانیٹرنگ کے علاوہ سادہ لباس اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے سفرتخانوں کے اردگرد موجودگی بھی یقینی بنای گئی تھی۔ سفارتخانون کے ایریاز میں افغانستان کا سفارتخانہ اور انڈین قونصلیٹ سب سے حساس جگہیں بن چکی تھیں۔ ایسے حالات میں افغان سفیر کی بیٹی پیدل واک کرتی ہوی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکلتی ہے تو اردگرد موجود ایجنسیوں کے ہرکارے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ فورا ہی اوپر اطلاعیں دی جانے لگتی ہیں کہ سفارتی پروٹوکل کے برعکس سفیر کی بیٹی پیدل جارہی ہے تاکہ اسطرف ہماری توجہ نہ جاے لگتا ہے اس کا یہ دورہ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ فورا ہی قریب موجود ایسی ٹیکسیوں کو لڑکی کا پیچھا کرنے کا آرڈر دے دیا گیا جو قرب و جوار میں انہی امور کی انجام دہی کیلئے موجود رہتی تھیں۔ ان کے ڈرائیورز خفیہ ایجنسی کی ڈیوٹی پر مامور تھے
سفیر کی بیٹی نے تحفہ خریدنا تھا وہ اپنے کام کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی تو ایجنسیوں کے اہلکار اور بھی شک میں پڑجاتے اوپر مسلسل رپورٹس بھجوای جارہی تھیں۔ باالآخر اوپر سے آرڈر آیا کہ اسے گرفتارکرلیاجاے لہذا جس ٹیکسی میں وہ موجود تھی اس کے ڈرائیور نے اسلحہ نکال کر اسے رسیون سے جکڑ دیا اور دوسرے اہلکاروں نے دائیں بائیں بیٹھ کر لڑکی سے تفتیش شروع کردی۔ یاد رہے کہ یہ وہی ایجنسی ہے جس کے اہلکار دن دیہاڑے مخالف صحافیوں کو اٹھا کر لے جاتے رہے ہیں اور کسی کی لاش راول ڈیم سے اور کسی کی بلوچستان سے ملتی رہی ہے
خیر لڑکی سے تو کچھ نہ ملا مگر اوپر سے گھبراے ہوے لہجے میں باس نے کہا کہ اسے فورا چھوڑ دو کیونکہ یہ سفیر کی بیٹی ہے جسکے بعد اس لڑکی کو چھوڑ دیا گیا
ایک لفافی ولاگر عمران ریاض خان نے ایک خودساختہ نیوی گیشن دکھا کر بتایا کہ یہ لڑکی فلاں فلاں جگہ گئی ہے۔ یوتھئیے عقل کے اندھے اس پر یقین کرکے بیٹھ گئے حالانکہ یہ بات اتنے وثوق سے کہنا ہی جہالت کی نشانی ہے۔ اگر میں کسی کو اغوا کرکے ٹیکسی میں ہی ادھر ادھر گھماتا جاوں تو اس بے چارے کے موبائل کی لوکیشن تو وہی بتاے گی جدھر جدھر ہم گئے ہونگے۔ پھر کہا گیا کہ ایک جگہ اس لڑکی نے انٹرنیٹ بھی استعمال کیا تھا۔ جواب وہی کہ جاہل انسان جب ایک فرد اغوا کرنے والے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے تو اس کا فون بھی چھین لیا جاتا ہے اب اس فون کو کوی بھی دھوکا دینے کیلئے استعمال کرے تو اس سے اغوا ہونے والا بے چارہ جھوٹا کیسے ثابت ہوگیا؟ اس میں اتنا شرلاک ہولمز بننے کی کونسی بات ہے؟ اسی ایک بات کو بنیاد بنا کر عمران ریاض نے کہا کہ لڑکی تو ادھر ادھر گھومتی رہی حالانکہ اس سے یہ ثابت نہین ہوتا کہ لڑکی اغوا نہیں ہوی۔ دوسرا نقطہ یہ دیا جس پر یوتھئے واہ واہ کررہے تھے کہ چاروں ٹیکسی ڈرائیور رابطے میں آچکے ہیں۔ عجیب جہالت ہے جب شیخو کنجر یہ بیان دے دے کہ لڑکی اغوا نہین ہوی تو ٹیکسی ڈرائیورز تو ہنستے ہوے رابطے کریں گے اور ویسے بھی یہ خفیہ اہلکار تھے تو ان کو کس کا ڈر ہے کہ وہ رابطے نہ کریں؟ ہاں کوی سویلین ڈرائیور ہوتا تو اب تک بھاگ چکا ہوتا ۔ ایک پاکستانی ایجنسی یہ بھیانک غلطی کرچکی ہے جس سے پاکستان پر پوری دنیا میں سبکی کے علاوہ پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں تو اب اس پر مٹی ڈالی جارہی ہے
ٹیکسی ڈرائیورز درحقیقت ایجنسیوں کے اہلکار ہی تھے اور ان سے جو بھیانک غلطی ہوی وہ ان کا قصور نہیں تھا بلکہ اوپر سے آرڈر تھے لہذا ان کو چھوڑ دینا چاہئے مگر اس خفیہ ایجنسی کے بڑوں کو سزا ملنی چاہئے جن کی وجہ سے یہ ایڈونچر تخیلق پایا
اصل سٹوری سے پہلے تھوڑی یادہانی کروا تا جاوں جب تم کہتے تھے۔ اسامہ بن لادن ہمارے پاس نہیں مگر وہ ایبٹ آباد چھاونی کے ملازمین کے درمیان رہائش پزیر نکلا، تم کہتے تھے کونسی کوئٹہ شوری ہمیں کیا معلوم کہاں ہے ملا عمر اور پھر پتا چلا کہ ملا عمر بھی کوئٹہ میں تھا اس کے بعد اخوندزادہ، اور ملا عبدالغنی بھی کوئٹہ میں تھے ان کے تمام اراکین شوری بھی ادھر ہی قیام پزیر رہے۔ آپ کی کسی بات کایقین کرنے کی بجاے ہم اسی لئے غیر ملکی میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ آپ جھوٹے ہو
ملکی سیکیورٹی اور بھارت سے مخاصمت کے عروج پر کچھ سفارت خانوں کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ان پر نگرانی بھی سخت سے سخت کی جارہی تھی ۔ خفیہ کیمروں سے مانیٹرنگ کے علاوہ سادہ لباس اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے سفرتخانوں کے اردگرد موجودگی بھی یقینی بنای گئی تھی۔ سفارتخانون کے ایریاز میں افغانستان کا سفارتخانہ اور انڈین قونصلیٹ سب سے حساس جگہیں بن چکی تھیں۔ ایسے حالات میں افغان سفیر کی بیٹی پیدل واک کرتی ہوی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکلتی ہے تو اردگرد موجود ایجنسیوں کے ہرکارے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ فورا ہی اوپر اطلاعیں دی جانے لگتی ہیں کہ سفارتی پروٹوکل کے برعکس سفیر کی بیٹی پیدل جارہی ہے تاکہ اسطرف ہماری توجہ نہ جاے لگتا ہے اس کا یہ دورہ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ فورا ہی قریب موجود ایسی ٹیکسیوں کو لڑکی کا پیچھا کرنے کا آرڈر دے دیا گیا جو قرب و جوار میں انہی امور کی انجام دہی کیلئے موجود رہتی تھیں۔ ان کے ڈرائیورز خفیہ ایجنسی کی ڈیوٹی پر مامور تھے
سفیر کی بیٹی نے تحفہ خریدنا تھا وہ اپنے کام کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی تو ایجنسیوں کے اہلکار اور بھی شک میں پڑجاتے اوپر مسلسل رپورٹس بھجوای جارہی تھیں۔ باالآخر اوپر سے آرڈر آیا کہ اسے گرفتارکرلیاجاے لہذا جس ٹیکسی میں وہ موجود تھی اس کے ڈرائیور نے اسلحہ نکال کر اسے رسیون سے جکڑ دیا اور دوسرے اہلکاروں نے دائیں بائیں بیٹھ کر لڑکی سے تفتیش شروع کردی۔ یاد رہے کہ یہ وہی ایجنسی ہے جس کے اہلکار دن دیہاڑے مخالف صحافیوں کو اٹھا کر لے جاتے رہے ہیں اور کسی کی لاش راول ڈیم سے اور کسی کی بلوچستان سے ملتی رہی ہے
خیر لڑکی سے تو کچھ نہ ملا مگر اوپر سے گھبراے ہوے لہجے میں باس نے کہا کہ اسے فورا چھوڑ دو کیونکہ یہ سفیر کی بیٹی ہے جسکے بعد اس لڑکی کو چھوڑ دیا گیا
ایک لفافی ولاگر عمران ریاض خان نے ایک خودساختہ نیوی گیشن دکھا کر بتایا کہ یہ لڑکی فلاں فلاں جگہ گئی ہے۔ یوتھئیے عقل کے اندھے اس پر یقین کرکے بیٹھ گئے حالانکہ یہ بات اتنے وثوق سے کہنا ہی جہالت کی نشانی ہے۔ اگر میں کسی کو اغوا کرکے ٹیکسی میں ہی ادھر ادھر گھماتا جاوں تو اس بے چارے کے موبائل کی لوکیشن تو وہی بتاے گی جدھر جدھر ہم گئے ہونگے۔ پھر کہا گیا کہ ایک جگہ اس لڑکی نے انٹرنیٹ بھی استعمال کیا تھا۔ جواب وہی کہ جاہل انسان جب ایک فرد اغوا کرنے والے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے تو اس کا فون بھی چھین لیا جاتا ہے اب اس فون کو کوی بھی دھوکا دینے کیلئے استعمال کرے تو اس سے اغوا ہونے والا بے چارہ جھوٹا کیسے ثابت ہوگیا؟ اس میں اتنا شرلاک ہولمز بننے کی کونسی بات ہے؟ اسی ایک بات کو بنیاد بنا کر عمران ریاض نے کہا کہ لڑکی تو ادھر ادھر گھومتی رہی حالانکہ اس سے یہ ثابت نہین ہوتا کہ لڑکی اغوا نہیں ہوی۔ دوسرا نقطہ یہ دیا جس پر یوتھئے واہ واہ کررہے تھے کہ چاروں ٹیکسی ڈرائیور رابطے میں آچکے ہیں۔ عجیب جہالت ہے جب شیخو کنجر یہ بیان دے دے کہ لڑکی اغوا نہین ہوی تو ٹیکسی ڈرائیورز تو ہنستے ہوے رابطے کریں گے اور ویسے بھی یہ خفیہ اہلکار تھے تو ان کو کس کا ڈر ہے کہ وہ رابطے نہ کریں؟ ہاں کوی سویلین ڈرائیور ہوتا تو اب تک بھاگ چکا ہوتا ۔ ایک پاکستانی ایجنسی یہ بھیانک غلطی کرچکی ہے جس سے پاکستان پر پوری دنیا میں سبکی کے علاوہ پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں تو اب اس پر مٹی ڈالی جارہی ہے
ٹیکسی ڈرائیورز درحقیقت ایجنسیوں کے اہلکار ہی تھے اور ان سے جو بھیانک غلطی ہوی وہ ان کا قصور نہیں تھا بلکہ اوپر سے آرڈر تھے لہذا ان کو چھوڑ دینا چاہئے مگر اس خفیہ ایجنسی کے بڑوں کو سزا ملنی چاہئے جن کی وجہ سے یہ ایڈونچر تخیلق پایا