ALI ARYAN
Senator (1k+ posts)
پچھلے چند ماہ کے اگر سیاسی ماحول اور سیاسی بیانات کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال کچھ ایسی بنتی ہے کے کی بار سیاسی صورت حال اس نہج پر گئے کے حکومت چند گھنٹوں کی مہمان نظر آئی. مثال کے طور پر :
١) متحدہ کی حکومت سے علیحدگی.
٢) عدلیہ اور حکومت کی حالیہ رسہ کشی مندرجہ بالا دونوں حالات میں جب ملک ایک سیاسی بحران سے دوچار تھا سب سے دیدنی حالت تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی تھی جو کے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے انکی اس حالت کے پیش نظر ایک محاورہ یاد ایٹا ہے کی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے، لیکن شو مئی قسمت چھینکا نہیں ٹوٹا. اور اس چھینکا نہ ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار جرنل کیانی کا رہا جنھوں نے کسی بھی ملک دشمن کاروائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور بہت ہی مدبرانہ انداز میں فریقین کے سیاسی اختلافات کو دونوں فریق کی سیاسی استداد پر چھوڑ کر سیاسی قائدین کو موقع دیا.. جرنل کیانی کے ان اقدامات کی روشنی میں ایک طرف تو ملک کے سیاسی ماحول کو سہارا ملا اور ملک کے اندر ایک نیے انداز کی سیاست دیکھنے کو ملی لیکن تصویر کے دوسرے رخ پر عمران خان کا غم و غصّہ قابو سے بھر ہے جس کا سبب انکو غیر ملکی طاقتوں سے کی طرف سے (اسرائیل، امریکا اور انڈیا ) دلائی گئے یقین دہانی تھی . اور اپنی خویش کو لب بام ٹوٹتا دیکھ کر وہ پاک افواج پر دبے الفاظوں میں تنقید پر اتر اے اور ابھی ایک حلیہ بیان میں پاک افواج کو اپنے جاہلانہ مشوروں سے نواز رہے تھے کے پاک افواج کو آگے بڑھ کر عدلیہ کی مدد کرنی چاہیے . انکے اس بیان سے وہ منافقت عیاں ہوتی ہے جو کے ان کی شخصیت کا خاصہ ہے. اسی طرح سے بارہ اکتوبر ننانوے میں انھوں سب سے پہلے آگے بڑھ کر مشرف کو خوش آمدید کہا اور انکے بطور چیف اگزیکٹو پاکستان اٹھے گئے تمام اقدامات کی تائید کی اور دامے، درمے، قدمے اور سخنے مشرف کا ساتھ دیتے رہے (یاد رہے کے چیف اگزیکٹو کا کوئی بھی عھدہ پاکستانی آئین میں نہیں ہے) پھر جب مشرف نے اپنے اسی غیر آینی عھدے کے دوران انتخابات کا ڈرامہ رچایا تو یہی عمران خان وزارت عظمیٰ کے لالچ میں مشرف کے اشاروں پر اس زور کا ناچے کے لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں اور مشرف کے ریفرینڈم میں اس درجہ پر جا کر مشرف کے حق میں انتخابی مہم چلائی کے مشرف خود بھی حیرت زدہ رہ گیا. (اس پر کسی نے کیا خوب کہا ہےشاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار) اس موقع پر جب مشرف نے انکو بطور پیادہ استمعال کرتے ہوے تمام آئین کے لوازمات مکمل کر لئے تو انکو بطور بخشش ایک قومی اسمبلی کی سیٹ عنایت کی جو کے انہیں اپنی خدمات کے عیو ض کم لگی ( کیونکے یہ دس سے پندرہ سیٹ کے خواشمند تھے) اس ایک یت ملنے اور وزارت عظمیٰ کے نہ ملنے کے صدمے میں یہ کچھ عرصہ اسمبلی میں خاموشی سے بیٹھے رہے اور اسی ذہنی صدمے کی حالت میں انکی ازدواجی زندگی کا بھی اختمام ہوا ( یاد رہے یہ اختمام بھی ایک ڈرامہ ہے یہ آج بھی جب بھی برطانیہ جاتے ہیں تو اپنی زوجہ کے گھر پر قیام و طعام کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کے انکی زندگی کے زیادہ تر سیتاسی فیصلوں میں جمائما گولڈ سمتھ کا ہاتھ ہوتا ہے اور اب اس اشارے کے بعد اس تفصیل میں جانا میں ضروری نہیں سمجھتا کے جمائما کو عشرے کہاں سے ہوتے ہیں) اسی ذہنی صدمے کی حالت میں انھوں نے ایک غیر ملکی اشارے پر یو ٹرن لیا اور پرویز مشرف کے خلاف بولنا شروع کر دیا . اسی اور پھر اسی یو ٹرن کے دوران انھوں یں لندن یاترا کے دوران نواز شریف کے ہاتھوں پر بیعت کی تحریک انصاف کو نواز شریف اور مشرف کے درمیان ہونے والے میچ میں مسلم لیگ نواز کا بطور بارہواں کھلاڑی بنا دیا. اور ایک اے تک عدلیہ تحریک میں بطور بارہواں کھلاڑی نواز شریف کی جگہ پر فیلڈنگ کرتے رہے اور جب بیٹنگ کا مرحلہ آتا تو نواز شریف خود بلا لے کر میدان میں آ جاتے تھے ( یاد رہے لانگ مارچ جب یہ روال پنڈی میں روپوش تھے اور نواز شریف لانگ مارچ کی قیادت کر رہا تھا ) اس طرح یہ دوسری بار نواز شریف کے ہاتھوں استمعال ہونے کے بعد ایک ارسنے تک دوبارہ صدمے کی کیفیت میں رہے اسی دوران ان کے غیر ملکی آقاؤں نے انکی رنجدلی کو بھانپتے ہوے ایک نیے ٹاسک کے ساتھ انکو میدان عمل میں اتارا کے مستقبل میں پھر وزارت عظمیٰ کا لالچ دیا اور حکومت ہٹاؤ ملک بچاؤ کی تحریک کے آغاز کا حکم دیا اب یہاں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کے تحریک حکومت ہٹاؤ ہے اور حکومت زرداری کی ہے لیکن تنقید صرف اور صرف نواز شریف پر ہو رہی ہے زرداری کو اس طرح سے اس تحریک کی تنقید میں سے انھوں نے نکال باہر کر رکھا ہے جیسے کے زرداری کا حکومت ث اکوئی لینا دینا ہی نہیں جو بھی ہے وہ صرف نواز شریف ہے. اب اس کی سادہ سی وجہ یہ نظر آتی ہے کے اب انکے آقا یہ چاہتے ہیں کے پنجاب میں نواز شریف کے ووٹ بنک کو نقصان پوھنچائیں اور آنے والے دور میں زرادی کو بطور صدر اور زرداری مفاہمتی فارمولا میں خود کو وزیرآزم کا خواب دیکھ رہے ہیں یا دکھایا جا رہا ہے درحقیقت یہ بھولے ناتھ ایک بار پھر استمعال ہونے جا رہے ہیں. انکی اس متضاد سوچ اور اقدامات کے حوالے سے ملک کا بہت بڑا سنجیدہ طبقہ انکو اب تک نو آموز سیاستدان اور انتہا درجے کا بیوقوف سمجھتا ہے. اور انکی کسی بھی تحریک اور بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا اور آنے والے دنوں میں مجھ کو ایک بار پھر انکے ساتھ ووہی ہوتا نظر آ رہا ہے جو اس سے پیشتر انکے ساتھ ہوا یہ پھر لنڈورے ہی رہ جائیں گے ایسے لیڈران کے ساتھ ہوتا بھی ایسا ہی ہے جو کے ملکی عوام پر بھروسہ کرنے کے بجاے غیر سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر چلتے ہیں
١) متحدہ کی حکومت سے علیحدگی.
٢) عدلیہ اور حکومت کی حالیہ رسہ کشی مندرجہ بالا دونوں حالات میں جب ملک ایک سیاسی بحران سے دوچار تھا سب سے دیدنی حالت تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی تھی جو کے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے انکی اس حالت کے پیش نظر ایک محاورہ یاد ایٹا ہے کی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے، لیکن شو مئی قسمت چھینکا نہیں ٹوٹا. اور اس چھینکا نہ ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار جرنل کیانی کا رہا جنھوں نے کسی بھی ملک دشمن کاروائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور بہت ہی مدبرانہ انداز میں فریقین کے سیاسی اختلافات کو دونوں فریق کی سیاسی استداد پر چھوڑ کر سیاسی قائدین کو موقع دیا.. جرنل کیانی کے ان اقدامات کی روشنی میں ایک طرف تو ملک کے سیاسی ماحول کو سہارا ملا اور ملک کے اندر ایک نیے انداز کی سیاست دیکھنے کو ملی لیکن تصویر کے دوسرے رخ پر عمران خان کا غم و غصّہ قابو سے بھر ہے جس کا سبب انکو غیر ملکی طاقتوں سے کی طرف سے (اسرائیل، امریکا اور انڈیا ) دلائی گئے یقین دہانی تھی . اور اپنی خویش کو لب بام ٹوٹتا دیکھ کر وہ پاک افواج پر دبے الفاظوں میں تنقید پر اتر اے اور ابھی ایک حلیہ بیان میں پاک افواج کو اپنے جاہلانہ مشوروں سے نواز رہے تھے کے پاک افواج کو آگے بڑھ کر عدلیہ کی مدد کرنی چاہیے . انکے اس بیان سے وہ منافقت عیاں ہوتی ہے جو کے ان کی شخصیت کا خاصہ ہے. اسی طرح سے بارہ اکتوبر ننانوے میں انھوں سب سے پہلے آگے بڑھ کر مشرف کو خوش آمدید کہا اور انکے بطور چیف اگزیکٹو پاکستان اٹھے گئے تمام اقدامات کی تائید کی اور دامے، درمے، قدمے اور سخنے مشرف کا ساتھ دیتے رہے (یاد رہے کے چیف اگزیکٹو کا کوئی بھی عھدہ پاکستانی آئین میں نہیں ہے) پھر جب مشرف نے اپنے اسی غیر آینی عھدے کے دوران انتخابات کا ڈرامہ رچایا تو یہی عمران خان وزارت عظمیٰ کے لالچ میں مشرف کے اشاروں پر اس زور کا ناچے کے لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں اور مشرف کے ریفرینڈم میں اس درجہ پر جا کر مشرف کے حق میں انتخابی مہم چلائی کے مشرف خود بھی حیرت زدہ رہ گیا. (اس پر کسی نے کیا خوب کہا ہےشاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار) اس موقع پر جب مشرف نے انکو بطور پیادہ استمعال کرتے ہوے تمام آئین کے لوازمات مکمل کر لئے تو انکو بطور بخشش ایک قومی اسمبلی کی سیٹ عنایت کی جو کے انہیں اپنی خدمات کے عیو ض کم لگی ( کیونکے یہ دس سے پندرہ سیٹ کے خواشمند تھے) اس ایک یت ملنے اور وزارت عظمیٰ کے نہ ملنے کے صدمے میں یہ کچھ عرصہ اسمبلی میں خاموشی سے بیٹھے رہے اور اسی ذہنی صدمے کی حالت میں انکی ازدواجی زندگی کا بھی اختمام ہوا ( یاد رہے یہ اختمام بھی ایک ڈرامہ ہے یہ آج بھی جب بھی برطانیہ جاتے ہیں تو اپنی زوجہ کے گھر پر قیام و طعام کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کے انکی زندگی کے زیادہ تر سیتاسی فیصلوں میں جمائما گولڈ سمتھ کا ہاتھ ہوتا ہے اور اب اس اشارے کے بعد اس تفصیل میں جانا میں ضروری نہیں سمجھتا کے جمائما کو عشرے کہاں سے ہوتے ہیں) اسی ذہنی صدمے کی حالت میں انھوں نے ایک غیر ملکی اشارے پر یو ٹرن لیا اور پرویز مشرف کے خلاف بولنا شروع کر دیا . اسی اور پھر اسی یو ٹرن کے دوران انھوں یں لندن یاترا کے دوران نواز شریف کے ہاتھوں پر بیعت کی تحریک انصاف کو نواز شریف اور مشرف کے درمیان ہونے والے میچ میں مسلم لیگ نواز کا بطور بارہواں کھلاڑی بنا دیا. اور ایک اے تک عدلیہ تحریک میں بطور بارہواں کھلاڑی نواز شریف کی جگہ پر فیلڈنگ کرتے رہے اور جب بیٹنگ کا مرحلہ آتا تو نواز شریف خود بلا لے کر میدان میں آ جاتے تھے ( یاد رہے لانگ مارچ جب یہ روال پنڈی میں روپوش تھے اور نواز شریف لانگ مارچ کی قیادت کر رہا تھا ) اس طرح یہ دوسری بار نواز شریف کے ہاتھوں استمعال ہونے کے بعد ایک ارسنے تک دوبارہ صدمے کی کیفیت میں رہے اسی دوران ان کے غیر ملکی آقاؤں نے انکی رنجدلی کو بھانپتے ہوے ایک نیے ٹاسک کے ساتھ انکو میدان عمل میں اتارا کے مستقبل میں پھر وزارت عظمیٰ کا لالچ دیا اور حکومت ہٹاؤ ملک بچاؤ کی تحریک کے آغاز کا حکم دیا اب یہاں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کے تحریک حکومت ہٹاؤ ہے اور حکومت زرداری کی ہے لیکن تنقید صرف اور صرف نواز شریف پر ہو رہی ہے زرداری کو اس طرح سے اس تحریک کی تنقید میں سے انھوں نے نکال باہر کر رکھا ہے جیسے کے زرداری کا حکومت ث اکوئی لینا دینا ہی نہیں جو بھی ہے وہ صرف نواز شریف ہے. اب اس کی سادہ سی وجہ یہ نظر آتی ہے کے اب انکے آقا یہ چاہتے ہیں کے پنجاب میں نواز شریف کے ووٹ بنک کو نقصان پوھنچائیں اور آنے والے دور میں زرادی کو بطور صدر اور زرداری مفاہمتی فارمولا میں خود کو وزیرآزم کا خواب دیکھ رہے ہیں یا دکھایا جا رہا ہے درحقیقت یہ بھولے ناتھ ایک بار پھر استمعال ہونے جا رہے ہیں. انکی اس متضاد سوچ اور اقدامات کے حوالے سے ملک کا بہت بڑا سنجیدہ طبقہ انکو اب تک نو آموز سیاستدان اور انتہا درجے کا بیوقوف سمجھتا ہے. اور انکی کسی بھی تحریک اور بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا اور آنے والے دنوں میں مجھ کو ایک بار پھر انکے ساتھ ووہی ہوتا نظر آ رہا ہے جو اس سے پیشتر انکے ساتھ ہوا یہ پھر لنڈورے ہی رہ جائیں گے ایسے لیڈران کے ساتھ ہوتا بھی ایسا ہی ہے جو کے ملکی عوام پر بھروسہ کرنے کے بجاے غیر سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر چلتے ہیں
Last edited by a moderator: