maksyed
Siasat.pk - Blogger
تبدیلیذراسی دیر کی بات ہی
مشتاق احمد خان
حالات برے ہیں۔بہت برے ۔حالات کو سدھار نے کی کوئی تدبیر بر نہیں آتی۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس سال کے یوم
آزادی نے تو تشویش کے سائے اور گہرے کر دیئے۔ امید کی شمع ٹمٹمانے لگی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں سانحہ بنگلہ دیش تازہ ہونے لگا ہے۔ سوات میں یوم آزادی کے موقع پر مسلح افواج کے خلاف کاروائیاں ہوئی ہیں ۔ جعفرآباد میں ایک ہوٹل ،پاکستان کا پرچم لہرانے کے جرم میں بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ سندھ میں کئی مقامات پر جشن آزادی منانے والوں پر قوم پرستوں نے حملے کیے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے جشن آزادی 14اگست کے بجائے 15اگست، کو منانے کا اعلان کیا اور جب اس پر اعتراض ہوا کہ یہ پاکستان کا نہیں بھارت کا یوم آزادی ہے تو یہ تقریبات بھی منسوخ کردی گئیں۔ غرض پورے پاکستان میں خوف کے سائے پھیلے رہے اور جشن آزادی کے رنگ پھیکے پڑتے رہے۔ لیکن ان ساری بری خبروں کے درمیان دو اچھی خبریں۔ سرینگر میں 14اگست کو پاکستان کے پرچم لہراتے رہے اور 15اگست کو سنّاٹے کا راج رہا۔ جب کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے کیمپوں میںا ب بھی پاکستان کا پرچم لہراتا ہے اور وہاں کے باسیوں کے دلوں میں اب بھی پاکستان آ بسنے کی خواہش تازہ ہے۔
لیکن ادھر پاکستان میں ناامیدی ہی نا امیدی ہے۔ مایوسی ہی مایوسی ہے۔ حکومتی اداروں کی پالیسیاں اتحاد و اتفاق کے بجائے افترا ق و انتشار پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ فوج امریکی پالیسیوں کی محافظ بنا دی گئی ہے۔ سیاست دانوں نے تو حد ہی کردی۔ نہ کوئی بڑا مقصد پیش نظر ہے نہ اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے چاپلوسی اور بے ایمانی سے لے کر بدمعاشی تک سب جائز ۔ سیاستدان جو کرپشن کے مقدمات میں جیلوں میں جاتے ہیں اور عدالتوں میں پیشی کے موقع پر ایسے وی کا نشان بناتے ہیں جیسے عوام کے لیے دودھ اور شہد کی کوئی نہر کھود کر آئے ہوں۔ان حالات میں اگر کوئی بہتری کی بات کرتا ہے۔ تبدیلی لانے کی جدوجہد کا ذکر کرتا ہے تو خندہ استہزا کے ساتھ پوچھا جاتا ہے ....کیسے آئے گی تبدیلی.... کون لانے دیگا تبدیلی۔ یہ قوم پرست۔ یہ پیر فقیر۔ یہ مفاد پرست۔ یہ گردن گردن کرپشن میں ڈوبے لوگ۔ یہ کار لفٹر۔ یہ بلڈر مافیا۔ یہ منشیات فروش۔ یہ اسلحہ کے سوداگر۔ یہ انکم ٹیکس نہ دینے والے۔ یہ سیلز ٹیکس چرانے والے۔ یہ برآمدات کی اوور انوائسنگ اور درآمدات کی انڈر انوائسنگ کرنے والے ۔ یہ جعلی گھر شماری اور جھوٹی مردم شماری کرنے والے۔ یہ ووٹر لسٹوں میںبوگس اندراج کرنے والے۔ یہ اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں کرنے اور اس کے باوجود اپنے حلقے کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھ کر ٹھپے پہ ٹھپا لگا کر بیلٹ بکس بھرنے والے۔
یہ آنے دیں گے تبدیلی ....اور اگر بالفرض محال عوام ان سب سے نمٹ کر کوئی تبدیلی لے بھی آئیں تو ۔ امریکہ آنے دے گا تبدیلی....پرانا شکاری پھرنیا جال لے آئے گا۔ یہاں وہی ہوگا جو امریکہ چاہے گا۔ تو کیا امریکہ اس کرہ ارض کا رب ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے ہاں.... تو ایسا ہی اپنے رب ہونے کا یقین کبھی روس کو بھی تھا۔ نمرود کو بھی ۔ فرعون کو بھی تھا۔ حد تو یہ کہ ابوجہل کو بھی ۔ سماج پر قبضے کے لیے کون سا حربہ تھا جو ابو جہل نے اختیار نہیں کیا تھا۔ تب مروجہ خرابیوں میں سے کون سی خرابی تھی جو اس میں اور اس کے رفقاءمیںموجود نہیں تھی۔کون سا ستم تھا جو اس نے ان لوگوں پر نہیں ڈھایا تھا جواس اقتدار کے محافظ نظام کو بیخ وبن سے ادھیڑنے کے لیے اٹھے تھے۔ بلال حبشیؓ کا تپتی ریت پر لٹایا جانا اور سینے پر پتھر کی سلِِ کا رکھا جانا۔ لیکن بلال حبشیؓ کی احد احد کی صداوں کو کون روک سکا۔ خبّاب بن ارتؓ کا سلگتے انگاروں پر لٹایا جانا ، اعلان تھا اس بات کا کہ مکہ کی زمین پر کلمہ حق برداشت نہیں کیا جائے گا، لیکن جب خبّاب بن ارتؓ جب اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ایک بار پھر وہی کلمہ حق دہرانے لگتے۔ بی بی سمیہؓ سے ابو جہل کا مطالبہ تھا ہی کیا ۔ یہ ہی نا کہ دین آبا کی طرف پلٹ آو، نہیں تو مرنے کے لیے تیار ہو جاو۔ وہ دین آباجو ابو جہل کے اقتدار کی علامت تھا۔ اختیار کی ضمانت تھا۔ تو بی بی سمیہؓ نے کیا کہا تھا۔ یہی نا کہ زندگی اور موت ابو جہل کے نہیں ۔ اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے۔ ابو جہل ہار گیا۔ بی بی سمیہ ؓ جیت گئیں۔ لیکن ابو جہل کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ابو جہل کو اگر یہ بات سمجھ میں آجاتی تو شاید تاریخ کا رخ کچھ اور ہوتا۔ لیکن کسی بلالؓ کو زمین پر لٹا کر ۔ کسی خبابؓ کوا نگاروں سے جلا کر اور کسی سمیہؓ کی جان لے کر ابوجہل کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہو جاتا ہے کہ اسے خدائی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ یہ جہاں اب ایسا ہی رہے گا۔ جاہلیت کے ترانے گاتا اور تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں پر تازیانے برساتا۔ یہی غرور تھا کہ جس نے محمد عربی pbuh کے مکہ سے ہجرت کرجانے اور مدینہ آباد کرنے کے باوجود ابوجہل کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ایک خلش تھی۔ ایک چبھن تھی۔ ایسا کیسے ہو گیا کہ جسے ہم گھیر کر (نعوذ باللہ) ماردینا چاہتے تھے وہ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل گیا۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے لونڈی اور غلام آزاد حیثیت سے زندگی بسر کرتے رہیں اورہو سکتا ہے کہ کل کلاں کو ہمارے منہ لگیں۔ مقابل آئیں۔
سو اس سے پہلے کہ ہمارے نظام کے مقابل کوئی نظام جڑ پکڑے۔ اسے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔اسے قصہ پارینہ بنا دیاجائے۔ اسے تاریخ کے قبرستان میں دفن کردیا جائے۔خیال کی ایک لہر اٹھی اور پھیلتی چلی گئی ۔ حمیت جاہلیہ نے گھر گھر دستک دی۔ لوگو اٹھو اور اپنے نظام کے باغیوں کو کچل دو۔ جو عزّیٰ کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ۔ لوگ گھروں سے نکلے اور مدینہ کی طرف چل پڑے۔ اپنے دین کو غالب کرنے کے لیے۔ غالب رکھنے کے لیے۔لیکن ہوا کیا.... بدر کے میدان میں ابو جہل کا سر پرغرور اس کے تن سے جداہوگیا۔ میدان جنگ کے کسی آزمودہ جنگجو کے ہاتھوں نہیں۔ معاذ اور معوذ نامی دو لڑکوں کے ہاتھوں۔ جو کم سنی کی بنا پر میدان جنگ کے لیے منتخب نہیں کیے گئے تھے لیکن اپنے جذبہ اور لگن کے مظاہرے کے نتیجے میں جہاد میں شرکت کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انہوں نے ابوجہل کو شناخت کیا۔ لپکے۔ جھپٹے اور اسے زمین پر گرالیا۔ فیصلہ ہوگیا۔ یہ زمین کسی عزّیٰ کی کسی ابو جہل کی۔ کسی لات یا کسی منات کی نہیں ۔ اللہ کی ہے۔اللہ جو رب العالمین ہے۔ اللہ جو احکم الحاکمین ہے ۔ لا غالب الا ھو۔جنگ ختم ہوگئی۔ ابوجہل اور اس کے رفقاءکی لاشوں کو ایک ویران کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اللہ کے نبی نے کنویں کے کنارے کھڑے ہو کر آواز دی ہم سے تو ہمارے رب کا کیا گیا فتح کا وعدہ پورا ہوگیا، تم بتاو تمہارے ساتھ کیا گیا عذاب کا وعدہ پورا ہواکہ نہیں۔اللہ نے تبصرہ کیاکہبے شک تمہارے لیے دو گروہوں میں جو باہم مقابل ہوئے تھے بڑانمونہ ہی، ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں نکلا تھا اور دوسرا کافر تھا....اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے جس کو چاہتے ہیں قوت دیتے ہیں ۔سو تم نے ان کو قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا اور آپ pbuh نے ہاتھ سے مٹی نہیں پھینکی لیکن اللہ تعالیٰ نے پھینکی تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔
جنگ بدر کے بعد رب کائنات نے اہل ایمان سے بار بار مطالبہ کیاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا رویہ اختیار کریں، انہیں یاد دلایا گیا کہ اگر وہ ایسا کریںگے تو دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہیں آسکے گی، رب کائنات نے ارشاد فرمایااس حالت کو یاد کرو جب کہ تم (مکہ میں) قلیل تھی، سرزمین میں کمزور شمار کیے جاتے تھی، اندیشے میں رہتے تھے کہ تم کو (مخالف) لوگ نوچ کھسوٹ لیں تو ایسی حالت میں اللہ نے تم کو (مدینہ میں) رہنے کو جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم شکر کرو۔(سورة الانفال8 ، آیت 26) [HI]میں جب بھی اس آیت پر غور کرتا ہوں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ رب کائنات نے پاکستان کے مسلمانوں کومخاطب کیا ہے۔ ہم بھی متحدہ ہندوستان میں اقلیت میں تھی، انگریز راج اور ہندو بیورو کریسی کے مقابلے میں کمزور تھے اس خوف میں مبتلا تھے کہ اگر انگریزہندوستان چھوڑ کر چلا گیا اور یہاں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر حکومت قائم ہوئی تو ہمارا کیا بنے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے تقیسم ہند کے ایسے مطالبے کو پورا کرادیا جس کے مانے جانے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی تھی اور اس کے نتیجے میں ہمیں نہ صرف پاکستان دیا بلکہ 1965ءمیں بھارتی جارحیت کے خلاف مدد بھی دی اور پاکستان میں ہروہ نعمت مہیا کردی جس کا ہم شاید تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
[/HI]
لیکن سوال یہ ہے کیاہم نے شکر گزاری کا رویہ اختیار کیا.... میرا خیال ہے نہیں.... بلکہ ہرگز نہیں....آج کے پاکستان کے تمام تر مسائل ہماری ناشکری کی پیداوار ہیں۔ ان مسائل کے حل کا کوئی راستہ شکر گزاری کے بغیر تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ایک بار ہم رب کے شکر گزار بن جائیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے بجائی، ایک دوسرے کے مفادات کے نگہبان بن جائیں اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا چھٹ جانا اور امید کے راستوں کا روشن ہو جانا ذرا سی دیر کی بات ہے ۔رہ گیا یہ سوال کہ کیا آج کا طاغوت اہل پاکستان کو ان کی اپنی مرضی کی راہ پر چلنے دیگا تو یقین کیجئے رب کائنات کا قول فیصل ہے کافروں کی نسبت یہ خیال مت کرنا کہ وہ زمین میں ہم کو ہرا دیں گے۔ یاد رکھیے یہ زمین نہ نمرود کی ہے نہ فرعون کی ۔نہ روس کی ہے نہ امریکہ کی۔ یہ زمین اللہ کی ہے اوراس پر اللہ ہی کا حکم چلنے والا ہے ۔
مشتاق احمد خان
حالات برے ہیں۔بہت برے ۔حالات کو سدھار نے کی کوئی تدبیر بر نہیں آتی۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس سال کے یوم
آزادی نے تو تشویش کے سائے اور گہرے کر دیئے۔ امید کی شمع ٹمٹمانے لگی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں سانحہ بنگلہ دیش تازہ ہونے لگا ہے۔ سوات میں یوم آزادی کے موقع پر مسلح افواج کے خلاف کاروائیاں ہوئی ہیں ۔ جعفرآباد میں ایک ہوٹل ،پاکستان کا پرچم لہرانے کے جرم میں بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ سندھ میں کئی مقامات پر جشن آزادی منانے والوں پر قوم پرستوں نے حملے کیے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے جشن آزادی 14اگست کے بجائے 15اگست، کو منانے کا اعلان کیا اور جب اس پر اعتراض ہوا کہ یہ پاکستان کا نہیں بھارت کا یوم آزادی ہے تو یہ تقریبات بھی منسوخ کردی گئیں۔ غرض پورے پاکستان میں خوف کے سائے پھیلے رہے اور جشن آزادی کے رنگ پھیکے پڑتے رہے۔ لیکن ان ساری بری خبروں کے درمیان دو اچھی خبریں۔ سرینگر میں 14اگست کو پاکستان کے پرچم لہراتے رہے اور 15اگست کو سنّاٹے کا راج رہا۔ جب کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے کیمپوں میںا ب بھی پاکستان کا پرچم لہراتا ہے اور وہاں کے باسیوں کے دلوں میں اب بھی پاکستان آ بسنے کی خواہش تازہ ہے۔
لیکن ادھر پاکستان میں ناامیدی ہی نا امیدی ہے۔ مایوسی ہی مایوسی ہے۔ حکومتی اداروں کی پالیسیاں اتحاد و اتفاق کے بجائے افترا ق و انتشار پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ فوج امریکی پالیسیوں کی محافظ بنا دی گئی ہے۔ سیاست دانوں نے تو حد ہی کردی۔ نہ کوئی بڑا مقصد پیش نظر ہے نہ اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے چاپلوسی اور بے ایمانی سے لے کر بدمعاشی تک سب جائز ۔ سیاستدان جو کرپشن کے مقدمات میں جیلوں میں جاتے ہیں اور عدالتوں میں پیشی کے موقع پر ایسے وی کا نشان بناتے ہیں جیسے عوام کے لیے دودھ اور شہد کی کوئی نہر کھود کر آئے ہوں۔ان حالات میں اگر کوئی بہتری کی بات کرتا ہے۔ تبدیلی لانے کی جدوجہد کا ذکر کرتا ہے تو خندہ استہزا کے ساتھ پوچھا جاتا ہے ....کیسے آئے گی تبدیلی.... کون لانے دیگا تبدیلی۔ یہ قوم پرست۔ یہ پیر فقیر۔ یہ مفاد پرست۔ یہ گردن گردن کرپشن میں ڈوبے لوگ۔ یہ کار لفٹر۔ یہ بلڈر مافیا۔ یہ منشیات فروش۔ یہ اسلحہ کے سوداگر۔ یہ انکم ٹیکس نہ دینے والے۔ یہ سیلز ٹیکس چرانے والے۔ یہ برآمدات کی اوور انوائسنگ اور درآمدات کی انڈر انوائسنگ کرنے والے ۔ یہ جعلی گھر شماری اور جھوٹی مردم شماری کرنے والے۔ یہ ووٹر لسٹوں میںبوگس اندراج کرنے والے۔ یہ اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں کرنے اور اس کے باوجود اپنے حلقے کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھ کر ٹھپے پہ ٹھپا لگا کر بیلٹ بکس بھرنے والے۔
یہ آنے دیں گے تبدیلی ....اور اگر بالفرض محال عوام ان سب سے نمٹ کر کوئی تبدیلی لے بھی آئیں تو ۔ امریکہ آنے دے گا تبدیلی....پرانا شکاری پھرنیا جال لے آئے گا۔ یہاں وہی ہوگا جو امریکہ چاہے گا۔ تو کیا امریکہ اس کرہ ارض کا رب ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے ہاں.... تو ایسا ہی اپنے رب ہونے کا یقین کبھی روس کو بھی تھا۔ نمرود کو بھی ۔ فرعون کو بھی تھا۔ حد تو یہ کہ ابوجہل کو بھی ۔ سماج پر قبضے کے لیے کون سا حربہ تھا جو ابو جہل نے اختیار نہیں کیا تھا۔ تب مروجہ خرابیوں میں سے کون سی خرابی تھی جو اس میں اور اس کے رفقاءمیںموجود نہیں تھی۔کون سا ستم تھا جو اس نے ان لوگوں پر نہیں ڈھایا تھا جواس اقتدار کے محافظ نظام کو بیخ وبن سے ادھیڑنے کے لیے اٹھے تھے۔ بلال حبشیؓ کا تپتی ریت پر لٹایا جانا اور سینے پر پتھر کی سلِِ کا رکھا جانا۔ لیکن بلال حبشیؓ کی احد احد کی صداوں کو کون روک سکا۔ خبّاب بن ارتؓ کا سلگتے انگاروں پر لٹایا جانا ، اعلان تھا اس بات کا کہ مکہ کی زمین پر کلمہ حق برداشت نہیں کیا جائے گا، لیکن جب خبّاب بن ارتؓ جب اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ایک بار پھر وہی کلمہ حق دہرانے لگتے۔ بی بی سمیہؓ سے ابو جہل کا مطالبہ تھا ہی کیا ۔ یہ ہی نا کہ دین آبا کی طرف پلٹ آو، نہیں تو مرنے کے لیے تیار ہو جاو۔ وہ دین آباجو ابو جہل کے اقتدار کی علامت تھا۔ اختیار کی ضمانت تھا۔ تو بی بی سمیہؓ نے کیا کہا تھا۔ یہی نا کہ زندگی اور موت ابو جہل کے نہیں ۔ اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے۔ ابو جہل ہار گیا۔ بی بی سمیہ ؓ جیت گئیں۔ لیکن ابو جہل کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ابو جہل کو اگر یہ بات سمجھ میں آجاتی تو شاید تاریخ کا رخ کچھ اور ہوتا۔ لیکن کسی بلالؓ کو زمین پر لٹا کر ۔ کسی خبابؓ کوا نگاروں سے جلا کر اور کسی سمیہؓ کی جان لے کر ابوجہل کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہو جاتا ہے کہ اسے خدائی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ یہ جہاں اب ایسا ہی رہے گا۔ جاہلیت کے ترانے گاتا اور تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں پر تازیانے برساتا۔ یہی غرور تھا کہ جس نے محمد عربی pbuh کے مکہ سے ہجرت کرجانے اور مدینہ آباد کرنے کے باوجود ابوجہل کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ایک خلش تھی۔ ایک چبھن تھی۔ ایسا کیسے ہو گیا کہ جسے ہم گھیر کر (نعوذ باللہ) ماردینا چاہتے تھے وہ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل گیا۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے لونڈی اور غلام آزاد حیثیت سے زندگی بسر کرتے رہیں اورہو سکتا ہے کہ کل کلاں کو ہمارے منہ لگیں۔ مقابل آئیں۔
سو اس سے پہلے کہ ہمارے نظام کے مقابل کوئی نظام جڑ پکڑے۔ اسے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔اسے قصہ پارینہ بنا دیاجائے۔ اسے تاریخ کے قبرستان میں دفن کردیا جائے۔خیال کی ایک لہر اٹھی اور پھیلتی چلی گئی ۔ حمیت جاہلیہ نے گھر گھر دستک دی۔ لوگو اٹھو اور اپنے نظام کے باغیوں کو کچل دو۔ جو عزّیٰ کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ۔ لوگ گھروں سے نکلے اور مدینہ کی طرف چل پڑے۔ اپنے دین کو غالب کرنے کے لیے۔ غالب رکھنے کے لیے۔لیکن ہوا کیا.... بدر کے میدان میں ابو جہل کا سر پرغرور اس کے تن سے جداہوگیا۔ میدان جنگ کے کسی آزمودہ جنگجو کے ہاتھوں نہیں۔ معاذ اور معوذ نامی دو لڑکوں کے ہاتھوں۔ جو کم سنی کی بنا پر میدان جنگ کے لیے منتخب نہیں کیے گئے تھے لیکن اپنے جذبہ اور لگن کے مظاہرے کے نتیجے میں جہاد میں شرکت کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انہوں نے ابوجہل کو شناخت کیا۔ لپکے۔ جھپٹے اور اسے زمین پر گرالیا۔ فیصلہ ہوگیا۔ یہ زمین کسی عزّیٰ کی کسی ابو جہل کی۔ کسی لات یا کسی منات کی نہیں ۔ اللہ کی ہے۔اللہ جو رب العالمین ہے۔ اللہ جو احکم الحاکمین ہے ۔ لا غالب الا ھو۔جنگ ختم ہوگئی۔ ابوجہل اور اس کے رفقاءکی لاشوں کو ایک ویران کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اللہ کے نبی نے کنویں کے کنارے کھڑے ہو کر آواز دی ہم سے تو ہمارے رب کا کیا گیا فتح کا وعدہ پورا ہوگیا، تم بتاو تمہارے ساتھ کیا گیا عذاب کا وعدہ پورا ہواکہ نہیں۔اللہ نے تبصرہ کیاکہبے شک تمہارے لیے دو گروہوں میں جو باہم مقابل ہوئے تھے بڑانمونہ ہی، ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں نکلا تھا اور دوسرا کافر تھا....اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے جس کو چاہتے ہیں قوت دیتے ہیں ۔سو تم نے ان کو قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا اور آپ pbuh نے ہاتھ سے مٹی نہیں پھینکی لیکن اللہ تعالیٰ نے پھینکی تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔
جنگ بدر کے بعد رب کائنات نے اہل ایمان سے بار بار مطالبہ کیاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا رویہ اختیار کریں، انہیں یاد دلایا گیا کہ اگر وہ ایسا کریںگے تو دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہیں آسکے گی، رب کائنات نے ارشاد فرمایااس حالت کو یاد کرو جب کہ تم (مکہ میں) قلیل تھی، سرزمین میں کمزور شمار کیے جاتے تھی، اندیشے میں رہتے تھے کہ تم کو (مخالف) لوگ نوچ کھسوٹ لیں تو ایسی حالت میں اللہ نے تم کو (مدینہ میں) رہنے کو جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم شکر کرو۔(سورة الانفال8 ، آیت 26) [HI]میں جب بھی اس آیت پر غور کرتا ہوں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ رب کائنات نے پاکستان کے مسلمانوں کومخاطب کیا ہے۔ ہم بھی متحدہ ہندوستان میں اقلیت میں تھی، انگریز راج اور ہندو بیورو کریسی کے مقابلے میں کمزور تھے اس خوف میں مبتلا تھے کہ اگر انگریزہندوستان چھوڑ کر چلا گیا اور یہاں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر حکومت قائم ہوئی تو ہمارا کیا بنے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے تقیسم ہند کے ایسے مطالبے کو پورا کرادیا جس کے مانے جانے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی تھی اور اس کے نتیجے میں ہمیں نہ صرف پاکستان دیا بلکہ 1965ءمیں بھارتی جارحیت کے خلاف مدد بھی دی اور پاکستان میں ہروہ نعمت مہیا کردی جس کا ہم شاید تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
[/HI]
لیکن سوال یہ ہے کیاہم نے شکر گزاری کا رویہ اختیار کیا.... میرا خیال ہے نہیں.... بلکہ ہرگز نہیں....آج کے پاکستان کے تمام تر مسائل ہماری ناشکری کی پیداوار ہیں۔ ان مسائل کے حل کا کوئی راستہ شکر گزاری کے بغیر تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ایک بار ہم رب کے شکر گزار بن جائیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے بجائی، ایک دوسرے کے مفادات کے نگہبان بن جائیں اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا چھٹ جانا اور امید کے راستوں کا روشن ہو جانا ذرا سی دیر کی بات ہے ۔رہ گیا یہ سوال کہ کیا آج کا طاغوت اہل پاکستان کو ان کی اپنی مرضی کی راہ پر چلنے دیگا تو یقین کیجئے رب کائنات کا قول فیصل ہے کافروں کی نسبت یہ خیال مت کرنا کہ وہ زمین میں ہم کو ہرا دیں گے۔ یاد رکھیے یہ زمین نہ نمرود کی ہے نہ فرعون کی ۔نہ روس کی ہے نہ امریکہ کی۔ یہ زمین اللہ کی ہے اوراس پر اللہ ہی کا حکم چلنے والا ہے ۔