maksyed

Siasat.pk - Blogger
بھٹّو صاحب کی روح کے ساتھ چند لمحات
(ایس نیر)

میری فرمائش سُن کر پروفیسر گھڑوچیا کرسی سے اُٹھ کر یوں ناچنے لگا ، جیسے کسی نے کرسی کے نیچے اچانک آگ لگادی ہو ۔ وہ مسلسل نفی میں سر ہلا رہا تھا۔ میں نے پوچھا " کیا ہوا؟ یہ کرسی اچانک جلتا ہوا توا کیسے بن گئی"؟ زور زور سے سر ہلا کر بولا " بھٹّو صاحب کی روح کو طلب کروں؟ نہیں یہ مجھ سے نہ ہوگا۔ ایک مرتبہ پہلے بھی میں نے اُنہیں طلب کرنے کی کوشیش کی تھی وہ آئے تو ضرور لیکن آتے ہی اُنہوں نے مجھے بڑی زبردست جھاڑ پلائی اور ڈپٹ کر بولے " ایڈیٹ !مجھے بلوانے کی تجھے جرات کیسے ہوئی ، تو کیا سمجھتا ہے کہ میں اوپر فارغ بیٹھا رہتا ہوں ، ابے بارسٹرڈ میں مرنے کی بعد بھی مسلسل سیاست کر رہا ہوں کیا تجھے نظر نہیں آتا کہ میں پاکستان کی سیاست میں کس قدر دخیل ہوں آج تیس برس بعد بھی اِس ملک کی ساری سیاست میرے ہی گرد گھوم رہی ہے " ۔ یہ کہہ کر اُنکی روح مجھے دھمکاتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی تھی ۔ " مجھے اُن سے بڑا ڈر لگتا ہے لہذا میں آپکایہ کام نہیں کرسکتا " ۔ میں غصّے میں اُٹھ کر پروفیسر گھڑوچیا کے کمرے سے واک آوٹ کرگیا ۔ اور اُٹھتے اُٹھتے میں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ اگر اُس نے مجھے بھٹّو صاحب سے نہ ملوایا تو میں آئندہ اُسکی طلب کردہ کسی بھی روح سے انٹر ویو نہیں کروں گا " ۔

پروفیسر بے بسی سے اپنے بال نوچتا رہا لیکن میں نکل چلا آیا ۔ مگر ایک گھنٹے کے بعد ہی میرا سیکریٹری تقریباً بھاگتا ہوا میرے کمرے میں آیا اُسکی سانس چڑھی ہوئی تھی اور منہ سے صرف بھٹّو صاحب، بھٹّو صاحب کے الفاظ نکل رہے تھے ۔ قبل اِس کے کہ میںاُس سے کچھ پوچھتا ۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس بھٹّو صاحب سگار کے کش لگاتے ہوئے میرے کمرے میںداخل ہوگئے ۔ اُنکی پر وقار شخصیت میں کچھ عجیب سا سحر تھا ۔ ایک لمحے کو تو میں گم سم سا ہوکر اُنہیں تکتا ہی رہ گیا ۔ واہ کیا پرسنٹلی ہے۔

پھر اچانک ہی میرے اندر کا صحافی انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا اور میں اُنکی پیشوائی کےلئے آگے بڑھا ۔ اُنہوںنے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا " یہ مت سمجھنا کہ میں تمہارے یا تمہارے پروفیسر کے طلب کرنے پر یہاں آیا ہوں دراصل میں خود تمہارے توسط سے موجودہ ملکی سیاست کے بارے میں اپنے خیالات اِس ملک کے غریب عوام تک ، جو کہ اب غریب نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ غریب ہوچکے ہیں ، پہچا نا چاہتا تھا "۔

خوش نصیبی ہے میری ، تشریف رکھیئے " ، میں نے کہا ۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور بولے " ہاں اب تم جو چاہو سوال کرسکتے ہو ۔ میرے جوابات سے تمہیں یہ اندازہ بھی ہوجائے گا کہ موجودہ صورتحال کے بارے میں میرا نقطہ نظر کیا ہے ؟ لیکن کوشیش کرنا کہ ہم صرف ماضی کے گڑے مُردے ہی نہ اُکھاڑتے رہ جائیں اور وقت ختم ہوجائے ، کیونکہ تم اچھی طرح سے جانتے ہوں کہ ہمارے پاس وقت محدود ہے " ۔

میں نے سیکریٹری کو کافی کےلئے کہا اور اُن سے پہلا سوال کیا ۔
س : ۔ " کیا آپ اِس سے اتفاق کرتے ہیں کہ آپکا واقعی عدالتی قتل کیا گیا تھا " ؟
ج : ۔ " بالکل اِس میں کیا شک ہے ؟ صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے سپریم کورٹ نے مجھے انتہائی سزا سُنادی ۔ عدالت نے یہ فیصلہ سراسر ایک غاصب ڈکٹیٹر کے دباو کے نتیجے میںدیا تھا ۔ تم کیا سمجھتے ہو، میں قانون سے واقف نہیں ہوں ؟ یہ مت بھولو کہ میں قانون دان پہلے اور سیاست دان بعد میں بنا تھا"۔

س : ۔" معاشی ماہرین آج بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپکی نیشنلائزیشن کی پالیسی اِس ملک کی معاشی تباہی کی بنیاد ثابت ہوئی تھی۔ کیایہ دُرست ہے" ؟
ج : ۔ " کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ یہ دُرست ہے ، لیکن میری نیّت پر شک کرنا بھی میرے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ نیشنلائزیشن کی پالیسی غلط نہیں تھی ، بلکہ اِس کے نفاد کا وقت غلط تھا ۔ اِسی طرح مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ میں نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر صرف عوام کے ووٹ سمیٹے تھے اور عوام کو یہ تینوں چیزیں مہیّا کرنے میں ناکام رہا تھا ۔ دراصل اِن دونوں الزامات کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔ میری وضاحت سُن کر تمہاری سمجھ میں آجائے گا اِن دونوں الزامات کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟

ہوا دراصل یہ کہ مجھے جب اقتدار ملا تو عوام برسوں سے آمرانہ نظام کی سختیاں جھیل رہے تھے اور اِس کے عادی ہوچکے تھے ۔ میں نے اُنہیں سیاسی شعور دیا اور اُنہیں آگاہ کیا کہ اِن کے حقوق کیا ہیں ۔ تمہارے بہت سے دانشور آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کامطلب یہ تھا کہ میں ہر شخص کو یہ تینوں چیزیں خود تقسیم کروں گا ۔ جبکہ میرا مقصد یہ تھا کہ عوام کو اتنا خوشحال کردیا جائے اور اُنکی قوتِ خرید اتنی بڑھادی جائے کہ ہر شخص مالی طور پر مستحکم ہوکر یہ تینوں چیزیں با آسانی خود حاصل کرسکے ۔

اپنے اِسی منشور پر عمل درآمد کرنے کی خاطر میں نے نیشنلائزیشن کی پالیسی نافذکی تھی ۔ صنعتیں قومی ملکیت میں لینے کا مقصد یہ تھا کہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ سرمایہ دار اپنی مشینوں کے ایک ایک نٹ بولٹ کا تو خیال رکھتا ہے لیکن اِن مشینوں کو چلانے والے مزدوروں کےلئے اپنی جیب سے کچھ بھی نہیں نکالے گا ۔ لہذا میں نے مزدوروں کو منافع میں حصہ دار بنا یا ۔ اُن کے معاوضے بڑھائے ، اُنہیں یونین ساز ی کے حقوق دیئے ۔ تعلیم کو عام آدمی تک پہنچانے کےلئے تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لیا ۔

لیکن ہوا کیا ؟ تعلیمی اداروں ، بینکوں اور کارخانوں کے ملازمین رات کو سوئے تو پرائیوٹ اداروں کے ملازم تھے ، لیکن جب صبح سو کر اُٹھے تو وہ سرکاری ملازم ہوچکے تھے ، اُنکی نوکریوں کو تحفّظ حاصل ہوچکا تھا ۔ لہذا اُنکا رویہ وہی ہوگیا ، جو سرکاری اداروں میں کا م کرنے والے ملازمین کاہوتا ہے ۔ اُنہوں نے محنت کرنی چھوڑ دی ۔ بیوروکریسی کے ماتحت جب صنعتیں آگئیں تو اُنہوں نے اِن صنعتوں کو سرکاری اداروں کے اسٹائل میں چلانے کی کوشیش کی۔ یوں پیداوار کم ہوتی گئی۔

کارکنوں کو اپنے حقوق تو یاد رہے ، لیکن وہ اپنے فرائض بھول گئے ۔ عوام نے اِس جمہوری آزادی کے ساتھ وہی سلوک کیا ، جو ایسا دولت مند آدمی ،دولت کے ساتھ کرتا ہے ، جسے اچانک کہیں سے ایک بڑی دولت غیر متوقع طور پر حاصل ہوجاتی ہے۔ جسے ہم نو دو لتیا کہتے ہیں ۔ مجھے چاہئے تھا کہ میںعوام کو مرحلہ وار اِس جمہوری آزادی سے روشناس کرواتا ۔ جبکہ وہ ذہنی طور پر اِس آزادی کےلئے تیار ہوجاتے ۔ یہ شکائیت تو مجھے عوام سے ہے کہ اُنہوں نے میری پالیسی کو کام چوری اور محنت نہ کرکے خود ناکام بنایا اور اِس طرح خود کو بھی نقصان پہنچایا اور مجھے بھی۔ میں نے سرمایہ کاروں کوبھی ناراض کیا اور عوام بھی خوشحال نہ ہوسکے ۔ اور اِن دونوں الزامات کا ملبہ بھی آج تک میرے اوپر ہی گرایا جاتا ہے ۔ جبکہ میری نیّت یہی تھی کہ عوام کو روزگار بھی ملے اور وہ اتنے خوشحال بھی ہوجائیں کہ روٹی کپڑا اور مکان کاحصول اِن کےلئے ممکن ہوجائے ۔ لہذامیری پالیسی غلط نہیں بلکہ اِس کے نفاذ کا وقت غلط تھا "

س: ۔ بہرحال آپ کے پاس نیشنلائزیشن کی پالیسی کی ناکامی کےلئے لاکھ معقول وجوہات ہوں، لیکن یہ ملک کےلئے تباہ کن ثابت ہوئی ۔
ج : ۔ ہاں میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ کہا جاسکتا ہے ۔ دراصل کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں ، ناکامی کا کوئی نہیں ۔

س: ۔ لیکن آپ کے کریڈیٹ پر کامیابیوں کی ایک لمبی فہرست بہرحال موجود ہے ، اِسکا اعتراف آپکے مخالفین آج بھی کرتے ہیں ۔ مثلاً سیاست کو عوام کی گلیوں اور دروازوں تک لے جانا ۔ 73 ءکا متفقہ آئین ۔ شملہ معاہدہ ۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا ۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ۔ عام آدمی کےلئے پہلی مرتبہ فریضہ حج کی ادائیگی کو آسان بنانا ۔ امریکہ ، یورپ اور مڈل ایسٹ کےلئے بے پناہ افرادی قوت کی کھپت کو ممکن بنانا ۔ اور سب سے بڑا کارنامہ آپکی کامیاب خارجہ پالیسی تھی ، جس کے باعث عام پاکستانی کو بیرونِ ملک عزت و احترام سے نوازا گیا اور اِنہی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی محنت کے نتیجے میں ملک میں آنے والے زرِ مبادلہ کے کثیر ذخائر نے آپکی نیشنلائزیشن کی پالیسی کے مضرِ اثرات کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا ۔ بلکہ زرِ مبادلہ کی اِسی ریل پیل سے آپ کے بعد ضیاءالحق نے بھی فائدہ اُٹھایا اور آمریت کے باوجود کئی برس تک
ج : ۔ ( میری بات کاٹتے ہوئے ) اب تمہارے منہ سے اِس شخص کا نام نہیں نکلنا چاہیے ، ورنہ انٹر ویو اِسی جگہ پر ختم ہوجائے گا ۔

س: ۔ ٹھیک ہے سر میں اس کاخیال رکھوں گا۔ مانا کہ آپ میں لاکھ خوبیاں موجود تھیں، لیکن کیایہ دُرست نہیں کہ آپ میں قوتِ برداشت کی بڑی کمی تھی ۔ مخالفت اور تنقید آپ برداشت نہیں کرتے تھے۔ بلکہ کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ آپ بہت منتقم مزاج آدمی تھے ۔ اور یہ کہ آپ زندگی بھر اپنی جاگیردارانہ ذہنیت سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے ۔ دوسری بات یہ کہ ، یہ کیسے ممکن ہے کہ جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص عملی طور پر پسے ہوئے طبقے کےلئے خوشحالی لاسکے ؟
ج : ۔ یہ کوئی کُلیہ نہیں ہے کہ جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی سیاسی رہنما عام آدمی کی حالت بہتر نہیں بنا سکتا ۔ اِسکی بہترین مثال میرا دوست چو این لائی تھا ۔ اُسکا تعلق بھی جاگیردار طبقے سے تھا ۔ لیکن چین آج جس مقام پر ہے ۔ اِس کے بنیادی معماروں میں وہ بھی شامل تھا ۔ دوسرے، شہید ملت لیاقت علی خان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ وہ بھی جدی پُشتی نواب اور جاگیردار تھے ۔

س: ۔ یہ آپ نے دُرست کہا ۔ لیکن دُرست یہ بھی ہے کہ آپ منتقم مزاج تھے اور مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے ۔ آپ کے کئی نظریاتی ساتھی آپ کے انتقام کے نشانہ بنے ۔ مثلاً جے اے رحیم ، مختار رانا ، احمد رضا قصوری ،معراج محمد خان اور دیگر بے شمار لوگ اِس فہرست میں شامل ہیں ۔
ج : ۔ دراصل یہ لوگ اس وقت کے حالات اور میری مجبوریاں سمجھ نہیں پارہے تھے۔ سیاست میں کچھ سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں اِس لئے اِن لوگوں کو مجھے سبق سکھانا پڑا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد ایسا کرنا بعض اوقات ضروری ہوتا ہے ۔

س: ۔ آپ نے تحریر و تقریر پر بے جا پابندیاں عائد کیں اور اخبارات پر سنسنر بھی لگایا ۔ گویا میڈیا کو پابند سلاسل کرکے رکھا ۔ کیا یہ تمام اقدامات یہ ثابت نہیں کرتے کہ آپکو مخالفت پسند نہیں تھی ؟
ج:۔ (سوچتے ہوئے)ہاں میں اس سے انکار نہیں کروں گا۔

س:۔ایف ایس ایف بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟کیا یہ گسٹاپو اور ساوک جیسا ڈھا نچہ نہیں رکھتی تھی؟
ج : ۔ ہاں یہ بھی میری غلطی تھی ۔ ایف ایس ایف کا سربراہ ہی میرے خلاف قتل کے مقدمے میں آمریت کا دباو برداشت نہ کرسکا اور سلطانی گواہ بننے پر تیار ہوگیا تھا ۔ اِس کا نقصان خود مجھے سب سے زیادہ پہنچا ۔

س:۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیںکہ ایف ایس ایف تو نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوث تھی لیکن آپ نے یہ احکامات جاری نہیں کیے تھے؟
ج:۔ ہاں میں نے ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی تھی۔

س:۔یہ کیسے ممکن ہے؟ہوسکتا ہے یہ آپ کی خواہش ہو اور ایس ایف ایس نے اپنے نمبر بنانے کے لیے آپ کی خواہش کی تکمیل کر دی ہو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قتل تو بہرحال ہوا تھا اگر آپ نے یہ قتل نہیں کروایا تو قاتل کون تھا؟
ج:۔ یہ پاکستان کا کوئی پہلا سیاسی قتل نہیں تھا کہ جس کے قاتلوں کا سراغ نہیں ملا ،لیاقت علی خان کے قاتل کون تھے؟ خود میری بیٹی بینظیر کے قاتل کہاں ہیں؟ رہی خواہشات کی بات تو کسی جرم کی خواہش کرنے پر سزا نہیں دی جاسکتی تاوقتیکہ خواہش پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔

س: ۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ آپ نے کیوں دبا کر رکھی ؟ آپ اِسے منظرِ عام پر لاسکتے تھے کیونکہ عوامی حمایت آپ کے ساتھ تھی ۔ اگر آپ نے اِسکی سفارشات پر عمل کر کے فوجی جرنیلوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہوتا تو آپکی زندگی میں 5 جولائی 77 ءکا دِن نہیں آتا ۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ؟اِس رپورٹ کو دبانے کے نتیجے میں عام تاثر یہ بھی قائم ہوا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں آپکا بھی ہاتھ ہے ۔ کیا آپ اِسکی تردید کرسکتے ہیں ؟
ج : ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ میں نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ دبائے رکھی ۔ لیکن اِسکی وجہ یہ تھی کہ میں پاکستانی فوج کا مورال بلند کرنا چاہتا تھا ۔ رہا یہ الزام کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں میرا بھی کچھ کردار تھا اِس موضوع کو نہ چھیڑو میں اِسکی صرف تردید ہی کروں گا ۔ اِس موضوع پر بات کرنے کےلئے کبھی الگ سے نشست ر کھیں گے ۔ لیکن یہ دُرست ہے کہ اگر کچھ فوجی افسران کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا تو 5 جولائی نہ آتی ۔

س: ۔ کیا یہی غلطی ہمارے آج کے موجودہ صدر صاحب نہیں کر رہے ہیں ؟ اگر آج پرویز مشرف کا ٹرائیل ہوجائے تو آئندہ کوئی بھی طالع آزما جرنیل ٹیک اوور کرنے سے قبل کئی مرتبہ سوچے گا ۔
ج : ۔ (استہزایہ انداز میں ہنستے ہوئے ) آج کے صدرِمملکت ؟ کیا تم نے تاریخ میں کبھی " نظامِ سقّہ " کا ذکر پڑھا ہے ۔ جسے حالات اور اتفاقات نے چند دِن کےلئے بادشاہ بنا دیا تھا ؟ تم خود ہی بتاو ایسا حکمران کیا کرسکتا ہے ؟

س: ۔ یہ تو آپ نے بہت گہرا قانونی نکُتہ بیان فرمایا ہے ۔ واقعی آپ جینیس ہیں۔ اچھا یہ بتایئے کہ موجودہ دستیاب قیادت میں سے وہ کونسا لیڈر ہے ، جو بگڑے ہوئے حالات کو دُرست کرسکتا ہے ؟
ج : ۔ (مسکراتے ہوئے ) اگر میں نے کسی کا نام بتایا تو میری پارٹی کے جیالے برا مان جائیں گے اور اگر نہ بتایا تو یہ عوام اور عمران خان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ اِس ڈپلومیٹک جواب پر ہم دونوں ہی قہقہ مار کر ہنس پڑے پھر بھٹّو صاحب نے گھڑی دیکھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے ۔ اور میں اِس شخص کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ جس نے مرنے کے بعد بھی ایک عالم کو دیوانہ بنا رکھا ہے ۔
 

Raheem

Banned
بھٹّو صاحب کی روح کے ساتھ چند لمحات
(ایس نیر)

میری فرمائش سُن کر پروفیسر گھڑوچیا کرسی سے اُٹھ کر یوں ناچنے لگا ، جیسے کسی نے کرسی کے نیچے اچانک آگ لگادی ہو ۔ وہ مسلسل نفی میں سر ہلا رہا تھا۔ میں نے پوچھا " کیا ہوا؟ یہ کرسی اچانک جلتا ہوا توا کیسے بن گئی"؟ زور زور سے سر ہلا کر بولا " بھٹّو صاحب کی روح کو طلب کروں؟ نہیں یہ مجھ سے نہ ہوگا۔ ایک مرتبہ پہلے بھی میں نے اُنہیں طلب کرنے کی کوشیش کی تھی وہ آئے تو ضرور لیکن آتے ہی اُنہوں نے مجھے بڑی زبردست جھاڑ پلائی اور ڈپٹ کر بولے " ایڈیٹ !مجھے بلوانے کی تجھے جرات کیسے ہوئی ، تو کیا سمجھتا ہے کہ میں اوپر فارغ بیٹھا رہتا ہوں ، ابے بارسٹرڈ میں مرنے کی بعد بھی مسلسل سیاست کر رہا ہوں کیا تجھے نظر نہیں آتا کہ میں پاکستان کی سیاست میں کس قدر دخیل ہوں آج تیس برس بعد بھی اِس ملک کی ساری سیاست میرے ہی گرد گھوم رہی ہے " ۔ یہ کہہ کر اُنکی روح مجھے دھمکاتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی تھی ۔ " مجھے اُن سے بڑا ڈر لگتا ہے لہذا میں آپکایہ کام نہیں کرسکتا " ۔ میں غصّے میں اُٹھ کر پروفیسر گھڑوچیا کے کمرے سے واک آوٹ کرگیا ۔ اور اُٹھتے اُٹھتے میں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ اگر اُس نے مجھے بھٹّو صاحب سے نہ ملوایا تو میں آئندہ اُسکی طلب کردہ کسی بھی روح سے انٹر ویو نہیں کروں گا " ۔

پروفیسر بے بسی سے اپنے بال نوچتا رہا لیکن میں نکل چلا آیا ۔ مگر ایک گھنٹے کے بعد ہی میرا سیکریٹری تقریباً بھاگتا ہوا میرے کمرے میں آیا اُسکی سانس چڑھی ہوئی تھی اور منہ سے صرف بھٹّو صاحب، بھٹّو صاحب کے الفاظ نکل رہے تھے ۔ قبل اِس کے کہ میںاُس سے کچھ پوچھتا ۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس بھٹّو صاحب سگار کے کش لگاتے ہوئے میرے کمرے میںداخل ہوگئے ۔ اُنکی پر وقار شخصیت میں کچھ عجیب سا سحر تھا ۔ ایک لمحے کو تو میں گم سم سا ہوکر اُنہیں تکتا ہی رہ گیا ۔ واہ کیا پرسنٹلی ہے۔

پھر اچانک ہی میرے اندر کا صحافی انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا اور میں اُنکی پیشوائی کےلئے آگے بڑھا ۔ اُنہوںنے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا " یہ مت سمجھنا کہ میں تمہارے یا تمہارے پروفیسر کے طلب کرنے پر یہاں آیا ہوں دراصل میں خود تمہارے توسط سے موجودہ ملکی سیاست کے بارے میں اپنے خیالات اِس ملک کے غریب عوام تک ، جو کہ اب غریب نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ غریب ہوچکے ہیں ، پہچا نا چاہتا تھا "۔

خوش نصیبی ہے میری ، تشریف رکھیئے " ، میں نے کہا ۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور بولے " ہاں اب تم جو چاہو سوال کرسکتے ہو ۔ میرے جوابات سے تمہیں یہ اندازہ بھی ہوجائے گا کہ موجودہ صورتحال کے بارے میں میرا نقطہ نظر کیا ہے ؟ لیکن کوشیش کرنا کہ ہم صرف ماضی کے گڑے مُردے ہی نہ اُکھاڑتے رہ جائیں اور وقت ختم ہوجائے ، کیونکہ تم اچھی طرح سے جانتے ہوں کہ ہمارے پاس وقت محدود ہے " ۔

میں نے سیکریٹری کو کافی کےلئے کہا اور اُن سے پہلا سوال کیا ۔
س : ۔ " کیا آپ اِس سے اتفاق کرتے ہیں کہ آپکا واقعی عدالتی قتل کیا گیا تھا " ؟
ج : ۔ " بالکل اِس میں کیا شک ہے ؟ صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے سپریم کورٹ نے مجھے انتہائی سزا سُنادی ۔ عدالت نے یہ فیصلہ سراسر ایک غاصب ڈکٹیٹر کے دباو کے نتیجے میںدیا تھا ۔ تم کیا سمجھتے ہو، میں قانون سے واقف نہیں ہوں ؟ یہ مت بھولو کہ میں قانون دان پہلے اور سیاست دان بعد میں بنا تھا"۔

س : ۔" معاشی ماہرین آج بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپکی نیشنلائزیشن کی پالیسی اِس ملک کی معاشی تباہی کی بنیاد ثابت ہوئی تھی۔ کیایہ دُرست ہے" ؟
ج : ۔ " کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ یہ دُرست ہے ، لیکن میری نیّت پر شک کرنا بھی میرے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ نیشنلائزیشن کی پالیسی غلط نہیں تھی ، بلکہ اِس کے نفاد کا وقت غلط تھا ۔ اِسی طرح مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ میں نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر صرف عوام کے ووٹ سمیٹے تھے اور عوام کو یہ تینوں چیزیں مہیّا کرنے میں ناکام رہا تھا ۔ دراصل اِن دونوں الزامات کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔ میری وضاحت سُن کر تمہاری سمجھ میں آجائے گا اِن دونوں الزامات کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟

ہوا دراصل یہ کہ مجھے جب اقتدار ملا تو عوام برسوں سے آمرانہ نظام کی سختیاں جھیل رہے تھے اور اِس کے عادی ہوچکے تھے ۔ میں نے اُنہیں سیاسی شعور دیا اور اُنہیں آگاہ کیا کہ اِن کے حقوق کیا ہیں ۔ تمہارے بہت سے دانشور آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کامطلب یہ تھا کہ میں ہر شخص کو یہ تینوں چیزیں خود تقسیم کروں گا ۔ جبکہ میرا مقصد یہ تھا کہ عوام کو اتنا خوشحال کردیا جائے اور اُنکی قوتِ خرید اتنی بڑھادی جائے کہ ہر شخص مالی طور پر مستحکم ہوکر یہ تینوں چیزیں با آسانی خود حاصل کرسکے ۔

اپنے اِسی منشور پر عمل درآمد کرنے کی خاطر میں نے نیشنلائزیشن کی پالیسی نافذکی تھی ۔ صنعتیں قومی ملکیت میں لینے کا مقصد یہ تھا کہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ سرمایہ دار اپنی مشینوں کے ایک ایک نٹ بولٹ کا تو خیال رکھتا ہے لیکن اِن مشینوں کو چلانے والے مزدوروں کےلئے اپنی جیب سے کچھ بھی نہیں نکالے گا ۔ لہذا میں نے مزدوروں کو منافع میں حصہ دار بنا یا ۔ اُن کے معاوضے بڑھائے ، اُنہیں یونین ساز ی کے حقوق دیئے ۔ تعلیم کو عام آدمی تک پہنچانے کےلئے تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لیا ۔

لیکن ہوا کیا ؟ تعلیمی اداروں ، بینکوں اور کارخانوں کے ملازمین رات کو سوئے تو پرائیوٹ اداروں کے ملازم تھے ، لیکن جب صبح سو کر اُٹھے تو وہ سرکاری ملازم ہوچکے تھے ، اُنکی نوکریوں کو تحفّظ حاصل ہوچکا تھا ۔ لہذا اُنکا رویہ وہی ہوگیا ، جو سرکاری اداروں میں کا م کرنے والے ملازمین کاہوتا ہے ۔ اُنہوں نے محنت کرنی چھوڑ دی ۔ بیوروکریسی کے ماتحت جب صنعتیں آگئیں تو اُنہوں نے اِن صنعتوں کو سرکاری اداروں کے اسٹائل میں چلانے کی کوشیش کی۔ یوں پیداوار کم ہوتی گئی۔

کارکنوں کو اپنے حقوق تو یاد رہے ، لیکن وہ اپنے فرائض بھول گئے ۔ عوام نے اِس جمہوری آزادی کے ساتھ وہی سلوک کیا ، جو ایسا دولت مند آدمی ،دولت کے ساتھ کرتا ہے ، جسے اچانک کہیں سے ایک بڑی دولت غیر متوقع طور پر حاصل ہوجاتی ہے۔ جسے ہم نو دو لتیا کہتے ہیں ۔ مجھے چاہئے تھا کہ میںعوام کو مرحلہ وار اِس جمہوری آزادی سے روشناس کرواتا ۔ جبکہ وہ ذہنی طور پر اِس آزادی کےلئے تیار ہوجاتے ۔ یہ شکائیت تو مجھے عوام سے ہے کہ اُنہوں نے میری پالیسی کو کام چوری اور محنت نہ کرکے خود ناکام بنایا اور اِس طرح خود کو بھی نقصان پہنچایا اور مجھے بھی۔ میں نے سرمایہ کاروں کوبھی ناراض کیا اور عوام بھی خوشحال نہ ہوسکے ۔ اور اِن دونوں الزامات کا ملبہ بھی آج تک میرے اوپر ہی گرایا جاتا ہے ۔ جبکہ میری نیّت یہی تھی کہ عوام کو روزگار بھی ملے اور وہ اتنے خوشحال بھی ہوجائیں کہ روٹی کپڑا اور مکان کاحصول اِن کےلئے ممکن ہوجائے ۔ لہذامیری پالیسی غلط نہیں بلکہ اِس کے نفاذ کا وقت غلط تھا "

س: ۔ بہرحال آپ کے پاس نیشنلائزیشن کی پالیسی کی ناکامی کےلئے لاکھ معقول وجوہات ہوں، لیکن یہ ملک کےلئے تباہ کن ثابت ہوئی ۔
ج : ۔ ہاں میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ کہا جاسکتا ہے ۔ دراصل کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں ، ناکامی کا کوئی نہیں ۔

س: ۔ لیکن آپ کے کریڈیٹ پر کامیابیوں کی ایک لمبی فہرست بہرحال موجود ہے ، اِسکا اعتراف آپکے مخالفین آج بھی کرتے ہیں ۔ مثلاً سیاست کو عوام کی گلیوں اور دروازوں تک لے جانا ۔ 73 ءکا متفقہ آئین ۔ شملہ معاہدہ ۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا ۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ۔ عام آدمی کےلئے پہلی مرتبہ فریضہ حج کی ادائیگی کو آسان بنانا ۔ امریکہ ، یورپ اور مڈل ایسٹ کےلئے بے پناہ افرادی قوت کی کھپت کو ممکن بنانا ۔ اور سب سے بڑا کارنامہ آپکی کامیاب خارجہ پالیسی تھی ، جس کے باعث عام پاکستانی کو بیرونِ ملک عزت و احترام سے نوازا گیا اور اِنہی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی محنت کے نتیجے میں ملک میں آنے والے زرِ مبادلہ کے کثیر ذخائر نے آپکی نیشنلائزیشن کی پالیسی کے مضرِ اثرات کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا ۔ بلکہ زرِ مبادلہ کی اِسی ریل پیل سے آپ کے بعد ضیاءالحق نے بھی فائدہ اُٹھایا اور آمریت کے باوجود کئی برس تک
ج : ۔ ( میری بات کاٹتے ہوئے ) اب تمہارے منہ سے اِس شخص کا نام نہیں نکلنا چاہیے ، ورنہ انٹر ویو اِسی جگہ پر ختم ہوجائے گا ۔

س: ۔ ٹھیک ہے سر میں اس کاخیال رکھوں گا۔ مانا کہ آپ میں لاکھ خوبیاں موجود تھیں، لیکن کیایہ دُرست نہیں کہ آپ میں قوتِ برداشت کی بڑی کمی تھی ۔ مخالفت اور تنقید آپ برداشت نہیں کرتے تھے۔ بلکہ کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ آپ بہت منتقم مزاج آدمی تھے ۔ اور یہ کہ آپ زندگی بھر اپنی جاگیردارانہ ذہنیت سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے ۔ دوسری بات یہ کہ ، یہ کیسے ممکن ہے کہ جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص عملی طور پر پسے ہوئے طبقے کےلئے خوشحالی لاسکے ؟
ج : ۔ یہ کوئی کُلیہ نہیں ہے کہ جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی سیاسی رہنما عام آدمی کی حالت بہتر نہیں بنا سکتا ۔ اِسکی بہترین مثال میرا دوست چو این لائی تھا ۔ اُسکا تعلق بھی جاگیردار طبقے سے تھا ۔ لیکن چین آج جس مقام پر ہے ۔ اِس کے بنیادی معماروں میں وہ بھی شامل تھا ۔ دوسرے، شہید ملت لیاقت علی خان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ وہ بھی جدی پُشتی نواب اور جاگیردار تھے ۔

س: ۔ یہ آپ نے دُرست کہا ۔ لیکن دُرست یہ بھی ہے کہ آپ منتقم مزاج تھے اور مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے ۔ آپ کے کئی نظریاتی ساتھی آپ کے انتقام کے نشانہ بنے ۔ مثلاً جے اے رحیم ، مختار رانا ، احمد رضا قصوری ،معراج محمد خان اور دیگر بے شمار لوگ اِس فہرست میں شامل ہیں ۔
ج : ۔ دراصل یہ لوگ اس وقت کے حالات اور میری مجبوریاں سمجھ نہیں پارہے تھے۔ سیاست میں کچھ سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں اِس لئے اِن لوگوں کو مجھے سبق سکھانا پڑا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد ایسا کرنا بعض اوقات ضروری ہوتا ہے ۔

س: ۔ آپ نے تحریر و تقریر پر بے جا پابندیاں عائد کیں اور اخبارات پر سنسنر بھی لگایا ۔ گویا میڈیا کو پابند سلاسل کرکے رکھا ۔ کیا یہ تمام اقدامات یہ ثابت نہیں کرتے کہ آپکو مخالفت پسند نہیں تھی ؟
ج:۔ (سوچتے ہوئے)ہاں میں اس سے انکار نہیں کروں گا۔

س:۔ایف ایس ایف بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟کیا یہ گسٹاپو اور ساوک جیسا ڈھا نچہ نہیں رکھتی تھی؟
ج : ۔ ہاں یہ بھی میری غلطی تھی ۔ ایف ایس ایف کا سربراہ ہی میرے خلاف قتل کے مقدمے میں آمریت کا دباو برداشت نہ کرسکا اور سلطانی گواہ بننے پر تیار ہوگیا تھا ۔ اِس کا نقصان خود مجھے سب سے زیادہ پہنچا ۔

س:۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیںکہ ایف ایس ایف تو نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوث تھی لیکن آپ نے یہ احکامات جاری نہیں کیے تھے؟
ج:۔ ہاں میں نے ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی تھی۔

س:۔یہ کیسے ممکن ہے؟ہوسکتا ہے یہ آپ کی خواہش ہو اور ایس ایف ایس نے اپنے نمبر بنانے کے لیے آپ کی خواہش کی تکمیل کر دی ہو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قتل تو بہرحال ہوا تھا اگر آپ نے یہ قتل نہیں کروایا تو قاتل کون تھا؟
ج:۔ یہ پاکستان کا کوئی پہلا سیاسی قتل نہیں تھا کہ جس کے قاتلوں کا سراغ نہیں ملا ،لیاقت علی خان کے قاتل کون تھے؟ خود میری بیٹی بینظیر کے قاتل کہاں ہیں؟ رہی خواہشات کی بات تو کسی جرم کی خواہش کرنے پر سزا نہیں دی جاسکتی تاوقتیکہ خواہش پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔

س: ۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ آپ نے کیوں دبا کر رکھی ؟ آپ اِسے منظرِ عام پر لاسکتے تھے کیونکہ عوامی حمایت آپ کے ساتھ تھی ۔ اگر آپ نے اِسکی سفارشات پر عمل کر کے فوجی جرنیلوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہوتا تو آپکی زندگی میں 5 جولائی 77 ءکا دِن نہیں آتا ۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ؟اِس رپورٹ کو دبانے کے نتیجے میں عام تاثر یہ بھی قائم ہوا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں آپکا بھی ہاتھ ہے ۔ کیا آپ اِسکی تردید کرسکتے ہیں ؟
ج : ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ میں نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ دبائے رکھی ۔ لیکن اِسکی وجہ یہ تھی کہ میں پاکستانی فوج کا مورال بلند کرنا چاہتا تھا ۔ رہا یہ الزام کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں میرا بھی کچھ کردار تھا اِس موضوع کو نہ چھیڑو میں اِسکی صرف تردید ہی کروں گا ۔ اِس موضوع پر بات کرنے کےلئے کبھی الگ سے نشست ر کھیں گے ۔ لیکن یہ دُرست ہے کہ اگر کچھ فوجی افسران کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا تو 5 جولائی نہ آتی ۔

س: ۔ کیا یہی غلطی ہمارے آج کے موجودہ صدر صاحب نہیں کر رہے ہیں ؟ اگر آج پرویز مشرف کا ٹرائیل ہوجائے تو آئندہ کوئی بھی طالع آزما جرنیل ٹیک اوور کرنے سے قبل کئی مرتبہ سوچے گا ۔
ج : ۔ (استہزایہ انداز میں ہنستے ہوئے ) آج کے صدرِمملکت ؟ کیا تم نے تاریخ میں کبھی " نظامِ سقّہ " کا ذکر پڑھا ہے ۔ جسے حالات اور اتفاقات نے چند دِن کےلئے بادشاہ بنا دیا تھا ؟ تم خود ہی بتاو ایسا حکمران کیا کرسکتا ہے ؟

س: ۔ یہ تو آپ نے بہت گہرا قانونی نکُتہ بیان فرمایا ہے ۔ واقعی آپ جینیس ہیں۔ اچھا یہ بتایئے کہ موجودہ دستیاب قیادت میں سے وہ کونسا لیڈر ہے ، جو بگڑے ہوئے حالات کو دُرست کرسکتا ہے ؟
ج : ۔ (مسکراتے ہوئے ) اگر میں نے کسی کا نام بتایا تو میری پارٹی کے جیالے برا مان جائیں گے اور اگر نہ بتایا تو یہ عوام اور عمران خان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ اِس ڈپلومیٹک جواب پر ہم دونوں ہی قہقہ مار کر ہنس پڑے پھر بھٹّو صاحب نے گھڑی دیکھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے ۔ اور میں اِس شخص کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ جس نے مرنے کے بعد بھی ایک عالم کو دیوانہ بنا رکھا ہے ۔
Yeh people party ka tatoo khan say agiya