یہ انٹرویو احمد رضا قصوری صاحب نے تقریباً ایک سال قبل ریکارڈ کروایا تھا- یہ وہی احمد رضا قصوری صاحب ہیں جن کے والد نواب احمد رضا خان قصوری کے قتل کا جرم سپریم کورٹ میں ثابت ہونے پر بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی- احمد رضا خان قصوری نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹر کیا ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ وکیل بن گئے ۔ وہ پاکستان کے بہترین قانونی ذہنوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کی حکومت چھوڑ دی ، تو احمد رضا قصوری ان کی تیز تقریروں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے 1967 میں اپنی پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو نے انہیں پیپلز پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا ممبر مقرر کیا۔ وہ لاہور کے ایک حلقے سے 1970 کے پاکستانی عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔
اس انٹرویو میں احمد رضا قصوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 7 دسمبر 1970 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے نتیجہ عوامی لیگ کی فتح تھی ، جس نے 160 سیٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کی ، یہ تمام تر مشرقی پاکستان میں تھی۔ پیپلز پارٹی نے صرف 81 سیٹیں حاصل کیں ، تمام مغربی پاکستان میں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان سے پارٹی نہیں چاہتے تھے۔ اس نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے بھی سختی سے انکار کردیا۔ دراصل ، وہ اتنا مغرور تھا کہ اس نے دھمکی دی کہ اگر کوئی منتخب پارٹی ممبر ڈھاکہ جانے کی جرات کرے گا تو ان کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بن سکتا ، لہذا اس نے یہاں تک کہا کہ آپ مشرق میں حکومت کریں ، ہم مغرب میں حکومت کریں گے۔ جو کہ "ادھر تم ادھر ہم " کے نعرے سے مشہور ہوا۔ اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں اس نعرے کے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ احمد رضا قصوری صاحب شاید وہ واحد پارٹی ممبر تھے جو کہ ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنےکے لیے ڈھاکہ پہونچ گئے۔ بھٹو احمد رضا قصوری صاحب کے اس رویے سے سخت نالاں تھے۔ ایک موقع پر اسمبلی کے فلور پر بھٹو نے کہ قصوری پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور یہ کہ وہ ان کا جلد بندوبست کریں گے۔ یہیں سے بھٹو قصوری صاحب کا جانی دشمن بن گیا۔ اور کئی ناکام قاتلانہ حملوں میں ناکامی کے بعد ایک حملے میں جو گولی احمد رضا قصوری صاحب کو نشانہ بنانا چاہتی تھی وہ ان کے والد کے جا لگی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے۔
بھٹو کے دور حکومت میں احمد رضا قصوری صاحب کو کوئی انصاف نہ ملا، بلاخر ضیاء الحق کے دور میں ایف-ایس-ایف کے ڈائریکٹر نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر اعترافی بیان دیا کہ کس طرح بھٹو کے حکم پر قصوری صاحب کو قتل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ہونے کے بعد نظر ثانی کی درخواست بھی پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دی ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011 کو بھٹو کے قتل کے مقدمے پر نظرثانی کے بارے میں اپنی رائے طلب کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ریفرنس اب تک بے نتیجہ ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کے وکلاء احمد رضا قصوری کے مظبوط سوالناموں کا جواب دینے میں اب تک ناکام ہیں۔
اس انٹرویو میں احمد رضا قصوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 7 دسمبر 1970 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے نتیجہ عوامی لیگ کی فتح تھی ، جس نے 160 سیٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کی ، یہ تمام تر مشرقی پاکستان میں تھی۔ پیپلز پارٹی نے صرف 81 سیٹیں حاصل کیں ، تمام مغربی پاکستان میں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان سے پارٹی نہیں چاہتے تھے۔ اس نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے بھی سختی سے انکار کردیا۔ دراصل ، وہ اتنا مغرور تھا کہ اس نے دھمکی دی کہ اگر کوئی منتخب پارٹی ممبر ڈھاکہ جانے کی جرات کرے گا تو ان کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بن سکتا ، لہذا اس نے یہاں تک کہا کہ آپ مشرق میں حکومت کریں ، ہم مغرب میں حکومت کریں گے۔ جو کہ "ادھر تم ادھر ہم " کے نعرے سے مشہور ہوا۔ اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں اس نعرے کے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ احمد رضا قصوری صاحب شاید وہ واحد پارٹی ممبر تھے جو کہ ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنےکے لیے ڈھاکہ پہونچ گئے۔ بھٹو احمد رضا قصوری صاحب کے اس رویے سے سخت نالاں تھے۔ ایک موقع پر اسمبلی کے فلور پر بھٹو نے کہ قصوری پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور یہ کہ وہ ان کا جلد بندوبست کریں گے۔ یہیں سے بھٹو قصوری صاحب کا جانی دشمن بن گیا۔ اور کئی ناکام قاتلانہ حملوں میں ناکامی کے بعد ایک حملے میں جو گولی احمد رضا قصوری صاحب کو نشانہ بنانا چاہتی تھی وہ ان کے والد کے جا لگی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے۔
بھٹو کے دور حکومت میں احمد رضا قصوری صاحب کو کوئی انصاف نہ ملا، بلاخر ضیاء الحق کے دور میں ایف-ایس-ایف کے ڈائریکٹر نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر اعترافی بیان دیا کہ کس طرح بھٹو کے حکم پر قصوری صاحب کو قتل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ہونے کے بعد نظر ثانی کی درخواست بھی پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دی ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011 کو بھٹو کے قتل کے مقدمے پر نظرثانی کے بارے میں اپنی رائے طلب کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ریفرنس اب تک بے نتیجہ ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کے وکلاء احمد رضا قصوری کے مظبوط سوالناموں کا جواب دینے میں اب تک ناکام ہیں۔