برما کے مسلمانوں کی نسل کشی

abubilal

Banned
برما کے مسلمانوں کی نسل کشی
دارالجبہہ کی تجزیاتی رپورٹ


یہ نسل کشی کیوں شروع ہوئی؟
اراکانی بدھسٹوں نے روہنگیا کی مسلمان اقلیت پر ایک من گھڑت بہتان لگایا کہ تین مسلمان نوجوانوں نے ۲۶ سالہ ایک (بدھ مت) عورت کی عصمت دری کی اور پھر اسے قتل کردیا۔ یہ الزام سراسر جھوٹ پر مبنی تھا اور اقلیت میں بسنے والے مسلمانوں نے اراکانی بدھسٹوں کے خلاف ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ اس عورت کی تو بدمعاش اراکانی بدھ مت کے پیروکاروں نے عصمت دری کی تھی اور پھر اسے قتل کر دیا تھا۔ قاتلوں میں اس عورت کا ایک نا محرم مرد دوست بھی شامل تھا، جس سے اس عورت کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور اس کے بعد اس عورت نے اسے چھوڑدیا تھا۔ اس نامحرم دوست نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس عورت سے اپنی دوستی دوبارہ قائم کرلے مگر اس عورت نے انکار کر دیا اور نیا نامحرم دوست بنا لیا۔ اس پر اس کے پرانے نامحرم دوست نے اپنے دو قریبی دوستوں کے ساتھ مل کر، اس عورت کی عصمت دری کی اور اس کا قتل کر کے بدلہ لیا۔

اراکانی بدھسٹ قاتلوں نے اس عورت کی لاش کو ایک مسلمانوں کے گاؤں میں پھینک دیا اور کسی کو اس کے قاتل کے بارے میں کچھ نہیں پتا چلا۔ اراکانی بدھسٹوں اور برما کی کفار حکومتی انتظامیہ نے اس عورت کے قتل کا الزام مسلمانوں پر لگاتے ہوئے تین بیگناہ برمی مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔ ایک مسلمان پر سخت تشدد کرتے ہوئے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ باقی دو مسلمانوں کو عدلیہ نے موت کی سزا سنا دی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ حکومت نے فرضی کہانی اس لیے گھڑی تاکہ مسلمانوں کیخلاف اشتعال دلاکر ان کی نسل کشی کی حقیقی مہم شروع کی جاسکے۔

اس نسل کشی کی سازش سے پہلے روہنگیا کے مسلمانوں کی صورت حال:

گزشتہ چند مہینوں میں، اراکانی شدت پسندوں اور بدمعاشوں نے اندورنی و بیرونی برما میں اسی پرانے نعرے کو ہوا دے کر روہنگیا کے خلاف تحریک شروع کی کہ؛ روہنگیا برما کے شہری نہیں ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن ہیں، تاکہ وہاں سے مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

1346484147661.png

(روہنگیوں کیخلاف پروپیگنڈا مہم)

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس منظم مہم کا آغاز حکومت کے کچھ ذمہ دار وزراء اور حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مسلمانوں کیخلاف دیئے جانے والے بیانات کے فورا بعد ہی شروع ہوئی۔

یہ نسل کشی کی مہم کیسے شروع ہوئی اور پھر کیا ہوا؟

۳ جون ۲۰۱۲، کو آٹھ مسلم حاجیوں سمیت ایک گائیڈ، ایک بس کنڈیکٹر اور ایک عورت کو اراکانی غنڈوں نے اراکان کے جنوب میں واقع شہر تانجب میں قتل کردیا۔ پانچ دیگر افراد اس مذبح خانے سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ نشانہ بننے والے تمام افراد مسلمان تھے جو حج سے واپس آتے ہوئے جنوبی ارکان کے علاقہ ثاندوی میں واقع مسجد ثیتسا میں نماز پڑھنے کے بعد بس میں سوار ہوکررانگونشہر جارہے تھے۔

1346484147612.png

(شہید ہونے والے مسلم حاجی حضرات)

اراکانی دہشت گرد غنڈوں نے بس کو، جس کی لائسنس پلیٹ 7 (Ga)۔7868 تھی، امیگریشن کے دروازے پر روکا اور آواز لگائی کہ اگر کوئی غیر ملکی ہیں تو نیچے اترآئیں۔ ان غنڈوں نے تباہ کن ہتھیار اٹھائے ہوئے تھے۔ گائیڈ اور کنڈیکٹر نے اراکانی دہشت گردوں سے التجا بھی کی کہ مسافروں کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں، مگر ظالم شدت پسندوں نے بس پر دھاوا بول کر چلا چلا کر ان سب کو غیر ملکی کہنا شروع کر دیا۔ پھر انہوں نے مسلمان حاجیوں کو مارتے ہوئے بس سے گھسیٹ کر روڈ پر لے آئے، جہاں پہلے سے کھڑے ۳۰۰ سے زائد منظم اراکانی بدمعاش غنڈوں نے مسلمانوں کو مار مار کر موت کی نیند سلادیا۔ یہ بدمعاش غنڈے امیگریشن گیٹ پر کھڑے ہوئے تھے، مگر حکومتی انتظامیہ کے اہلکار دور کھڑے ہوکر قتل عام کا نظارہ کرتے رہے اور اسے رکوانے کے لیے نہیں آئے۔

1346484147373.png

(قتل ہونے والے تمام مسلمان حج کرکے واپس آرہے تھے)

جب حاجیوں نے بائی طاشان مسجد سے ثاندوی کی جانب سفر باندھا، تو وہاں فراہم کی جانے والی ناموں کی لسٹ کے مطابق قتل ہونے والے آٹھوں مسلمان وسطی برما سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی شناخت یہ ہے:

۱: محمد شریف
۲: محمد حنیف
۳: شفیلد بائی
۴: اسلام بائی
۵: بلائی بائی
۶: شعیب
۷: سالم بائی
۸: لقمان بائی

(فراہم کی جانے والی لسٹ کے مطابق ہر حاجی کا بائیو ڈیٹا)
1) Muhammed Sharief @ U Ne Pwe s/o U Ahmed Suban, 58 8/Ta Ka Ta (N)095548, from Taung Twin Gyi

2) Muhammed Hanif @ U Maung Ni s/o U kay Pe Sufi, 65 8/Ta Ka Ta (N)095530, from Taung Twin Gyi

3) Shafield Bai @ U Aye Lwin s/o U A Hpoe Gyi, 52 8/Ta ka Ta (N)093573, from Taung Twin Gyi

4) Aslam Bai @ U Aung Myint s/o U Hla Maung, 508/Ta ka Ta (N)094557, from Taung Twin Gyi

5) Balai Bai @ Tayzar Myint s/o U Yakub, 288/Ta ka Ta (N)189815, from Taung Twin Gyi

6) Shuaib @ Tin Maung Htwe s/o U Tin Oo, 218/Ta ka Ta (N)231084, from Taung Twin Gyi

7) Salim Bai @ Aung Bo Bo Kyaw s/o U Tun Tun Zaw, 2614/Ma La Na (N)231084, from Myaung Mya

8) Lukman Bai @ Zaw Nyi Nyi Htut s/o U Ibrahim, 3314/Ma La Na (N)148133, from Myaung Mya


باقی دیگر دو مقتول ثاندوی سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی تھے جن کی بس تھی۔

بس کی نمبر پلیٹ 7 (Ga)۔7868 تھی اور اس بس کو نذر آتش کر کے تباہ کر دیا گیا۔

جبکہ پانچ مسلمان اس وحشیانہ قتل سے بچ کر زندہ بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ مجرموں نے اپنی کامیابی کا جشن سڑک پر پڑی (حاجیوں) کی مردہ لاشوں پر تھوکتے اور شراب انڈیلتے ہوئے منایا۔ ان مجرموں میں سے کسی ایک کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان قاتلوں کیخلاف اب تک کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ لاشوں کو ۳ جون ۲۰۱۲ ء کو ثاندوی میں ہی دفنا دیا گیا۔

1346484147974.png

(۳ جون ۲۰۱۲ء کی شام ثاندوی میں قتل ہونے والی حاجیوں کی لاشوں کو دفنایا جارہا ہے)

دفعہ ۱۴۴ کے تحت، اراکانی سیکیورٹی فورسز روہنگیوں کی جائیداد کو لوٹ اور جلا رہے ہیں:

برمی حکومتی آئین کی دفعہ ۱۴۴ کے تحت، موانغداو کی روہنگی آبادی کو اپنے علاقے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے، جبکہ اراکانی آبادی آزادی سے جہاں چاہے گھوم پھر سکتے ہیں۔

1346484147975.png

اراکانی بدھسٹ اور برمی سیکورٹی اہلکار رات کے وقت مسلمانوں کے ایک گاؤں کو آگ لگا رہے ہیں

1346484147256.png

بدھمت کی پیروی کرنے والے اراکانی اور برمی سیکورٹی اہلکار رات میں ایک مسلمانوں کے گاؤں کوآگ لگا کر جلارہے ہیں۔

اراکانی بدھسٹ جب روہنگیوں کے گھروں کو جلارہے تھے تو برمی سیکورٹی اہلکار اراکانی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

1346484147717.png

اراکانی کے بدھ مت اور برما کے سیکورٹی اہلکار صبح کے وقت مسلمانوں کے گاؤں کو نذر آتش کر رہے ہیں۔

موانغداو کے ایک بزرگ شہری نے بتایا کہ بدھسٹوں کی لگائی جانے والی آگ سے اپنے گھروں کو بچانے کی کوشش کرنے والے روہنگیوں پر سیکورٹی اہلکاروں نے اندھا دہند فائرنگ کرکے انہیں نشانہ بنایا۔

1346484147588.png

برما کے فوجی اہلکار مسلمانوں پر فائرنگ کرنے کے لئے تیاری حالت میں کھڑے ہورہے ہیں

فوجی اہلکاروں اور اراکانیوں نے رزق، لالو اور سید احمد کے گھروں کو آگ لگا کر جلا ڈالا جبکہ کپڑوں کی پانچ سے زیادہ دکانیں لوٹ لیں جن کی لاگت پندرہ کروڑ کیات ہے۔ نیز سوماوانا گاؤں کی ایک مسجد بھی منہدم کردی۔ ۸ جون ۲۰۱۲ء کی شام کو مختلف دیہاتوں میں روہنگیا کے دو سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔

۹ جون ۲۰۱۲ء کو انتہاپسند ارکانیوں اور فوجی اہلکاروں نے ۱۰۰ روہنگیوں کو شہید اور ۵۰۰ کے لگ بھگ کو زخمی کردیا۔

1346484147679.png


1346484147310.png


اراکان میں فوج کے تسلط کے بعد بھی مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔

روہنگیا کے مسلمان اکیاب سے بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر رہے ہیں کیونکہ اراکان میں تشدد بہت بڑھ گیا ہے، جہاں روہنگیا کے دیہاتوں کو جلا دیا گیا ہے۔ بے شمار معصوم روہنگیا کے بیگناہ لوگوں کو پولیس، فوجی اہلکاروں اور اراکانیوں نے قتل کرڈالا ہے۔

روہنگی مسلمان تو سمجھ رہے تھے کہ بنگلہ دیش ایک مسلمان ملک ہے اور وہ ان حالات میں ان کی مدد کرے گا۔

1346485202301.png

روہنگی مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ مانگنے کی التجائیں کر رہے ہیں۔

1346485202112.png

روہنگی مسلمان جنہوں نے کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کو واپس سمندر میں دکھیل دیا گیا۔

بدقسمتی سے، بنگلہ دیش کی طاغوتی حکومت اور مرتد فوج روہنگی مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔ اگر کوئی مقامی مسلمان کسی روہنگی مسلمان کو پناہ دے دیتا ہے تو طاغوتی بنگلہ دیشی فوج دونوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور روہنگی مسلمان کو جلا وطن کر دیتی ہے۔

1346485202423.png

بنگلہ دیش کی طاغوتی فوج روہنگی مسلمانوں کی کشتیوں کو تلاش کررہے ہیں

1346485202104.png

بنگلہ دیش کی طاغوتی فوج روہنگی مسلمانوں کو واپس سمندر میں جانے پر مجبور کر رہے ہیں

برما کی حکومت نے گزشتہ دنوں موانغداو کے ایک پولیس تھانے میں خصوصی کمرہ عدالت قائم کیا ہے۔ ایک عمر رسیدہ بزرگ نے بتایا: اس خصوصی عدالت کو ان روہنگی مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جن کو ۸ جون سے پولیس، وناساکا (سرحد کی دفاعی فورس) یا فوج نے موانغداو میں حالات خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کرتی چلی جا رہی ہیں۔ خصوصی عدالت میں کوئی بحث مباحثے نہیں ہوتے اور جج کا کردار صرف بیان پڑھ کر سنانا اور اس کے بعد ان بیگناہوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

موانغداو کے ایک سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ کسی رشتے دار کو اپنے ان عزیز و اقارب سے ملنے کی اجازت حاصل نہیں ہے جن کو حکومت نے گرفتار کر رکھا ہے۔ گرفتار شدگان کے لواحقین کو خصوصی عدالتوں کے بارے میں کچھ نہیں پتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ برما کی بدھ سٹ حکومت روہنگیا کے لوگوں کی عصمت دری کے نئے طریقے اپنا رہی ہیں جن کے باعث موانغداو میں روہنگیا کی مسلمان خواتین کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ باقی نہیں رہی ہے۔ صرف ۸ جون سے ۱۹ جون تک، موانغداو میں ۶۰ سے زائد خواتین کی فوجی اہلکاروں، پولیس، ھلنتین سیکورٹی فورسز، ناساکا اور فوج سمیت اراکانیوں اور ناتالا (نئے آباد کاروں) کے ہاتھوں عصمت دری کی جا چکی ہے۔

جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بونج زار کی ایک رہائشی خاتون نے بتایا: زیادہ تر روہنگی عورتوں کی فوجی اہلکاروں، اراکانی اور ناتالا (نئے بسنے والے لوگوں) نے عصمت دری اس وقت کی جب تمام روہنگی مردوں کو فوجی اہلکاروں نے ایک جگہ بلا کر جمع کررکھا تھا۔ اسی دوران فوج کے ایک دستے نے گاؤں میں داخل ہوکر گھروں پر دھاوابولا، تمام گھریلو اشیا تباہ و برباد کر دیں اور تمام قیمتی چیزیں (سونا اور پیسہ) لوٹ کر لے گئے۔ یہ سب کچھ ہونے کے وقت تمام روہنگی مسلمان خواتین اپنے گھروں میں موجود تھیں، جنہیں فوجی اہلکاروں، ناتالا اور اراکانیوں نے عصمت دری کا نشانہ بنایا۔

سیکورٹی فورسزــ فوج اور ناساکاــ رات کے وقت گاؤں میں داخل ہوئی تاکہ ان خاندانوں کی فہرست مرتب کی جاسکے جن کی گھروں میں موجود روہنگی عورتوں کی عزتوں کو لوٹا گیا تھا اور ان کے مرد گرفتاری کے خوف سے وہاں نہیں رہ رہے تھے۔

مسلمانوں کو اراکان ــ موانغداو اور اکیاب ــ میں کہیں بھی فوجی اہلکاروں، ناساکا، ھلنتن اور پولیس کے ہاتھوں تحفظ فراہم نہیں ہے بلکہ یہ فورسز توان کو قتل کرنے والی قاتل قوتیں بن گئی ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ مجبور و لاچار لوگوں کی مدد کریں، صورت حال پر قابو پائیں اور قانون نافذ کرکے حکومت کی رٹ قائم کریں۔ الٹا انہوں نے مسلمانوں کے دیہاتوں کو مسمارکرنا شروع کردیا، انہیں نذر آتش کیا اور جلے ہوئے گھروں سے بھاگنے والے مسلمانوں پر گولیاں برسائیں۔ نیز اکیاب شہر اور موانغداو قصبے میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کرنے کے لیے ان فورسز نے کرفیو نافذ کیا۔ کرفیو نافذ ہونے کے بعد، اراکان کے بدمعاش اراکانی انتہاپسندوں نے فوجی اہلکاروں اور پولیس کے ہمراہ سڑکوں پر نکل آئے اور مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ کرکے انہیں قتل کرنا، ان کے گھروں کو جلانا اور لوٹنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔