mtahseenpk
MPA (400+ posts)
این-اے ١٢٢ کا فیصلہ آگیا
___________________
By: Muhammad Tahseen
نادرا کی طرف سے قومی اسمبلی کے حلقے این-اے ١٢٢ کی فرانزک رپورٹ آنے کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے. دونوں جماعتیں اپنے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے پر تلی ہیں. اس بیچ نواز لیگ کے وزرا خصوصا'' پرویز رشید نے ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول کر اورحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور نواز لیگی سپورٹرز کو گمراہ کرنے کی کو شش کی. خود نواز لیگی سپورٹرز بھی حقائق کا جائزہ لینے اور انہیں خود سمجھنے کی کوشش کرنےکی بجائے پوری تن دہی سے جھوٹ کا دفاع کرنے میں جت جاتے ہیں. اپنے نواز لیگی بھائیوں کو حقائق سے آگاہ کرنے اور ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے نادرا کی اس فرانزک رپورٹ کا تجزیہ کرتے ہیں. لیکن اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ نادرا حکومت کاادارہ ہے جسے وزیر داخلہ ہیڈ کرتے ہیں اور یہ تحریک انصاف کے انڈر نہیں آتا.
دوسرے امیدواروں کی طرح NA-122 لاہور سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور نون لیگ کے سردارایاز صادق کے درمیان مقابلہ تھا جس کی بنا پر اس حلقے کو قومی سطح پر اہمیت حاصل ہوگئ تھی اور یہ سب کی نظروں میں تھا. گمان یہی کیا جا رہا تھا کہ چونکہ عمران خان قومی سطح کے لیڈر ہیں اور ایک پارٹی کے سربراہ بھی اس لیے وہ باآسانی جیت جائیں گےلیکن جب الیکشن کا رزلٹ آیا تو وہ اس کے برعکس تھا. قومی اسمبلی کے تین حلقوں سےجیتنے والے عمران خان کو اس حلقے سے شکست ہو گئی تھی جہاں انہوں نے اپنی زندگی کاایک بڑا حصہ گذارا تھا۔ عمران خان کو شکست دینے کے انعام کے طور پر ایاز صادق کونون لیگ کی طرف سے سپیکر قومی اسمبلی بنا دیا گیا.
الیکشن میں مبیبہ دھاندلی کے خلاف جب عمران خان نے اپنی تحریک کا آغاز کیا توابتدائی طور پر جن چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ان میں ایک حلقہ یہی این اے 122 بھی تھا جہاں انہیں ایاز صادق کے ہاتھوں شکست ہوئی. اس حلقے کے رزلٹ کوعمران خان الیکشن ٹریبیونل میں بھی لے کر گئے جہاں دو سال سے یہ زیر سماعت ہے اورکوئی فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے. اتنے لمبے عرصے تک اس کیس کے چلنے کی ذمہ داری فریقین ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں. ایاز صادق نے کافی عرصہ اس کیس میں کورٹ سےسٹے آرڈر بھی لیے رکھا جس سے ٹریبیونل کی کاروائی معطل رہی.
اب اس حلقے کے کچھ اعداد وشمار کا جائزہ لیتے ہیں. قومی اسمبلی کے اس حلقے NA- 122 لاہور میں:
رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد: 280،044
2013 کے الیکشن میں ڈالے گئے کل ووٹ: 184، 191
اس حلقے سے نوازلیگ کے ایاز صادق کامیاب ہوئے جن کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ہے.
ایاز صادق کے حاصل کردہ ووٹ : 93،362
عمران خان جو دوسرے نمبر پر رہے ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ہے.
عمران خان کے حاصل کردہ ووٹ : 84،417
یوں ایاز صادق نے عمران خان کو تقریبا نوہزار ووٹوں سے شکست دی. اب یہاں یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ عمران خان اور ایاز صادق کے درمیان نوہزار 9000 ووٹوں کا فرق ہے.
الیکشن کمیشن میں مسلسل دو سال زیرسماعت رہنے کے بعد عمران خان کی درخواست پرالیکشن ٹریبیوبل نے نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کروانے کا فیصلہ کیا. ایاز صادق اس فیصلے کے خلاف فورا''کورٹ میں گئے اور نادرا کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق رکوانے کی کوشش کی جسے عدالت نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اب اس کیس کا فیصلہ ہوجانے دیں. یوں نادرا کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق کا مرحلہ شروع ہوا. دو ماہ بعد آج بالآخر نادرانے اپنی رپورٹ الیکشن ٹریبیونل کو جمع کروادی اور فریقین کو بھی اس کی کاپیاں دےدیں.
اب ذرا اس فرانزک رپورٹ کے مندرجات پر ایک نظر ڈالتے ہیں.
نادرا رپورٹ:
کل ووٹ جو چیک کیے گئے : 184،191
کل ووٹ جن کی انگوٹھے کے نشان سے تصدیق ہوسکی: 73،478
کل ووٹ جن کی انگوٹھے کے نشان سے تصدیق نہیں ہوسکی: 93،852
جعلی شناختی کارڈز پر ڈالے گئے کل ووٹ : 6،123
کل کاؤنٹر فائلز جن پر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان موجود نہیں : 1715
کل ووٹرز جنہوں نے دو بار ووٹ ڈالا: 255
دوسرے حلقوں کے ووٹ جو اس حلقے میں ڈالے گئے 570
ایسے افراد جنہوں نے شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالا: 370
4250 ووٹوں پر پریزائڈنگ آفیسرز کے دستخط موجود نہیں.
22639 کاؤنٹر فائلز پر دستخط اور مہریں موجود نہیں.
1396 ووٹوں کے کاؤنٹر فائلز ہی موجود نہیں.
1395 ووٹوں پر پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط ہی موجود نہیں.
69 پولنگ سٹیشن کے فارم 14 اور 59 حلقوں کے فارم 15 غائب ہیں.
28 پولنگ بیگز کی سیلز ٹوٹی ہوئی تھیں.
حلقہ این اے 124 اور پی پی 147 کے ہزاروں ووٹ حلقہ این اے 122 سے ملے
20 پولنگ اسٹیشن کے فارم چودہ کے سیریل نمبر درست نہیں. اور کچھ اور بھی چیزیں جنہیں چھوڑ دیتے ہیں.
اب انہیں اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہیں۔
نون لیگ کہتی ہے جن 93852 ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوسکی وہ جعلی نہیں اور صرف اسی ایک نکتے کو بیان کرکے اور باقی سارے حقائق کو بھی اسی ایک نکتے کے گرد گھما کے وہ اپنے ووٹرز کو بیوقوف بناتی ہے . چلیں ہم نون لیگ کی بات کو سو فیصد درست مانتےہیں کہ یہ ووٹ ناقص سیاہی اور کاغذ کی وجہ سے تصدیق نہیں ہوسکے اور حقیقت میں یہ ووٹ صحیح ہیں. اب آگے چلتے ہیں. 6123 ووٹ جعلی شناختی کارڈز پر ڈالے گئے انہیں توجعلی مانتے ہیں ناں یا اس کی بھی کوئی توجیح پیش کریں گے؟
255 لوگوں نے ڈبل ووٹ ڈالا اس کو بھی آپ جائز قرار نہیں دے سکتے. 370 افراد نےبغیر شناختی کارڈ کے ووٹ ڈالا یعنی ان کے ووٹ بھی جعلی. 570 دوسرے حلقے کے ووٹرزنے یہاں ووٹ ڈالا اس لیے یہ ووٹ بھی ضائع. 1715 ووٹوں کے کاؤنٹر فائلز پر ووٹر کےانگوٹھے کا نشان ہی نہیں.
میں کسی بڑے فگر کو فی الحال کاؤنٹ ہی نہیں کررہا صرف وہ چند چیزیں بیان کی ہیں جنہیں آپ پرویز رشید کے کہے بغیر اپنی عقل سے بھی غلط مانیں گے. اب زرا ان چھوٹےچھوٹے فگرز کو جمع کرلیتے ہیں.
6123+255+370+570+1715=9073
میں نے آپ سے اوپر درخواست کی تھی کے عمران خان اور ایاز صادق کے ووٹوں کا فرق یادرکھیے گا اگر بھول گئے ہیں تو بتا دیتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان نوہزار کچھ ووٹوں کا ہی فرق تھا اور ابھی جو چند چھوٹے چھوٹے فگرز ہم نے جمع کیے جنہیں آپ کسی بھی پارٹی کا بالکل اندھا سپورٹر ہوکر بھی نہیں جھٹلا سکتے اس کا مجموعہ ہی نوہزار9000 سے زیادہ بنتا ہے. میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سارے ووٹ ایازصادق کو ہی پڑے ہونگےلیکن آپ خود بتائیں کے ہارنے والا امیدوار کیسے ہار تسلیم کرلے؟ ہم ابھی ان فگرزکو خاطر میں ہی نہیں لائے جو دس دس اور بیس بیس ہزار میں ہیں. جیسا کہ 22639کاؤنٹر فائلز پر مہریں اور دستخط سرے سے موجود ہی نہیں جو کہ الیکشن قوانین کی روسے انتہائی ضروری ہے. اسی طرح کل ملا کر 128 فارم 14 اور فارم 15 غائب ہیں. نونلیگ کے زیادہ سپورٹرز عمر رسیدہ ہیں اور وہ اس سے پہلے بھی الیکشن عمل سے واقف ہیں اس لیے وہ جانتے ہیں کہ الیکشن میں فارم 14 اور 15 کی کیا حیثیت ہوتی ہے. انہیں کی بنا پر فارم 16 بنتا ہے جو آفیشل رزلٹ ہوتا ہے. سو جب 128 فارم 14 اور 15 غائب ہیں تو پھر رزلٹ کیسے بن گیا؟
اسی طرح 4000 سے زائد ووٹوں پر پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط ہی موجود نہیں. تھیلوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی ہونا، دوسرے حلقوں کے ووٹ ملنا اور اسی طرح بہت سے دوسرے ہوشرباانکشافات. اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی کسی انتہائی گئی گذری بنانا ریپبلک میں بھی ایسا الیکشن ہوتا ہوگا؟ اور جو انکشافات ہوئے ہیں کیا اس کے بعد اگر عمران خان کی جگہ ایاز صادق ہوتے تو وہ اس طرح کے نتائج کو قبول کرلیتے؟ اب تک جو بھی حلقےکھلے ہیں ہوبہو اسی طرح کے رزلٹ سامنے آرہے ہیں تو کیا کوئی بھی پارٹی جس نےالیکشن میں حصہ لیا ہو وہ انہیں قبول کرے گی؟ اور فرض کریں اگر عمران خان تحریک ناچلاتے اور یہ سب کچھ یوں ہی ڈبوں میں بند رہتا تو آئندہ الیکشن کیا اس سے بھی بدتر نا ہوتے؟ فرض کریں آئندہ ایسے الیکشن کے نتیجے میں نون لیگ کو ہروادیا جاتاہے تو کیا نون لیگ قبول کرتی؟ اور کیا آپ ایسے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونےوالی جمہوریت اور حکومت کو صحیح مانیں گے؟
چلیں نون لیگ کی یہ بات بھی درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ سب دھاندلی نہیں بےضابطگی ہے تو کیا جن لوگوں نے یہ بے ضابطگیاں کرکے نوازلیگ کے مینڈیٹ کو مشکوک بنایا ان کو سزا نہیں ملنی چاہیے؟ نون لیگ کیوں ایسے لوگوں کو تحفظ دینا چاہتی ہے؟نواز لیگ یہ بھی کہتی ہے کہ یہ سب کچھ منظم انداز میں نہیں کیا گیا اور ناں ہی کوئی سازش ہے یہ صرف انتخابی عمل اور عملے کی غلطیاں ہیں تو ذرا آپ خود سوچیں کہ کیا اتنے بڑے پیمانے پر ایک ہی طرح کی غلطیاں ہونا ممکن ہے؟ کیا پریزائڈنگ آفیسرایک ہی حلقے میں غلطی سے بائیس ہزار کا ؤنٹر فائلز پر مہر لگانا اور دستخط کرنابھول سکتے ہیں؟ واپس آتے ہیں این اے 122 پر جس کا فیصلہ نادرا کی طرف سے آچکا اوربس ٹریبیونل کی جانب سے سنایا جانا باقی ہے جو اگلی چند سماعتوں کے بعد سنا دیاجائے گا۔ جس کے لیے نوازلیگی بھائی ابھی سے خود کو ذہنی طور ہر تیار کرلیں کیونکہ اوپر بیان کردہ حقائق کی بنیاد پر یہ فیصلہ این اے 125 سے مختلف نہیں ہوگا. اور ان سب اعداوشمار اور حقائق پر غور ضرور فرمائیے گا لیکن پرویز رشید اور نوازلیگی ذہن سے نہیں بلکہ اپنی عقل سے.
(محمد تحسین)
By: Muhammad Tahseen
نادرا کی طرف سے قومی اسمبلی کے حلقے این-اے ١٢٢ کی فرانزک رپورٹ آنے کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے. دونوں جماعتیں اپنے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے پر تلی ہیں. اس بیچ نواز لیگ کے وزرا خصوصا'' پرویز رشید نے ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول کر اورحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور نواز لیگی سپورٹرز کو گمراہ کرنے کی کو شش کی. خود نواز لیگی سپورٹرز بھی حقائق کا جائزہ لینے اور انہیں خود سمجھنے کی کوشش کرنےکی بجائے پوری تن دہی سے جھوٹ کا دفاع کرنے میں جت جاتے ہیں. اپنے نواز لیگی بھائیوں کو حقائق سے آگاہ کرنے اور ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے نادرا کی اس فرانزک رپورٹ کا تجزیہ کرتے ہیں. لیکن اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ نادرا حکومت کاادارہ ہے جسے وزیر داخلہ ہیڈ کرتے ہیں اور یہ تحریک انصاف کے انڈر نہیں آتا.
دوسرے امیدواروں کی طرح NA-122 لاہور سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور نون لیگ کے سردارایاز صادق کے درمیان مقابلہ تھا جس کی بنا پر اس حلقے کو قومی سطح پر اہمیت حاصل ہوگئ تھی اور یہ سب کی نظروں میں تھا. گمان یہی کیا جا رہا تھا کہ چونکہ عمران خان قومی سطح کے لیڈر ہیں اور ایک پارٹی کے سربراہ بھی اس لیے وہ باآسانی جیت جائیں گےلیکن جب الیکشن کا رزلٹ آیا تو وہ اس کے برعکس تھا. قومی اسمبلی کے تین حلقوں سےجیتنے والے عمران خان کو اس حلقے سے شکست ہو گئی تھی جہاں انہوں نے اپنی زندگی کاایک بڑا حصہ گذارا تھا۔ عمران خان کو شکست دینے کے انعام کے طور پر ایاز صادق کونون لیگ کی طرف سے سپیکر قومی اسمبلی بنا دیا گیا.
الیکشن میں مبیبہ دھاندلی کے خلاف جب عمران خان نے اپنی تحریک کا آغاز کیا توابتدائی طور پر جن چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ان میں ایک حلقہ یہی این اے 122 بھی تھا جہاں انہیں ایاز صادق کے ہاتھوں شکست ہوئی. اس حلقے کے رزلٹ کوعمران خان الیکشن ٹریبیونل میں بھی لے کر گئے جہاں دو سال سے یہ زیر سماعت ہے اورکوئی فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے. اتنے لمبے عرصے تک اس کیس کے چلنے کی ذمہ داری فریقین ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں. ایاز صادق نے کافی عرصہ اس کیس میں کورٹ سےسٹے آرڈر بھی لیے رکھا جس سے ٹریبیونل کی کاروائی معطل رہی.
اب اس حلقے کے کچھ اعداد وشمار کا جائزہ لیتے ہیں. قومی اسمبلی کے اس حلقے NA- 122 لاہور میں:
رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد: 280،044
2013 کے الیکشن میں ڈالے گئے کل ووٹ: 184، 191
اس حلقے سے نوازلیگ کے ایاز صادق کامیاب ہوئے جن کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ہے.
ایاز صادق کے حاصل کردہ ووٹ : 93،362
عمران خان جو دوسرے نمبر پر رہے ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ہے.
عمران خان کے حاصل کردہ ووٹ : 84،417
یوں ایاز صادق نے عمران خان کو تقریبا نوہزار ووٹوں سے شکست دی. اب یہاں یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ عمران خان اور ایاز صادق کے درمیان نوہزار 9000 ووٹوں کا فرق ہے.
الیکشن کمیشن میں مسلسل دو سال زیرسماعت رہنے کے بعد عمران خان کی درخواست پرالیکشن ٹریبیوبل نے نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کروانے کا فیصلہ کیا. ایاز صادق اس فیصلے کے خلاف فورا''کورٹ میں گئے اور نادرا کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق رکوانے کی کوشش کی جسے عدالت نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اب اس کیس کا فیصلہ ہوجانے دیں. یوں نادرا کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق کا مرحلہ شروع ہوا. دو ماہ بعد آج بالآخر نادرانے اپنی رپورٹ الیکشن ٹریبیونل کو جمع کروادی اور فریقین کو بھی اس کی کاپیاں دےدیں.
اب ذرا اس فرانزک رپورٹ کے مندرجات پر ایک نظر ڈالتے ہیں.
نادرا رپورٹ:
کل ووٹ جو چیک کیے گئے : 184،191
کل ووٹ جن کی انگوٹھے کے نشان سے تصدیق ہوسکی: 73،478
کل ووٹ جن کی انگوٹھے کے نشان سے تصدیق نہیں ہوسکی: 93،852
جعلی شناختی کارڈز پر ڈالے گئے کل ووٹ : 6،123
کل کاؤنٹر فائلز جن پر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان موجود نہیں : 1715
کل ووٹرز جنہوں نے دو بار ووٹ ڈالا: 255
دوسرے حلقوں کے ووٹ جو اس حلقے میں ڈالے گئے 570
ایسے افراد جنہوں نے شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالا: 370
4250 ووٹوں پر پریزائڈنگ آفیسرز کے دستخط موجود نہیں.
22639 کاؤنٹر فائلز پر دستخط اور مہریں موجود نہیں.
1396 ووٹوں کے کاؤنٹر فائلز ہی موجود نہیں.
1395 ووٹوں پر پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط ہی موجود نہیں.
69 پولنگ سٹیشن کے فارم 14 اور 59 حلقوں کے فارم 15 غائب ہیں.
28 پولنگ بیگز کی سیلز ٹوٹی ہوئی تھیں.
حلقہ این اے 124 اور پی پی 147 کے ہزاروں ووٹ حلقہ این اے 122 سے ملے
20 پولنگ اسٹیشن کے فارم چودہ کے سیریل نمبر درست نہیں. اور کچھ اور بھی چیزیں جنہیں چھوڑ دیتے ہیں.
اب انہیں اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہیں۔
نون لیگ کہتی ہے جن 93852 ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوسکی وہ جعلی نہیں اور صرف اسی ایک نکتے کو بیان کرکے اور باقی سارے حقائق کو بھی اسی ایک نکتے کے گرد گھما کے وہ اپنے ووٹرز کو بیوقوف بناتی ہے . چلیں ہم نون لیگ کی بات کو سو فیصد درست مانتےہیں کہ یہ ووٹ ناقص سیاہی اور کاغذ کی وجہ سے تصدیق نہیں ہوسکے اور حقیقت میں یہ ووٹ صحیح ہیں. اب آگے چلتے ہیں. 6123 ووٹ جعلی شناختی کارڈز پر ڈالے گئے انہیں توجعلی مانتے ہیں ناں یا اس کی بھی کوئی توجیح پیش کریں گے؟
255 لوگوں نے ڈبل ووٹ ڈالا اس کو بھی آپ جائز قرار نہیں دے سکتے. 370 افراد نےبغیر شناختی کارڈ کے ووٹ ڈالا یعنی ان کے ووٹ بھی جعلی. 570 دوسرے حلقے کے ووٹرزنے یہاں ووٹ ڈالا اس لیے یہ ووٹ بھی ضائع. 1715 ووٹوں کے کاؤنٹر فائلز پر ووٹر کےانگوٹھے کا نشان ہی نہیں.
میں کسی بڑے فگر کو فی الحال کاؤنٹ ہی نہیں کررہا صرف وہ چند چیزیں بیان کی ہیں جنہیں آپ پرویز رشید کے کہے بغیر اپنی عقل سے بھی غلط مانیں گے. اب زرا ان چھوٹےچھوٹے فگرز کو جمع کرلیتے ہیں.
6123+255+370+570+1715=9073
میں نے آپ سے اوپر درخواست کی تھی کے عمران خان اور ایاز صادق کے ووٹوں کا فرق یادرکھیے گا اگر بھول گئے ہیں تو بتا دیتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان نوہزار کچھ ووٹوں کا ہی فرق تھا اور ابھی جو چند چھوٹے چھوٹے فگرز ہم نے جمع کیے جنہیں آپ کسی بھی پارٹی کا بالکل اندھا سپورٹر ہوکر بھی نہیں جھٹلا سکتے اس کا مجموعہ ہی نوہزار9000 سے زیادہ بنتا ہے. میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سارے ووٹ ایازصادق کو ہی پڑے ہونگےلیکن آپ خود بتائیں کے ہارنے والا امیدوار کیسے ہار تسلیم کرلے؟ ہم ابھی ان فگرزکو خاطر میں ہی نہیں لائے جو دس دس اور بیس بیس ہزار میں ہیں. جیسا کہ 22639کاؤنٹر فائلز پر مہریں اور دستخط سرے سے موجود ہی نہیں جو کہ الیکشن قوانین کی روسے انتہائی ضروری ہے. اسی طرح کل ملا کر 128 فارم 14 اور فارم 15 غائب ہیں. نونلیگ کے زیادہ سپورٹرز عمر رسیدہ ہیں اور وہ اس سے پہلے بھی الیکشن عمل سے واقف ہیں اس لیے وہ جانتے ہیں کہ الیکشن میں فارم 14 اور 15 کی کیا حیثیت ہوتی ہے. انہیں کی بنا پر فارم 16 بنتا ہے جو آفیشل رزلٹ ہوتا ہے. سو جب 128 فارم 14 اور 15 غائب ہیں تو پھر رزلٹ کیسے بن گیا؟
اسی طرح 4000 سے زائد ووٹوں پر پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط ہی موجود نہیں. تھیلوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی ہونا، دوسرے حلقوں کے ووٹ ملنا اور اسی طرح بہت سے دوسرے ہوشرباانکشافات. اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی کسی انتہائی گئی گذری بنانا ریپبلک میں بھی ایسا الیکشن ہوتا ہوگا؟ اور جو انکشافات ہوئے ہیں کیا اس کے بعد اگر عمران خان کی جگہ ایاز صادق ہوتے تو وہ اس طرح کے نتائج کو قبول کرلیتے؟ اب تک جو بھی حلقےکھلے ہیں ہوبہو اسی طرح کے رزلٹ سامنے آرہے ہیں تو کیا کوئی بھی پارٹی جس نےالیکشن میں حصہ لیا ہو وہ انہیں قبول کرے گی؟ اور فرض کریں اگر عمران خان تحریک ناچلاتے اور یہ سب کچھ یوں ہی ڈبوں میں بند رہتا تو آئندہ الیکشن کیا اس سے بھی بدتر نا ہوتے؟ فرض کریں آئندہ ایسے الیکشن کے نتیجے میں نون لیگ کو ہروادیا جاتاہے تو کیا نون لیگ قبول کرتی؟ اور کیا آپ ایسے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونےوالی جمہوریت اور حکومت کو صحیح مانیں گے؟
چلیں نون لیگ کی یہ بات بھی درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ سب دھاندلی نہیں بےضابطگی ہے تو کیا جن لوگوں نے یہ بے ضابطگیاں کرکے نوازلیگ کے مینڈیٹ کو مشکوک بنایا ان کو سزا نہیں ملنی چاہیے؟ نون لیگ کیوں ایسے لوگوں کو تحفظ دینا چاہتی ہے؟نواز لیگ یہ بھی کہتی ہے کہ یہ سب کچھ منظم انداز میں نہیں کیا گیا اور ناں ہی کوئی سازش ہے یہ صرف انتخابی عمل اور عملے کی غلطیاں ہیں تو ذرا آپ خود سوچیں کہ کیا اتنے بڑے پیمانے پر ایک ہی طرح کی غلطیاں ہونا ممکن ہے؟ کیا پریزائڈنگ آفیسرایک ہی حلقے میں غلطی سے بائیس ہزار کا ؤنٹر فائلز پر مہر لگانا اور دستخط کرنابھول سکتے ہیں؟ واپس آتے ہیں این اے 122 پر جس کا فیصلہ نادرا کی طرف سے آچکا اوربس ٹریبیونل کی جانب سے سنایا جانا باقی ہے جو اگلی چند سماعتوں کے بعد سنا دیاجائے گا۔ جس کے لیے نوازلیگی بھائی ابھی سے خود کو ذہنی طور ہر تیار کرلیں کیونکہ اوپر بیان کردہ حقائق کی بنیاد پر یہ فیصلہ این اے 125 سے مختلف نہیں ہوگا. اور ان سب اعداوشمار اور حقائق پر غور ضرور فرمائیے گا لیکن پرویز رشید اور نوازلیگی ذہن سے نہیں بلکہ اپنی عقل سے.
(محمد تحسین)

Last edited by a moderator: