
ایف نائن پارک میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی متاثرہ لڑکی کے وکلا، عورت مارچ اسلام آباد اور سول سوسائٹی کے سرکردہ ارکان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں پولیس کے مبینہ پولیس مقابلے کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔
متاثرہ لڑکی کے وکلا نے کہا ہے کہ 15 فروری 2023 کی دوپہر پولیس نے دونوں مجرموں کو گرفتار کیا جس کے بعد سی آئی اے تھانے سیکٹر آئی نائن لیجایا گیا جہاں ملزموں کی شناخت پریڈ کرائی گئی ملزمان نے سب کے سامنے اعتراف جرم کیا اور بتایا کہ وہ مختلف واقعات میں 50 کے قریب خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنا چکے ہیں ایک قتل بھی کیا یعنی وہ ریکارڈ یافتہ مجرم تھے۔
اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے وکلا نے اس پر صدمے اور بیزاری کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح سے کسی ملزم کو ماورائے عدالت قتل کر دینا مدعی کو انصاف کے حق سے محروم کردینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے اس پر فوری عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر فرزانہ باری نے بھی بتایا کہ اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز سہیل چٹھہ کی جانب سے انہیں خصوصی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا وہ شروع کی 2 میٹنگز میں شامل ہوئیں اور نشاندہی کی کہ پولیس کیس کو خود خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو اس کے بعد ہونے والی میٹنگ میں انہیں بلایا ہی نہیں گیا۔
ڈاکٹر باری نے میڈیا کے سامنے انکشاف کیا کہ ان کی جانب سے 13 فروری کو پیمرا کونسل آف کمپلینٹس کو شکایت بھیجی گئی تھی جس میں شکایت کنندہ کی شناخت کی حفاظت کرتے ہوئے کیس کی کوریج بحال کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
پریس کانفرنس میں مقررین نے نظامی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا، جس میں عصمت دری اور اجتماعی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ کے حوالے سے پینل کوڈ اور کریمنل پروسیجر کوڈ میں قانون سازی کی ترامیم شامل ہیں، خاص طور پر متاثرین کی شناخت کے تحفظ کے لیے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس کو خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی تفتیش اور شواہد اکٹھے کرنے کے لیے مناسب تربیت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ عدلیہ کو خواتین کے خلاف جرائم میں کم سے کم وقت میں انصاف فراہم کرنا چاہیے تاکہ اس طرح کے جرائم کی رپورٹ کرنے کے لیے زندہ بچ جانے والوں میں اعتماد پیدا ہو۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/f9-park-case-police-en.jpg
Last edited by a moderator: