اس شعراورشاعر کی مختصر تاریخ بھی سن لیجئیے
استاد امام دین اپنے زمانے میں بہت مقبول تھااس وقت کے عوامی شعرا ستاد لہراور استاد ہمدم سے کہیں زیادہ عوام میں پزیرائی تھی ہمیشہ فی البد یہہ شعر کہتا اگر کسی نے مکرر کہہ دیا تو
وہ سرے سے شعر ہی بھول جاتا ان پڑھ تھا بازار میں کباب کی دکان کرتا تھا ایک مشاعرہ میں
پہنچا تو لوگوں نے آوازے کسے "کبابیا اوے" "کبابیا اوے" مگر استاد اطمینان سے کھڑا رہا قدرے توقف کے بعد یوں مخاطب ہوا
کوئی دودھ ویچے،کوئی دہی ویچے
کوئی بیٹھ تندور تے ان ویچے
لوکی کہندے نیں گام کبابیا اے
اے کباب نہ ویچے تے "ٹن" ویچے
یہاں لفظ ٹن کا ہم وزن لفظ تصور میں لے آئیے ٹن کی آواز پر مجمع میں قہقہے پھوٹ پڑے اور پھر کسی کو آوازیں کسنے کی جرات نہ ہوئی