اگست : یوم آزادی یا یوم غلامی؟...سید منور حسن

CanPak2

Minister (2k+ posts)

[TABLE="width: 500, align: center"]
[TR]
[TD="width: 97%"]
14 اگست : یوم آزادی یا یوم غلامی؟...سید منور حسن...امیر جماعت اسلامی
[/TD]
[TD="width: 3%, bgcolor: f9f9f9"]
headlinebullet.gif
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: center"]
shim.gif
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: center"]
dot.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: center"]
shim.gif
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: center"]
119272_s.jpg
[/TD]
[TD="align: center"] [/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: small_txt, align: justify"]
قوموں کی زندگی میں آزادی کا دن، عزم نووعزم صمیم اور کچے پکے ارادوں کو پختہ ارادوں میں تبدیل کرنے کے لئے آتا ہے۔ ہمارے ہاں آزادی کا دن تو مسلسل آتا ہے لیکن انتظارکے باوجود آزادی نہیں آتی۔ اس بار 14اگست اس عالم میں طلوع ہورہا ہے کہ چاروں صوبوں اور مرکز میں عوام کی نومنتخب حکومتیں قائم ہیں اور بڑے جاہ و جلال اور وعدوں اور دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئی ہیں مگر وفاقی حکومت نے جتنی تیزی سے اور جتنے بڑے پیمانے پر اپنے ووٹروں اور عوام کو مایوس کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ حکمران اس حکمت اورمصلحت کو نہیں سمجھ سکے کہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اگر مسائل میں کمی نہ کرسکیں تو اضافہ بھی نہ کریں اورمہنگائی و بے روزگاری جیسے عنوانات کو لوگوں کے لئے مزید مشکل کا باعث نہ بنائیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مطلب ہی یہ تھا کہ روپے کی قدر میں کمی،بجلی کی قیمتوں اور مہنگائی و بے روزگاری میں اضافہ ہونا ہے۔ اعلان تو یہی ہوا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے گا لیکن جن سے ٹیکس پہلے سے وصول کیاجاتا ہے ان پر جی ایس ٹی کے ذریعے مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا اور جو ٹیکسوں سے آزاد زندگی بسر کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، آصف زرداری ہوں یا نواز شریف ، دونوں کی حکومت میں ان کی جیب سے کوئی پیسہ قومی خزانے میں نہیں جا سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنے بیانات میاں نواز شریف نے زرداری حکومت کے بارے میں پچھلے پانچ سال میں دیئے تھے، اگر انہی بیانات کو من و عن آصف زرداری صاحب کے نام سے نواز شریف صاحب کی حکومت کے بارے میں جاری کردیا جائے تو کسی کو اس پر حیرت نہیں ہوگی۔ بلوچستان اور سندھ کے حوالے سے بھی بہت اچھی اطلاعات ابھی تک نہیں مل سکی ہیں۔دونوں صوبوں میں حکومت مفقود ہے، بالخصوص دونوں صوبوں کے دارالحکومتوں میں دہشت گردوں کا راج ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جہاں ہم کولیشن پارٹنر ہیں،حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں لیکن ہمارے خیال میں عوام کے دکھوں کو کم کرنے کے لئے جس رفتار سے ہمیں چلنا چاہئے اور جن مسائل کو ترجیحی اعتبار سے اہمیت دینی چاہئے ، وہ ہنوز توجہ طلب ہیں۔
جس بڑے پیمانے پر دھاندلی کے بعد موجودہ حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں، اس کے بعد ان سے اسی طرح کی کارکردگی کی توقع کی جانی چاہئے تھی۔ گو کہ صدارتی انتخاب کے بعد فخرو بھائی نے اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا لیکن حالیہ انتخابات میں ان کی ناکامی کھل کر سامنے آ گئی تھی اور انہیں اسی وقت مستعفی ہو کر حقائق سے قوم کو آگاہ کرنا چاہئے تھا۔ ان کی زیر نگرانی ایسے الیکشن ہوئے جن پر تمام جماعتوں کو اعتراض تھا۔ کراچی میں سرے سے الیکشن کا عمل ہی نہ ہو سکا۔ ہمارے نزدیک تو ان کا استعفیٰ اس وقت ضروری ہوچکا تھاجب کراچی کے حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کراچی میں حلقہ بندیاں دوبارہ کی جائیں، ووٹر لسٹوں کی فوج کی موجودگی میں ازسرنو تصدیق کی جائے اور پولنگ کے دن بھی لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے فوج کو ایک رول دیا جائے۔ جس وقت فخرو بھائی نے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی ٹھانی تھی ہماری نظر میں تو وہ اس وقت ہی عملاً اپنے منصب سے مستعفی ہوگئے تھے۔ کراچی کو ایک دفعہ پھر بدامنی، لاقانونیت اور دہشت گردی کے سپرد کرکے وہ قوم بالخصوص کراچی کے عوام کو آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کے خواب کی تعبیر دینے میں ناکام رہے۔زرداری حکومت کی طرح نوازحکومت میں بھی مفاہمت کے نام پر دہشت گردوں کو سینے سے لگایا جارہا ہے اور ان کی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لئے ان کی خیر خواہی اور بھلائی کے گن گائے جارہے ہیں۔ کراچی کے تناظر میں دہشت گردوں کو آستین کے سانپوں کی طرح پالنے کے جو نتائج پیپلزپارٹی کی حکومت کو ملے تھے، انہی نتائج کے حصول کے لئے ن لیگ کی حکومت بھی اس تجربے کو دہرانا چاہتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ جن سے ڈکٹیشن لیتے ہیں انہوں نے کانوں میں یہ بات پھونک دی ہے کہ ایم کیو ایم کوحکومت میں وافر حصہ دیا جائے۔
اقتدار سنبھالتے ہی وفاقی حکومت کی طرف سے قومی سلامتی پالیسی کو ازسرنو ترتیب دینے اور اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر بہت شور و غوغا سننے کوملا، اس کی تیاریوں ،پھر اس کے التوا، پھر اس کے نام کی تبدیلی، پھر اس کی ہیئت کے بارے میں نئی نئی تجاویز، وقت نے پھر اس بات کو ثابت کیا کہ ہم اے پی سی بلانے میں بھی آزاد نہیں ہیں اور اس کے انعقاد کے لئے بھی امریکی سرپرستی اور اجازت درکار ہے۔ جب تک امریکہ اجازت نہیں دے گا، اس کا انعقاد ناممکنات میں سے رہے گا۔بھارت سے دوستی کے لئے بے چینی اور بے قراری بھی حکومت کے ہر اقدام اور اعلان سے ٹپکی پڑتی ہے اور کنٹرول لائن پر بڑھتی بھارتی جارحیت ، بھارتی ڈرون کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن اور امرتسر میں دوستی بس پر حملے سے بھی اس پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔گویا کشمیری ہمارے سوتیلے بھائی ہیں جن سے انتقام لینے کی بہت جلدی ہے۔ پاکستان کے حصے کے جن دریاؤں پر بند باندھ کر بھارت بجلی بنا رہا ہے، ہم اسی بجلی کی خریداری کے لئے منہ مانگے دام دینے کو تیار ہیں اور آبی جارحیت ترک کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے سرے سے اس بات کو ہی ختم کردینا چاہتے ہیں کہ بھارت آبی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے۔ گزشتہ 65سال میں پرویز مشرف کے سواپاکستان میںآ نے جانے والی سول وفوجی حکومتوں نے کشمیر پر ایک ہی موقف رکھا ، کشمیریوں کی مسلسل داد رسی کی کوشش کی اور جب جب ان پر مظالم کی طویل رات کو طویل تر کرنے کی کوششیں ہوئیں، کشمیریوں کو یہ احساس ہوا کہ پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور عوام کے علاوہ حکومتیں بھی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ کرتی ہیں لیکن اب یہ محسوس ہوتاہے کہ پرویز مشرف کا دور لوٹ رہا ہے اور پھر سے کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی تیاری اور ان کے اصولی موقف کو اوجھل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہر قیمت پر بھارت سے دوستی کے نتیجے میں ملک کو بجلی بحران سے نکالنے کی خوشخبریدی جارہی ہے۔ یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر ہے اور وہاں گلی کوچوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ یہ رویے آزاد قوموں کے نہیں ہوا کرتے ۔14اگست کو ہم دنیا کو کیا منہ دکھانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم 14اگست کو یوم آزادی کے بجائے یوم غلامی منانا چاہتے ہیں؟حکمرانوں کے رویے یہی چغلی کھارہے ہیں جوبڑے پیمانے پر کشمیریوں کی جدوجہد کو نظر انداز کر رہے ہیں اور عالمی ضمیر اور عالمی برادری کو کچوکے دینے کے بجائے خود کو مضمحل کر رہے ہیں۔
الیکشن کے نتائج جس طرح عوام کے سینے پر مونگ دلنے کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جس طرح حکومت میں آتے ہی کرپشن اسکینڈل سامنے آنے لگے ہیں، امریکی و بھارتی جارحیت کے حوالے سے حکومت نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران حکومت کی عدم موجودگی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس ابھرا ہے، ناگزیر ہے کہ ایسے تمام عناصر جو ملک میں جمہوریت اور انتخاب کے حامی ہیں ، سر جوڑ کر بیٹھیں اور سنجیدگی سے پوری صورتحال کا جائزہ لے کر کم سے کم ایجنڈے اور
پروگرام کے تحت عوام کو اپنی جدوجہد میں شریک کریں ۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=119272[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
Re: 14 اگست : یوم آزادی یا یوم غلامی؟...سید منور حسن

ہم تو یوم آزادی منا رھے ھیں اور منور حسن یوم غلامی منا رھے ھیں۔
حالات چاھے جتنے بھی برے ھوجائیں ایک دن بھتر ھونے کی امید پر سب ھی بیٹھے ھیں۔اور انشااللہ بھتر ھو جائیں گے۔
14 اگست تو پاکستان کی پیدائش کا دن ھے اور قائداعظم کی عوام کے ساتھ ملکر انگریز اور ملاز اور ھندو گٹھ جوڑ کے خلاف فتح و کامرانی کا دن ھے اسلیے ھم اسے مناتے ھیں۔
جماعت اسلامی تو پاکستان کی مخالف تھی اس لیے انکو غلامی کا دن ھی منانا چاھیے
 

ImRaaN

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Jashan e Azadi Manao Kaisey by Nusrat Javed

Black-Khusra.jpg


نصرت جاوید کی جوانی کی تصویرجشن آزادی مناتے ہوے
:angry_smile:
 

Khuram Shehzad Jafri

Minister (2k+ posts)
Inn Logon ko takleef pata aisy din sy he kyun hoti hai.. jab Ham pora pakistan akty ho kar unity ka izhar karty hen... Iss waqt Pakistan k konay konay men pakistan ka flag log hathounmen ley kar apnay watan sy Apni mohabat ka izhar kar rahy hen.. or yeh sazishi ki mout hoti hai aisy din kyun k inn ka dil tu chata hai k tukray karen iss pakistan k...

Pakistan Zindabad...
(jhanda) yeh din na India ko acha lagta hai aur na he pakistan extermist mulla ko.. kyun k iss din sy un ko apni mout nazar ati hai..
 

IMQAYA

Senator (1k+ posts)
IN ko bhi Bangladesh ki tara Pakistan main bhi bayn karna chahiyay.Yay Pakistan bananay ki mukhalif thin aur yahi Pakistan ko ander say barbad kar rahay hain.
 

Back
Top