یہ پوسٹ میں دکھی دل کے ساتھ کر رھا ھوں کیونکہ میں بہت سے باتوں کو نظر انداز کرنا مناسب سمجھتا ھوں مگر اب وقت آ گیا ھے کہ ان باتوں کا جواب دیا جائے ۔ میرا مقصد تنقید کرنا ھر گز نہی ھے بجز اس کے کہ میں حقائق آپ کے سامنے رکھوں ۔ کسی کی میری پوسٹ سے اگر دل آزاری ھو تو اس کے لیئے پیشگی معزرت خواہ ھوں۔
بات شروع ھوتی ھے جب مجھے کچھ سیاسی پوسٹس دیکھنے کو ملیں ، کچھ میں مجھے ٹیگ بھی کیا گیا۔ کچھ دوستوں نے بھی نازیبا اور حقائق کے منافی پوسٹس سئیر کیں۔ میں آپ کو جواب اچھے سے دے سسکتا تھا مگرآپ " میں نہ مانوں " سے باھر نکلیں تو تب نا۔
آپ کے پاس دکھانے کو ھے ھی کیا ؟ دو چار سڑکیں ! میٹرو بسیں ، پلیں گلیاں اور نالیاں ! ۔ کوئی تعلیم کی فکر ھے ؟ کوئی روزگار کا خیال ھے؟ غیر ملکی قرضے 91 ارب ڈالر پہ پہنچ گئے، 30 ارب ڈالر قرض صرف اس حکومت میں لیا گیا ، ڈالر 118 سے اوپر چلا گیا مگر آپ کی زبان پر پھر بھی " شیر شیر " ھے۔
ھر چیز میں لوٹ مار ، کرپشن اپنی انتہا کو ھے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور دوائی تک آپ کو خالص نہی ملتی ، اور چڑھ دوڑتے ھیں کے پی کے پر۔ وھاں جو ھو کچھ ھو چکا ھے وہ اس ملک کی 70 سالہ تاریخ میں نہی ھوا۔ ان کی نظر انسانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی پر ھے اور آپ کی نظر سڑکوں ، میٹرو اور پلوں پہ رھتی ھے۔ ان کی نظر انسانوں ، اسکولوں ، ھسپتالوں ، پولیس، پٹواری اور سسٹم کو ٹھیک کرنے پہ ھے۔ آپ کی نظر اپنی گلی محلے اور زاتی مفادات سے اگے نہی جاتی۔ اور ویسے بھی نظام کی تبدیلی آپ کونظر ھی کہاں آتی ھیں۔ !؟
کوئی ایک ادارہ تک تو آپ کے لاڈلے صاحبان آج تک ٹھیک کر نہ سکے۔ پولیس آج بھی کرپٹ ھے، پٹواری منہ چڑھ کے رشوت لیتا ھے، بچوں کے لیئے سکول آپ پرائویٹ ڈھونڈتے ھیں۔ علاج آپ کا پرائیوٹ ھسپتال میں ھوتا ھے۔ بنا رشوت اور سفارش کوئی کام آپ کا نہی ھوتا۔ پھر بھی شیر شیر ؟؟؟
اللہ کفر کا نظام برداشت کرلیتا ھے مگر ظلم کا نہی کرتا۔لیکن آپ لوگوں کو یہ بات سمجھ ھی نہی آتی۔ پرچہ ایم پی اے ایم این اے کی مرضی کے بنا کٹتا نہی، موبائل ریچارج پہ 45 روپے کٹوا کے آپ خوش ھیں، ادارے اور بیورو کریسی آپ کی تباہ ھے، ملک کی دنیا میں کوئی عزت نہی، آپ کے جائز کام بھی آپ کے سفارت خانے کرتے نہی، پھر بھی شیر شیر کے واشگاف نعرے آپ کی زبان پہ ورد کرتے ھیں۔
آپ کے محبوب قائد کی قابلیت کا عالم یہ ھے کہ دوسرے ملک کے صدر سے بات کے لیئے پرچی ھاتھ میں تھامے ھوتے ھیں۔ ان کی "نور نظر" اور آپ کی "مستقبل کی وزیر اعظم" عدالت میں فل سٹاپ اور کامہ بھی ایک ھی سانس میں پڑھ دیتی ھیں۔ جج کو کہنا پڑھتا ھے کہ فل سٹاپ کامہ نہ پڑھیں تو اگے سے سنہرے حروف میں لکھا جانے والا جواب ملتا ھے کہ " میرے وکیل نے کہا تھا کہ سب کچھ پڑھنا ھے"
کل تک جو" روحانی باپ "تھا آج " خلائی مخلوق" کا روپ دھارے رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں آپ کے " محبوب لیڈر " کے اعصاب پہ سوار ھے۔ یہ وھی ھے جس کے کندھوں پہ چڑھ کے اقتدار کی شراب کے تین بار لطف اٹھائے گئے ، آج وھی مطعون ھو گئے؟؟ پوری دنیا میں ان کی اور اس ملک کی، جہاں ھم نے اور ھمارے بچوں نے زندگی کے دن بتانے ھیں، جگ ھنسائی آپ کے لیڈر کی زندگی کا واحد فریضہ اور ذمہ داری بن گئی۔ ؟
یہ کونسی لیڈری ھے، یہ کونسی قوم کی رھنمائی ھے یہ کون سا طریقہ ھے؟؟" لندن فلیٹس کے لیئے پیسے کہاں سے آئے؟ اور باھر کیسے گئے" ایک سادہ سا سوال آپ کے قائد محترم سے پوچھا گیا تھا جس کا جواب وہ آج تک نہ دے سکے۔ مگر " مجھے کیوں نکالا" کی گردان ایسے دھنتے ھیں کہ بڑا سے بڑا فنکار موسیقار بھی ان کے آگے ھیچ ھیں۔
جناب من! آنکھیں کھولیں حقایق کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں ، گردو پیش پہ نظر دوڑائیں، اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں، عروج و زوال ، ترقی و تنزلی کے اسباب و وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔ دنیا میں اپنا کھویا ھوا بلند مقام حاصل کرنے کی جستجو و سعی کریں۔ تھوڑا ھوش کریں ، عقل سے کام لیں۔ اس بچے کی مانند نہ بنیں جس کو چمکتے دمکتے کھلونے سے بہلا دیا جاتا ھے۔ اپنے حقوق و فرائض جانئیے۔ کوشش و جستجو کریں ۔ مگر آپ نہ کوشش کرتے ھیں نہ کسی اور کو کرنے دیتے ھیں۔
مطالعہ آپ کے نزدیک ایک لغو چیز ھے، کتابوں کا بہتریں مصرف جولہے کی آگ یا کباڑیئے کی دوکان ھے۔ فیس بک آپ کے لیئے مقدس کتاب کی حیثیت رکھتا ھے، جھوٹ پہ مبنی باتیں، افواھیں اور کردار کشی آپ کے لیئے عبادت کا درجہ رکھتی ھیں، اب مہربانی کریں اور بس کر دیں۔ بہت ھو گیا اب آگے بڑھنے کی سوچیں۔
کہنے کو میں اور بھی بہت کچھ کہ سکتا ھوں مگر کہنا نہی چاھتا کہ جب عقل پہ پردے پڑ جائیں ، کان سچ سننے سے محروم ھو جائیں ، آنکھوں پہ تعصب کی پٹی بندھ جائے پھر کوئی بات کوئی فریاد کوئی چیز کوئی آواز کوئی آہ اثر نہی کرتی تو
پھر فضا ء میں صرف ایک ھی نعرہ گونجتا ھے۔۔۔ " اک واری فیر شیررررررررررررررر"" !!!
بات شروع ھوتی ھے جب مجھے کچھ سیاسی پوسٹس دیکھنے کو ملیں ، کچھ میں مجھے ٹیگ بھی کیا گیا۔ کچھ دوستوں نے بھی نازیبا اور حقائق کے منافی پوسٹس سئیر کیں۔ میں آپ کو جواب اچھے سے دے سسکتا تھا مگرآپ " میں نہ مانوں " سے باھر نکلیں تو تب نا۔
آپ کے پاس دکھانے کو ھے ھی کیا ؟ دو چار سڑکیں ! میٹرو بسیں ، پلیں گلیاں اور نالیاں ! ۔ کوئی تعلیم کی فکر ھے ؟ کوئی روزگار کا خیال ھے؟ غیر ملکی قرضے 91 ارب ڈالر پہ پہنچ گئے، 30 ارب ڈالر قرض صرف اس حکومت میں لیا گیا ، ڈالر 118 سے اوپر چلا گیا مگر آپ کی زبان پر پھر بھی " شیر شیر " ھے۔
ھر چیز میں لوٹ مار ، کرپشن اپنی انتہا کو ھے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور دوائی تک آپ کو خالص نہی ملتی ، اور چڑھ دوڑتے ھیں کے پی کے پر۔ وھاں جو ھو کچھ ھو چکا ھے وہ اس ملک کی 70 سالہ تاریخ میں نہی ھوا۔ ان کی نظر انسانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی پر ھے اور آپ کی نظر سڑکوں ، میٹرو اور پلوں پہ رھتی ھے۔ ان کی نظر انسانوں ، اسکولوں ، ھسپتالوں ، پولیس، پٹواری اور سسٹم کو ٹھیک کرنے پہ ھے۔ آپ کی نظر اپنی گلی محلے اور زاتی مفادات سے اگے نہی جاتی۔ اور ویسے بھی نظام کی تبدیلی آپ کونظر ھی کہاں آتی ھیں۔ !؟
کوئی ایک ادارہ تک تو آپ کے لاڈلے صاحبان آج تک ٹھیک کر نہ سکے۔ پولیس آج بھی کرپٹ ھے، پٹواری منہ چڑھ کے رشوت لیتا ھے، بچوں کے لیئے سکول آپ پرائویٹ ڈھونڈتے ھیں۔ علاج آپ کا پرائیوٹ ھسپتال میں ھوتا ھے۔ بنا رشوت اور سفارش کوئی کام آپ کا نہی ھوتا۔ پھر بھی شیر شیر ؟؟؟
اللہ کفر کا نظام برداشت کرلیتا ھے مگر ظلم کا نہی کرتا۔لیکن آپ لوگوں کو یہ بات سمجھ ھی نہی آتی۔ پرچہ ایم پی اے ایم این اے کی مرضی کے بنا کٹتا نہی، موبائل ریچارج پہ 45 روپے کٹوا کے آپ خوش ھیں، ادارے اور بیورو کریسی آپ کی تباہ ھے، ملک کی دنیا میں کوئی عزت نہی، آپ کے جائز کام بھی آپ کے سفارت خانے کرتے نہی، پھر بھی شیر شیر کے واشگاف نعرے آپ کی زبان پہ ورد کرتے ھیں۔
آپ کے محبوب قائد کی قابلیت کا عالم یہ ھے کہ دوسرے ملک کے صدر سے بات کے لیئے پرچی ھاتھ میں تھامے ھوتے ھیں۔ ان کی "نور نظر" اور آپ کی "مستقبل کی وزیر اعظم" عدالت میں فل سٹاپ اور کامہ بھی ایک ھی سانس میں پڑھ دیتی ھیں۔ جج کو کہنا پڑھتا ھے کہ فل سٹاپ کامہ نہ پڑھیں تو اگے سے سنہرے حروف میں لکھا جانے والا جواب ملتا ھے کہ " میرے وکیل نے کہا تھا کہ سب کچھ پڑھنا ھے"
کل تک جو" روحانی باپ "تھا آج " خلائی مخلوق" کا روپ دھارے رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں آپ کے " محبوب لیڈر " کے اعصاب پہ سوار ھے۔ یہ وھی ھے جس کے کندھوں پہ چڑھ کے اقتدار کی شراب کے تین بار لطف اٹھائے گئے ، آج وھی مطعون ھو گئے؟؟ پوری دنیا میں ان کی اور اس ملک کی، جہاں ھم نے اور ھمارے بچوں نے زندگی کے دن بتانے ھیں، جگ ھنسائی آپ کے لیڈر کی زندگی کا واحد فریضہ اور ذمہ داری بن گئی۔ ؟
یہ کونسی لیڈری ھے، یہ کونسی قوم کی رھنمائی ھے یہ کون سا طریقہ ھے؟؟" لندن فلیٹس کے لیئے پیسے کہاں سے آئے؟ اور باھر کیسے گئے" ایک سادہ سا سوال آپ کے قائد محترم سے پوچھا گیا تھا جس کا جواب وہ آج تک نہ دے سکے۔ مگر " مجھے کیوں نکالا" کی گردان ایسے دھنتے ھیں کہ بڑا سے بڑا فنکار موسیقار بھی ان کے آگے ھیچ ھیں۔
جناب من! آنکھیں کھولیں حقایق کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں ، گردو پیش پہ نظر دوڑائیں، اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں، عروج و زوال ، ترقی و تنزلی کے اسباب و وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔ دنیا میں اپنا کھویا ھوا بلند مقام حاصل کرنے کی جستجو و سعی کریں۔ تھوڑا ھوش کریں ، عقل سے کام لیں۔ اس بچے کی مانند نہ بنیں جس کو چمکتے دمکتے کھلونے سے بہلا دیا جاتا ھے۔ اپنے حقوق و فرائض جانئیے۔ کوشش و جستجو کریں ۔ مگر آپ نہ کوشش کرتے ھیں نہ کسی اور کو کرنے دیتے ھیں۔
مطالعہ آپ کے نزدیک ایک لغو چیز ھے، کتابوں کا بہتریں مصرف جولہے کی آگ یا کباڑیئے کی دوکان ھے۔ فیس بک آپ کے لیئے مقدس کتاب کی حیثیت رکھتا ھے، جھوٹ پہ مبنی باتیں، افواھیں اور کردار کشی آپ کے لیئے عبادت کا درجہ رکھتی ھیں، اب مہربانی کریں اور بس کر دیں۔ بہت ھو گیا اب آگے بڑھنے کی سوچیں۔
کہنے کو میں اور بھی بہت کچھ کہ سکتا ھوں مگر کہنا نہی چاھتا کہ جب عقل پہ پردے پڑ جائیں ، کان سچ سننے سے محروم ھو جائیں ، آنکھوں پہ تعصب کی پٹی بندھ جائے پھر کوئی بات کوئی فریاد کوئی چیز کوئی آواز کوئی آہ اثر نہی کرتی تو
پھر فضا ء میں صرف ایک ھی نعرہ گونجتا ھے۔۔۔ " اک واری فیر شیررررررررررررررر"" !!!
- Featured Thumbs
- https://pbs.twimg.com/media/CVfFw64W4AQOfia.jpg
Last edited by a moderator: