مریم نواز شریف سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی ہیں، انہوں نے سیاست میں قدم اپنے والد کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد رکھا، مریم نواز کا سیاسی کیرئیر مختلف تنازعات کی زد میں رہا ہے، انہیں ڈان لیکس کا مرکزی کردار سمجھا جاتا ہے، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر میڈیا سیل بنایا تھا جو سیاسی مخالفین ، عدلیہ اور عسکری اداروں کی کردار کشی کرتا ہے اور مختلف صحافی وٹس ایپ گروپس کے ذریعے اسکا حصہ ہیں۔
مریم نواز پانامہ سکینڈل کی زد میں بھی رہیں، ان پر الزام ہے کہ اپنے والد کو نااہل کروانے کے پیچھے اسکی ہی ناقص حکمت عملی ہے۔ مریم نواز کا 2012 کا بیان میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں بہت مشہور ہوا اور یہی بیان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں استعمال کیا،
قطری خط، جعلی ٹرسٹ ڈیڈ، کیلبری فونٹ مریم نواز کا کریڈٹ سمجھے جاتے ہیں اور یہی چیزیں نوازشریف اور مریم نواز کی سزا کا باعث بنے۔اب بھی مریم نواز اور شریف فیملی اس سے بچنے کیلئے مختلف حربے آزمارہے ہیں کبھی جسٹس شوکت صدیقی کا بیان سامنے لے آتے ہیں تو کبھی جج ارشدملک کی ویڈیو تو کبھی سابق جج رانا شمیم کا بیان حلفی۔
جج ارشد ملک کی ویڈیوز کا بھی ماسٹرمائنڈ مریم نواز کو سمجھا جاتا ہے۔سابق جج کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد مریم نواز کا تاثر یہ بن گیا ہے کہ انکے پاس مختلف شخصیات کی ویڈیوز ہیں اور وہ انکی ویڈیوز بنواکر انہیں بلیک میل کرتی ہیں لیکن ان الزامات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
علاوہ ازیں مریم نواز کے بارے میں یہ تاثر بھی ہےکہ جب انکا ٹوئٹر اکاؤنٹ خاموش ہوجائے تو اسکا مطلب ہے کہ ن لیگ اداروں سے ڈیل کی کوشش کررہی ہے یا ڈیل کیلئے مذاکرات چل رہے ہیں، اگر مریم نواز ٹویٹ کرنا شروع کردیں اور عسکری اداروں پر چڑھائی کریں تو اسکا مطلب ہے کہ ڈیل ناکام ہوگئی ہیں۔
مریم نواز کے ساتھ ماسوائے پرویز رشید ، محمد زبیر کے کوئی سینئر لیگی رہنما نظر نہیں آتا، زیادہ تر مریم اورنگزیب، حنابٹ، عظمیٰ بخاری، عطاء تارڑ نظر آتے ہیں جبکہ بعض دوسرے درجے کے صحافی بھی مریم نواز کے حلقہ احباب میں نظر آتے ہیں جو ٹوئٹر پر ن لیگ کے حق اور تحریک انصاف، عمران خان کی مخالفت میں کمپین کرتے نظر آتے ہیں۔
مریم نواز اور شہبازشریف کے بارے میں اختلافات کا بھی تاثر ہے اور کچھ صحافیوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مریم نواز شہبازشریف کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتیں، خود وزیراعظم بننا چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ پارٹی پر صرف انکا کنٹرول رہے۔
بلاول بھٹوزرداری
بلاول بھٹو زرداری سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں، بلاول کو پیپلزپارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ملی جب 2007 میں بے نظیر بھٹو ایک وصیت سامنے لائی گئی جس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے چئیرمین اور آصف زرداری شریک چئیرمین ہوں گے۔
اس وصیت کے بارے میں پیپلزپارٹی کے ناراض رہنما اور مخالفین دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ وصیت جعلی ہے، مخالفین وصیت پر چئیرمین بننے کے بعد بلاول کو پرچی چئیرمین کا لقب دیتے ہیں لیکن حقیقت جو بھی ہے بلاول ہی پارٹی کے چئیرمین ہیں چاہے اہم فیصلے کوئی بھی کررہا ہو۔۔
پارٹی چئیرمین بننے کے بعد بلاول متحرک تو نہیں رہے اور جب تک پیپلزپارٹی کی حکومت رہی، اہم فیصلے انکے والد آصف زرداری ہی کرتے رہے جو اس وقت صدر پاکستان تھے۔ بلاول کو کئی مرتبہ سیاست میں لانچ کیا گیا لیکن انہیں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔
بالآخر 2018 کے الیکشن میں بلاول پوری طرح متحرک نظر آئے، بلاول نے 2018 کے الیکشن میں 3 حلقوں سے حصہ لیا، لیاری کے حلقہ این اے 246 کراچی، این اے 8 مالاکنڈ اور این اے 200 لاڑکانہ۔۔ لیکن بلاول این اے 246لیاری سے تحریک انصاف کے کارکن شکورشاد سے ہارگئے، این اے 8 مالاکنڈ سے بھی تحریک انصاف کے جنید اکبر خان سے شکست کھابیٹھے اور صرف لاڑکانہ سے جیت پائے
بلاول آج کل پوری طرح متحرک نظر آرہے ہیں، بلاول کا موازنہ اگر مریم نواز سے کیا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ مریم نواز کی نسبت ایک اچھے سیاستدان ثابت ہوئے ہیں ، مریم نواز پارٹی کو اپنے فیصلے سناتی ہیں جبکہ بلاول اپنے پارٹی رہنماؤں کی بھی سنتے ہیں، بلاول کی سیاسی تربیت میں انکے والد آصف زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، شیری رحمان، خورشید شاہ وغیرہ کا عمل دخل بھی ہے۔
اسکے علاوہ بلاول زیادہ تر فیصلے خود نہیں کرتے انکےو الد ہی فیصلے کرتے ہیں جیسے پی ڈی ایم نے استعفے دینے کا اعلان کیا تو پیپلزپارٹی نے اس کی مخالفت کی، مخالفت کے اس فیصلے کے پیچھے بلاول نہیں آصف زرداری ہیں جو جانتے ہیں کہ سندھ حکومت ختم کرنے، اسمبلیوں سے استعفے دینے سے پیپلزپارٹی کو کیا نقصان ہوگا۔
سندھ حکومت نہ چھوڑنا، اسمبلیاں نہ چھوڑنا، سینٹ الیکشن میں حصہ لینا، لانگ مارچ کی مخالفت ، یہ ایسے فیصلے ہیں جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، گیلانی کو سینیٹر اور اپوزیشن لیڈر بنوالیا، سندھ حکومت بچالی۔یہ فیصلے بلاول کے نہیں آصف زراری کے تھے لیکن سناتے بلاول تھے۔
فی الحال بلاول کی سیاست کا محور اپنے نانا اور والدہ ہیں۔ابھی تک اپنی جداگانہ شناخت میں کامیاب نہیں ہوئے۔
سعد رضوی
سعد حسین رضوی کی علامہ خادم حسین رضوی کے صاحبزادے ہیں ۔خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی اٹھارہ رکنی شوری نے ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا جس کا اعلان جماعت کے مرکزی نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ نے جنازے کے موقع پر کیا۔
علامہ سعدرضوی کی عمر صرف 27 سال ہے لیکن وہ بھی اپنے والد کی طرح شعلہ بیانی کرتے ہیں، تقریر سے ماحول گرمادیتے ہیں۔ سعد حسین اس وقت نے لاہور میں اپنے والد کے مدرسہ جامعہ ابوزرغفاری میں درس نظامی کا کورس کیا ہے، خیال رہے کہ درس نظامی ایم اے کے برابر مدرسے کی تعلیم کو کہا جاتا ہے۔
تحریک لبیک جس کی سیاست کا محور ختم نبوت ہے،اس نے رواں سال اپریل میں فرانسیسی سفیر کو نکالنے کیلئے دھرنے دئیے، ٹریفک بلاک کدی جس پر ایکشن لیتے ہوئے سعدرضوی کو حکومت نے گرفتار کرلیا تھا، کچھ روز قبل ہی سعد رضوی کو حکومت سے ایک معاہدے کے نتیجے میں رہائی ملی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/saad.jpg