
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں منعقد کروائے جانے سے متعلق از خود نوٹس کیس کے دوران لارجر بینچ کو از سر نو تشکیل دینےکے معاملے پر دو ججز کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی 23 فروری کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے، فیصلے میں 9 رکنی لارجر بینچ میں سے 4 ججزنے بینچ کی از سر نو تشکیل کا مطالبہ کیا، اس فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے اختلافی نوٹ لکھا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اس کیس میں جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن اپنے ذہن پہلے ہی واضح کرچکے ہیں، دونوں ججز نے موقف بھی اپنایا کہ صوبائی اسمبلیوں میں 90 روز کے اندر انتخابات ہونے چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں ججز کی آڈیو لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غلام ڈوگر کیس سے متعلق لیک ہونے والی مبینہ آڈیو ایک سنجیدہ معاملہ ہے، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن نے انتخابات سے متعلق رائے دیتے ہوئے آرٹیکل10 اے پر غور نہیں کیا، اس صورتحال میں چیف جسٹس کی جانب سے از خود نوٹس کا جواز نہیں بنتا۔
فیصلے میں دوسرا اختلافی نوٹ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ میرے پاس بینچ سے علیحدہ ہونے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے، تاہم میں اپنے خدشات کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں، عوام کے عدلیہ پراعتماد کیلئے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لارجر بینچ میں دیگر سینئر ججز کی عدم شرکت پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ دو سینئر ججز کو اس بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، ایک جج کی آڈیو لیک سے متعلق الزامات پر کس فورم پر جواب نہیں دیا گیا، مختلف بارکونسلز نےاس جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کردیا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/5scjuhshsgikhtlagfinoe.jpg