مرحوم شہید صحافت ارشد شریف کی تدفین کے بعد صحافی مطیع اللہ جان نے بتایا کہ ارشد کی والدہ نے ان سے کچھ شکوہ کیا تھا جس کے بارے میں انہوں نے بڑی تفصیل سے لکھا اور بتایا کہ کس طرح ان میں اور ارشدشریف میں بہت اچھی دوستی تھی۔
مطیع اللہ جان نے لکھا کہ ارشد شریف کو لحد میں اتارنے بعد بہت سے پرانے واقعات نظروں کے سامنے گھوم گئے، قبر سے چند گز دور ارشد کے والد اور بھائی کی قبریں تھیں جو قریب ہی قبر میں اتارے گئے، وہ دن بہت بھاری تھا مجھ پر، اس کے والد کا جنازہ گھر پر تھا، اس کے بھائی کی شہادت کی خبر ارشد تک پہنچانے کی ذمے داری مجھے دی گئی۔
انہوں نے کہا ارشد ایک بہادر صحافی کی طرح معاملے کی نزاکت کو بھانپ گیا اور میری بات پوری ہونے سے پہلے خود ہی سمجھ گیا، پھر ہم دونوں مل کر اس کی والدہ کو بتانے گئے اور شروع میں ان کو حادثے کا بتایا اور ارشد کے بھائی کے زخمی ہونے کا بتایا مگر ماں ہمیں دیکھ کر سب سمجھ چکی تھیں۔
صحافی مطیع اللہ نے اپنے ٹوئٹ میں مزید کہا ارشد نے ماں کو گلے لگا لیا جس نے الٹا ارشد کو حوصلہ دینا شروع کر دیا، وہ بھاری دن بھی گزر گئے، قل پر ارشد شریف ساتھ بیٹھا اور کہا یہ انسان بہت ڈھیٹ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بڑے سے بڑا حادثہ بھی ہو جائے تو وقت کے ساتھ وہ بھول جاتا ہے۔ پھر شاید میں نے اس پر زندگی کا فلسفہ جھاڑ دیا۔
انہوں نے کہا ارشد کے گھر کے جس ڈرائینگ روم میں دوستوں کی رات گئے تک کی محفل، سیاست اور اسٹیبلشمنٹ پر گفتگو اور ساتھیوں کے ساتھ طنز و مزاح ہوتا تھا اس روز اسی کمرے میں ارشد کی والدہ کے سامنے چند دوست صحافیوں کے ہمراہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا، اور پھر گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔
مطیع اللہ نے ارشد شریف کی والدہ کے گلے سے متعلق کہا کہ انہوں نے میرے افسوس کرنے پر مجھ سے بھی افسوس کیا مگر شکوہ بھی کیا ان فاصلوں کا جو میرے اور ارشد کے بیچ آ گئے تھے، انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں کیساتھ انٹرویوز کے دوران ارشد سے کی گئی گفتگو پر خوب ڈانٹ پلائی مگر پھر بھی کچھ لحاظ کر گئیں اور دلاسہ دیا اور پھر دعا بھی دی۔
ان کا کہنا تھا کہ شاید میں ایک ماں کی اس سے بھی زیادہ ڈانٹ کا حقدار تھا، اگر میری ماں زندہ ہوتی تو شاید مجھے اس سے بھی زیادہ ڈانٹ پلاتی اور اگر ارشد کی جگہ میں ہوتا اور میری جگہ ارشد تو میری ماں نے بھی ارشد کا کوئی لحاظ نہیں کرنا تھا کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے۔
انہوں نے شہید ارشد کے ساتھ گزرے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک بار ارشد کیساتھ گاڑی میں سفر کے دوران میں نے کچھ کھا کر اس چیز کا ریپر بے دھیانی میں باہر اچھال دیا، اچانک یوں لگا کہ بھونچال آ گیا ہے ارشد اونچی آواز میں شاؤٹ کیا اور طنز بھرے انداز میں کہا اوئے یار یہ کیا کیا تم نے۔ لندن کی تعلیم نے کچھ نہیں بگاڑا تمھارا۔
مطیع اللہ کہتے ہیں کہ قابو آنے کی اب میری باری تھی اس لیے کوئی جواب نہیں بن پڑا اور بس کھسیانی بلی بن گیا، ایسا ہم اکثر ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے، مگر اس واقعے کے بعد کئی سال تک بلکہ اب بھی گاڑی میں کچھ کھایا تو ارشد کی وہ بلند آواز سنائی دیتی اور میں دل ہی میں ہنس دیتا۔
انہوں نے کہا کہ ارشد دوستوں کا دوست تھا مگر جس کا دشمن بن جاتا تو پھر اسے احساس دلاتا رہتا تھا، ایسا نہ کرنا شاید اس کے بس میں ہی نہیں تھا، اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک میں اس وقت انتہائی تیزی آ جاتی جب وہ دوستوں کی محفل میں ہوتا، چند دوستوں کے بیچ طنز و مزاح کا میچ پڑ جاتا۔
صحافی مطیع اللہ جان نے مزید کہا کہ سب اس کے چہرے کی مسکراہٹ، قہقہے لگاتی آنکھوں کو دیکھ کر ایسے فارم میں آ جاتے جیسے کوئی شاعر سامعین سے داد سمیٹتا جوش میں آ جائے، خود تو زیادہ تر خاموش رہ کر اپنی مستقل مسکراہٹ سے بولنے والے کی خوب حوصلہ افزائی کرتا پر بولنے والا سمجھتا کہ وہ واقعی اس کی باتوں سے محضوض ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ارشد شریف غصے کا تیز تھا مگر اپنے کام میں جدت اور محنت کا دھنی، ڈان ٹی وی کے دنوں میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے انتہائی سخت اور مشکل خبروں پر بھی میرے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوا اور فیصلہ غلط ہو یا صحیح وہ کسی کے کہنے پر بلاوجہ اسے تبدیل نہیں کرتا تھا اور جو اسے ایسا کرنے پر بغیر دلیل کے مجبور کرنے کی کوشش کرتا اس کو زیادہ ہزیمت اٹھانا پڑتی۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ مگر اس کے (ارشد شریف) ساتھ ساتھ وہ اس بات پر کامل یقین رکھتا تھا کہ جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس سے ناراضگی کے بعد جو کچھ وہ کرتا اس سے فاصلے کم نہیں بڑھتے ہی رہتے۔