آڈیو لیکس کیس میں جسٹس بابر ستار نے بینچ پر اعتراض کی 4 درخواستوں پر 42 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درخواستیں بدنیتی پر مبنی ہیں۔ چاروں اداروں نے ایک مہم کے تحت درخواستیں دائر کر کے جج کو دبائو میں لانے کی کوشش کی۔
عدالت شہریوں کے فون ٹیپ کرنے کے معاملے پر فریقین کو مکمل موقع دیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت شہریوں کو ملکی آئین میں دیئے گئے ان کے بنیادی حقوق دینے میں ناکام رہی ہے۔
سینئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر خبر بریک کرتے ہوئے بتایا کہ: آڈیو لیکس کیس میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی آئی بی اور چیئرمین پی ٹی اے کو درخواستیں دائر کرنے پر توہین عدالت کے معاملے میں ابتدائی نوٹس جاری کر دیا ہے۔
عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ مطمئن کریں کہ کیوں نہ تینوں اداروں کے سربراہان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
عدالت نے ان اداروں کی درخواستوں کو ایک مہم کا حصہ اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے 42 صفحات کے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ایف آئی اے، آئی بی، پیمرا اور پی ٹی اے کے جن افسروں نے درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی تھی وہ اپنی ذاتی حیثیت میں 5،5 لاکھ روپے جرمانہ رجسٹرار کے پاس جمع کروائیں، عدالت مرکزی کیس کے حتمی فیصلے کے بعد طے کرے گی کہ یہ پیسے کہاں کرنے ہیں ؟
ثاقب بشیر نے لکھا کہ: جسٹس بابر ستار کے کیس سننے پر اعتراض عائد کرنے کا معاملہ مزید گھمبیر ہو گیا ہے، عدالت نے توہین عدالت معاملے کے ابتدائی نوٹس جاری کرنے کے بعد حکم دیا ہے کہ " اس قسم کی درخواستیں دائر کرنے کے لیے اتھارٹی دینے کا میکنزم کیا ہے؟ ڈی جی آئی بی اور ایف آئی اے کو اپنا بیان حلفی بھی جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے!