آرمی چیف کی تقرری، تحریک انصاف کی نئی پارٹی پالیسی کیا ہوگی؟انصار عباسی

army-cheif-imran-khan-new-nt.jpg


تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی بنیاد پر نجی انگریزی اخبار کو بتایا ہے کہ آرمی چیف کے تقرر پر اب پی ٹی آئی یا صدر مملکت عارف علوی کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے، کیونکہ جماعت نئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تنازع نہیں چاہتی۔

انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی انصار عباسی کا دعویٰ ہے کہ انہیں پارٹی کے اہم عہدیدار نے بتایا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی یا دیگر پارٹی قیادت نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل پُرسکون انداز میں مکمل ہونے کو یقینی بنائیں گے بلکہ آنے والے چیف کو بغیر کسی پریشانی کے خندہ پیشانی سے قبول بھی کریں گے۔

اس پارٹی رہنما نے حکومت کی جانب اس خدشے کو مسترد کر دیا کہ عمران خان حالیہ بیانات کی وجہ سے شاید صدر مملکت کے ذریعے اس عمل میں کوئی تاخیری حربہ استعمال کریں گے۔ کیونکہ تحریک انصاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی موجودہ پالیسی کو برقرار نہیں رکھنا چاہتی۔

صحافی کا اپنی خبر میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس معاملے پر پی ٹی آئی میں باقاعدہ بحث ہوئی ہے جس کے بعد فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی قیادت میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی روز سے عمران خان نے بھی اپنے کسی خطاب میں ایسا ذکر نہیں کیا۔

عمران خان خود کو وزیراعظم آفس سے نکال باہر کیے جانے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ اسی لیے تقریباً تمام اہم عہدوں پر بیٹھے اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑیوں کو انہوں نے نشانے پر رکھ لیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ دباؤ کے ساتھ ایسی صورت پیدا کی جائے کہ جلد انتخابات ہوں۔

یہ زورآزمائی اس وقت شدید صورت اختیار کر گئی جب ارشد شریف کی شہادت کیلئے بھی اداروں کو ذمہ ٹھہرایا گیا اس کے بعد پہلی بات ڈی جی آئی ایس آئی کو میڈیا کے سامنے آ کر پریس کانفرنس کرنا پڑی، تاہم عمران خان اس کے بعد بھی پیچھے نہیں ہٹے اور خود پر ہونے والے حملے کی بھی ذمہ داری وزیراعظم، وزیر داخلہ اور فوج کے حاضر سروس میجر جنرل پر ڈال دی۔

پہلے عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ شہبازشریف کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ آرمی چیف کی تقرری کر سکیں، ان کا مؤقف تھا کہ نئی حکومت مینڈیٹ کے ساتھ آئے اور آرمی چیف لگائے، وہ موجودہ آرمی چیف کو انتخابات تک توسیع کے حامی تھے تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید توسیع لینے سے انکار کر دیا۔