ہر طرف کرونا وائرس کی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے. امریکہ اور یورپ نے ترقی یافتہ ہونے کے باوجود وباء کے ہاتھوں شدید زعیمت اُٹھائی ہےاورشدید جانی و مالی نقصانات دیکھے ہیں.
ایسے میں پاک وطن سے ملنے والی خبریں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں. وفاقی اور صوبائی حکومتیں، محکمہ جات، فوج اور عوام مِل جُل کر، کندھے سے کندھا مِلا کر اِس مُشکل وقت کا سامنا کر رہے ہیں. تمام تر مشکلات کے باوجود غریبوں کی مد د کی جا رہی ہے.مریضوں کے اعداد و شمار اپڈیٹ کئے جا رہے ہیں.
ان قابلِ ستائش سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کچھ طبقے اپنی پرانی روش پر قائم ہیں. یہ لوگ اپنے حلئے، عادات اور تعلیمی قابلیت میں تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر اپنے طور طریقوں اور حرکات میں کافی مماثلت رکھتے ہیں.
۱) بکاو میڈیا جو اپنے مالکوں کے کہنے پر مخالفین کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے. ا اِن میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے اور مالدار ہیں. مگر فکری ارتقاء کی منزل پانے سے پہلے ہی اِنہوں نے ٹی وی چینل مالکان کی غلامی اختیار کر لی اور منطق و عقل سے دوری اختیار کر لی.
۲) سیاسی جماعتوں کے پروردہ گدھے جو دن رات پارٹی کے راگ الاپتے رہتے ہیں. ان میں اکثریت جہلاء کی ہے. مگر کچھ پڑھے لکھے بھی اس گروہ میں شامل ہیں.
۳) بوڑھے گدھ اور لگڑ بگڑ یہ بے وقعت لوگ کسی کو حالِ دل بھی نہیں سنا سکتے. پرانے وقتوں میں یہ یا ا نکے باپ دادا کسی بھٹو ، نواز شریف ، ولی خان یا الطاف حسین کی گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑا کرتے تھے. الیکشن کے دنوں میں پیسہ ملا کرتا تھا اور ایسے لوگ اپنے علاقے میں اکڑ اکڑ کر چلا کرتے تھے.
وقت بدل گئے اور خان نے سب کی "دکانیں" بند کروا دیں. اب اِن سے سیاسی طور پر تو کچھ ہو نہیں سکتا اس لئے آسمان کی جانب منہ اُٹھا اُٹھا کر آوازیں نکالتے رہتے ہیں. آس پاس کے لوگ ان پر نظر ڈال کر گزر جاتے ہیں کیونکہ اب یہ کسی کو کاٹ بھی نہیں سکتے.
. یہ صرف مردار کھانے کے عادی ہیں اِن میں سے اکثریت اُنکی ہے جنہیں اسقدر اہم ہونے کے باوجود استنجا کے بعد کوڑے دان میں بھی نہیں پھینکا گیا.