Invisible.Sword

Councller (250+ posts)
پانامہ لیکس۔ آپشنز اور ممکنات

سیاست کو ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے۔ پانامہ لیکس ہو چکی ہیں اور یہ اتنے آرام سے جان نہیں چھوڑیں گی۔ ایک بنیادی چیز جو شریف خاندان کو سمجھ نہیں آ پا رہی وہ یہ ہے کہ عمران خان، زرداری، میں، آپ سب کے سب کرپٹ ثابت ہو جائیں پھر بھی شریف خاندان معصوم ثابت نہیں ہوتا۔ شائد یہ کام کوئی نفسیاتی ریلیف ضرور دے سکے مگر کوئی سیاسی، آئینی یا قانونی ریلیف نہیں دے پائے گا۔ آخرکار پھر بات یہیں پر ٹوٹے گی کہ احتساب کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن جب تک حکومت خود کلین ہو کر سامنے نہیں آئے گی، باقی سب کا احتساب کیسے کرے گی؟ "اکراس دا بورڈ" احتساب کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف صاحب وزیراعظم ہیں۔ اگر آپ تمام "ملزموں" کا احتساب ایک ساتھ کرنا چاہتے ہیں تو ان ملزموں میں کوئی وزیراعظم نہیں ہونا چاہیے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ احتساب اور کچھ ثابت ہونے سے پہلے نواز شریف صاحب استعفی نا دیں تو پھر احتساب پہلے وزیراعظم کا ہی ہو گا ورنہ حکومت کو وہ آئینی، اخلاقی اور قانونی طاقت کیسے ملے گی جس کے تحت مثلا عمران خان کا احتساب ہو سکے؟ یہ اتنی صاف، سادہ اور منطقی باتیں ہیں کہ شریف خاندان کے وفادار سے وفادار ملازم کے لیے بھی ان کا انکار کرنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔

حکومت کی مشکلات میں شدید اضافہ تب ہوا جب سپریم کورٹ نے کمیشن بنانے کے لیے حکومت کے خط کا صاف انکار میں جواب بھیجا اور حکومتی زخموں پر نمک وہی سب کہہ کے چھڑکا جو اپوزیشن اور غیر جانبدار تمام مبصر کہہ رہے تھے۔ حکومت کو کسی بھی قیمت پر کسی بھی کمیشن سے ویسی ہی ایک "کلین چٹ" چاہیے تھی جیسے دھاندلی پر ملی تھی۔ فی الحال تو یہ آپشن ختم ہو چکا ہے اور اپوزیشن اپنے لحاظ سے اب بالکل درست ٹریک پر چڑھ چکی ہے۔ اب حالات یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ کسی بھی قسم کا عدالتی کمیشن قبول نہیں کیا جائے گا۔ کھیل زیادہ پارلیمنٹ میں کھیلا جائے گا، سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہو گی۔ اپوزیشن کے نکتہ نظر سے چیف جسٹس کا خط ان تمام مثالی الفاظ کے ساتھ مزین تھا جو اگر اپوزیشن کا کوئی لیڈر جواب لکھواتا تو استعمال کرتا۔ یہ خط اور اس کا متن، پھر اس کا لیک ہونا سب نہایت معنی خیز تھا جس پر بہت کم لوگوں نے تجزیہ کرنے کی زحمت کی۔ جیسے ہی اس بحران کا آغاز ہوا اگر اس وقت عدلیہ اس پر سو موٹو لے لیتی تو کسی بھی شخص کو بولنے کا موقع نا ملتا چاہے فیصلہ نواز شریف صاحب کے حق میں ہی کیوں نا آتا۔ اب عدلیہ کا کردار شائد ختم ہو چکا ہے۔ عمران خان خوش قسمت ثابت ہوئے کہ اپنے ہی بچھائے ہوئے "کمیشن کے پھندے" سے بچ نکلے۔

اب بات ہو جائے مستقبل کے ممکنات کی۔ پہلا آپشن نواز شریف صاحب کے لیے یہ ہے کہ صوبائی اسمبلیاں مت توڑیں مگر قومی اسمبلی توڑ دیں اور جنرل الیکشن میں چلے جائیں۔ بہت سے لوگوں کی توقعات اور خواہشات کے برعکس اس بار نتائج 2013 والے نہیں آئیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن، نسبتا پر امن صورتحال، پانامہ لیکس یہ سب مل جل کے پنجاب میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود یہ ناممکن بنا دیں گے کہ دوبارہ سادہ اکثریت بھی حاصل کی جا سکے۔ ان حقائق کی موجودگی میں صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی ہی توڑی جا سکتی تھی، اس میں بچت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس یہ آپشن فارغ ہو گیا، عدلیہ کا آپشن پہلے ہی فارغ ہو چکا۔

دوسرا آپشن ہے مارشل لا کا، اس کا فی الحال دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ فوج پہلے ہی بہت مصروف ہے۔ مزید کوئی ذمہ داری شائد فوج نا لینا چاہے۔ اس لئے یہ آپشن بھی ختم۔ اگلا آپشن ہے ان ہاؤس تبدیلی۔ اس آپشن سے حکومت بھی بچ جائے گی، اپنا دورانیہ بھی پورا کرے گی اور اگلے الیکشن میں مریم، حسن نواز، حسین نواز، حمزہ شہباز یا شہباز شریف کی ڈینٹنگ پینٹنگ کر کے گزارے لائق نتائج بھی حاصل کئے جا سکیں گے جب کہ نواز شریف صاحب کنگ میکر کا کردار سنبھال لیں گے۔ یہ آپشن سب سے زیادہ عملی اور مفید ہے لیکن نواز شریف صاحب میٹرو بنانا بند کرنا قبول کر سکتے ہیں، موت قبول کر سکتے ہیں حتی کہ نہاری کھانا بند کر سکتے ہیں مگر کوئی ایسا آپشن یا حل قبول نہیں کر سکتے جس میں ان کی جماعت کی حکومت میں ان کے سوا کوئی اور وزیراعظم ہو۔ میاں صاحب اقتدار میں کسی بھی قسم کے "شرک" کے قائل نہیں ہیں۔ یہ آپشن بھی فارغ ہو گیا۔

اب لے دے کے ایک ہی آپشن بچتا ہے شریف خاندان کے لیے کہ پرویز رشید، طلال چوھری، دانیال عزیز اور عابد شیر علی صاحب جیسے مثالی کردار کے مالکوں، مہذب نمائندوں اور سچے سیاستدانوں کے ذریعہ عمران خان پر حملے کرتے رہیں اور یہ دعا کریں کہ اگلے الیکشن تک عوام یہ سب بھول چکی ہو گی۔ دوسری طرف عمران خان ناقابل یقین سیاسی ریزیلینس کے مالک ہیں۔ بہت بار لوگوں نے سمجھا کہ ان کی سیاست ختم ہو گئی اور وہ پھر پوری طاقت سے میدان میں آ کھڑے ہوئے۔ وہ پارلیمنٹ، رائیونڈ کہیں بھی احتجاج کرنے سے نہیں چوکیں گے۔ ان کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ رو پیٹ کے چپ کر جائیں گے نرم سے نرم الفاظ میں بیوقوفی کہلائے گا۔ اس بندے نے الیکشن کے ڈیڑھ سال بعد بھی تحقیقات کروا کے چھوڑیں۔ اس بار مسلہ یہ ہے کہ صرف تحقیقات پر اب جائیں گے نہیں اس لئے کمیشن والی کہانی ختم ہو چکی۔ وہ محض ایجی ٹیشن کریں گے اور میاں صاب کو ماریں گے کم گھسیٹیں گے زیادہ۔

بظاہر حالات کچھ یوں نظر آ رہے ہیں کہ حکومت چلتی رہے گی مگر حکومت ختم ہونے تک لفظ "نواز" وہی تقدس حاصل کر چکا ہو گا جو لفظ "زرداری" کو آج حاصل ہے اور نون لیگ کے ووٹر بھی ویسے ہی شرمندہ شرمندہ پھرتے ہوں گے جیسے زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی کے آج پھرتے ہیں۔ نواز شریف وزیراعظم کے اختیارات پر محض ایک تہمت بن کے رہ جائیں گے۔

لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نواز شریف صاحب خاموشی کے ساتھ مار کھاتے رہیں گے تو یہ بھی غلط ہو گا۔ دو کام ہو سکتے ہیں

ایک۔ اے پی ایس جیسا کوئی بڑا قومی المیہ جس سے توجہ پانامہ لیکس سے ہٹ جائے اور تاریخ بتاتی ہے کہ جب جب نواز شریف صاحب کی حکومت کو خطرے لاحق ہوئے اچانک ایسے واقعات ہوئے۔ یہ بہت پرانی سیریز ہے۔ سری لنکن ٹیم پر گورنر راج میں حملے سے شروع ہوتی ہے یہ سیریز اور پھر اے پی ایس پر منتج ہوتی ہے۔ اب خدا جانے یہ اتفاق ہے یا کیا ہے۔ اس پر ہم رائے زنی نہیں کریں گے

دو۔ نواز شریف صاحب فوج کے ساتھ جان بوجھ کر کشیدگی کو ہوا دینا شروع کر دیں، پانامہ لیکس کے معاملے کر سول ملٹری رنگ بنا کے پیش کریں۔ مارشل لا لگوا کے سیاسی شہید بننے کی کوشش کریں اور یہ امید رکھیں کہ اگر میں تیسری بار وزیراعظم بن سکتا ہوں تو چوتھی بار بھی بن سکتا ہوں تو ہمارے تجزیہ کے مطابق اس بار انہیں سیاسی شہادت تو شاید نا مل سکے مگر سیاسی حرام موت شائد مل جائے۔

اب بات ہو جائے اس آپشن کی جو ہر باضمیر، محب وطن اور مخلص پاکستانی کے دل کی آواز ہے چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ووٹر یا سپورٹر ہو نواز شریف صاحب پارلیمنٹ میں اپنے تمام کاغذات، رسیدیں پیش کر کے ثابت کریں کہ
" پیسہ ایسا کہاں سے، باہر گیا کیسے، ٹیکس کتنا دیا اور پوری دنیا میں اثاثے کتنے ہیں؟"
اس کے بعد میاں صاب معصوم ثابت ہو جائیں اور باقی تمام کرپٹ لوگوں کا بلا تفریق احتساب کریں۔ اور اگر اس آپشن میں میاں صاب کا اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا شائد اتنا ہی امکان ہے جتنا تمام تر حکومتی اور میڈیا مشینری کا زور لگانے کے باوجود عمران خان کو کرپٹ ثابت کرنے کا ورنہ اب تک نواز شریف صاحب ثابت کر چکے ہوتے۔۔۔۔

آخری جملہ محض محب وطن پاکستانیوں کے لیے کہ جب تک آپ کم از کم مالی طور پر ایماندار قیادت کو منتخب کرنا شروع نہیں کریں گے، جمہوریت کی پائیداری اور "سویلین بالادستی" محض ایک خواب ہی رہے گی۔ آخرکار "اسٹیبلشمنٹ کے کانے" اسٹیبلشمنٹ کے ہی سامنے کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں؟؟ جس شخص کا دامن کم از کم مالی کرپشن کے دامن سے صاف ہو وہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ پاکستان زندہ باد