گٹر کے پانی سے دھلا صاف گوشت
کل مجھے اپنے بہنوئی کے ہمراہ ایک ضروری کام کی غرض سے ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال جانا پڑا جدھر ہم نے تھوڑی دیر رکنا بھی تھا۔ حسن ابدال پہنچ کر ہم گاڑی میں ہی انتظار کر رہے تھے، اتنے میں میرے بہنوئی نے بولا کیوں نہ کوئی موچی ڈھونڈ کے میں اپنا جوتا ٹھیک کروا لوں۔
ہم دونوں سبزی منڈی کے پہلو میں پہلی ہی گلی "شاہ جھلن سٹریٹ" چلے گئے۔ شاہ جھلن سٹریٹ حسن ابدال شہر کا تجارتی مرکز ہے جہاں پرچون و تھوک دونوں سامان با آسانی دستیاب ہیں۔ شاہ جھلن سٹریٹ کے شروع میں ہی بائیں جانب موچی بیٹھا تھا جس کے ساتھ دو عدد گوشت کی دوکانیں بھی تھیں۔ ایک دوکان پر نام لکھا تھا "نورانی بیف شاپ" جبکہ دوسری لاوارث تھی، یعنی اس پر کوئی بورڈ نہیں لگا تھا
جوتے کے سلائی میں پانچ منٹ لگ جانے تھے اس لئیے ہم دونوں سڑک کی دوسری جانب سیمنٹ سے بنے فٹ پاتھ پر جا کھڑے ہوئے، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں اس کاروباری مرکز کی تمام دوکانیں کرونا مرض کی روک تھام والے حکومتی ایس او پیز کی مکمل دھجیاں اڑاتی نظر آ رہی تھیں۔
خیر جب ہم سامنے فٹ پاتھ پر گئے تو نظر آیا یہ فٹ پاتھ نہیں بلکہ گندے پانی والی نالی ہے جس پر سے سیمنٹ کا ایک بلاک ٹوٹا ہوا تھا اور نیچے غلاظت بھرا پانی بہتا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں اچانک میری نظر سامنے والی گوشت کی دوکانوں پر پڑی جہاں دو بالٹیاں پڑی تھیں اور ایک قصائی ان میں سے پانی نکال کے گوشت کو دھو رہا تھا، میں نے اپنے بہنوئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا ہے یہ اس نالی والا گٹر زدہ پانی ہے جس سے گوشت دھویا جا رہا ہے اور ہم باخوشی اسے خرید کے مزے لے لے کے کھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ بولے یہ ممکن ہی نہیں، کچھ خدا کا خوف کرو، یہ لوگ بھلا رزق کو اس گندے پانی سے کیوں دھوئیں گے؟
ہم ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ نے وہ منظر دیکھا جس کو لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ نورانی بیف شاپ سے ایک لڑکا پانی کا خالی ڈول لئیے اسی جانب بڑھا جدھر ہم کھڑے تھے، اسنے نالی کے پانی میں ڈول پھینکا، گندے پانی سے جب ڈول بھر گیا تو وہ لے کے نورانی بیف شاپ پر چلا گیا۔ اس پانی سے اس نے دوسرے قصائی کے ہمراہ گوشت کو دھویا، صاف ستھرا کر کے چمکایا اور گاہک کا انتظار کرنے لگا۔
یہ سب دیکھ کے میرے بہنوئی بولے تم کیمرہ آن کرو اور اس کی ویڈیو بناو، جب تک میں نے کیمرہ آن کیا قصائی گوشت دھو چکا تھا, تھوڑی ہی دیر میں وہ بچہ پھر وہی ڈول لیئے اسی نالی کی جانب بڑھا جدھر ہم کھڑے تھے، اب ہماری تیاری پوری تھی، کیمرہ آن تھا، ویڈیو بن رہی تھی۔ بچے نے پانی بھرا واپس دوکان پر گیا تو دوسرے قصائی کو کچھ بتایا جس پر دونوں نے مل کر پیچھے میری طرف دیکھا اور پھر اس پانی سے گوشت دھونے کی بجائے فرش دھونا شروع کر دیا۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں جب بچہ دوسرا ڈول بھرنے آیا تو اسی لمحے ساتھ والی دوکان سے ایک اور قصائی اپنا الگ برتن لئیے جانور کا خون اور گندا پانی گرانے اسی نالی کی طرف بڑھا، جب بچہ پانی بھر رہا تھا عین اسی وقت دوسرا قصائی اسی نالی میں خون ملا گندا پانی گرا رہا تھا۔
یہ سب فلم بند کرنے کے بعد مجھ میں وہاں مزید کھڑا رہنے کی ہمت نہ ہوئی، ہم نے موچی سے جوتے لئیے اور چل نکلے۔ جب ہم جا رہے تھے تو دوسری دوکان والا قصائی طنزیہ انداز میں بولا بنا لی ویڈیو؟ ۔۔۔ کر لو جو کرنا ہے۔
کم و بیش ان کے سامنے والے تمام دوکان دار اور بیکری والے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور مجھے پورا یقین ہے پہلے بھی دیکھتے ہونگے پر کسی نے ان انسانی قاتلوں سے پوچھنے کی جرت نہ کی کہ آخر تم ہمیں گٹروں کے پانی سے دھو کے گوشت کیوں کھلاتے ہو، صاف پانی سے دھوتے ہوئے کیا موت پڑتی ہے؟ یہ معاشرتی بے حسی نہیں تو کیا ہے؟
میری وزیراعلی پنجاب، گورنر پنجاب، پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران، کمشنر راولپنڈی ڈویژن، اے سی حسن ابدال، ڈی سی اٹک، وفاقی وزیر امین اسلم اور وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے وہ ان درندوں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیتے ہوئے ان کی دوکانیں بند کروا کے نہ صرف انہیں جیل میں ڈالیں بلکہ ان پر ارادہ قتل کا مقدمہ درج کر کے قرار واقعی سزا دلوائیں۔
باقی کی تفصیل ویڈیو میں ملاحظہ کیجیئے۔
جذاک اللہ
کل مجھے اپنے بہنوئی کے ہمراہ ایک ضروری کام کی غرض سے ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال جانا پڑا جدھر ہم نے تھوڑی دیر رکنا بھی تھا۔ حسن ابدال پہنچ کر ہم گاڑی میں ہی انتظار کر رہے تھے، اتنے میں میرے بہنوئی نے بولا کیوں نہ کوئی موچی ڈھونڈ کے میں اپنا جوتا ٹھیک کروا لوں۔
ہم دونوں سبزی منڈی کے پہلو میں پہلی ہی گلی "شاہ جھلن سٹریٹ" چلے گئے۔ شاہ جھلن سٹریٹ حسن ابدال شہر کا تجارتی مرکز ہے جہاں پرچون و تھوک دونوں سامان با آسانی دستیاب ہیں۔ شاہ جھلن سٹریٹ کے شروع میں ہی بائیں جانب موچی بیٹھا تھا جس کے ساتھ دو عدد گوشت کی دوکانیں بھی تھیں۔ ایک دوکان پر نام لکھا تھا "نورانی بیف شاپ" جبکہ دوسری لاوارث تھی، یعنی اس پر کوئی بورڈ نہیں لگا تھا
جوتے کے سلائی میں پانچ منٹ لگ جانے تھے اس لئیے ہم دونوں سڑک کی دوسری جانب سیمنٹ سے بنے فٹ پاتھ پر جا کھڑے ہوئے، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں اس کاروباری مرکز کی تمام دوکانیں کرونا مرض کی روک تھام والے حکومتی ایس او پیز کی مکمل دھجیاں اڑاتی نظر آ رہی تھیں۔
خیر جب ہم سامنے فٹ پاتھ پر گئے تو نظر آیا یہ فٹ پاتھ نہیں بلکہ گندے پانی والی نالی ہے جس پر سے سیمنٹ کا ایک بلاک ٹوٹا ہوا تھا اور نیچے غلاظت بھرا پانی بہتا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں اچانک میری نظر سامنے والی گوشت کی دوکانوں پر پڑی جہاں دو بالٹیاں پڑی تھیں اور ایک قصائی ان میں سے پانی نکال کے گوشت کو دھو رہا تھا، میں نے اپنے بہنوئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا ہے یہ اس نالی والا گٹر زدہ پانی ہے جس سے گوشت دھویا جا رہا ہے اور ہم باخوشی اسے خرید کے مزے لے لے کے کھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ بولے یہ ممکن ہی نہیں، کچھ خدا کا خوف کرو، یہ لوگ بھلا رزق کو اس گندے پانی سے کیوں دھوئیں گے؟
ہم ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ نے وہ منظر دیکھا جس کو لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ نورانی بیف شاپ سے ایک لڑکا پانی کا خالی ڈول لئیے اسی جانب بڑھا جدھر ہم کھڑے تھے، اسنے نالی کے پانی میں ڈول پھینکا، گندے پانی سے جب ڈول بھر گیا تو وہ لے کے نورانی بیف شاپ پر چلا گیا۔ اس پانی سے اس نے دوسرے قصائی کے ہمراہ گوشت کو دھویا، صاف ستھرا کر کے چمکایا اور گاہک کا انتظار کرنے لگا۔
یہ سب دیکھ کے میرے بہنوئی بولے تم کیمرہ آن کرو اور اس کی ویڈیو بناو، جب تک میں نے کیمرہ آن کیا قصائی گوشت دھو چکا تھا, تھوڑی ہی دیر میں وہ بچہ پھر وہی ڈول لیئے اسی نالی کی جانب بڑھا جدھر ہم کھڑے تھے، اب ہماری تیاری پوری تھی، کیمرہ آن تھا، ویڈیو بن رہی تھی۔ بچے نے پانی بھرا واپس دوکان پر گیا تو دوسرے قصائی کو کچھ بتایا جس پر دونوں نے مل کر پیچھے میری طرف دیکھا اور پھر اس پانی سے گوشت دھونے کی بجائے فرش دھونا شروع کر دیا۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں جب بچہ دوسرا ڈول بھرنے آیا تو اسی لمحے ساتھ والی دوکان سے ایک اور قصائی اپنا الگ برتن لئیے جانور کا خون اور گندا پانی گرانے اسی نالی کی طرف بڑھا، جب بچہ پانی بھر رہا تھا عین اسی وقت دوسرا قصائی اسی نالی میں خون ملا گندا پانی گرا رہا تھا۔
یہ سب فلم بند کرنے کے بعد مجھ میں وہاں مزید کھڑا رہنے کی ہمت نہ ہوئی، ہم نے موچی سے جوتے لئیے اور چل نکلے۔ جب ہم جا رہے تھے تو دوسری دوکان والا قصائی طنزیہ انداز میں بولا بنا لی ویڈیو؟ ۔۔۔ کر لو جو کرنا ہے۔
کم و بیش ان کے سامنے والے تمام دوکان دار اور بیکری والے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور مجھے پورا یقین ہے پہلے بھی دیکھتے ہونگے پر کسی نے ان انسانی قاتلوں سے پوچھنے کی جرت نہ کی کہ آخر تم ہمیں گٹروں کے پانی سے دھو کے گوشت کیوں کھلاتے ہو، صاف پانی سے دھوتے ہوئے کیا موت پڑتی ہے؟ یہ معاشرتی بے حسی نہیں تو کیا ہے؟
میری وزیراعلی پنجاب، گورنر پنجاب، پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران، کمشنر راولپنڈی ڈویژن، اے سی حسن ابدال، ڈی سی اٹک، وفاقی وزیر امین اسلم اور وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے وہ ان درندوں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیتے ہوئے ان کی دوکانیں بند کروا کے نہ صرف انہیں جیل میں ڈالیں بلکہ ان پر ارادہ قتل کا مقدمہ درج کر کے قرار واقعی سزا دلوائیں۔
باقی کی تفصیل ویڈیو میں ملاحظہ کیجیئے۔
جذاک اللہ