کیا پاکستانی افواج پاکستان کا دفاع کر سکتی ہیں ؟ ( پارٹ ١)
یہ تین بلاگز پر مشتمل سیریز ہے ، ایجنسیز والے بھی اس بلاگ سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں . اگر آپکے پاس لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ ہے تو پڑھیں
ورنہ سیل فون پر لمبی تحریر پڑھنا مشکل ہوتا ہے . میں عرصہ دراز سے قائم ایک متھ کو کھنگال رہا ہوں
لوگوں کو بیوقوف بنانا بہت آسان ہے ، لیکن انھیں قائل کرنا کے انھیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے ...بہت مشکل ہے ( مارک ٹوئن )
بیرون ملک رہنے والی سکھ کمیونٹی
کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں گریٹر ٹورنٹو ایریا ( جی ٹی اے ) ہے . گریٹر ٹورنٹو ایریا میں برمپٹن وہ علاقہ جہاں ساؤتھ ایشین کی ٤٠ فیصد آبادی رہتی ہے اور اس ٤٠ فیصد میں سے ٢٠ فیصد انڈیا کی سکھ کمیونٹی رہتی ہے . یعنی ٩١ ہزار سکھ ، ١١ ہزار گجراتی اور ١٤ ہزار پاکستانی اور ١٠ ہزار متفرق ہندی رہتے ہیں . اس علاقے میں تمام ممبرز پارلیمنٹ کا تعلق بھی ساؤتھ انڈین کمیونٹی سے ہے
انڈیا – ٢٦ جنوری ٢٠٢١ ، ریپبلک ڈے والے دن، ریلی میں شامل شرکاء کے ایک حصہ نے بغیر کسی اجتمائی پلان کے سکھوں کا مذہبی پرچم " نشان صاحب " دہلی میں لال قلعہ کے سامنے ایک پول پر لگا دیا تھا . لال قلعہ کے سامنے سکھوں کے مذہبی جھنڈے لگانے کو لے کر ادارکار ٹرن سیاستدان دیپ سدھو کا نام میڈیا پر بھر پور گونجا . پنجاب سے بی جے پی کی ٹکٹ پر معروف ایکٹر سنی دیول الیکشن لڑے تھے . انتخابی ریلی میں دیپ سدھو کی تصاویر سوشل میڈیا پر نشر ہوئیں جس سے انکی ساکھ کو نقصان ہوا . سکھوں نے دیپ سدھو پر تحریک کو نقصان پوھچانے کے الزامات لگائے . دیپ سدھو آج جیل میں ہیں اور عوامی رائے انکے بارے میں تبدیل ہوتی نظر ا رہی ہے
جھنڈا کشائی مہم کے بعد " خالصتان مخالف " جذبات میڈیا نے بھر پور طریقے سے بھڑکائے تھے . انڈین پنجاب والوں نے تارکین وطن سکھوں پر الزام لگایا کے تارکین وطن والوں کی سپورٹ کی وجہ سے انکی جانوں کو انڈیا میں خطرات لاحق ہوے تھے . بی جے پی کے غنڈوں نے بغیر بیج والی پولیس کی وردی میں نہتے لوگوں پر تشدد کیا تھا . اپنی ہی برادری کے الزامات کے بعد تمام دنیا میں سکھوں نے کسانوں کے حق میں ریلیز نکالنا بند کر دیں .سکھوں کی طرح گجراتی بھی کثیر تعداد میں دنیا بھرمیں پھیلے ہوے ہیں . ریپبلک ڈے واقعہ کے بعد ، اچانک گجراتی اور ہندو کمیونٹی نے آسٹریلیا کے شہروں اور برامپٹن – اونٹاریو – کینیڈا میں انڈین جھنڈوں کے ساتھ گاڑیوں میں ریلی نکالنی شروع کی . بہت کم نوٹس پرسکھ نوجوان بھی گاڑیاں نکال کر سامنے ا گئے اور گالیوں کا تبادلہ شروع ہو گیا . ویک اینڈز پر یہ سلسلہ گزشتہ چند ہفتوں سے چل رہا ہے
قصہ مختصر ، الیکشن جیتنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرائم منسٹر نے مہذہبی عدم برداشت اور تشدد کے جو بیج بوے تھے ، اب وہ تناور درخت بن چکے ہیں . پہلے ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف لڑایا گیا اور اب سکھوں کو بھی ہندؤں کے خلاف لا کھڑا گیا ہے . انڈیا کی حد تک تو بات سمجھ میں اتی ہے مگر آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ملکوں میں انڈین قومیتوں کا اپس میں ٹکراؤ مودی سرکار کی مکروہ سیاست کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے
پاکستان - انڈیا اور سکھ کمیونٹی
آرمی چیف جنرل باجوہ نے ایک سال کی ریکارڈ مدت میں سکھوں کے انتہائی مقدس مقام " کرتارپور صاحب " کا پروجیکٹ مکمل کیا تھا . میری سکھ کمیونٹی میں دلچسپی اس وقت سے شروع ہوئی تھی . میں نے مشاہدہ کیا کے زیارت کے لئے انے والے سکھوں کو پاکستانیوں کے بارے میں بھر پور طریقے سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے . پاکستان میں انے کے بعد انکے تاثرات حیران کن حد تک خوشگوار ہوتے ہیں . آزادی کے بعد کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں ، حالیہ زومبی نسلوں ( دونوں طرف کی ) کو موجودہ تاریخ کا علم نہیں تو آزادی کی تاریخ کا علم کہاں سے ہو گا . علم کے لئے تو پڑھنا ضروری ہوتا ہے جبکہ پب جی اور ٹک ٹالک میں دھنسے مستوں کو کتاب کی طرف کون راغب کرے . پاکستانی پنجاب میں انڈین پنجاب کے گلوکار آجکل بے حد مقبول ہیں
مستقبل کو لے کر ہمارے جنرلوں کے ذہنوں میں جو کچھ بھی ہے . میرے مشاہدے کے مطابق حالات بلکل مختلف ہیں . ١٩٨٤ میں سکھوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ، موجودہ نسل ایسے بھول چکی ہے جیسے ہم لوگوں کی نسل ٧١ کا سقوط ڈھاکہ بھول چکے ہیں . جسطرح مسلمانوں کو دہشت گرد کہ کر پوری دنیا میں بدنام کیا جاتا ہے، حیران کن طور پر انڈیا میں وہی فارمولا کامیابی سے سکھوں پر آزمایا جا رہا ہے . جیسے ہی سکھوں کو "خالصتانی " کہ کر لیبل کیا جاتا ہے ، سکھ قوم اوپر سے نیچے تک لرز جاتی ہے . سن ٨٤ کے سانحہ میں جن خاندان کے لوگ شہید ہوے تھے ، بچنے والے افراد میں سے زیادہ تر بیرون ملک ہجرت کر گئے . انگلینڈ اور کینیڈا میں " خالصتان " مہم کو چلانے والے وہی لوگ ہیں . پہلے میں سمجھتا تھا کے زیادہ تر سکھ " خالصتان " کے حق میں ہے مگر حقیقت اسکے برعکس نکلی ہے . سکھوں کی دوسری ، تیسری اور چوتھی نسل ان ملکوں میں پروان چڑھ رہی ہے . وہ تمام لوگ مقامی آبادی میں سرایت کر گئے ہیں . ٢٠ فیصد میں شائد چند ہزار سے بھی کم لوگ خالصتان کو سپورٹ کرنے والے ہیں . جو انڈیا میں رہتے ہیں وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکے انھیں اٹھا لیا جاتا ہے
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
جو باتیں غیر محسوس طور پر ہم میں سرایت کر دی گئی ہیں ، انکا حقیقت سے دور قریب کا بھی واسطہ نہیں ہے .سکھوں کی مظبوط فورس انڈین فوج میں ہے . کسان ریلی جتنی زیادہ عرصہ چلے گی ، انڈین پنجاب کے سکھ مرکز سے اتنا زیادہ متنفر ہوں گے . ابھی حال ہی میں انہوں نے بی جے پی کے ایک رہنما کے کپڑے پھاڑ کر زدکوب کیا ہے . انڈین پنجاب کے سکھوں کو قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کی بھر پور یاد ا رہی ہے . بد قسمتی سے جو مسلمان ملکوں کا المیہ ہے ، وہی المیہ سکھ قوم کا بھی ہے . سکھ قوم میں لیڈرشپ کا مکمل قحط الرجال ہے . یہ قوم ماسٹر تارا سنگھوں میں پھنسی ہوئی ہے
بھگت سنگھ
. بھگت سنگھ شہید کے ذکر بغیر سکھوں کی حالیہ تاریخ ادھوری رہے گی . سکھ قوم اور برصغیر کی تاریخ میں بھگت سنگھ شہید کا ایک خاص مقام ہے
یہاں ایک بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ سکھوں کے پہلے گرو ، گرو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وحدانیت کی تلاش میں گزار اور سکھ مذہب کے پیرو کارروں کو ہزاروں سجدوں سے نجات دلا دی . بھگت سنگھ کی پیدائش تو سکھ پریوار میں ہوئی مگر وہ خود ناستک تھے یعنی ملحد تھے . بھگت سنگھ بھی روایتی دائمی کنفیوژن کا شکار نظر اتے ہیں . اگر بھگت سنگھ جنگ آزادی کے بعد بھی زندہ رہتے تو سکھ مذہب کیا ایک نئی شکل اختیار کرتا ؟
جنگ آزادی کے وقت بھگت سنگھ شہید مسلح انقلاب کے دائی تھے جبکہ گاندھی جی کسی بھی تشدد کے خلاف تھے . یہی وجہ ہے بھگت شہید کی سیاسی جدوجہد کا اختتام محض ٢٣ سال میں ہو گیا تھا.وہ مطالعہ کے بہت شوقین تھے اور یہی شوق انہیں ناستک بنا گیا . پھانسی سے پہلے روسی سیاستدان " لینن کی سوانح حیات " انکے زیر مطالعہ تھی . وہ کیونکر انقلابی بنے ، بھگت سنگھ کے نظریات جاننے کے لئے یہ اقتباس پڑھنا بہت ضروری ہے .بھگت سنگھ اپنے ملحد ہونے کا جواز اپنی کتاب میں کچھ اسطرح پیش کرتے ہیں
"
صرف کامریڈ ہی نہیں ، لیڈروں کی طرف سے بھی بہت کچھ سننا پڑتا تھا۔وہی میری زندگی کا انقلابی موڑ تھا ، اس وقت ذہن کی گوشوں میں صرف مطالعہ مطالعہ کی گونج تھی۔مخالفین کے دلائل کا جواب دینے کیلئے بھی مطالعہ ، اپنی رائے کو مضبوط کرنے کیلئے بھی مطالعہ ، لہذا میں نے مطالعہ شروع کردیا۔مطالعے کے بعد میرے پرانے خیالات اور اعتقادات میں تبدیلی آگئی۔پرانے ساتھیوں کے ساتھ جو تشدد والے طریقوں کا لطف آتا تھا ، اب ان کی جگہ سنجیدہ نظریات نے لے لی تھی۔اندھے ایمان کی جگہ اب حقیقت پسندی نے لے لی تھی۔تشدد تو صرف اسی صورت میں جائز ہے جب کسی اشد ضرورت کے وقت کیا جائے۔ورنہ عدم تشدد کا اصول ہی ہر تحریک کا حصہ ہوناچاہیے۔سب سے اہم چیز اس فلسفے کو سمجھنا تھا جس کیلئے ہم لڑ رہے تھے۔ان دنوں چونکہ کوئی خاص انقلابی سرگرمیاں نہیں تھیں لہذا مجھے عالمی انقلابات کے متعلق خوب پڑھنے کا موقع ملا۔بکونین کے انارکسٹ فلسفے کو پڑھنے کا موقع ملا ، بابائے اشتراکیت کارل مارکس کو پڑھا ، مگر لینن ، ٹراٹسکی وغیرہ کا زیادہ مطالعہ کیا جو اپنے ملکوں میں کامیاب انقلاب لے آئے تھے۔یہ سبھی ملحد تھے۔بکونین کی کتاب ‘خدا اور مملکت’ اس حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔پھر نرلمب سوامی کی کتاب ‘سہج گیان’ ملی۔اس میں الحاد کا عنصر شامل ہے۔اس موضوع میں میری دلچسپی اب بہت بڑھ گئی ہے۔1926 کے اواخر میں مجھے اس بات کا کامل یقین ہوگیا تھا کہ ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ خدا نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے ، اور وہی اس کائنات کو چلا رہا ہے۔میں نے اپنی اس سوچ کو ظاہر کیا۔دوستوں سے بحث و مباحثے شروع کیے۔یہی وہ وقت تھا جب میں پوری طرح ملحد ہوگیا۔لیکن اسے ہوا کیا ، وہ آئے گا " ۔
کسان ریلی
تاریخی کسان ریلی خالصتن ایک غیر سیاسی ریلی ہے مگر انڈیا میں اسے خالصتان سے جوڑا گیا ہے . یہ ریلی سیاستدانوں سے پاک ہے . اس ریلی نے سکھوں کے تمام محرومیاں ، ظلم و ستم اور زخموں کو ہرا کر دیا ہے . ماضی میں سکھوں کو بدتریج کمزور کیا گیا . ہریانہ کو زبان کی بنیاد پر پنجاب سے علیحدہ کر دیا گیا . چندی گڑھ کو یونین ٹیریٹری کے ساتھ ساتھ ہریانہ کا دارلخلافہ بنا دیا گیا . جیسا کے میں نے لکھا ہے کے بیرون ملک رہنے والے سکھوں نے کسانوں کے حقوق کو عالمی شکل دی تھی مگر آخر میں انکے حصہ میں بدنامی آئی . حالات یہ ہیں کے مقامی میڈیا میں بھی کسان ریلی زیر بحث نہیں لایا جاتا
نوجوت سنگھ سدھو
کرتار پور کے حوالے سے نوجوت سنگھ سدھو کو ایک مرتبہ پھر بھر پور شہرت ملی . تمام سکھ کمیونٹی کی نظریں ان پر جڑ گئیں . نوجوت سنگھ سدھو بلا کے حاضر دماغ ہیں . پہلے وہ مودی پارٹی میں تھے ، بعدازاں وہ کانگریس میں چلے گئے . پنجاب میں رائل فیملی کے کپتان امریندر سنگھ سنگھاسن پر بیٹھے ہوے ہیں . سدھو صاحب کو انکی قابلیت اور قد کاٹھ کے مطابق کانگریس پارٹی پنجاب میں انکے شایان شان کوئی فریضہ ابھی تک سونپ نہیں سکی . ایک میان میں دو تلواریں رہ بھی کیسے سکتی ہیں . دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے اروند کیجروال نے پنجاب کی سیاست میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر سکھوں کی دھڑے بندیوں نے قدم جمانے کا موقع نہیں دیا . لیڈرشپ کے حوالے سے ہم نے مشاہدہ کیا کے عمران خان نے انصاف ، معاشرے میں کرپشن کا خاتمہ اور ویلفیئر اسٹیٹ کا نعرہ دیا اور ایک نئی سیاسی پارٹی بنائی . ہم عمران خان کی ٢٢ سالہ سیاسی جدوجہد کے شاہد ہیں . چوری کرنا میرا پیشہ ہے اور نماز مجھ پر فرض والی پاکستانی قوم، آج بھی عمران خان کو جانوروں کی کھال دینے پر تیار رہتی ہے مگر انکے اچھے پارٹی ورکر کو ووٹ دینے پر راضی نہیں ہیں
خیبر پختونخوا کی عوام نے انکی طرز سیاست کو پسند کیا اور تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں ڈیلیور کیا ، نتیجے میں عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے . دہلی میں اروند کیجروال نے کرپشن ، مہنگی بجلی اور گڈ گورننس کا نعرہ دیا ، اپنی پارٹی بنائی اور کامیابی سے اپنے منشور پر عمل درآمد کیا . عمران خان کو وزیراعظم بننے میں ٢٢ سال لگے اور اروند کیجریوال کو ٩ سال دہلی کا چیف منسٹر بننے میں لگے . زیادہ تر نوجوت سنگھ سدھو دو کشتیوں میں سوار رہے . سیاست بھی کرتے رہے اور کپیل شرما شو میں جلوہ افروز بھی ہوتے رہے . انکے پاس نہ کوئی ویژن تھا اور نا کوئی سیاسی نعرہ . نا کوئی پلان تھا اور نا کوئی اسٹریٹجی . موصوف گزشتہ ایک سال سے ہائبر نیشن میں ہیں . انکے حق میں جو لہر بنی تھی ، وہ انہوں نے مکمل طور پر ضائع کر دی
خلاصہ
سکھ قوم پاکستانیوں کی طرح ایک ہیڈ لیس چکن کی مانند ہے . میں نے انہیں سمجھنے کے لئے انکے مذہب میں بھی ہلکا سا جھانکا . انکے پہلے گرو جناب گرو نانک صاحب نے بے تحاشہ سفر اور مشاہدے کے بعد انہیں وحدانیت کا سبق دیا تھا . اسکے علاوہ بلا امتیاز لنگر باٹنا اس قوم کا امتیازی خاصہ اور پہچان ہے . سکھوں کے آخری گرو ، گرو گوبند سنگھ صاحب نے انہیں ایک خاص شناخت دی جسکی وجہ سے یہ قوم با آسانی پہچانی جاتی ہے . سکھ قوم کے بہت سارے تہوار اور عقائد ہندو قوم سے جڑے ہوے ہیں . ہندو انہیں ہائبرڈ ہندو کہتے ہیں . شائد یہی وجہ ہے کے اس قوم میں دائمی اسٹیٹ آف کنفیوژن بہت زیادہ ہے . یہ قوم دو کشتیوں کی مسافر ہے . یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے جو یقینی طور پر غلط ہو سکتا ہے . ہمیں انڈین فلموں میں سکھ کردار ادا کرنے والے مزاحیہ دکھائے جاتے ہیں . حقیقت میں اس قوم کے لوگ انتہائی محنتی اور عقلمند نظر اتے ہیں . وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اسکی زندہ مثال ہیں . باقی تمام قوموں کی طرح اس قوم کا دانشور طبقہ بھی کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتا ہے . دھڑے بندی شائد اس دھرتی ( دنوں طرف ) کے لوگوں کا خاصہ ہے
میں اپنا ذاتی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے آپکو ایک واقعہ سناتا ہوں . اچھے وقتوں میں کسی نے جماعت اسلامی کے ایک لیڈر سے سوال پوچھا . مولانا صاحب ، آپکی جماعت نے ساری اسلامی دنیا کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے .آپلوگ پاکستان میں کوئی انقلاب کیوں نہیں لاتے . مولانا صاحب کا جواب انتہائی شاندار تھا . فرمانے لگے ، جب تک کسی قوم کے کم از کم ٦٠ فیصد لوگ انقلاب لانے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تو آپکی رہی سہی طاقت اور کام بھی ختم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے . ہم مقبوضہ کشمیر کے کشمیروں کی جدوجہد سامنے رکھیں تو آپکو یہ منطقی دلیل آسانی سے سمجھ میں ا سکتی ہے
اس تمام مختصر مگر تفصیلی باتوں کا لب لباب یہ ہے کے
جنھیں ١٩٤٧ میں بہت کچھ با آسانی مل سکتا تھا ، انہوں نے اس وقت لینا اسے مناسب نہیں سمجھا کیونکے صدیوں ایک دھرتی پر رہ کر وہ قوم اصلیت پہچان نہ سکے .اب اگر کوئی قوم اس چیز کی طالب ہی نہ ہو تو اپ زبردستی اسے وہ چیز دینا چاہیں تو اس سے زیادہ احمقانہ بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی
سکھ قوم کو جب تک ایک متفقہ لیڈرشپ میسر نہیں اتی تب تک یہ لوگ طاقتور اور عقلمند ہو کر بھی زیر ہی رہیں گیا .منزل کا متعین کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ ٨٤ جیسے جیسے واقعات میں لوگ اپنی عزت اور ناموس دوبارہ کھو سکتے ہیں . تلخ ماضی یاد رکھ کر ، کسان ریلی میں شامل لوگوں کو اپنی ہی قوم کے لوگوں کی ہمدردی بھی انہیں زہر لگے گی . بالفرض ، اگر انہیں آج لیڈر مل بھی گیا تو اسے کم از کم اسے دو دہائیاں سے زیادہ اپنی قوم کو اکھٹی کرنے میں لگیں گی . ایک چنگاری صدیوں کا فاصلہ لمحوں میں بھی طے کروا سکتی ہے مگر شرط یہ رہے گی کے لوگوں کی اکثریت کنفیوز نہ ہوں
اس وقت تک جنرل باجوہ کا انڈیا کے ساتھ دوستی کے ساتھ " دوستی کی دعوت " ایک درست فیصلہ ہے . سمجھ تو اپ گئے ہوں گے ؟
مگر کیا یہ فیصلہ اس پس منظر میں لیا گیا ہے ، قطعی طور پر ایسا نہیں ہے . یہ تحریر تو محض ایک بڑی تصویر کا حصہ ہے . میں تیسرے بلاگ میں اسکی وضاحت کروں گا .