کہانی جمہوری آمریت کی

Syaed

MPA (400+ posts)
کہانی جمہوری آمریت کی !(حصہ اوّل)
تحریر:سید ظفر بخاری

ہم میں سے اکثر لوگ جمہوریت اور اس کے ثمرات و برکات پہ بہت سارے بھاشن سن سن کے بڑے ہوئے ہیں اور اب تک سن رہے ہیں مگرجب ہم جمہوری نظام کے ماتحت اداروں اور ان کے سربراہوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اوقات ملک کےاندر فوجی آمریت کی راہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے سویلین آمروں نے ہی ہموار کی ہے۔اس کی وجوہات گو کہ بہت زیادہ ہوسکتی ہیںمگر سب سے بڑی اور اہم وجہ سیاسی آمروں کی انا پرستی اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا ہے۔دنیا کی ہر جمہوریت کے اندرایسا شاید کبھی ہوتا ہو کہ قومی سلامتی کے اداروں سے بالکل ہی بالا بالا تمام فیصلے کیے جاتے ہوں یا ان کا Input نہ لیا جاتا ہومگر پاکستان کا نظام اس معاملے میں بھی سب سے جدا ہے۔اکثر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ سویلین اور فوجی قیادت کے اندر اختلافی مسائل پہ بحث اس لیے نہیں ہوپاتی کیونکہ انا پرستی اکثر غالب آجاتی ہے اور دونوں جانب سے غلط فیصلے ہوجاتے ہیں۔

۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ کے دن جب موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے جمہوریت پسند رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور سربراہ مملکت کی حیثیت میں حلف اٹھایا تو وہ ملک کے طاقتور ترین فرد تھے کیونکہ وہ فوج جس پہ ہم اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سویلین حکومتوں کو بے اختیار رکھتی ہے،اپنی کمزور ترین سطح پہ تھی۔ہزاروں فوجی ہندوستان کی قید میں تھے اورمغربی و مشرقی دونوں محاذوں پہ بد ترین شکست کھانے کے بعد فوج کا مورال پاتال سے بھی نیچے تھا۔عوام کی نفرت کا اندازہ اس باتسے لگایا جاسکتا ہے کہ جب جنرل یحیی۱ اس زلت آمیز شکست کے بعد راولپنڈی میں ایک پھاٹک کے پاس رکا تو کچھ لوگوں نےپہچاننے کے بعد اسے گالیاں دیں اور پتھر اٹھا کے مارے مگر یحیی۱ کے ڈرائیور نے گاڑی بھگادی۔ان حالات میں بھٹو صاحب ایک تھری سٹار جنرل گل حسن خان کو فوج کا سربراہ مقرر کرتے ہیں۔بیان کردہ حالات کی روشنی میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ جنرل گل حسن کتنے بااختیار ہونگے۔مگر ایسے بے اختیار جنرل کو بھی ۱۹۷۲ میں نہ صرف یہ کہ برطرف کیا گیا بلکہ گورنر پنجاب غلاممصطفی۱ کھر نے انہیں زدوکوب کیا اور انہیں لات مار کر گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف دھکا دیا(حوالہ:The Army and Democracy by Aqil Shah P-122).اختلاف کی وجہ بظاہر یہ بنی کہ گل حسن نے اس بات پہ زبان کھولنے کی جسارت کی تھی کہ حمود الرحمان کمیشن کے اندر ان سمیت جن جنرلز کو رگیدا جارہا ہے،انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔

خیر بھٹو صاحب نے ایک ایسے جنرل کو فوج کا سربراہ بنایا جو فوج کے اندر انتہائی زیادہ غیر مقبول تھے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی قلعی مشرقی پاکستان میں کھل چکی تھی(حوالہ:Pakistan’s Drift into by Hassan Abbas P-102Extremism).جنرل ٹکا خان بھٹو صاحب کی بے انتہا خوشامد کرتے تھے (حوالہ:The Pakistan paradox:Instability and Resillience by Chritophe Jaffrelot

P-226).اسی خوشامد کا ہی نتیجہ تھا کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے اندر جنرل ٹکا خان اور جنرل پیرزادہ کے بارے میں ایک بڑاحصہ کلاسیفائی کردیا گیا۔یہیں پر ہی معاملہ رک جاتا اور بھٹو صاحب اپنے چاپلوس جنرل کی طرف سے ۱۹۷۶ میں اپنی سروس کےخاتمے پہ پیش کیے جانے والے آٹھ جنرلز کی سینیارٹی کا خیال رکھتے ہوئے جنرل ضیاء لحق کو فوج کا سربراہ نہ لگاتے تو شاید تاریخ کا دھارا کسی اور سمت چل پڑتا مگر ایسا نہ ہوسکا اور فوج کے اندر پکنے والا لاوا پھٹ پڑا اور اگلے دس سال فوج اور ملک کو فوجی آمریت کا مزا چکھنا پڑا۔

اسی سلسلے کی ایک دوسری کڑی ہمیں تب نظر آتی ہے کہ جب جنرل ضیاء کا طیارہ حادثے کا شکار ہوجاتا ہے اور فوج کی پوری لیڈر شپ انتقال کر جاتی ہے اور ایک جونئیر جنرل اسلم بیگ فوج کے سربراہ بنتے ہیں۔انہیں بے نظیر بھٹو حکومت کے دوران آصف زرداری کی بد عنوانیوں اور صدر اسحاق خان کے ساتھ حکومت کی بد ترین چپقلش کا فائدہ اٹھا کے بڑے آرام سے حکومت کو چلتاکرسکتے تھے مگر انہوں نے خود آنے کے بجائے ایک ایسے بندے پہ انحصار کیا جو ان خطرات سے نمٹنے کا وعدہ کررہا تھا جو پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکیوں کو دی جانے والی یقین دہانیوںکی وجہ سے پیدا ہورہے تھے۔اگلی حکومت نواز شریف کی بنی مگر اپنے مربّی و محسن کے ساتھ نواز شریف کا خلیج کی جنگ کے دوران پھڈا ہوگیا جب امریکی کانگریس کی لائبریری ریکارڈ کے مطابق جنرل بیگ نے فوج سعودی عرب بھیجنے پہ تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

۱۹۹۱ میں جنرل آصف نواز جنجوعہ فوج کے سر
براہ بنے اور چوہدری نثار سمیت مسلم لیگ کے اپنے سرکردہ ترین افراد بھی یہ مانتے ہیں کہ وہ ایک پیشہ ور فوجی اور غیر سیاسی جنرل تھے مگر ان کے سربراہ بننے کے کوئی ۲ ماہ بعد ہی نواز شریف کا ان سے اتنا زیادہ پھڈا ہوگیا کہ اگر کراچی میں آپریشن نہ چل رہا ہوتا تو وہ شاید آصف نواز کو برطرف ہی کردیتے۔جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ افواج پاکستان کےسربراہ بنے۔ایک اور غیر سیاسی اور غیر متنازعہ جنرل سربراہ بن گیا مگر نواز شریف کا غلام اسحاق خان کے ساتھ پھڈا ہوگیا اورغلام اسحاق خان نے اسمبلی برطرف کردی مگر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ نے وزیراعظم نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیاجسے قائد حزب اختلاف بےنظیر بھٹو نے “چمک” کا نتیجہ قرار دیا۔اس دوران بدترین بحران پیدا ہوگیا اور صدر و وزیر اعظم آمنےسامنے آگئے،مملکت کا نظم و نسق نواز شریف کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گیا اور بقول چوہدری نثار کے بہت سارےسیاستدان روزانہ کی بنیاد پہ جنرل کاکڑ کو منتیں کرنے لگے کہ آپ حکومت کو چلتا کریں اور خود آجائیں مگر جنرل کاکڑ نے انکارکرتے ہوئے دونوں فریقوں کو استعفے پہ آمادہ کیا،نگران حکومت آئی اور انتخابات ہوئے۔انہی جنرل کاکڑ نے اپنے اور وزیر اعظم بینظیرکو قتل کرنے ایک مبینہ منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے فوج کے ایک حاضر سروس جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور حرکت الجہاد الاسلام کے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کو سزائیں ہوئیں۔اگرچہ بین الاقوامی جریدوں کی رپورٹس کے مطابق(ASIANOW – Asiaweek (11 March 1995). یہ سویلین حکومت کی طرف سے رچایا گیا ایک ڈرامہ تھا جس کا مقصد کشمیری جدو جہد کی حمایت نہ کرنے کے امریکی دباؤ کو کم کرنا تھا اور اس منصو بے میں فوج نے بھرپور ساتھ دیا۔یہی نہیں بلکہ ۱۹۹۶ میں جنرل کاکڑنے ایکسٹنشن کی آفر قبول نہ کرتے ہوئے ریٹائر منٹ لے لی۔
(جاری ہے)
 

Caballero

Senator (1k+ posts)
Pakistan is now on a very very dangerous trajectory. Either Pakistan will emerge as a pure democratic country or a total totalitarian state with facisim and extermisim as its integral component. Whatever the outcome, one thing is sure that many fail to realize is that Pakistan can never be a Saudia, China or North Korea. Why? Because this is not 60s or 70s when uniformed men were cheered on streets around the world

https://twitter.com/x/status/1309469500719464448
 

Dr.Q

MPA (400+ posts)
Pakistan is now on a very very dangerous trajectory. Either Pakistan will emerge as a pure democratic country or a total totalitarian state with facisim and extermisim as its integral component. Whatever the outcome, one thing is sure that many fail to realize is that Pakistan can never be a Saudia, China or North Korea. Why? Because this is not 60s or 70s when uniformed men were cheered on streets around the world

https://twitter.com/x/status/1309469500719464448


you are right that there it is not 60s and 70s
so the one who make deals back doors and become mandela before public are well exposed. you can try to sell your churan as much as you can but public is not interested in the same bull shit

boats are burnt down just ready to say god bye to big group of Noon very soon because good is always after noon ?
 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
When IK was on Container..I repeadily said..Nawaz.. Zardari.Molvi Diesel totally miscalculated IK.. And today I again saying..Nawaz.. Zardari.Molvi Fazulo thinking wrong about IK... Pakistan will emerge day by day and Mafias exposed..
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ابھی کچھ سال پہلے تک جمہوری تسلسل روک دئیے جانے کا بہانہ بنایا جاتا تھا. اب تو وہ بہانہ بھی نہیں رہا. جمہوری تسلسل تیروں سال میں داخل ہو چکا ہے لیکن جمہوری خواب اگلے مہینے حکومت جا رہی ہے، نہیں جا رہی سے آگے نہیں بڑھ پایا
 

sequencers

MPA (400+ posts)
خیر بھٹو صاحب نے ایک ایسے جنرل کو فوج کا سربراہ بنایا جو فوج کے اندر انتہائی زیادہ غیر مقبول تھے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی قلعی مشرقی پاکستان میں کھل چکی تھی(حوالہ:Pakistan’s Drift into by Hassan Abbas P-102Extremism).جنرل ٹکا خان بھٹو صاحب کی بے انتہا خوشامد کرتے تھے (حوالہ:The Pakistan paradox:Instability and Resillience by Chritophe Jaffrelot
Hehehehe and your daddie Ayub Khan was so famous who was kicked in the ass in 1965.

Bhutto the idiot made another donkey called Gen. Zia the army chief who shoved his own ass in C-130 in 1988.
 

sequencers

MPA (400+ posts)
ابھی کچھ سال پہلے تک جمہوری تسلسل روک دئیے جانے کا بہانہ بنایا جاتا تھا. اب تو وہ بہانہ بھی نہیں رہا. جمہوری تسلسل تیروں سال میں داخل ہو چکا ہے لیکن جمہوری خواب اگلے مہینے حکومت جا رہی ہے، نہیں جا رہی سے آگے نہیں بڑھ پایا
No democracy in Pakistan as long we have bastard generals under a donkey called Army chief.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
No democracy in Pakistan as long we have bastard generals under a donkey called Army chief.
بریانی کی پلیٹ اور قیمے والے نان پر پلنے والا اتنا احمق نہیں ہے کے بھگوڑوں کے لئے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے
 

sequencers

MPA (400+ posts)
بریانی کی پلیٹ اور قیمے والے نان پر پلنے والا اتنا احمق نہیں ہے کے بھگوڑوں کے لئے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے
If Indians ever attack Pakistan, will Bajwa and his illegitimate coward children lie down in front of Indian tanks or they will remove their pants like Gen. Niazi in Dhaka?
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
If Indians ever attack Pakistan, will Bajwa and his illegitimate coward children lie down in front of Indian tanks or they will remove their pants like Gen. Niazi in Dhaka?
کیا انڈین آرمی چیف خود ٹینک چلا کر آئے گا؟
تم پاکستان کی طرف ہو گے یا مکتی باہنی کی طرح ہندوستان کے ساتھ؟
 

sequencers

MPA (400+ posts)
کیا انڈین آرمی چیف خود ٹینک چلا کر آئے گا؟
تم پاکستان کی طرف ہو گے یا مکتی باہنی کی طرح ہندوستان کے ساتھ؟
You better ask these bastard generals where they would be? Over some Aqleem Akhtar aka Gen. Rani or some Noor Jahan?
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
You better ask these bastard generals where they would be? Over some Aqleem Akhtar aka Gen. Rani or some Noor Jahan?
وہ کنٹرول روم میں ہوں گے
تم ہندوستان کے ساتھ ہو گے یا پاکستان کے؟
 

Syaed

MPA (400+ posts)
کہانی جمہوری آمریت کی !(حصہ دوئم)
تحریر:سید ظفر بخاری
۱۹۹۶ میں جب جنرل عبدالوحید کاکڑ ریٹائر ہوئے تو فوجی سربراہان کے تقرر کی تاریخ میں ایک سنہری موڑ تب آیا جب سب سےسینیر جنرل جہانگیر کرامت کو فوج کا سربراہ بنادیا گیا۔ان کی شہرت تنازعات سے دور رہنے والے اور سویلین حکومت کی بالادستی پہ پختہ یقین رکھنے والے جنرل کی تھی مگر حالات کا پانسہ تب پلٹا جب بینظیر کی حکومت صدر لغاری نے بر طرف کردی اور نئےانتخابات کے نتیجے میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت لے کر نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔نواز شریف ایک زور رنج اوراختیارات کا متجاوزانہ استعمال کرنے والے وزیر اعظم تھے اور اسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے ایک Intellectual بیان کے اوپر جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ ان کا پھڈا ہوگیا اور اس بار بھٹو صاحب کی تاریخ کو دہراتے ہوئے جنرل گل حسن کی طرح جنرل جہانگیرکرامت کو قبل از وقت ریٹائر منٹ پہ مجبور کیا گیا اور جنرل پرویز مشرف فوج کے نئے سربراہ بنائے گئے۔البتہ جوں جوں جنرل جہانگیرکرامت کی جبری رخصتی کی خبریں باہر نکلتی گئیں توں توں فوج کے اندر غم و غصہ پایا جانے لگا کیونکہ جنرل کرامت فوج میں بےحد مقبول سربراہ کے طور پہ جانے جاتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ وہ سویلین بالادستی کے بہت بڑے پرچارک تھے اور اسی جذبے کےماتحت انہوں نے قومی سلامتی کونسل جیسا ادارہ بنانے کی تجویز دی تھی تاکہ فوج اور سویلینز کے اندر پائے جانے والے تحفظات کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کے حل کیا جا سکے۔

جنرل پرویز مشرف کے تعلقات شریف برادران کی آمرانہ روش کے باوجود ان سے بہت اچھے رہے مگر اسی دوران واجپائی کا دورۂ لاہورہوا جس میں پرویز مشرف کے حوالے سے رپورٹیں آئیں کہ انہوں نے واجپائی کو سلیوٹ نہیں کیا اور یہ کہ ان کے خیال میں یہ دورہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی ہندوستانی قیادت کی ایک دانستہ کوشش تھی۔شاید اسی جذبے کے ماتحت اور ہندوستان کیطرف سے مسلسل کشمیر کے مسئلے کو سرد خانے میں دھکیلنے کی کوششوں کا مداوا اپنی فہم کے مطابق جنرل پرویز مشرف نےکارگل پہ چڑھائی کے زریعے کیا۔اس مہم جوئی نے ایٹمی قوت رکھنے والے دو ملکوں کے مابین جنگ کی فضا قائم کی اور ہندوستان خصوصی طورپہ اس سے متاثر ہوا جسے نہ صرف یہ کہ شدید جانی نقصان (انٹرنیشنل زرائع ابلاغ کے مطابق کم ازکم ۵۲۷ہلاکتیں،۳ طیاروں اور ۱ ہیلی کاپٹر کی تباہی اور ۱۴۰۰ شدید زخمی)پہنچا بلکہ سری نگر جموں شاہراہ بھی نشانے پہ آگئی جس کےنتیجے میں ہندوستان نے چلانا شروع کردیا اور امریکہ نے ثالثی کی حامی بھر لی۔پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان نواز شریف کے امریکہ جانے سے پہلے کیا گفتگو ہوئی اس بارے میں مختلف آراء ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ دورہ فوج اور نواز شریف کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا تھا۔نواز شریف نے فوری طورپہ فوجیں واپس بلانے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ان فوجیوں کے پاس جو اگلے محاز تک پہنچے ہوئے تھے لڑنے اور مرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا۔اسی لڑائی میں کیپٹن کرنل شیر خان بھی شہید ہوئے۔وہ مردانہ وار لڑےاور شہید ہوگئے۔اسی وجہ سے پاکستانی فوج کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھی اور 450 تک پہنچ گئی۔فوج کے اندرونی حلقوں نے نوازشریف کو اس صورتحال کا زمہ دار ٹھہرایا۔

کارگل کے بعد ایک اور تنازعہ تب پیدا ہوا جب مشرف نے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بننے سے انکار کرتے ہوئے ایڈمرل فصیح بخاری کا نام Recommend کردیا جنہیں نواز شریف بہت ناپسند کرتے تھے۔یہی نہیں بلکہ نواز شریف نے اندرون خانہ بہت سارےجنرلز کو جنرل طارق پرویز اور ضیاءالدین کی سرکردگی میں پرویز مشرف کے خلاف باقاعدہ بغاوت کے لیے بھی اکسایا۔اور ساتھ ہی ایڈمرل بخاری کو برطرف کرکے جنرل پرویز مشرف کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف لگادیا۔فصیح بخاری نے اس پہ احتجاج کیا توانہیں نواز شریف نے اپنے عہدے سے فارغ کردیا(Hiro, Dilip (17 April 2012). Apocalyptic realm: jihadists in South Asia. P-200-210)

جب نواز شریف کے حمایت یافتہ جنرل بغاوت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو اپنے ہی لگائے گئے جنرل پرویز مشرف کو عین اس وقت اپنے عہدے سے فارغ کردیا گیا جب وہ سری لنکا کے دورے پہ تھے(ایسا امریکہ جیسی جمہوریت میں بھی کبھی نہیں ہوا)۔اس خود سری کے نتیجے میں دسسال پرویز مشرف نے حکومت کی اور دس سال بعد زرداری کا تحفہ قوم کو سونپ کے خود مستعفی ہوگئے۔

زرداری کے دور میں جنرل کیانی بالکل ایک ہومیو پیتھک جنرل کے طور پہ سامنے آئے۔زرداری نے امریکیوں کا تقریباً ہر مطالبہ مانا۔آپریشن کروائے،بلیک واٹر کو کھلی چھوٹ دی اور حقانی جیسے لوگوں کو سفیر لگایا جو کھلم کھلا پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرتے رہے جس پہ مجبوراً فوج کو بھی میدان میں آنا پڑا اور نواز شریف نے بھی کالا کوٹ پہن کے عدالت میں حاضری لگوائی۔

جنرل کیانی اپنا Extended Tenure پورا کرکے گئے تو راحیل شریف کے ساتھ نئے وزیر اعظم نواز شریف کے اچھے تعلقات تھے مگرآہستہ آہستہ یہ راحیل شریف کو بھی نظر آنے لگا کہ وزیر اعظم نہ صرف یہ کہ ہندوستان سے مرعوب ہیں بلکہ بہت دفعہ دانستہ یا نادانستہ ہندوستان کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔راحیل شریف جو دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب اور بلوچستان میںInsurgency کے خلاف نبرد آزما رہے،اسی طرح کراچی میں متحدہ کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن بھی انہی کے کریڈٹ پہ ہے،ایک غیر سیاسی جنرل تھے مگر ان کو تب سیاست میں Involve ہونا پڑا کہ جب عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا۔تب اگر راحیل شریف چاہتے تو بڑے آرام سے اقتدار تک پہنچ سکتے تھے مگر انہوں نے عمران خان کے مطالبات نواز شریف تک پہنچا کر ایک صلح گر جنرل کا کردار ادا کیا۔اسی طرح ڈان لیکس کے معاملے میں بھی مریم نواز کی کھلی غداری پہ بھی جان بخشی انہوں نے کروائی مگر پھر بھی ریٹائرمنٹ کے وقت نواز شریف ان سے خفا تھے(فوج کے چھٹے ایسے سربراہ جن سے جہاں پناہ خفا تھے)۔

فوج کے موجودہ سربراہ جنرل باجوہ نے جب کمان سنبھالی تو بہت ساری چیزیں دیکھتے ہوئے اور بہت ساری چیزوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد کچھ فیصلے کرکے آئے تھے۔انہوں نے سیاست میں ملوث نہ ہونے کے علاوہ یہ بھی فیصلہ کیا کہ سویلین بالادستی کے نام پہ کسی کو بھی ملکی مفادات کا سودا کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی چاہے اس کا کچھ بھی مطلب کیوں نہ لیا جائے۔اس سلسلےکو عملی جامہ پہناتے ہوئے جنرل باجوہ پاناما لیکس والے معاملے میں نیب کو فری ہینڈ دینے کی پالیسی پہ عمل پیرا نظر آتے ہیں اسی طرح جعلی اکاؤنٹس اور اومنی گروپ والے کیس میں بھی نیب کے ساتھ بھر پور تعاون کرتے نظر آتے ہیں۔

صاحبان،پاکستان کی سیاست جو بھی کروٹ لے،موجودہ چیف آف آرمی سٹاف سیاست میں آنے کے بالکل خلاف ہیں مگر اس پورےلمبے چوڑے قصے میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب جب فوج میں شریف بے ضرر اور غیر سیاسی قسم کے سربراہ آئے ہیں ان کا حشرجنرل گل حسن یا جہانگیر کرامت جیسا ہی ہوا ہے۔اور وجوہات بھی بالکل معمولی سی تھیں جن پہ انہیں برطرف اور بے عزت کیا گیا۔شاید اسی لیے جنرل باجوہ نے جنرل مشرف یا جنرل جہانگیر کرامت دونوں کو فالو نہ کرتے ہوئے جنرل کاکڑ والی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے جنہوں نے حکومت کرنے کی درخواست پہ کہا تھا کہ”میرے لیے یہی اعزاز کافی ہے کہ میں پاکستان کی فوج کا سربراہ رہاہوں”۔

باقی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک ہر کسی کو فوج ایک ماتحت اور مسکین ادارے کے طور پہ ہی چاہیے تھا جس کو یقینی بنانے کےلیے وہ Extreme Steps لیتے نظر آتے ہیں اور جس کا نتیجہ ہم اپنی تاریخ میں دیکھتے آرہے ہیں۔آخر میں سو باتوں کی ایک بات یہ کہاگر سویلین حکمران چاہتے ہیں کہ فوج ان کے ماتحت ادارے کے طور پہ کام کریں تو پھر انہیں اپنے رویوں میں جمہوریت کو فروغ دیناہوگا اور فوج کا Input اہم معاملات پہ ضرور لیں ورنہ نواز شریف جیسے گھٹیا لوگ اگر پوری نشستیں
بھی جیت کے آجائیں تب بھی جوتے کھاکے ہی باہر ہوں گے۔