کچھ دن پہلے وہاڑی کے ایک مدرسے میں مولوی نے آٹھ سالہ بچے کو سبق یاد نہ کرنے پر مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ (نیچے تفصیل کیلئے ویڈیو لگا رہا ہوں)۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، پاکستان میں ایسے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں اور مدارس میں جنسی زیادتی کے واقعات تو ان گنت ہیں۔ اور بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ پاکستان کے مدارس میں لاکھوں بچے قرآن حفظ کرنے کیلئے زیر تعلیم ہیں جن کا قیام مدارس میں ہی ہوتا ہے اور وہ رات بھی وہیں مدرسے میں رہتے ہیں، مہینے بعد یا پندرہ دنوں بعد یہ بچے اپنے گھر جاتے ہیں اور کئی بچے تو اس سے بھی زیادہ دورانیے کے بعد گھر جاتے ہیں یا پھر ان کے والدین کبھی کبھار مدرسے میں آکر اپنے بچے سے مل جاتے ہیں اور وہ بچہ کلی طور پر مدرسے میں مولوی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ یہ مولوی حضرات ان بچوں کو بیدردی سے مارتے ہیں، ان کو رات کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور وہ بچہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی تشدد کا بھی مسلسل نشانہ بنتا رہتا ہے۔ جو بچہ بچپن میں جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتا رہے وہ کبھی بھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتا۔
پاکستان میں بچوں کو قرآن حفظ کرانے کا رجحان آج بھی بہت زیادہ ہے۔ اسلام کے اولین دور میں قرآن حفظ کرنے کی تو منطق سمجھ آتی ہے کہ اس وقت تحریر کو زیادہ عرصے تک محفوظ کرنے کے کوئی خاص ذرائع نہ تھے، مگر آج جبکہ ہمارے پاس ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے بیشمار ذرائع ہیں، نہ صرف تحریر، بلکہ تصویر، اور آواز کو بھی آسانی سے محفوظ رکھا جاسکتاہے تو اس بات کی کوئی لاجک سمجھ نہیں آتی کہ کیوں ہمارے سماج نے بچوں کو ایک غیر ضروری مشقت میں ڈال رکھا ہے۔ آپ اپنے سمارٹ فون میں جتنے چاہیں قرآن رکھ سکتے ہیں اور جس وقت چاہیں انہیں کھول کر پڑھ سکتے ہیں، آڈیو اور ویڈیو صورت میں بھی قرآن کو ہر وقت اپنی جیب میں لئے پھرسکتے ہیں، پھر زبانی یاد کرنے پر زور کیوں۔۔؟ انسان کے بچپن کے ابتدائی سال اس کے سیکھنے کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں، اس عمر میں انسان کا ذہن صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے اور وہ ہر قسم کے علوم و فنون سیکھنے کیلئے زرخیز ہوتا ہے، مگر ہم بچے کی عمر کا یہ اہم ترین وقت اس کو مار مار کر اتنی بڑی کتاب زبانی یاد کرنے میں برباد کردیتے ہیں۔ بیشتر بچے قرآن حفظ کربھی لیں تو بڑے ہوکر کام دھندے میں پڑ کر وہ یاد نہیں رکھ پاتے اور بھول جاتے ہیں۔ لیکن ان کی عمر کا وہ حصہ تو انہیں لوٹایا جاسکتا جو اس کے جاہل والدین نے مولوی کے کہنے پر ضائع کردیا۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آپ اپنے بچے کو زبانی قرآن رٹوا کر دورِ جدید میں کونسے شعبے کیلئے اسے تیار کرتے ہیں؟ کیا کوئی شعبہ ہے جس میں اس بچے کی یہ کاوش کسی کام آسکے؟ سوائے ایک شعبے کے کہ اس کو مولوی بنا کر کسی مسجد میں بٹھا دیا جائے اور وہ حسرت سے آتے جاتے لوگوں کی جیبوں کو تکتا رہے کہ کوئی سو پچاس دے اور اس کے گھر کا گزارا چلے۔ عملاً بھیک مانگنے کے سوا اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوتا ، وہ پوری طرح معاشرے پر بوجھ ہوتا ہے۔ یہ جتنے بچے بھی مدارس میں قرآن حفظ کرنے کیلئے ڈالے ہوتے ہیں یہ اول روز سے معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں کیونکہ ان کی روزی روٹی شروع دن سے قوم کے چندوں، خیراتوں اور زکاتوں پر چلتی ہے اور جب یہ بڑے ہوجاتے ہیں تو خود کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتے، کسی بھی شعبے میں کام نہیں کرسکتے، نتیجتاً یہ پوری زندگی بھیک مانگتے رہتے ہیں اور اپنا یہ پیشہ آگے اپنی اولاد کو بھی ٹرانسفر کردیتے ہیں۔ قرآن حفظ کرنے کی اس روایت سے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف ناکارہ بنا دیا جاتا ہے بلکہ معاشرے کے اس طبقے پر بوجھ بنادیا جاتا ہے جو خود کچھ کرکے کماتے ہیں۔۔
پاکستان میں بچوں کو قرآن حفظ کرانے کا رجحان آج بھی بہت زیادہ ہے۔ اسلام کے اولین دور میں قرآن حفظ کرنے کی تو منطق سمجھ آتی ہے کہ اس وقت تحریر کو زیادہ عرصے تک محفوظ کرنے کے کوئی خاص ذرائع نہ تھے، مگر آج جبکہ ہمارے پاس ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے بیشمار ذرائع ہیں، نہ صرف تحریر، بلکہ تصویر، اور آواز کو بھی آسانی سے محفوظ رکھا جاسکتاہے تو اس بات کی کوئی لاجک سمجھ نہیں آتی کہ کیوں ہمارے سماج نے بچوں کو ایک غیر ضروری مشقت میں ڈال رکھا ہے۔ آپ اپنے سمارٹ فون میں جتنے چاہیں قرآن رکھ سکتے ہیں اور جس وقت چاہیں انہیں کھول کر پڑھ سکتے ہیں، آڈیو اور ویڈیو صورت میں بھی قرآن کو ہر وقت اپنی جیب میں لئے پھرسکتے ہیں، پھر زبانی یاد کرنے پر زور کیوں۔۔؟ انسان کے بچپن کے ابتدائی سال اس کے سیکھنے کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں، اس عمر میں انسان کا ذہن صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے اور وہ ہر قسم کے علوم و فنون سیکھنے کیلئے زرخیز ہوتا ہے، مگر ہم بچے کی عمر کا یہ اہم ترین وقت اس کو مار مار کر اتنی بڑی کتاب زبانی یاد کرنے میں برباد کردیتے ہیں۔ بیشتر بچے قرآن حفظ کربھی لیں تو بڑے ہوکر کام دھندے میں پڑ کر وہ یاد نہیں رکھ پاتے اور بھول جاتے ہیں۔ لیکن ان کی عمر کا وہ حصہ تو انہیں لوٹایا جاسکتا جو اس کے جاہل والدین نے مولوی کے کہنے پر ضائع کردیا۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آپ اپنے بچے کو زبانی قرآن رٹوا کر دورِ جدید میں کونسے شعبے کیلئے اسے تیار کرتے ہیں؟ کیا کوئی شعبہ ہے جس میں اس بچے کی یہ کاوش کسی کام آسکے؟ سوائے ایک شعبے کے کہ اس کو مولوی بنا کر کسی مسجد میں بٹھا دیا جائے اور وہ حسرت سے آتے جاتے لوگوں کی جیبوں کو تکتا رہے کہ کوئی سو پچاس دے اور اس کے گھر کا گزارا چلے۔ عملاً بھیک مانگنے کے سوا اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوتا ، وہ پوری طرح معاشرے پر بوجھ ہوتا ہے۔ یہ جتنے بچے بھی مدارس میں قرآن حفظ کرنے کیلئے ڈالے ہوتے ہیں یہ اول روز سے معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں کیونکہ ان کی روزی روٹی شروع دن سے قوم کے چندوں، خیراتوں اور زکاتوں پر چلتی ہے اور جب یہ بڑے ہوجاتے ہیں تو خود کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتے، کسی بھی شعبے میں کام نہیں کرسکتے، نتیجتاً یہ پوری زندگی بھیک مانگتے رہتے ہیں اور اپنا یہ پیشہ آگے اپنی اولاد کو بھی ٹرانسفر کردیتے ہیں۔ قرآن حفظ کرنے کی اس روایت سے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف ناکارہ بنا دیا جاتا ہے بلکہ معاشرے کے اس طبقے پر بوجھ بنادیا جاتا ہے جو خود کچھ کرکے کماتے ہیں۔۔