دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پانچ لاکھ افراد کو نگل چکی ہے

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پانچ لاکھ افراد کو نگل چکی ہے

گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے دوران عراق، افغانستان اور پاکستان میں تقریباً نصف ملین یعنی پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی براؤن یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات اور عوامی امور کے شعبے کی جانب سے کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق انسداد دہشت گردی کی امریکی جنگ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ اسی ہزار سے لے کر پانچ لاکھ سات ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے۔ تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

اس جائزہ رپورٹ کو نیٹا کرافورڈ نے مرتب کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکی اور مقامی فوج ہلاک ہونے والوں کو اکثر شدت پسند قرار دے دیتی ہے حالانکہ حقیقت میں یہ عام شہری ہوتے ہیں، ’’ہمیں شاید کبھی بھی اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کا علم نہیں ہو سکے گا۔ مثال کے طور پر عراق میں موصل اور دیگر شہروں کو داعش کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کی لڑائی میں ہو سکتا ہے کہ ہزاروں عام شہری مارے گئے ہوں، لیکن ان کی لاشیں برآمد نہیں ہو سکیں‘‘۔

اگست 2016ء میں براؤن یونیورسٹی نے اس سلسلے میں ایک جائزہ شائع کیا تھا، تاہم جمعرات آٹھ نومبر کو جاری کیے جانے والے اس تازہ جائزے میں مرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ جائزے کے مقابلے میں ایک لاکھ دس ہزار کا اضافہ دیکھا گیا ہے، ’’امریکی عوام، ذرائع ابلاغ اور قانون دانوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن ہلاکتوں میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ختم ہونے کی بجائے اس جنگ میں شدت بدستور موجود ہے۔‘‘


اس جائزے کے مطابق ان سترہ برسوں میں ہلاک ہونے والوں میں شدت پسند، مقامی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے علاوہ امریکی و اتحادی افواج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق عراق میں ایک لاکھ اسی ہزار سے دو لاکھ چار ہزار کے درمیان عام شہری ہلاک ہوئے، افغانستان میں یہ تعداد اڑتیس ہزار کے لگ بھگ رہی جبکہ پاکستان میں تیئس ہزار سے زائد عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

عراق اور افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد سات ہزار کے قریب رہی۔ ان اعداد و شمار میں مارے جانے والے ان تمام افراد کو شامل نہیں کیا گیا، جو بالواسطہ طور پر اس جنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے، مثال کے طور پر بنیادی ڈھانچےکے تباہ ہونے یا وبائی امراض پھیلنے سے۔
سورس
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
اس پانچ لکھ میں خود کش حملوں کے شکار بھی شامل ہیں کیا ؟
میرے خیال میں نہیں، انہیں ہلاکتوں کا ذکر ہے جنہیں "امریکی اور مقامی فوج ہلاک ہونے والوں کو اکثر شدت پسند قرار دے دیتی ہے حالانکہ حقیقت میں یہ عام شہری ہوتے ہیں" ا
 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)

شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بے گناہ شہريوں کی ہلاکتوں کے زيادہ تر واقعات تو دہشت گرد گروہوں کی بے رحم کاروائيوں کا ہی نتيجہ ہيں۔ يہ حقيقت اقوام متحدہ کی بے شمار رپورٹوں ميں اعداد وشمار کے ساتھ واضح کی گئ ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ نو گيارہ کے اندوہناک سانحے کے بعد عالمی برادری کو جو مشترکہ کاوشيں کرنا پڑی تھيں، ان کے نتيجے ميں بے گناہ انسانی جانوں کا نقصان ضرور ہوا ہے۔ تاہم اس ضمن ميں ذمہ داری اور ملال داعش، القائدہ، ٹی ٹی پی اور ديگر دہشت گرد گروہوں کے سر ہے جنھوں نے خوف اور تشدد کے ذريعے عوامی سطح پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔

مہذب دنيا کی حکومتوں، اقوام متحدہ، نيٹو اور امريکہ کو اس بات کے ليے قصوروار نہيں قرار ديا جا سکتا کہ انھوں نے ان عناصر کے خلاف کاروائ کا قيصلہ کيا جنھوں نے انسانی جانوں پر براہراست اور دانستہ حملوں کو عالمی سطح پر حکمت عملی کے طور پر اپنانے کا فيصلہ کيا۔

جس رپورٹ کا يہاں حوالہ ديا گيا ہے اسی رپورٹ ميں ان اعداد وشمار کا بھی ذکر موجود ہے جو گزشتہ چند برسوں کے دوران امريکی حکومت کی جانب سے عراق اور افغانستان ميں تعمير نو اور بحالی کے ضمن ميں دی جانے والی امداد سے متعلق ہيں اور جس کا تخمينہ 170 بلين ڈالرز کے قريب ہے۔

علاوہ ازيں عراق اور افغانستان ميں 7 ہزار سے زائد امريکی فوجيوں کی ہلاکت بھی ايک ايسی حقيقت ہے جسے نظرانداز نہيں کيا جا سکتا ہے۔

دنيا کے ديگر بے شمار ممالک کی طرح امريکہ کو بھی بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم ان بے رحم عناصر کے مقابلے ميں کوششيں ترک نہيں کی جا سکتی ہيں جو دانتسہ بے گناہ شہريوں پر حملے کرتے ہيں۔

ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنے کے مشن پر نہيں ہے۔ ميں نے فورم پر پہلے بھی کئ بار واضح کيا ہے کہ دانستہ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنے سے امريکہ کو نا تو عسکری، سياسی اور اسٹريجک سطح پر کوئ فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نا ہی ايسے واقعات ہمارے بنيادی اقدار سے مطابقت رکھتے ہيں۔


شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ