خبریں

بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، اور مودی سرکار نے دریائے چناب میں پانی کی آمد روک دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، بھارتی اقدام کے نتیجے میں دریائے چناب میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی سطح کم ہو کر 4300 کیوسک تک پہنچ گئی ہے، جب کہ دو روز پہلے یہ سطح 87 ہزار کیوسک تھی۔ اس مقام پر معمول کے مطابق 25 سے 30 ہزار کیوسک پانی بہتا ہے۔ بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر موجود ڈیمز سے پانی بند کرنے کی ویڈیوز بھی وائرل ہو چکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، دریائے سندھ میں پانی کی آمد 92 ہزار 200 کیوسک ریکارڈ کی گئی، جب کہ گزشتہ روز یہ آمد 91 ہزار 500 کیوسک تھی۔ دریائے جہلم میں پانی کی آمد 44 ہزار 300 کیوسک ریکارڈ کی گئی، جب کہ گزشتہ روز پانی کی آمد 44 ہزار کیوسک تھی۔ چشمہ بیراج میں پانی کی آمد 95 ہزار 700 کیوسک ریکارڈ کی گئی، جب کہ دریائے چناب میں پانی کی آمد 5 ہزار 300 کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی۔ گزشتہ روز دریائے چناب میں پانی کی آمد 34 ہزار 600 کیوسک تھی، اور آج اس میں 29 ہزار 300 کیوسک کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، دریائے کابل میں پانی کی آمد 37 ہزار 100 کیوسک ریکارڈ ہوئی، جب کہ تربیلا ریزروائر میں آج پانی کی سطح 1441.26 فٹ اور پانی کا ذخیرہ 8 لاکھ 13 ہزار ایکڑ فٹ ریکارڈ کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق، منگلا ریزروائر میں آج پانی کی سطح 1136.30 فٹ اور پانی کا ذخیرہ 12 لاکھ 13 ہزار ایکڑ فٹ ریکارڈ کی گئی، جب کہ چشمہ ریزروائر میں آج پانی کی سطح 646.70 فٹ اور پانی کا ذخیرہ 2 لاکھ 1 ہزار ایکڑ فٹ ریکارڈ کی گئی تھی۔ تربیلا، منگلا اور چشمہ ریزروائر میں قابل استعمال پانی کا مجموعی ذخیرہ 22 لاکھ 27 ہزار ایکڑ فٹ ریکارڈ کیا گیا۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے کشن گنگا ڈیم میں بھی پانی روکنے جا رہا ہے، جس کے بعد دریائے جہلم میں بھی پانی کی آمد میں کمی کا خدشہ ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم کرنے کے اعلان کے بعد دریائے راوی میں بھی پانی کی آمد کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں۔ بھارت نے 2001 میں دریائے راوی پر تین ڈیم تعمیر کیے، جس کے بعد پاکستان کی طرف پانی کا بہاؤ تقریباً 75 فیصد کم ہو گیا۔ اس کے بعد سے راوی صرف مون سون کے دوران ہی کسی حد تک بہتا دکھائی دیتا ہے، اور باقی سال خصوصاً دسمبر سے مارچ کے دوران اس کا بہاؤ تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور سفارتی عملے کو بھارت چھوڑنے کی ہدایت کی تھی، اور مودی سرکار نے پاکستان کے حوالے سے کئی جارحانہ فیصلے کیے تھے۔
پاکستان نے "فتح سیریز" کے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کا کامیاب تربیتی تجربہ کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، اس میزائل کی رینج 120 کلومیٹر ہے اور یہ تجربہ جاری مشق "اندس" کا حصہ تھا۔ تربیتی تجربے کا مقصد افواج کی عملی تیاری کو یقینی بنانا اور میزائل کے جدید نیویگیشن سسٹم سمیت اس کی تکنیکی صلاحیتوں اور درستگی کو جانچنا تھا۔ یہ تجربہ پاک فوج کے سینیئر افسران کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک اداروں کے سائنسدانوں اور انجینئروں نے بھی ملاحظہ کیا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی اسٹاف نے تجربے میں حصہ لینے والے افسران، سائنسدانوں اور انجینئروں کو کامیاب تجربے پر مبارکباد دی۔ پاکستان آرمی کی آپریشنل تیاری اور تکنیکی مہارت مکمل اعتماد کے قابل ہے اور مادرِ وطن کی علاقائی سالمیت کے خلاف کسی بھی جارحیت کو ناکام بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے زمین سے زمین پر وار کرنے والے "فتح میزائل" کی تربیتی لانچ کی کامیابی پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، آرمی چیف اور اس کی تیاری میں شامل سائنسدانوں و انجینئیرز کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ تربیتی لانچ کی کامیابی سے یہ واضح ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ملکی دفاع کے لیے بھرپور تیاری پر اطمینان کا اظہار کیا۔
لاہور میں محافظ ہی ڈکیت نکلے: پولیس اہلکاروں نے سندھ کے تاجر کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور مقابلے میں مارنے کی دھمکی دے کر ایک لاکھ روپے بھتہ لے لیا۔ 29 اپریل کی رات ایبٹ روڈ پر ناکہ لگا کر قلعہ گجر سنگھ پولیس کی محافظ فورس کے پانچ باوردی اہلکاروں نے سکھر سے آئے تاجر مشتاق احمد کو گن پوائنٹ پر روکا اور اغوا کر کے ویرانے میں لے گئے۔ پولیس کے مطابق، تاجر کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پولیس مقابلے میں مارنے کی دھمکیاں دیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ دو باوردی اہلکار تاجر مشتاق احمد کو اپنی موٹرسائیکل پر بٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ نیلا گنبد انارکلی پہنچ کر اہلکار بینک کے باہر کھڑے ہو گئے، اور تاجر نے اے ٹی ایم سے رقم نکلوائی۔ رقم حاصل کرنے کے بعد تاجر کو سڑک پر چھوڑ کر ملزمان فرار ہو گئے۔ تاجر کی درخواست پر تھانہ پرانی انارکلی پولیس نے محافظ فورس کے پانچ اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ پولیس حکام کے مطابق، پانچوں ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے بین الاقوامی اور ملکی میڈیا کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا دورہ کروا کر بھارت کے دہشت گردی کے کیمپوں کے بے بنیاد الزامات کا پول کھول دیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا عالمی میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو ایل او سی کا دورہ کروانے کا مقصد بھارت کی جانب سے پھیلائے گئے جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنا تھا۔ اس دورے میں بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے کے لیے زمینی حقائق میڈیا کے سامنے پیش کیے گئے، اور پاکستانی و غیر ملکی صحافیوں کو ان مخصوص مقامات پر لے جایا گیا جنہیں بھارت نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے ٹھکانے قرار دیا تھا۔ میڈیا نمائندگان نے زمینی حقائق، مقامی آبادی کی گواہی اور حالات کا خود مشاہدہ کیا۔ وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کئی بار پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے، اور ہم نے بین الاقوامی و ملکی میڈیا کے سامنے تمام حقائق رکھ دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جن مقامات کو خیالی دہشت گرد کیمپ قرار دیتا ہے، وہاں کی حقیقت دنیا نے دیکھ لی، اور بھارت کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایل او سی پر دو بار سیز فائر کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں مقامی سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے بے جا الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کیا، اور پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے علاوہ سفارتی عملے کو 30 اپریل 2025 تک بھارت چھوڑنے کی ہدایت کی۔ اس کے علاوہ مودی سرکار نے پاکستان کے حوالے سے کئی جارحانہ فیصلے کیے، جن میں پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی بھی شامل ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے جوابی اقدامات کرتے ہوئے بہترین سفارتی حکمت عملی اپنائی، اور بھارت کے سفارتی عملے کو 30 افراد تک محدود کر دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا کہ پانی پاکستان کی لائف لائن ہے، اور اگر پانی بند کیا گیا تو پاکستان اسے جنگ تصور کرے گا۔ جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی سے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں جعفر ایکسپریس حملے کا الزام اپنے علاقائی حریف پر عائد کیا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا، تاہم بھارت کی جانب سے امن کے لیے اقدامات کے بجائے روایتی ہٹ دھرمی کا سلسلہ برقرار ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ، سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے والے یونان، خلیجی ممالک کی تنظیم، سعودی عرب، یو اے ای، اور اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے دونوں ملکوں پر کشیدگی میں کمی لانے پر زور دیا ہے، تاہم بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی بھی آج پاکستان پہنچے ہیں، جہاں وہ خطے کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے، اور پاکستان کے بعد ان کے دورہ بھارت کا بھی امکان ہے۔
پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے، جس میں پاکستان دنیا کو بھارت کی اشتعال انگیزی اور خطے میں امن کے حوالے سے پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرے گا۔ اجلاس میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، عاصم افتخار، بھارتی جارحیت پر بریفنگ دیں گے۔ پاکستانی مندوب نے تصدیق کی ہے کہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر سلامتی کونسل کو اجلاس بلانے کی باضابطہ اطلاع دی گئی تھی۔ عاصم افتخار نے کہا کہ "ہم اس ہدایت کے مطابق کام کر رہے ہیں، اور جب اپیلیں سسٹم میں آتی ہیں تو ان کا اثر عالمی نظام پر پڑتا ہے۔" امریکہ میں پاکستان کے سفیر، رضوان سعید، نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ میں بھی اس معاملے پر تشویش پائی جاتی ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کبھی محدود نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا، "امریکہ کا سلامتی معاملات میں ایک نمایاں کردار ہے، اور ہمیں توقع ہے کہ وہ کشیدگی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔" دوسری جانب برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر، ڈاکٹر فیصل، نے ایک معنی خیز بیان میں کہا کہ "اصل مسئلہ پہلگام یا پلوامہ نہیں، بلکہ جموں و کشمیر ہے۔ جب تک اس مسئلے کا حل کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق نہیں نکالا جاتا، تب تک پاک بھارت تعلقات میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔" پاکستان نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی، خاص طور پر حالیہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی فوجی نقل و حرکت اور پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن جیسے اقدامات نہ صرف خطے کے امن کو متاثر کر رہے ہیں، بلکہ ایک بڑی جنگ کے خطرے کو بھی جنم دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ہونے والے اس اہم اجلاس میں پاکستان عالمی طاقتوں کو ثبوتوں کے ساتھ بھارت کی علاقائی پالیسیوں کو بے نقاب کرے گا اور یہ باور کرائے گا کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور منصفانہ حل ہی جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی ضمانت ہے۔
صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں خواتین کے اغوا کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، گزشتہ 48 گھنٹوں میں مختلف علاقوں سے 15 خواتین کو اغوا کر لیا گیا۔ یہ واقعہ خواتین کی حفاظت اور سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ پولیس نے اغوا کے ان واقعات کے مقدمات مختلف تھانوں میں درج کیے ہیں اور مغوی خواتین کی بازیابی اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارنے شروع کر دیے ہیں۔ تاہم، اغوا کی وارداتوں میں اس قدر اضافہ پولیس اور متعلقہ اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ خانیوال میں لڑکی سے دوستی کے شبہ میں نوجوان کی تذلیل خانیوال میں بھی ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں لڑکی سے دوستی کے شبہ میں بااثر ملزمان نے نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی تذلیل کی۔ ملزمان نے اس واقعے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔ پولیس نے فوراً مقدمہ درج کیا اور مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا۔ تھانہ کہنہ پولیس کا کہنا ہے کہ مزید تحقیقات جاری ہیں تاکہ اس سنگین معاملے کی جڑ تک پہنچا جا سکے۔ ملتان میں خواجہ سرا پر تیزاب گردی کا واقعہ ملتان میں ایک نوجوان نے دوستی سے انکار پر خواجہ سرا پر تیزاب پھینک دیا، جس کے نتیجے میں خواجہ سرا شدید زخمی ہو گیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ محمد پور گھوٹا میں پیش آیا، جہاں ملزم محمد رئیس نے خواجہ سرا سے دوستی کی درخواست کی تھی، جسے انکار ملنے پر وہ طیش میں آ گیا۔ ملزم نے خواجہ سرا پر تیزاب پھینک کر فرار ہو گیا۔ تیزاب گردی کا شکار خواجہ سرا کو فوری طور پر نشتر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، اور ملزم کی تلاش جاری ہے۔ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ملزم کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
بلوچستان کے علاقے نوشکی سے نامعلوم مسلح افراد نے سڑک کی تعمیر کرنے والے 4 مزدوروں کو اغوا کر لیا۔ لیویز ذرائع کے مطابق یہ واقعہ نوشکی کے علاقے البت میں پیش آیا، جہاں مسلح افراد نے تعمیراتی کام میں مصروف مزدوروں کو اغوا کیا اور ان کی مشینری پر فائرنگ بھی کی، جس کے نتیجے میں مشینری کو معمولی نقصان پہنچا۔ لیویز حکام کے مطابق اغوا ہونے والے مزدور نوشکی خاران شاہراہ پر سڑک کی تعمیر میں مصروف تھے۔ مغوی مزدوروں میں سے 3 کا تعلق پشتون علاقے سے ہے، جبکہ ایک کا تعلق مستونگ سے بتایا جا رہا ہے۔ واقعے کے فوراً بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے تاکہ اغوا ہونے والے مزدوروں کو بازیاب کیا جا سکے۔ اس دوران علاقے میں اضافی سیکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے تاکہ مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
پاکستانی فضائی حدود کی بندش کے باعث بھارتی ایئرلائنز کو 10 دنوں میں 225 کروڑ بھارتی روپے سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ ایوی ایشن ذرائع کے مطابق، پاکستان کی فضائی حدود بھارتی پروازوں کے لیے گزشتہ 11 دنوں سے بند ہیں، جس کے نتیجے میں 1,150 بھارتی پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔ پاکستانی فضائی حدود کی بندش کی وجہ سے بھارتی ایئرلائنز کی مختلف پروازیں متاثر ہوئیں، جن میں ایئرانڈیا، اکاسا ایئر، اسپائس جیٹ، انڈیگو ایئر اور ایئر انڈیا ایکسپریس شامل ہیں۔ فضائی حدود کی بندش کے باعث بھارتی طیاروں کو بحر عرب کا طویل روٹ اختیار کرنا پڑ رہا ہے، جس سے ان کے آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، اور اس کا مالی اثر ایئرلائنز پر پڑا ہے۔ ایوی ایشن کے ذرائع کے مطابق پاکستان نے بھارتی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود 23 اپریل سے 23 مئی تک بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے ردعمل میں اٹھایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو سیاحوں کی ہلاکت کے بعد 23 اپریل کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر پاکستان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت سے تجارت اور واہگہ بارڈر کی بندش کے ساتھ ساتھ بھارتی ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستانی فضائی حدود کی بندش نے بھارت کی فضائی کمپنیوں کو نہ صرف اضافی اخراجات کا سامنا کروایا ہے بلکہ اس سے ان کی آپریشنل کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی بھی ملک سے چار قدم آگے ہے اور یہ ٹیکنالوجی ہی جدید جنگوں میں برتری کی کلید ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دفاعی طاقت میں ٹیکنالوجی کا کردار مرکزی ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کسی کے بھی ہاتھوں نہ ہو، اس کی امید کی جاتی ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان ٹیکنالوجی میں مکمل طور پر اپڈیٹ ہے اور اس میدان میں ملک کی ترقی عالمی سطح پر نمایاں ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے جدید جنگی طیارے رافیل کی خریداری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے پاس ان طیاروں کو اڑانے کے لیے ایسا عملہ موجود نہیں ہے جو اس کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ بھارتی پائلٹ چائے پی کر واپس چلے جاتے ہیں اور انہیں اپنی فورسز کو بہتر بنانے کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت کے خلاف تمام دہشت گردی کے ثبوت پیش کیے جائیں گے، جن میں جعفر ایکسپریس حملے سمیت دیگر اہم واقعات شامل ہوں گے۔ دوسری جانب خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر پی ٹی آئی کے متعلق بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اتحاد کو عمران خان کی شرکت سے مشروط کرنا پی ٹی آئی کی کوتاہ اندیشی ہے اور حب الوطنی کو اس طرح مشروط کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پلوامہ کے واقعے کے دوران جب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان جیل میں تھے، ہماری قیادت نے ان کے مشورے پر قومی بریفنگ میں شرکت کی، مگر عمران خان نے اس بریفنگ میں ہمارے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی اور اس کا وطن شخصیات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انشا اللہ پاکستان کی عظمت اور استحکام ہمیشہ قائم رہے گا، اور تاریخی طور پر عظیم رہنما اپنے کاموں کے ذریعے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی اور دفاعی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے گا، اور ٹیکنالوجی میں ملک کا لیڈ ہونا اس کی کامیابی کی بنیاد ہے۔
اسلام آباد: صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کاشف چوہدری نے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس آرڈیننس کو فوری واپس لے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم سے ٹیکس افسران کو لامحدود اختیارات دینے کا اقدام کرپشن کو فروغ دے گا اور تاجر برادری کو اس کے خلاف متحد ہو کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ کاشف چوہدری نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں کی جانے والی تبدیلیوں کے تحت ٹیکس افسران کو غیر معمولی اختیارات دیے گئے ہیں جس سے کاروباری کمیونٹی کی زندگی مشکل بن جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاجر برادری ہرگز ایسے ہتھکنڈوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی جو معیشت کو تباہ کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوراً انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس واپس لے اور مارکیٹس اور کاروباری مقامات پر ٹیکس افسران کی تعیناتی نہیں ہونے دیں گے۔ اس آرڈیننس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟ صدر مملکت کی جانب سے جاری کیے گئے اس آرڈیننس کے مطابق، عدالتوں، فورمز یا اتھارٹیز کے فیصلوں کے بعد انکم ٹیکس ادائیگی فوری طور پر کرنی ہوگی، یا پھر انکم ٹیکس اتھارٹی کی جانب سے نوٹس کے اجرا کے بعد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس ترمیم میں بورڈ یا چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو کو کسی بھی فرد یا گروہ کی نگرانی کے لیے تعینات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، تاکہ وہ ان کی پیداوار، مال کی سپلائی، یا فروخت نہ ہونے والے مال کی نگرانی کرسکیں۔ مزید برآں، اگر کسی مال پر ٹیکس اسٹمپ یا بار کوڈ لیبل نہیں لگے گا تو اسے ضبط کر لیا جائے گا، اور ایف بی آر کو جعلی مال کی نگرانی کے لیے وفاقی یا صوبائی ملازمین کو ان لینڈ ریونیو افسر کے طور پر اختیارات تفویض کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاجر تنظیموں کی طرف سے ردعمل: دوسری جانب لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر میاں ابوذر شاد نے بھی اس معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور پیر کے روز صنعتی و تجارتی تنظیموں کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کے تحت ایف بی آر کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں، جن میں کاروباری مقامات پر افسران کی تعیناتی اور اکاؤنٹس منجمد کرنے کا اختیار شامل ہے۔ میاں ابوذر شاد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کی یہ کوشش ایک خطرناک روایت ہے جو جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ تاجران کی جانب سے مطالبہ: تاجران کی مختلف تنظیموں نے حکومت سے فوری طور پر انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس کو واپس لینے کی درخواست کی ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر توجہ نہ دی تو وہ احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ یہ صورت حال پاکستان کی کاروباری برادری کے لیے انتہائی نازک ہے، اور دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت اس پر کیا ردعمل دیتی ہے۔
نئی دہلی: بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی تجارت پر ایک اور سنگین حملہ کرتے ہوئے پاکستانی کنٹینرز لے کر بھارتی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے والے تیسرے ملکوں کے پرچم بردار بحری جہازوں کو بھی اپنی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے سے روک دیا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے بھارت نے پاکستان کی ایکسپورٹ کو مزید متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے نیا ہتھکنڈا اختیار کرتے ہوئے نہ صرف پاکستانی درآمدات پر پابندی لگائی، بلکہ اب وہ ایسے تیسرے ملکوں کے جہازوں کو بھی اپنی بندرگاہوں پر برتھ دینے سے انکار کر رہا ہے، جو پاکستانی کارگو لے کر آ رہے ہیں۔ خاص طور پر، بھارت نے آئی ای ایکس نامی شپنگ کمپنی کے کنٹینرز بردار بحری جہاز کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی پاکستانی کارگو کو لے جانے والے جہاز کو بھارت کی بندرگاہوں پر برتھ فراہم نہیں کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق، بھارتی حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف پاکستان کی تجارت پر اثر پڑے گا، بلکہ اس کا اثر خطے کی لاجسٹکس اور بین الاقوامی شپنگ انڈسٹری پر بھی پڑے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی کارگو لے جانے والے جہازوں کو اب خصوصی سروسز کا آغاز کرنا پڑے گا، تاکہ بھارت کی بندرگاہوں کے استعمال سے بچا جا سکے۔ پاکستانی حکام کے مطابق، اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو ایسی شپنگ سروسز کی ضرورت ہوگی جو بھارت کی بندرگاہوں کا استعمال نہ کرتی ہوں، تاکہ پاکستانی ایکسپورٹ اور امپورٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستانی حکومت نے بھارت کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی اس غیر قانونی تجارت کی رکاوٹ کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
اسلام آباد: پاکستان نے بھارت کی جانب سے شروع کی گئی جارحیت اور خطے کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کو ہدایت دی ہے کہ وہ فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے اقدامات کریں۔ ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خطے کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کا مقصد بھارت کے جارحانہ اقدامات، اشتعال انگیز بیانات، اور خصوصی طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ واضح کرے گا کہ بھارت کے یہ اقدامات کس طرح جنوبی ایشیا اور پورے خطے کی امن و سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا موقف مضبوطی سے پیش کرنا اور بھارت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے نتائج کو اجاگر کرنا ہے تاکہ عالمی سطح پر خطے کی صورت حال کی درست تصویر سامنے لائی جا سکے۔ پاکستانی حکومت نے یہ فیصلہ اس وقت کیا ہے جب بھارت کی طرف سے خطے میں مسلسل کشیدگی اور اشتعال انگیزی کے بیانات سامنے آ رہے ہیں، جس سے خطے کی سیکیورٹی اور امن کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے اس اہم سفارتی اقدام کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کی جارحیت کو بے نقاب کرنا اور عالمی برادری سے اس پر مناسب ردعمل کی توقع کرنا ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ ماہ پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے خونریز حملے کے مشتبہ افراد کو تلاش نہ کر پانے پر بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر حملے میں ملوث افراد بھارت چھوڑ کر کسی دوسرے ملک فرار ہو چکے ہوں گے۔ ڈان نیوز کے مطابق، ہفتے کو سری لنکن ایئرلائنز کی پرواز یو ایل 122 کی کولمبو پہنچنے کے بعد کولمبو پولیس نے اس کی مکمل تلاشی لی، کیونکہ چنئی کنٹرول سینٹر نے الرٹ جاری کیا تھا کہ پہلگام حملے میں ملوث مشتبہ افراد اس پرواز میں سوار ہو سکتے ہیں۔ تلاشی کے دوران اس بات کا خیال رکھا گیا کہ پرواز میں کسی مطلوب شخص کا داخلہ نہ ہو۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں حملے کے تقریباً دس دن بعد بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی سیکیورٹی ناکامی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کانگریس کے ایک سیاستدان نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ آیا مودی حکومت حملہ آوروں کو پکڑنے میں کامیاب ہو پائے گی، جس کے بعد ان کے تبصرے پر فوج کی تنقید کی گئی اور انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ حزب اختلاف کی جانب سے سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی پر وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے استعفوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جبکہ کچھ تجزیہ کاروں نے مشیر قومی سلامتی کی برطرفی کی بھی تجویز دی ہے۔ حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور سیاحوں میں گھل مل گئے تھے اور ان کی سازش کے تحت سیاحوں کو ایک مخصوص مقام کی طرف دھکیل دیا گیا، جہاں سے ان کے بچ نکلنے کا امکان نہیں تھا۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، دو حملہ آوروں نے جان بوجھ کر سیاحوں کو قاتلوں کی طرف دھکیل دیا تاکہ ہجوم منتشر ہو جائے۔ پہلگام حملے سے قبل بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس بارے میں اطلاعات موصول ہو چکی تھیں کہ ممکنہ طور پر سیاحوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تاہم موسم کی خرابی اور سیکیورٹی کی کمی کی وجہ سے فورسز بروقت کارروائی نہ کر سکیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے واقعے کے دو دن بعد ایک اجلاس میں الزام عائد کیا کہ مقامی ہوٹلوں نے پولیس کو مطلع کیے بغیر سیاحوں کو اس خطرناک علاقے کی طرف بھیجا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعے کے وقت اس مقام پر کوئی سیکیورٹی موجود نہیں تھی، حالانکہ عام طور پر سیاحتی مقامات کو یاترا کے دوران سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم، دی ہندو نے رپورٹ کیا ہے کہ بیسرن سبزہ زار کو پوری سال بھر سیکیورٹی کے انتظامات کی ضرورت نہیں ہوتی، اور یہ علاقہ کوئی سرکاری نگرانی کے تحت نہیں تھا۔ یہ صورتحال بھارتی حکومت کے لیے سنگین مسائل کی نشاندہی کر رہی ہے، اور اپوزیشن کی جانب سے بڑھتی ہوئی تنقید سے حکومت پر دباؤ مزید بڑھ رہا ہے۔
اسلام آباد: پاکستان نے بھارتی حکومت کی جانب سے لگائی گئی تجارتی پابندیوں کے ردعمل میں بڑا فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی پرچم بردار جہازوں کی پاکستانی بندرگاہوں پر آمد پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ وزارتِ بحری امور کے مطابق اب پاکستانی جہاز بھی بھارتی بندرگاہوں کا رخ نہیں کریں گے۔ ڈان نیوز کے مطابق یہ فیصلہ موجودہ کشیدہ حالات کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کسی خاص معاملے پر استثنیٰ کی گنجائش صرف کیس ٹو کیس بنیاد پر ممکن ہوگی، تاہم عمومی طور پر بھارتی فلیگ کیریئرز کو پاکستان کی سمندری حدود میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھارت نے پاکستان سے براہِ راست یا کسی تیسرے ملک کے ذریعے کی جانے والی تمام درآمدات پر مکمل پابندی عائد کی تھی۔ بھارتی وزارتِ تجارت کے حکم نامے کے مطابق پاکستان سے کسی بھی قسم کا سامان درآمد نہیں کیا جائے گا، حتیٰ کہ ڈاک اور پارسل کی ترسیل بھی ممنوع قرار دی گئی ہے۔ بھارت نے یہ اقدامات 22 اپریل کو پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے کیے۔ دہلی حکومت نے نہ صرف سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا بلکہ پاکستانی سفارتی عملے کو 30 اپریل تک بھارت چھوڑنے کی ہدایت دی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور کئی دیگر سخت فیصلے بھی کیے گئے۔ جوابی اقدامات میں پاکستان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد بھارت سے تجارت بند کرنے، واہگہ بارڈر کی عارضی بندش، بھارتی ایئرلائنز کے لیے فضائی حدود کی بندش، اور پاکستان میں موجود بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا۔ 30 اپریل کو وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر خبردار کیا تھا کہ بھارت 24 سے 36 گھنٹوں میں کسی قسم کی عسکری جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان، بھارت کے خودساختہ "مدعی، منصف اور جلاد" بننے کے رویے کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی مہم جوئی کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے صدر سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے، بشمول پارلیمنٹ اور عدلیہ، عوام کو انصاف اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ رات شاہوانی اسٹیڈیم میں پارٹی کے مرکزی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بی این پی (مینگل) کسی سے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت لینے کی پابند نہیں، اور اگر حکومت احتجاج سے روکنے کی کوشش کرے گی، تو ہم اس کے جواب میں ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کریں گے جو عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب حکام بلوچ عوام، خصوصاً خواتین کی بے حرمتی کریں، نوجوانوں کو قتل کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکیں اور ریاستی جبر کو روز مرہ کا معمول بنا دیں، تو ان کی جماعت خاموش کیسے رہ سکتی ہے۔ سردار مینگل نے خبردار کیا کہ اگر ظلم بند نہ ہوا تو بی این پی (مینگل) فوجی چھاؤنیوں کے باہر بھی مظاہرے کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ عدالتی نظام کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ خواتین رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو بغیر کسی قانونی جواز کے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت حراست میں لیا جا رہا ہے، اور عدالتیں انصاف دینے کے بجائے صرف تاریخوں پر تاریخیں دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف کا ترازو قانون کے بجائے سیکٹر کمانڈرز کی مرضی کے تابع ہو چکا ہے۔ بی این پی (مینگل) کے سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نصر اللہ بلوچ اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن اقرا بلوچ نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔ مقررین نے سیاسی کارکنوں، خصوصاً ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ اور بیبرگ بلوچ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ نصر اللہ بلوچ نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں معمول بن چکی ہیں، بے گناہوں کو جعلی مقابلوں میں مارا جا رہا ہے اور ان کی لاشیں مختلف علاقوں میں پھینکی جا رہی ہیں۔ اجلاس میں کئی قراردادیں منظور کی گئیں، جن میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور ریاستی جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔
کچھ روز قبل 25 اپریل کو کچھ اکاؤنٹس نے دعویٰ کیا کہ ”لاہور پولیس کا جعلی مواد کے خلاف کریک ڈاؤن، صرف 24 گھنٹوں میں پیکا کے تحت ان افراد کے خلاف 23 مقدمات درج کیے گئے جو سیاستدانوں اور اداروں کو نشانہ بنانے والی جعلی اور ڈیپ فیک ویڈیوز پھیلا رہے تھے۔“ یہ خبر درست ثابت ہوئی، لاہور پولیس نے واقعی 24 گھنٹوں کے اندر غیر معمولی طور پر 23 ایف آئی آرز درج کی ہیں، جن میں ان افراد پر سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان آرمی، ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے خلاف مبینہ ”نفرت انگیز مواد“ پھیلانے کا الزام ہے۔ ایف آئی آرز لاہور کے مختلف مختلف پولیس اسٹیشنز میں درج کی گئیں جن میں فیکٹری ایریا، غازی آباد، گلشن اقبال، ہنجروال، مغل پورہ، نصیر آباد، نواں کوٹ، پرانی انارکلی، رائے ونڈ، ستو کتلہ، شاد باغ، شفیق آباد، شاہدرہ، ڈیفنس ایریا سی، ہر بنس پورہ، نشتر کالونی، لیاقت آباد، گلبرگ، نارتھ کینٹ، گجر پورہ، نولکھا، اسلام پورہ اور ساندہ شامل ہیں۔ تمام ایف آئی آرز معزز شہریوں نے درج کرائیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ 23 ایف آئی آرز میں سے 12 ایف آئی آرز ایسی ہیں جن کی تحریر ایک جیسی تحریر ہے، جس میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر الزام لگایا گیا ہے کہ مبینہ طور پر انہوں نے پاکستان کے ایک سینئر فوجی افسر کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تخلیق شدہ تصاویر تیار کیں اور شیئر کیں۔ تمام 12 ایف آئی آرز میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ 22 اپریل کو ایک ایکس اکاونٹ پر ایک سینئر فوجی افسر کی تصویر دیکھی، جس میں ”غیر اخلاقی اور غیر قانونی“ پوسٹ کے ذریعے عوام الناس کی منفی ذہن سازی کی گئی ہے اور ان کے ذریعے عوام میں ”انتشار اور بے اعتمادی“ پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ صحافی ثاقب بشیر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 22 اپریل کو 24 گھنٹوں میں 23 مقدمات درج کیے گئے۔ شہریوں نے ٹویٹر پر اداروں کے خلاف مواد دیکھ کر پیکا کے تحت مقدمات بنوائے۔ 12 شہریوں کی یکساں درخواستیں حیران کن اتفاق ہے۔ اس کارکردگی پر فل پیج اشتہارات کی توقع ہے
کراچی: پاکستانی کسٹم محکمے نے ایک بڑی اسمگلنگ کوشش کو ناکام بناتے ہوئے گدھوں کی 14 ٹن (14 ہزار کلوگرام) وزنی کھالیں ضبط کر لیں، جن کی مالیت تقریباً 8 کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے۔ یہ کارروائی جنوبی ایشیا پاکستان پورٹ پر کی گئی۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق کسٹم حکام کو اطلاعات ملیں کہ چمڑے کی مصنوعات کی آڑ میں گدھوں کی کھالیں چین بھیجنے کی کوشش کی جا رہی ہے انکے مطابق کنسائمنٹ گرین چینل (تیز رفتار کلئیرنس) سے گزر چکا تھا اور کنٹینر کو جہاز پر لوڈ کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ کسٹمز انفورسمنٹ ٹیم نے لوڈنگ سے قبل دوبارہ چیکنگ کی تو ممنوعہ کھالیں برآمد ہوئیں خیال رہے کہ پاکستان کی برآمدی پالیسی کے تحت گدھوں کی کھالوں کی برآمد پر مکمل پابندی عائد ہے۔ کسٹم حکام نے تمام کھالیں ضبط کر لی ہیں اور برآمد کنندہ کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے کسٹم حکام کے مطابق ضبط شدہ کھالیں کسٹمز گودام منتقل کر دی گئی ہیں اس واقعہ پر صحافی عدنان عادل نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھاکہ کراچی میں کسٹم حکام نے جنوبی ایشیا پاکستان پورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے گدھے کی 14 ٹن وزنی کھالیں بیرون ملک اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔ ان گدھوں کا گوشت کہاں گیا ہوگا؟ ضائع کر دیا گیا تھا؟ یا کباب بنا کر کھلا دیا گیا؟
عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے 2025 کا ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس جاری کر دیا ہے، جس میں پاکستان کی آزادیٔ صحافت کی درجہ بندی مزید خراب ہو کر 152 سے 158ویں نمبر پر آ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ملک میں آزادی صحافت پر بڑھتی ہوئی پابندیاں، سنسرشپ، اور میڈیا پر ادارہ جاتی دباؤ اس تنزلی کی بڑی وجوہات ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹوں، دھمکیوں، گرفتاریوں اور تشدد جیسے مسائل کا سامنا ہے، جو آزادیٔ اظہار رائے کے لیے ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں خطرناک رجحانات رپورٹ میں عالمی سطح پر بھی صحافت کو لاحق خطرات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک تہائی سے زائد ممالک میں معاشی مسائل اور حکومتی دباؤ کی وجہ سے خبر رساں ادارے بند ہو رہے ہیں، جبکہ آمریت کی جانب مائل حکومتیں میڈیا کو خاموش کروانے کے لیے معاشی حربے استعمال کر رہی ہیں۔ بھارت اور فلسطین کا ذکر رپورٹ میں بھارت کی صورتحال پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، جہاں میڈیا کی ملکیت چند بااثر سیاسی و کاروباری شخصیات کے قبضے میں آ چکی ہے، جس کے باعث صحافتی آزادی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دوسری جانب، فلسطین کی صورتحال کو رپورٹ میں "تباہ کن" قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک تقریباً 200 صحافی شہید ہو چکے ہیں، جو صحافت کی تاریخ میں ایک المناک باب ہے۔ میڈیا پر بڑھتا معاشی دباؤ رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں آزاد میڈیا کا سب سے بڑا چیلنج معاشی استحکام بن چکا ہے۔ کئی ادارے بند ہو چکے ہیں یا بند ہونے کے قریب ہیں، جس سے خبروں کی غیر جانبدارانہ رسائی متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کی رائے میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو صحافیوں کے لیے سچ بولنا مزید مشکل ہوتا جائے گا، جس کا براہ راست اثر جمہوریت، عوامی شعور اور انسانی حقوق پر پڑے گا۔
آزاد کشمیر میں حکومت نے خطے کی سکیورٹی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم اقدامات کیے ہیں۔ حکومتی احکامات کے مطابق، کنٹرول لائن کے قریب واقع مدارس کو بند کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں، جن میں تقریباً ایک ہزار مدارس شامل ہیں۔ ان مدارس کی بندش کی نگرانی مقامی انتظامیہ اور پولیس کر رہی ہے، اور یہ پابندی دس دن تک نافذ رہے گی۔ اس دوران، سکول، کالج، اور یونیورسٹیاں کھلی رہیں گی۔ سیاحوں کی آمد پر پابندی: خطے میں کشیدگی کی بڑھتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر، حکومت نے سیاحوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد کسی ممکنہ فوجی کارروائی یا سرحدی کشیدگی کی صورت میں شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ سیاحوں کی آمد پر یہ پابندی عارضی ہے، اور حالات بہتر ہونے پر ان پر سے پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔ مدارس کی بندش کی وجوہات: کنٹرول لائن کے قریب واقع جامعہ مدینہ عربیہ جیسے مدارس کی بندش کا حکم دیا گیا ہے۔ ان مدارس میں زیادہ تر طلبا و طالبات ہاسٹلوں میں مقیم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ادارے زیادہ خطرے میں ہیں۔ مدرسہ کے مہتمم مولوی غلام شاکر کے مطابق، 2019 میں بھی اس علاقے میں جھڑپوں کے دوران گولے گر چکے تھے، مگر اس بار اگر بھارت کی جانب سے سرحد پار فائرنگ یا بمباری کی گئی تو مدرسہ اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ ریلیف اور ایمرجنسی اقدامات: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایمرجنسی فنڈ قائم کیا گیا ہے اور لوجسٹک سپورٹ فراہم کی جا رہی ہے۔ ہلال احمر پاکستان نے خطے میں ایمرجنسی سروسز فراہم کرنے والے عملے کو متحرک کر دیا ہے۔ علاقے میں 500 افراد کے لیے ریلیف کیمپ تیار کیے جا رہے ہیں، اور دو ماہ کا کھانا، پانی، اور طبی سامان بھی پہنچا دیا گیا ہے تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا سامنا کیا جا سکے۔ سیاحت پر اثرات: وادی نیلم اور دیگر سیاحتی علاقوں میں سیاحوں کی آمد میں کمی آئی ہے، اور مقامی ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں کی جانے والی بکنگ بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایک سیاح نثار احمد نے بتایا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو واپس جانے کے لیے کہا گیا، جس کے بعد وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ آئے۔ مجموعی طور پر صورتحال: پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر پہلگام حملے کے بعد جس میں 26 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزام عائد نہیں کیا گیا، مگر اس کے بعد مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی کارروائیوں کا جواب دیتے ہوئے مختلف سکیورٹی اور انتظامی اقدامات کیے ہیں۔
اسلام آباد: پہلگام واقعے پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو سفارتی حمایت ملنے لگی ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے واقعے کی غیرجانبدار تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیشکش سوئس وزیر خارجہ کی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران سامنے آئی۔ گفتگو میں سوئس وزیر خارجہ نے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر جانب دار اور شفاف تحقیقات کے حق میں ہیں اور اس عمل میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔ اسحاق ڈار اور سوئس وزیر خارجہ کے درمیان اتفاق ہوا کہ وہ اس معاملے پر مسلسل رابطے میں رہیں گے اور خطے کی صورتحال پر قریبی مشاورت جاری رکھیں گے۔ مزید برآں، اسحاق ڈار نے یونانی وزیر خارجہ سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا، جس میں انہوں نے بھارت کے بے بنیاد الزامات، سندھ طاس معاہدہ کی معطلی، اور پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ سمیت عالمی پلیٹ فارمز پر باہمی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان کی حالیہ سفارتی سرگرمیاں اس بات کی عکاس ہیں کہ ملک عالمی برادری کو بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور بے بنیاد الزامات سے متعلق آگاہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔

Back
Top