سوشل میڈیا کی خبریں

سینئر تجزیہ کارکامران خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے دور میں دوسری بار ملک کودیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سعودی عرب سے حقارت بھری شرائط پر بھیک لینے پر مجبور ہوئی ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں کامران خان کا کہنا تھا کہ میں وزیراعظم عمران خان سے مخاطب ہوں، حکومت کے پہلے سال میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے تین ، تین ارب ڈالر آئے اور آئی ایم ایف قرضوں سے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا تھا ، اس وقت اس اقدام کی وجہ سمجھ آگئی تھی۔ کامران خان نے کہا کہ آپ کی حکومت کے چوتھے سال میں سعودی عرب سے ایک بار پھر تین ارب ڈالر کے ڈپازٹ اور آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے آگے ہم گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے، آپ توبھیک کے اس کشکول کو توڑنے آئے تھے، الیکشن 2023 میں کامیابی اس وقت ممکن ہوگی جب معیشت میں بہتری اور مہنگائی میں کمی آئے گی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ آئی ایم بحالی پروگرام میں سخت شرائط سامنے آئیں ،ان مذاکرات میں پاکستانی ٹیم کی ایڑھیاں رگڑوادی گئیں، 99 فیصد شرائط پوری ہونے کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا، اقوام متحدہ اور معتبر بین الاقومی میڈیا پاکستان سے کھنچے کھنچے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی بہت سے مسائل کا شکار ہے، مغربی دنیا نے ہمیں رسمی تعلقات اور افغانستان کے ہمسائے کی حیثیت تک محدود کردیا ہے، یورپی ممالک کی پاکستان میں دلچسپی مدھم پڑچکی ہے، امریکہ سے تعلقات زمین بوس ہیں کیو نکہ ماضی میں آپ کے امریکہ سے متعلق بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
وفاقی وزیر فواد حسین چوہدری نے سینئر صحافی و اینکر پرسن غریدہ فاروقی کے علی وزیر کی ضمانت سے متعلق بیان پر کرارا جواب دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اینکرپرسن غریدہ فاروقی نے ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ جس عدالتی بینچ نے پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کی اس میں سے دو ججز کا تعلق پنجاب سے ہے(ایک جج جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں) اور ایک جج بلوچستان کے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک جج کا تعلق راولپنڈی سے ہے، ایک کا ملتا ن سے اور ایک جج کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے غریدہ فاروقی کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شیئر کیا اور کہا کہ یہاں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر تماشے لگے ہوئے ہیں۔ فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ جوڈیشری، فوج، بیوروکریسی کے اداروں کو اس طرح علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنا تباہ کن ہے، ججز اپنے فیصلے آئین و قانون کے مطابق کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں اور ان پر ایسے غیر ذمہ دارانہ تبصرے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اس ملک میں اظہاررائے کی آزادی پر تماشے لگے ہوئے ہیں، یہاں ہر طرح کے شدت پسند کھل کر کھیل لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیانِ حلفی پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت ہوئی دوران سماعت چیف جسٹس نے سابق جج رانا شمیم سےسوال کیا کہ بتائیں کہ 3 سال بعد یہ بیانِ حلفی کس مقصد کے لیے دیا گیا؟ آپ نے عوام کا عدالت سے اعتماد اٹھانے کی کوشش کی، آپ نے جو کچھ کہنا ہے اپنے تحریری جواب میں لکھیں۔ اس پر سابق چیف جج رانا شمیم نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ جو بیانِ حلفی رپورٹ ہوا وہ کون سا ہے؟ میں پہلے رپورٹ کیا جانے والا بیانِ حلفی دیکھ لوں۔ راناشمیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ تا نہیں میرا بیان حلفی کیسے لیک ہو گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس شخص نے بیانِ حلفی دیا اسے یاد نہیں کہ بیانِ حلفی میں کیا لکھا ہے، اگر انہیں نہیں معلوم تو پھر یہ بیانِ حلفی کس نے تیار کروایا؟ رانا شمیم کے اس بیان کہ مجھے نہیں معلوم کہ جنگ اخبار نے کونسا بیان حلفی رپورٹ کیا ہے، مختلف تبصرے ہوئے۔ صحافی عدیل وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں رانا شمیم نے جنگ گروپ کو مشکل میں ڈال دیا، رانا شمیم نے عدالت میں بیان دیا کہ انکا بیان حلفی تو سیل تھا اور لاکر میں تھا جنگ کروپ نے کیسے چھاپ دیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے تو ملبہ اخبار پر ڈال کر معاملہ پیچیدہ بنا دیا عدیل راجہ نے رانا شمیم کو رانا گجنی شمیم قراردیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ حلف نامہ دس نومبر کو دیا گیا، آج یاد نہیں۔۔ مگر تین سال پہلے کیا ہوا وہ حرف بحرف یاد ہے۔۔ بلاگر وقار ملک نے لکھا کہ جج شمیم کے بیان کے انہیں یاد نہیں بیان حلفی میں کیا لکھا ہے اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جنہوں نے اپنے مفادات کیلئے بیان حلفی بنوایا انہوں نے پڑھنے کی اجازت نہیں دی اور دستخط کروا لئے۔۔ معروف شاعرہ نوشی گیلانی نے تبصرہ کیا کہ عجیب کردار ہیں یہ رانا شمیم بھی ۔۔ عدالت میں موجود حلف نامے سے انکارکر دیا۔۔اور اصل حلف نامہ لندن میں ہے جس کا متن بھی یاد نہیں موصوف کو ۔۔ سماء ٹی وی کی نیوزکاسٹرارم زعیم کا کہنا تھا کہ اخبار انتظامیہ نے بغیر تحقیق اور اجازت کے جج شمیم کا بیان چھاپ دیا تھا، جس سے ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کی جانبداری اور ساکھ متاثر ہوئی ؟؟ اور جج شمیم کو اخبار والے حلف نامہ پر شک بھی ہے کہ وہ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ بلاگر عمرانعام نے تبصرہ کیا کہ رانا شمیم نے عدالت میں موجود بیانِ حلفی سے اظہارِ لاتعلقی کر لیا۔ اصل بیانِ حلفی برطانیہ میں ہے جسکی کاپی میرے پاس موجود نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اسکا متن یاد ہے۔ جو بیانِ حلفی اخبار میں چھپا وہ میں نے پڑھا نہیں ہے۔ ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے خبر آ رہی ہے کہ رانا شمیم آج عدالت میں اپنے بیان حلفی سے مکر گئے اور فرمایا کہ: "پتا نہیں میرا بیان حلفی کیسے لیک ہو گیا" جی این این کے صحافی محمد عمران نے کاروائی کا احوال بتاتے ہوئے لکھا کہ سپر ہیرو بیٹے کی شاندار پرفارمنس کے بعد رانا شمیم نے کیس لڑنے کیلئے نیا وکیل چُن لیا ۔۔ سابق چیف جج رانا شمیم نے توہین عدالت کے نوٹس پر جواب جمع کرانے کیلئے مزید وقت مانگ لیا ۔ عدالت کے استفسار پر کہہ رہے ہیں کہ کچھ دن کا وقت دے دیں ، وکیل لطیف آفریدی کے زریعے جواب جمع کراؤں گا۔ اکبر نامی سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ چند دن پہلے دیا گیا اپنا ہی بیان حلفی نہیں یاد لیکن کئی سال پہلے کی دوسرے بندے کی تیسرے بندے سے فون پر گفتگو یاد ہے اسکے تو 2 ہی مطلب ہو سکتے یا انکل شمیم نے کہانی گھڑی ہے یا پھر حلف نامہ کسی اور نے انکل شمیم کے نام سے لکھا ہے۔ مجتبیٰ نے کہا کہ جج شیمم عدالت میں پیشی پر فرما رہے کہ میں نے اپنا ہی بیانہ حلفی ابھی تک نہیں دیکھا فرزانہ نے طنز کیا کہ تیری سرکار میں پہنچےتو سبھی سرخرو ہوئے
مشہور پاکستانی فیشن برانڈ منت کو سکھوں کے مقدس مقام کرتارپور گردوارے میں ایک فیشن فوٹوشوٹ کروانا مہنگا پڑگیا ہے، تنقید کی وجہ ماڈل کا ننگے سر گردوارے میں تصاویر کچھوانا بتایا جارہا ہے۔ مشہور فیشن برانڈ "منت " نے اپنے نئی کلیکشن کیلئے کرتارپور میں بابا گرونانک کے گردوارے میں فوٹو شوٹ کروایا جس کی تصاویر خود منت کے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ سے شیئر کی گئیں، تصاویر میں ماڈل کو گردوارے کے صحن میں بغیر سر پر دوپٹہ اوڑھے پوز کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد دہلی سکھ گردوارہ مینجمنٹ کے صدر منجیندر سنگھ سرسا نے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ گورونانک دیو جی کے مقدس مقام پر ایسے فوٹوشوٹس کی کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے، پاکستان کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو سری کرتارپور صاحب کو ایک پکنک پوائنٹ بنانے کی لوگوں کی کوشش کے خلاف فوری طور پر کوئی اقدام کرنا ہوگا۔ سکھوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر برانڈ کے اس فوٹو شوٹ کے خلاف تنقید جب شدید ہوئی تو منت نے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے تمام تصاویر ڈیلیٹ کردیں اور اس معاملے پر ایک وضاحت بھی جاری کی۔ منت کلوتھنگ کی جانب سے انسٹاگرام سٹوری پر شیئر کیے گئے بیان کے مطابق ہمارے آفیشل اکاؤنٹ سے شیئر کردہ تصاویر ہمارے کسی اپنے فوٹوشوٹ کی نہیں ہیں۔ CW2k3EIoqsN منت کے مطابق یہ تصاویر ہمیں ایک تیسرے فریق(بلاگر) نے شیئر کی ہیں جس میں وہ ہماے برانڈ کا لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لوگ اپنی تصاویر کہاں اور کیسے کھنچواتے ہیں اس میں منت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ منت نے تصاویر کوشیئر کرنے کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ تاہم تصاویر شیئر کرنا ہماری غلطی ہے کہ ہمیں ایسا مواد شیئر نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اس کیلئے ہم ہر انفرادی شخص سے معذرت کرتے ہیں۔ معذرت کےبعد منت کلوتھنگ نے اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ سے یہ تصاویر ڈیلیٹ کردیں جس کے بعد ماڈل جو ایک کانٹینٹ کریئٹر بھی ہیں انہوں نے بھی اپنے اکاؤنٹ سے یہ تصاویر ڈیلیٹ کردی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے سوشل میڈیا پر 2018 اور 2021 کے تقابلی جائزے کی غرض سے لگایا گیا پول وقت سے پہلے ہی ڈیلیٹ کر دیا کیونکہ اس کے نتائج ان کی مرضی سے خلاف آتے نظر آ رہے تھے۔ تفصیلات کے مطابق احسن اقبال نے ایک پول لگایا جس میں سوال رکھا کہ کیا "آپ کیلئے اپنی آمدن میں گزارے کے لحاظ سے زندگی کس سال میں بہتر تھی؟" اس کے لئے دو آپشن رکھے گئے تھے پہلا 2018 اور دوسرا 2021۔ اس پر جواب دینے کیلئے صارفین کے پاس 24 گھنٹے تک کا وقت موجود تھا لیکن جب احسن اقبال نے آخری گھنٹوں میں دیکھا کے نتائج یکسر تبدیل ہو کر ان کی مرضی کے خلاف آ رہے ہیں تو انہوں نے پول ہی ڈیلیٹ کر دیا۔ اس پر ایک صارف نے سوال پوچھا کہ وہ حیران ہے کہ 2021 میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے ذرائع آمدن بہتر ہوئے ہیں تو جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے لوگ ہیں۔ اس ٹوئٹ میں عاطف ضیا نے کہا کہ احسن اقبال نے ایک پول کروایا جس میں انھیں عوام کا آزادی رائے پسند نہیں آیا اور موصوف نے RTS بند کر کے مقررہ وقت سے پہلے ہی جیو سے ن لیگ کی کامیابی کا اعلان کروا دیا۔ عمر انعام نے کہا کہ پروفیسر احسن اقبال صاحب نے اس رائے شماری والی ٹویٹ کو وقت ختم ہونے سے 2 گھنٹے پہلے ڈیلیٹ کیوں کر دیا؟ احمد ندیم نے کہا کہ گزشتہ رات جب احسن اقبال کے پول میں پانچ گھنٹے سے زیادہ وقت رہتا تھا، تب پاکستان میں رات کے بارہ بج چکے تھے- تب 56/44 کے تناسب سے ن لیگی جیت رہے تھے۔ مگر ہمیں پتہ تھا کہ ابھی بڑا وقت ہے، ابھی یورپ والے ایکٹو ہو جائیں گے، پھر امریکہ کینیڈا والے شامل ہو جائیں گے۔ پھر ڈیلیٹ ہوگئی۔ احسن اقبال صاحب یہ کیا ہوا، ٹویٹ کیوں نہیں دکھ رہی مجھے۔ ابھی تو مقابلہ شروع ہوا تھا، اور آپ دم دبا کے بھاگ گئے۔ جب پول لگایا تھا تو تھوڑی سی ہمت اور حوصلہ بھی رکھتے۔ ہار کے ڈر سے ڈیلیٹ ہی کردی۔ قیس عباسی نےکہا کہ جیسے یہاں پول ڈیلیٹ کر دیا ۔۔ ویسا ہی آپشن #EVM میں دے دیا جائے تو مشین قبول ہے۔ سرفراز ریاض بھٹہ نے کہا کہ احسن اقبال نے 4 گھنٹے بعد پول پر ممکنہ شکست سے بچنے پوسٹ ہی ڈیلیٹ کردی۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز ایک اورمبینہ آڈیو لیک ہوگئی ، جس میں وہ ایڈیٹرانچیف جیو اور جنگ میرشکیل الرحمان سے متعلق گفتگو کر رہی ہے۔ لیک ہونیوالی اس آڈیو میں سنا جاسکتاہے مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ جیوسےخودبات کی توویسانہیں ہورہاتھا جیساہم چاہتےتھے، پھرمیں نےمیرشکیل صاحب سےذاتی طورپرخودبات کی۔ مریم کا آڈیو میں کہنا تھا کہ میں نے میر شکیل الرحمان سے کہا ہے کہ یہ زیادتی ہےآپ دونوں طرف کےفیکٹس دکھارہےہیں، عمران خان نے بغیر تصدیق جھوٹ بولا، اسی جھوٹ کوعمران خان نے نہ صرف دہرایا بلکہ دس باتیں اپنے پاس سے گھڑلیں۔ مبینہ آڈیو میں مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ میں نے میرشکیل سے کہا کہ آپ کو یہ کرنا پڑے گا مریم نواز کے مطابق میں نے میاں عامرسےبھی یہی کہا، میاں عامرنے کہا کہ دیکھیں میں کرتا کیا ہوں اس (عمران خان ) کے ساتھ، اللہ کا شکر ہے ہم نے اس کو آج جھوٹا ثابت کردیا۔ مریم نواز کی مبینہ لیکڈآڈیو پر وزیراطلاعات فرخ حبیب نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ مریم صفدر آزادی صحافت پر کتنا یقین رکھتی ہے اس آڈیو سے معلوم ہو رہا ہے اس پر ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ وہ تمام صحافی جو نوازشریف کے ریاستی اداروں پر حملوں کی وجہ سےلگی پابندی ہٹوانےعدالت جا پہنچےتھے۔ انہیں مریم کی نئی آڈیو پر سانپ سونگھ گیا؟کیا میڈیا مالکان کو قومی خزانےسے نوازنے کے لالچ پر کرپشن کا دفاع کروانا "آزادی صحافت" ہے؟ اکبرنامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ رات کی مریم کی آڈیو آئی ہوئی لیکن آزادیِ صحافت والے سارے چپ ہیں کوئی شور شرابا نہیں کیا چکر ہے اتنا بھی کیا اگنور کرنا ؟ ایک سوشل میڈیا صارفی نے تبصرہ کیا کہ یہ سینئر صحافی اور بڑے بڑے اینکر مریم کی اول آڈیو پھر اس میں اضافے پر چپ تھے اب جب کہ میر شکیل اور میاں عامر کا نام مریم نے لے دیا تو اب بھی چپ ہیں۔ ان کی صحافت اور سوال کی عادت ن لیگ کے حق میں ہی جاگتی ہے۔ کوئی شرم کوئی حیا۔ لیاقت مغل نے تبصرہ کیا کہ کہا تھا صحافت نہیں بکاؤ مال ہے ۔اب مریم نواز کے آڈیو نے ثابت کر دیا کہ صحافت نہیں دھندہ ہے پہلے ہی عوام کو اس میڈیا پر یقین نہیں تھا اب بھی کوئی یقین نہیں ۔کیا میڈیا کے لوگ اپنی چوری پر بولیں گے؟ بابرنامی سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ اک نواں کٹا کھل گیا مریم نواز کی ایک اور آڈیو لیک میر شکیل اور میاں عامر کو نوازنے کی ایک اور سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ مریم کی آڈیو لیک کا سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ وہ ڈائریکٹ مالکوں کو ڈکٹیٹ کر رہی ہے اور اب یہ چینل باقاعدہ مریم کی پیرول پر ہیں یہ بات سرٹیفائیڈ ہوگئی جس کے بعد اب ان کی کسی خبر کسی اسٹوری کی کوئی وقعت نہیں رہے گی۔بات لفافوں سے بہت آگے چلی گئی فراز نے لکھا کہ موجودہ حالات میں مکافات عمل کی سب سے بڑی مثال مسلم لیگ ن کی آڈیو ویڈیو چال ہے دوسروں کی آڈیوز ویڈیوز لیک کرتے کرتے اب مریم نواز کی اپنی آڈیوز لیک ہونا شروع ہو گئی ہیں اور یہ آڈیوز ان کو کہیں کا نہیں چھوڑنے والی۔۔۔ آڈیو میں مریم نواز ،میر شکیل اور میاں عامر کا نام ایسے لے رہی ہے جیسے مالکن اپنے چپڑاسی کا نام لیتی ہے راؤ بختیار کا کہنا تھا کہ ویڈیو سپیشلسٹ کے بعد پیش خدمت ہے آڈیو کوئین۔۔مریم نواز اپنا اور بکاؤ میڈیا کا کچھا چٹھا کھولتے ہوئے۔یہ چھانگا مانگا سے لے کر اب تک لوگوں کو اور میڈیا کو خرید کر اقتدار میں آتے رہے ہیں۔
مجھےمیرےشوہرسےاب بالکل الگ ہوکرہی دیکھاجائےاور یہ سمجھ لیاجائے کہ ہم تینوں اس انسان کی کمزوری نہیں ہیں۔عنبرین فاطمہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کرنیوالے صحافی احمد نورانی کی اہلیہ جو کچھ روز قبل نامعلوم افراد کے حملے کا نشانہ بنی تھی، حملے کے بعد عنبرین فاطمہ تنقید کی زد میں رہیں جس کی وجہ انکا احمد نورانی سے رشتہ تھا، اسکے بعد عنبرین فاطمہ سے متعلق مختلف افواہیں پھیلائی گئیں، اسکے احمد نورانی سے رشتے پر سوالات اٹھائے گئے جس پر عنبرین فاطمہ نے خاموشی توڑدی عنبرین فاطمہ کا کہنا تھا کہ ہم پہ ہوئے اٹیک کو مجھے دی جانے والی طلاق کے جھوٹے اور بےبنیاد دعوے کے پیچھےلیجانے کے مقاصد تاوقت میری سمجھ سے باہر ہیں،کوئی بھی لڑکی اتنی بےشرم نہیں ہوسکتی کہ اسکو طلاق ہوچکی ہو اور وہ دعوی کرے کہ مجھے طلاق نہیں ہوئی۔ عنبرین کا مزید کہنا تھا کہ مجھے اس لمحے تک بھی نہ تین حرف بولے گئے ہیں نہ ہی کبھی کوئی ڈیورس پیپرز ریسیو ہوئے ہیں،اختلافات علیحدگی نہیں ہوتے،باقاعدہ پروسیجر کےتحت شرعی رشتہ ختم کرناطلاق کہلاتی ہے۔ خاتون صحافی کا مزید کہنا تھا کہ طلاق نہ ہونے کےباوجودمیں گزارش کرتی ہوں کہ مجھےمیرےشوہرسےاب بالکل الگ ہوکرہی دیکھاجائےاور یہ سمجھ لیاجائے کہ ہم تینوں اس انسان کی کمزوری نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرےخلاف جومیرے اپنے گندی مہم چلارہے ہیں اسکا حصہ نہ بنیے۔مجھ پہ دو معصوم جانوں کی پرورش اور انکے اچھے مستقبل کی ذمہ داری ہے اسے نبھانے دیں۔ عنبرین فاطمہ نے کہا کہ کچھ فیصلے اللہ کی عدالت پہ چھوڑ دئیے جانے چاہیں میرے ساتھ مجھ پہ اٹیک ہونے کے بعد جو کچھ کیا گیا ہے میں نے اللہ کی عدالت پہ اس فیصلے کو چھوڑ دیا کیونکہ اس سے زیادہ ذلت کوئی ہونہیں سکتی کہ کسی لڑکی کو اپنے میریٹل سٹیس کے حوالے سے صفائیاں دینی پڑیں۔ انکا کہنا تھا کہ اب مجھے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے بطور ماں فیصلےکرنے ہیں جو میرا حق اور ذمہ داری ہیں جسکو جو کہنا ہے کہتارہے میرے فیصلوں کو مجھ پہ ہوئے اٹیک سے جوڑتا رہے یا سازش کہتا رہے۔ عنبرین فاطمہ نے کہا کہ میں اس وقت اس لمحے تک احمد نورانی کے نکاح میں ہوں، سمجھ سے باہر ہے کہ کس قسم کی خبریں چلائی جا رہی ہیں، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب میں مشکل میں ہوں۔
سینئر صحافی و اینکر پرسن اقرار الحسن نے لاہور کے حلقہ این اے 133 میں ووٹوں کی مبینہ فروخت سے متعلق وائرل ویڈیو کو غیر حقیقی قرار دیدیا ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر سٹنگ آپریشنز کیلئے مشہور صحافی و میزبان اقرار الحسن نے لاہور کے حلقہ این اے 133 کے ضمنی انتخابات میں مبینہ طور پر حلف لے کر ووٹ فروخت کرنے کی منظر عام پر آنے والی ویڈیو پر ردعمل دیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم سرعام گزشتہ دس برسوں سے خفیہ کیمروں کی مددسے معاشرے کی برائیوں کو بے نقاب کررہی ہے، ہم خفیہ ریکارڈنگ کےزاویوں کی سائنس اور ریکارڈنگ والے کرداروں سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی تجربے کی بنیاد پر میری رائے ہے کہ یہ ویڈیو حقیقی نہیں ہے کیونکہ اس میں یقینی بنایا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کا چہرہ نظر نہ آئے۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کےاردگر د کتنے فیصد لوگ ماسک پہنتے ہیں جو ان دونوں کرداروں نے ماسک لگا رکھا ہے، دوسرا اتنا سامنے حرکت کرنے والا خفیہ کیمرہ کون استعمال کرتا ہے، اور پھر اتنے سارے پوسٹرز لگا کر ووٹ کون خریدتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ووٹوں کی خریدوفروخت نہیں ہوتی مگر اس ویڈیو کی حد تک یہ واقعہ جھوٹا معلوم ہوتا ہے باقی اللہ پاک بہتر علم رکھنے والا ہے۔ اقرار الحسن نے اپنی دوسری ٹویٹ میں کہا کہ چار دن پہلے میں نے ثاقب نثار صاحب کی آڈیو پر تحفظات کا اظہار کیا تھا تو تحریکِ انصاف کے دوستوں نے مجھے سراہا تھا اور ن لیگ کے ساتھیوں نے بکاؤ کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج اس ویڈیو پر دلائل کے ساتھ شک کا اظہار کیا ہے تو ن لیگ والے خوش اور تحریک انصاف کے دوست بکاؤ کہہ رہے ہیں، سچ صرف وہ ہے جو ہمارے حق میں ہو۔ سوشل میڈیا صارفین نے اقرار الحسن کی جانب سے اس ویڈیو کے خلاف دلائل دینے پردلچسپ تبصرے کیے۔ شعیب احمد نے کہا کہ تحقیقات ضرور ہونی چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ ایک اور صارف نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ناظرین کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ کچھ صارفین نے اقرار کی اس ٹویٹ کو حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں ٹیگ کیا اور ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ۔ ایک صارف نے کہا کم ازکم اقرار الحسن کا ضمیر جاگ گیا۔
کچھ روز پہلے نجم سیٹھی کا ایک کلپ وائرل ہوا تھا جس میں وہ پی ڈی ایم کو مشورہ دے رہے تھے کہ اب بہت سارے گملے کیا سر بھی توڑنا پڑیں گے، اسکے بغیر کام نہیں چلے گا، بہت سی توڑپھوڑ کرنا پڑے گی پھر جاکر شاید اسٹیبلشمنٹ کو ہوش آئے ۔ سوشل میڈیاصارفین نے الزام لگایا کہ نجم سیٹھی پی ڈی ایم کو تشدد پر اکسارہے ہیں لیکن نجم سیتٹھی کا ایک اور کلپ بھی وائرل ہورہا ہے جسے سوشل میڈیا صارفین عدلیہ کی تضحیک قرار دے رہے ہیں۔ معروف صحافی، اینکر پرسن اور وی لاگر ملیحہ ہاشمی نے ٹوئٹر پر نجم سیٹھی کے پروگرام کا ایک کلپ شیئر کیا جس میں وہ عدلیہ سے متعلق بڑے بے باک انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ایک ایک جج سے متعلق بہت کچھ نکلے گا۔ نجم سیٹھی نے نجی ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے پروگرام میں کہا کہ اب آگے اور دیکھتے چلینے اب عدلیہ ہدف بنا ہوا ہے تو عدالتوں کو ڈیلیور کرنا پڑے گا۔ اگر جوڈیشری ڈیلیور نہیں کرے گی تو ایک ایک جج پر کچھ نہ کچھ نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ جج حضرات خود بتا سکتے ہیں کہ کیا نکل سکتا ہے اور کیا نہیں نکل سکتا۔ نجم سیٹھی کے اس بے باک انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ معزز جج صاحبان یہ کلپ غور سے سن کر فیصلہ کریں کہ یہ توہین عدالت نہیں تو اور کیا ہے؟ عدلیہ اپنی مسلسل توہین پر خاموش کیوں ہے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا صرف احتساب کیلئے آواز اٹھانا ہی "توہین عدالت" کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا ایک عام پاکستانی اگر یہی بات کرے تو اس کی جان یونہی چھوٹ جائے گی؟ وفاقی وزیر حماداظہر نے بھی اسے عدلیہ کی تضحیک قرار دیا اس پر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی رائے دی اور کہا کہ یہ کھلم کھلی توہین عدالت ہے، عدلیہ کو اسکا نوٹس لینا چاہئے
این اے 133 کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کو ووٹ ڈلوانے کیلئے لیگی کارکن ووٹرز سے قرآن پاک پر حلف لینے لگے۔ جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لیگی کارکنان ووٹروں سے حلف لیکر انہیں ووٹ کی پرچی اور ساتھ میں مبینہ طور پر 2،2 ہزار روپے دے رہے ہیں۔ اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے ردعمل دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹوں کی اس خریداری کے غیر اخلاقی عمل کا نوٹس لے اور اس انتخابی عمل کو فوری طور پر روکا جائے۔ آصف گوہر نے کہا کہ بطور ووٹر حلقہ این اے 133 پاکستان الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ اس خرید و فروخت کے بعد حلقہ این اے 133 میں 5 دسمبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن کو روکا جائے۔ طلحہ سلیم نے کہا کہ ووٹ کی قیمت دودو ہزارلگاتے پھر رہےہیں۔ ن لیگ نے سیاست میں پیسے کی جو بنیاد رکھی تھی پی ٹی آئی کی حکومت بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ ن لیگ این اے 133 میں پھر سے پیسے کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے اور الیکشن کمیشن چپ ہے۔ تنزیل رحمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو جب ن لیگ کے متعلق کوئی خبر کس پتہ چل جاتا ہے تو اسکی کچھ ایسی حالت ہوتی ہے۔ مغیث علی نے لکھا کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کی جانب سے ووٹ خریدنے کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا، اب دیکھتے ہیں الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرتا ہے؟ تحریک انصاف کے فرخ حبیب نے الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، کہا ویڈیوز سے بڑا اور کیا ثبوت چاہے، ضمیر خریدے جارہے ہیں۔ غازی افضل نے کہا کہ ن لیگ کے ووٹ خریدنے کی غیر آئینی اور غیر قانونی مجرمانہ سرگرمی پر پاکستان کے آئینی اداروں یعنی الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، پولیس، ایف آئی اے، نیب اور انٹیلیجنس کا کردار کیا ہونا چاہئیے؟ نوشین یوسف نے لکھا کہ ویسے اگر ن لیگ لاہور میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ووٹ خرید رہی ہے تو اسے شرم آنی چاہیے۔ عقیل باجوہ نے لکھا کہ انتہائی افسوس کا مقام ھے پارٹی کے کسی رہنما نے ابھی تک پیسوں سے ووٹ خریدنے کی ویڈیو پر کوئی ٹویٹ نہیں کی اور نہ ھی الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ھے حالانکہ ووٹ کی خریدو فروحت انتہائی سنگین جرم ھے۔
گلوکار ابرار الحق کمسن بچی کی روٹی پکانے کی ویڈیو شیئر کرنے پر تنقید کی زد میں آ گئے ٹوئٹر پر ابرار الحق نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ایک 5 سے 6 سال کی چھوٹی سی بچی کو روٹی بناتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں سنا جاسکتا ہے کہ اسی دوران ان کی والدہ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور گلوکار ابرارالحق نے سوشل میڈیا پر کمسن بچی کی روٹی بنانے کی ویڈیو شیئر کی اور کیپشن میں لکھا کہ "ٹریننگ کی یہی صحیح عمر ہے"۔ اس کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ان پر تنقید کرنا شروع کر دی اور کہا کہ اتنی چھوٹی عمر میں بچی کو زندگی گزارنے کیلئے اعتماد سیکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ روٹی پکانا۔ ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ کیا بہت دیر نہیں ہو گئی کیونکہ اس کو اپنی پیدائش کے روز ہی یہ سیکھ لینا چاہیے تھا کہ اس کا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے۔ رمشا طاہر نے کہا کہ پہلے اپنی بچیوں کو تعلیم دلاؤ، روٹی بنانا بعد میں بھی سیکھا جا سکتا ہے۔ روٹی تو تنور سے بھی لائی جا سکتی ہے اور ویسے بھی یہ کس نے کہا ہے کہ روٹی بنانا سیکھنے کی یہی صحیح عمر ہے۔ جہاں سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے ان پر تنقید کی وہیں ایسے صارفین بھی موجود ہیں جنہوں نے کہا کہ اس پر اعتراض کرنے والے فیمنسٹ ہی ہو سکتے ہیں۔ حریم کامران نے کہا کہ ہمارے دیسی فیمنسٹ طبقے کو چیخنے کیلئے ایک اور موضوع مل گیا ہے۔ سدرہ قریشی نے کہا کہ بالکل یہی صحیح عمر ہے لڑکیوں کو سیکھنا چاہیے کیونکہ بھوکا نہیں مرنا، وہ بھی اسی طرح اسی عمر میں روٹی بنانا سکھتی تھیں۔ خلیل نے کہا کہ اس ویڈیو پر اعتراض صرف انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جنہیں ابھی تک پکانا نہیں آتا۔
کچھ روز قبل میڈیا ورکر فہیم مغل نے مالی مشکلات کی بناء پر خودکشی کرلی۔فہیم مغل ایکسپریس نیوز سے وابستہ تھے اور انہیں چینل نے مالی مشکلات کو جواز بناکر نکالا تھا۔ متوفی فہیم مغل 5 بچیوں اور ایک بچے کا باپ تھا۔ خودکشی کے روز فہیم کے پاس اپنے بچے کے دودھ کیلئےبھی پیسے نہیں تھے۔ فہیم مغل کی اہلیہ کے مطابق آخری رات سونے سے قبل یہ کہا تھا کہ جب بچوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا ہوں تو ایسے جینے کا کیا فائدہ ہے۔جس پر اہلیہ نے سمجھایا کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں۔فہیم کی اہلیہ کے مطابق فہیم نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ وہ اپنے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اہلیہ کے مطابق اسکے بعد ہم سو گئے۔ جب رات کو میں اٹھی تو دیکھا کہ فہیم کی لاش پھندے سے جھول رہی تھی۔۔ فہیم کے اہلخانہ کے مطابق ایکسپریس سے نکالے جانے کے بعد فہیم نے مختلف جگہ انٹرویو دئیے لیکن انہیں کہیں جاب نہ ملی۔ اسکے بعد فہیم نے رکشہ خریدلیا لیکن کچھ خاص آمدن نہ ہوپائی۔ فہیم کے اہلیہ شہزادی فہیم کے مطابق فہیم نے بہت پرانا رکشہ خریدا تھا جو اکثر خراب اکثر خراب ہو جاتا تھا اور پھر جمع پونجی اس کی مرمت میں ہی خرچ ہو جاتی تھی ، جس کی وجہ سے وہ بچوں کے باقی خرچے پورے نہیں کرپاتا تھا۔ شہزادی کے مطابق جب فہیم کو اس ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے تو پھر انھیں میڈیا کے شعبے میں کہیں دوبارہ ملازمت نہ ملی۔ اس کے بعد فہیم نے اپنے ایک قریبی دوست سے ایک پرانا آٹو رکشہ قرض پر لیا کہ کم از کم بچوں کا پیٹ تو پال سکیں۔ دوسری جانب فہیم کرائے کے گھر میں رہتا تھا اور مختلف لوگوں سےقرض لے چکا تھا۔ اسی ماہ اس نے اپنے تین بچوں کو سکول داخل کرانے اور مکان کاکرایہ دینے کیلئے اپنی بہن سے قرض لے رکھا تھا۔ یوٹیوبر عبید بھٹی نے اس اخبار جس میں فہیم ملازمت کرتا تھا اور اسے نکال دیا گیا تھا، اس خبر کی خبر شئیر کی اور لکھا کہ اسی سلطان علی لاکھانی کے اخبار "ایکسپریس نیوز" نے خودکشی کرنے والے اپنے ورکر کی خبر یوں لگائی ہے، ملاحظہ ہو۔ عبید بھٹی کا کہنا تھا کہ صحافتی تنظیمیں جو دراصل مالکان اور سیاستدانوں کی چاکری کرتی ہیں مال اکٹھا کرتی ہیں۔ وہ اس پر بھی حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں جیسے اس صحافی کی تنخواہ حکومت کے ذمہ تھی۔ فہیم کے قریبی ساتھی محمد عمیر کا کہنا تھا کہ فہیم اورمجھ سمیت ایکسپریس کے سینکڑوں صحافیوں کوکم اشتہارات ملنے کے نام پر نکالا گیا۔اربوں کے اشتہارات کے باوجود ایکسپریس میں 8 جنگ میں 10 سال سے تنخواہ نہیں بڑھی۔جو اپنے ورکر کو حق نہیں دیتے وہ کسی کےحق کے نام پردھندہ کرتے ہیں منافقت کرتے ہیں ۔صحافی تنظیمیں بھی مالکان کی محافظ ہیں صحافی عمرانعام کا کہنا تھا کہ ایکسپریس گروپ کے مالک سلطان لاکھانی پاکستان کی 14ویں امیر ترین شخصیت ہیں۔ وہ میکڈونلڈ پاکستان سمیت درجنوں کاروبار کرتے ہیں۔ انکے اخبار سے نکالے گئے فہیم نے کل بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ بڑی صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز والے سالانہ کروڑوں کماتے ہیں لیکن فہیم جیسوں کو بیچ کر
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف ملک میں آج پیدا ہونے والے پیٹرول بحران پر پھٹ پڑیں ، انہوں نے حکومت کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا ۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر مریم نواز شریف نے ملک کے مختلف شہروں میں پیٹرول پمپس کے باہر قطاروں کے مناظر شیئر کیے اور کہا کہ یہ ہے وہ ذلت جو چند روز کے اقتدار کے لیے عمران خان نے کمائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاھور، اسلام آباد، گجرانوالہ کی یہ تصاویر صرف پیٹرول کے لیے قطاروں کی نہیں بلکہ عوام کے کرب، تکلیف اور بے بسی کی داستان ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ میری دعا ہے انھی قطاروں میں عمران خان، اسکو مسلط کرنے والے اور وزرا بھی کھڑے ہوں تاکہ انھیں پتہ چلے کہ عوام پر کیا قیامت ٹوٹی ہے۔ رہنما ن لیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو آٹا چینی اور اب پٹرول کے لیے قطاروں میں کھڑا کر دینا صرف بے حسی اور نااہلی نہیں،ظلم کی انتہا ہے۔خلقِ خدا رُل رہی ہے، تڑپ رہی ہے مگر مجال ہے ظالم حکومت کو کوئی فرق پڑے؟ مریم نواز نےوزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ایک دن بھی عوام پر ظلم و قیامت ڈھانے والے عمران خان کو عوام کی تکلیف پر پریشان ہوتے نہیں دیکھا، عبرت کا نشان۔ عمران خان۔ واضح رہے کہ پیٹرول پمپس ڈیلرز ایسوسی ایشن پاکستان نے منافع کی شرح میں اضافے سے متعلق اپنے مطالبات نہ مانے جانے پر آج ملک بھر میں ہڑتال کررکھی ہے جس کے بعد عوام پیٹرول حاصل کرنے کیلئے ذلیل و خوار ہونے پر مجبور ہے۔
سابق چیف جسٹس کی آڈیو ٹیپ کے معاملے پر بھانڈا پھوٹنے پر احمد نورانی کا ردعمل۔۔ آڈیوٹیپ کے دعوے پر قائم گزشتہ روز سماء ٹی وی کے صحافی سہیل رشید نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ لیکڈ آڈیو کی حقیقت عوام کے سامنے رکھ دی اور یہ بتادیا کہ آڈیو ٹیپ بنانے کیلئے سابق چیف جسٹس کی کون کونسی تقاریر سے الفاظ اٹھائے گئے جو انہوں نے مختلف تقریبات میں کی تھیں۔ مختلف تقایر سے الفاظ اٹھاکر آڈیو جوڑنے کے اس عمل کو سماء ٹی وی نے اسے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا قرار دیا۔۔ صحافی سہیل رشید کے مطابق یہ آڈیو کلپ بنانے کیلئے 2015 اور 2016 کی سابق چیف جسٹس کی تقاریر استعمال کی گئی تھیں۔ اس پر انصارعباسی نے ایک ٹوئٹر پیغام لکھا جس میں انکا کہنا تھا کہ "احمد نورانی کی ثاقب نثار کے متعلق مبینہ وڈیو کے بارے میں سماء نیوز کی تحقیق نے معاملہ کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ کون سچ بول رہا ہے کون جھوٹ اس کا فیصلہ صرف اور صرف آزادانہ انکوائری کے ذریعے ہی ہو گا۔ چیف جسٹس اس معاملہ پر انکوائری کا حکم دیں"۔ اس پر احمد نورانی نے مختلف تاویلیں اور وضاحتیں پیش کیں۔ تاویلیں پیش کرتے ہوئے احمد نورانی کا کہنا تھا کہ "کسی بھی تازہ بیان میں بولےگئےمختلف الفاظ کوماضی کےبیانات میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ میں نےآڈیو چھپا کر نہیں رکھی، باقاعدہ جاری کی ہے۔ وقت ضائع کرنےکی بجائےاصل طریقہ یہ ہوگاکہ میری آڈیوکا فورنزک کروا کر اسےغلط ثابت کردیاجائے۔ میں نے ایک بڑے ادارےکی فارنزک رپورٹ باقاعدہ جاری کی ہے"۔ ایک آن لائن ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "مجھے اس بات پر ہنسی آ رہی ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ اس آڈیو کو کاٹ چھانٹ کرکے بنایا گیا کیونکہ میں نے جس امریکی فرانزک لیب سے اسے چیک کرایا اس نے اپنی مکمل رپورٹ میں کہا ہے کہ اس میں کسی قسم کی ایڈیٹنگ نہیں کی گئی"۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ " میری یہ ذمہ داری تھی کہ میں اپنی اس خبر کیلئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بھی موقف حاصل کروں۔ اس مقصد کیلئے میں نے انھیں ٹیلی فون کیا اور تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں تو انہوں نے پورے وثوق کیساتھ کہا کہ کیس کے دوران ان سے کبھی کسی فوج کے بندے نے رابطہ نہیں کیا۔ عدلیہ پر کسی قسم کا دبائو نہیں تھا"۔
سابق چیف جسٹس کی جس آڈیو کا فرانزک کمپنی نے آڈٹ کیا، اسکی حقیقت کیا ہے؟ گزشتہ رات سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار سے منسوب ایک آڈیو سوشل میڈیا پر منظرعام پر آئی جسے ایک صحافی احمد نورانی نے جاری کیا۔ اس آڈیو ٹیپ میں ثاقب نثار مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی جگہ بنانے کے لیے نواز شریف کو سزا دینی ہوگی۔ آڈیو ٹیپ میں وہ مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کو سزا دینی ہو گی اگرچہ مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سے منسوب سوشل میڈیا پر زیرگردش مبینہ آڈیو کلپ کی تردید کردی اور کہا کہ یہ من گھڑت آڈیو مجھ سے منسوب کی گئی ہے، جو میں نے بھی سنی ہے۔ اس کمپنی سے متعلق مریم اورنگزیب نے دعویٰ کیا تھا کہ "آواز کے حقیقی اور درست ہونے کا سائنسی اور جدید تجزیہ کرنے والی امریکی کمپنی کا تصدیق نامہ پیش خدمت ہے کہ یہ ثاقب نثار ہی کی آواز ہے۔ اعمال نامہ حاضر ہے جناب۔عذر گناہ بدتر از گناہ"۔ عمرچیمہ کا کہنا تھا "جسٹس ثاقب نثار کو آڈیو کو جعلی قرار دینے کا پورا حق ہے لیکن کے پاس یہ دو ماہ سے تھی اور چلانے میں تاخیر اسی لئے ہوئی کہ اسکا فورنزک کرانا مقصود تھا تاکہ یہ ابہام بھی دور ہو جائے کہ اصلی ہے یا جعلی، اب یہ صرف جعلی قرار دینے سے جعلی ثابت نہیں ہو گی" گیریٹ نامی کمپنی جس نے سابق چیف جسٹس کی آڈیو کا فرانزک آڈٹ کیا، اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ 13 سال سے کام کررہی ہےلیکن اس کمپنی کی ویب سائٹ پر جائیں تو اس کمپنی سے متعلق ایک ہی Reviewمل سکا اور وہ بھی نیگیٹو۔ جس طرح احمد نورانی اور مریم اورنگزیب نے اس کمپنی سے متعلق دعویٰ کیا، اسکی ویب سائٹ پر ریویوز کی بھرمار ہونی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہے، صرف ایک ہی ریویو سائٹ پر نظر آیا۔ اس ریویو کے مطابق یہ کمپنی فراڈ ہے، انکی ایڈورٹائزنگ پر مت جائیں، یہ جھوٹے ہیں، یہ لوگ آپ سے پیسے اینٹھیں گے، ان کا ویڈیو فرانزک آڈٹ کسی کام کا نہیں ہے۔ یہ کوئی فرانزک ایکسپرٹ نہیں ہیں، یہ سکول کے بچے ہیں جو فرانزک کررہے ہیں، یہ ثابت کریں کہ انکے پاس Validلائسنس ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ یہ کمپنی جسے ن لیگ کے حامی مستند ادارہ جو BBB سے Accredited بھی نہیں اس کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کمپنی فرم سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم سے لیئےگئے سیمپل کا فرانزک نہی کرتی ، مزید براں غیرقانونی طور پر حاصل کیا مواد عدالت میں تسلیم نہیں کیاجاتا ۔ عمران راجہ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے تحقیق کے بعد یہ معلوم کرنے کی کوشش کی اور اسے صرف آڈیو کا آغاز ہی مل سکاجو سابق چیف جسٹس کی ایک تقریر کا حصہ تھا، اس میں سابق چیف جسٹس کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس جو آرڈرزآرہے ہیں وہ من ، مرضی، منشاء پہ زیادہ ہیں،یہی بات احمد نورانی کی جاری کردہ آڈیو میں ہے۔ عمران راجہ کے مطابق امریکی ادارے نے تو اپنی فارنزک کر لی ۔۔ اب زرا دیسی فارنزک بھی کر لیں۔ ابھی تو آڈیو کا صرف آغاز ملا ہے۔ اسے احتتام تک بھی پہنچائیں گے ان شاء اللّٰہ ۔۔
کیا احمد نورانی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی تقریروں کے مختلف حصے جوڑ کر لیکڈ آڈیو بنادیا۔۔ گزشتہ رات سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار سے منسوب ایک آڈیو سوشل میڈیا پر منظرعام پر آئی جسے ایک صحافی احمد نورانی نے جاری کیا۔ اس آڈیو ٹیپ میں ثاقب نثار مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی جگہ بنانے کے لیے نواز شریف کو سزا دینی ہوگی۔ آڈیو ٹیپ میں وہ مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کو سزا دینی ہو گی اگرچہ مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سے منسوب سوشل میڈیا پر زیرگردش مبینہ آڈیو کلپ کی تردید کردی اور کہا کہ یہ من گھڑت آڈیو مجھ سے منسوب کی گئی ہے، جو میں نے بھی سنی ہے۔ عمران راجہ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے تحقیق کے بعد یہ معلوم کرنے کی کوشش کی اور اسے صرف آڈیو کا آغاز ہی مل سکاجو سابق چیف جسٹس کی ایک تقریر کا حصہ تھا، اس میں سابق چیف جسٹس کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس جو آرڈرزآرہے ہیں وہ من ، مرضی، منشاء پہ زیادہ ہیں،یہی بات احمد نورانی کی جاری کردہ آڈیو میں ہے۔ عمران راجہ کے مطابق امریکی ادارے نے تو اپنی فارنزک کر لی ۔۔ اب زرا دیسی فارنزک بھی کر لیں۔ ابھی تو آڈیو کا صرف آغاز ملا ہے۔ اسے احتتام تک بھی پہنچائیں گے ان شاء اللّٰہ ۔۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سماء کے صحافی سہیل رشید نے کہا تھا کہ سہیل رشید نے اس آڈیو کا پوسٹمارٹم کیا اور لکھا کہ "سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو آگئی ۔ پانچ بار سنی ، خدا لگتی کہوں مجھے یہ دو بندوں کے درمیان کا مکالمہ نہیں لگا۔ ثاقب نثار کا لہجہ تقریر والا ہے اور ماضی کا صیغہ استعمال لر رہے ہیں، سیاق و سباق ہی واضح نہیں جبکہ دوسری سائیڈ کی آواز نے حال کا صیغہ استعمال کیا "۔ انکا مزید کہنا تھا کہ "خبر پڑھ کر ایک سوال کا جواب نہیں ملا کیا یہ ٹیلی فون کال ریکارڈنگ ہے؟ اگر ہاں تو پوری کال کیوں نہیں؟ کیا یہ کسی جگہ یوں ہی کی گئی گفتگو ہے ؟ پھر دوسری سائیڈ والی آواز فون کی کیوں ہے؟"
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار سے منسوب نئی مبینہ آڈیو سامنے آگئی۔ اس آڈیو ٹیپ میں ثاقب نثار مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی جگہ بنانے کے لیے نواز شریف کو سزا دینی ہوگی۔ آڈیو ٹیپ میں وہ مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کو سزا دینی ہو گی اگرچہ مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سے منسوب سوشل میڈیا پر زیرگردش مبینہ آڈیو کلپ کی تردید کردی اور کہا کہ یہ من گھڑت آڈیو مجھ سے منسوب کی گئی ہے، جو میں نے بھی سنی ہے۔ سابق چیف جسٹس کی اس مبینہ آڈیو پر ن لیگی سپورٹرز اور رہنماؤں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا اور وہ ہر حد پار گئے اور عدلیہ ،فوج سے متعلق نامناسب زبان کا استعمال کرتے رہے۔ ن لیگی سپورٹرز نے #ثاقب_نثار_کو_پھانسی_دو ٹرینڈ چلادیا تو ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف ثاقب نثار کا احتساب ہونا چاہئے بلکہ اس سزائے موت دینی چاہئے، کچھ کا کہنا تھا کہ سزا کا حقدار صرف ثاقب نثار نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو اسکے پیچھے تھے۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار سے منسوب نئی مبینہ آڈیو سامنے آگئی۔ اس آڈیو ٹیپ میں ثاقب نثار مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی جگہ بنانے کے لیے نواز شریف کو سزا دینی ہوگی۔ آڈیو ٹیپ میں وہ مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کو سزا دینی ہو گی اگرچہ مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سے منسوب سوشل میڈیا پر زیرگردش مبینہ آڈیو کلپ کی تردید کردی اور کہا کہ یہ من گھڑت آڈیو مجھ سے منسوب کی گئی ہے، جو میں نے بھی سنی ہے۔ سابق چیف جسٹس کی اس مبینہ آڈیو پر مختلف صحافیوں کا ردعمل بھی سامنے آیا، کچھ نے اس آڈیوٹیپ کو دھماکہ قرار دیا تو کچھ نے کہا کہ یہ آڈیوٹیپ فیربیکیٹڈ ہے، کچھ کے مطابق چیف جسٹس کو اس پر سوموٹو لینا چاہئے۔ سہیل رشید نے اس آڈیو کا پوسٹمارٹم کیا اور لکھا کہ "سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو آگئی ۔ پانچ بار سنی ، خدا لگتی کہوں مجھے یہ دو بندوں کے درمیان کا مکالمہ نہیں لگا۔ ثاقب نثار کا لہجہ تقریر والا ہے اور ماضی کا صیغہ استعمال لر رہے ہیں، سیاق و سباق ہی واضح نہیں جبکہ دوسری سائیڈ کی آواز نے حال کا صیغہ استعمال کیا "۔ سہیل رشید نے مزید لکھا کہ "خبر پڑھ کر ایک سوال کا جواب نہیں ملا کیا یہ ٹیلی فون کال ریکارڈنگ ہے؟ اگر ہاں تو پوری کال کیوں نہیں؟ کیا یہ کسی جگہ یوں ہی کی گئی گفتگو ہے ؟ پھر دوسری سائیڈ والی آواز فون کی کیوں ہے؟" امیر عباس کا کہنا تھا کہ "یہ آڈیو سیاست میں ایٹمی دھماکے سے کم نہیں لیکن المیہ یہ دھماکہ نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کرنیوالے بار بار کی رسوائی کے باوجود سیکھیں گے پھر بھی نہیں۔ ان محلاتی سازشوں اور گھناونی وارداتوں کو روکنے کا اس سے بہتر موقع شائد نہ ملے اس لئے بآواز بلند سچ بولیں " غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ "سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے آج دوبارہ بات ہوئی۔ اُن سے زیرِ گردش مبینہ آڈیو لیک کے متعلق دریافت کیا۔ ثاقب نثار نے کہامیرا ایک جملے پر مشتمل جواب ہے “It’s all fabricated”۔ میں نے پوچھا کیا وجہ ہے کہ تواتر سے اُنکے متعلق ایسی چیزیں سامنے آ رہی ہیں؛کہنے لگے آپ صحافی ہیں آپ کو علم ہے"۔ عادل شاہزیب نے مستقبل میں مزید انکشافات سامنے آنے کی پیشنگوئی کی ماریہ ذوالفقار نے آڈیوشئیر کرتے وہئے تبصرہ کیا " مختاریا! گل ودھ گئی اے۔۔ لگتا ہے کہ بابارحمتے پھڑیا گیا" عمرچیمہ کا کہنا تھا "جسٹس ثاقب نثار کو آڈیو کو جعلی قرار دینے کا پورا حق ہے لیکن کے پاس یہ دو ماہ سے تھی اور چلانے میں تاخیر اسی لئے ہوئی کہ اسکا فورنزک کرانا مقصود تھا تاکہ یہ ابہام بھی دور ہو جائے کہ اصلی ہے یا جعلی، اب یہ صرف جعلی قرار دینے سے جعلی ثابت نہیں ہو گی" اسد نامی صحافی نے تبصرہ کیا "اگر یہ آڈیوز وغیرہ اتنی ہی مستند ہوتیں تو انہیں عدالتوں میں اس وقت پیش کیا جاتا جب کیسز چل رہے تھے، آخر تب یہ آڈیوز کیوں پیش نہیں کی گئیں؟ اس لئے کہ اس وقت وقت پروڈکشن ہاؤس مکمل آپریشنل نہیں تھا جو ان جعلی قسم کی چیزوں کو جوڑ جوڑ کر پروپیگنڈہ کے قابل بنا سکتا؟" مریم نواز کی مبینہ لیکڈ آڈیو شئیر کرتے ہوئے مخدوم شہاب الدین نے تبصرہ کیا "پاکستانیو! دیکھتے رہنا کہ آزادی صحافت کے نام نہاد علمبردار صحافیوں میں سے کون کون اس کی تردید کرتا ہے"۔ ندیم ملک کا کہنا تھا کہ "جھوٹ یا سچ: سازش بےنقاب کریں عدلیہ کی آزادی کا تقاضا ہے کہ اس مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کی سپریم کورٹ کھلی عدالت میں تحقیقات کروائے- " صحافی عمران وسیم نے تبصرہ کیا کہ "آڈیو ٹیپ کے بعد تمام نظریں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر ٹک گئی ہے کہ وہ اس پر کوئی ایکشن لیتے ہیں یا نہیں کیونکہ آڈیو اسکینڈل کے مطابق تو مبینہ طور پر چیف جسٹس کا آفس استعمال ہوا"۔ سماء کے صحافی ذوالقرنین اقبال نے کہا کہ "جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے۔۔ صفحہ پھٹنے کی امید لگائے لوگوں کی اپنی دو صفحوں والی کاپی پھٹنے پر آئی تو ایک کے بعد ایک جعلسازی شروع کر دی " جس پر صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ"بات اتنی بھی سادہ نہیں جتنی آپ کہہ رہے ہیں صحافی احمد نورانی تحقیقاتی صحافت میں ایک بڑا نام ہے ان کے بقول آڈیو کو امریکہ کے مستند ادارے سے فرانزک کرایا گیا اب ایک طرف سابق چیف جسٹس کی تردید دوسری طرف دستاویزی ثبوت ، اس لیے بغیر کسی ثبوت کے یہ معاملہ نظر انداز نہیں ہو سکتا"
سابق چئیرمین پیمرا ابصار عالم نے دعویٰ کیا کہ جب بطورچیئرمین پیمرا میں نے عامر لیاقت کے شو پر پابندی لگائی کیونکہ وہ صحافیوں کی فیملی کو گالیاں دیتے تھے، دشنام طرازی، کفر کے فتوے لگاتے تھے، اخلاق سے گری ہوئی گالیاں دیتے رہے۔ ابصار عالم نے دعویٰ کیا کہ اسی دوران جنرل فیض حمید کا مجھے فون آیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، ہم نے سمجھا کوئی سیکیورٹی ایشو ہوگا، وہ آئے اور کہنے لگے عامر لیاقت کو کچھ نہ کہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے جنرل فیض حمید کو انکار کردیا اور وہ چلے گئے۔ ابصارعالم کے دعوے پر صحافی صدیق جان کا کہنا ہے کہ ابصار عالم صاحب آپ اب جو قصے بیان کرتے ہیں کہ جنرل فیض نے بند کمرے میں آپ کے ساتھ کیا کچھ غلط کیا تھا، تو اس وقت آپ نے اپنے مالک نواز شریف کو یہ باتیں نہیں بتائیں تھیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ اس وقت عزت، انقلاب اور جمہوریت کے لیے چند ٹکوں کی نوکری قربان نہیں کرسکتے تھے تو اب بھی ہیرو نہ بنیں پلیز۔ عمران افضل راجہ نے کہا کہ یہ آج کا سب سے بڑا لطیفہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے مجھے فون کیا اور میں نے انہیں کہا آپ میرے دفتر تشریف لائیں۔وہ آئے اور انہوں نے کہا “عامر لیاقت کو کچھ نا کہیں"، ان کا کہنا تھا کہ یہاں تک بات ٹھیک ہوتی اگر ابصار عالم یہ نا کہتا “میں نے انہیں کہا ایسا نہیں ہوسکتا”۔ معاویہ یاسین کمبوہ نے ردعمل میں کہا کہ عامر لیاقت کے بیان کہ "ہم لائے گئے ہیں" پر سابق چئرمین پیمرا ابصار عالم نے مہر ثبت کردی۔ عابد حمید نے کہا کہ کل جس طرح کی تقریریں اور گفتگو ابصار عالم، علی احمد کرد، مولانا فضل الرحمان اور دیگر نے کیں مجھے لگتا ہے انقلاب دستک دے رہا ہے۔ اب یہ"مقتدرہ" کے ہاتھ میں ہے کہ یا تو انقلاب کو ٹالیں یا پھر انقلاب برپا ہونے دیں۔ ایک صارف نے اس پر رؤف کلاسرا اور عامر متین کا ردعمل شیئر کیا جس میں روف کلاسرا بتاتے ہیں کہ ابصارعالم نے نوازشریف دور میں کون کونسی مراعات قواعدوضوابط سے ہٹ کرلیں۔ تحریم سکندر علی نے کہا کہ تمہاری خود کی سفارش کس نے کی کہ تم جیسا میٹرک پاس شریفوں کا چپڑاسی چئیرمین پیمرا لگ گیا وہ بھی لاکھوں روپے کی تنخواہ اور مراعات کے ساتھ؟ ملک عثمان نے کہا کہ آپکی بات بلکل ٹھیک ہو گی لیکن یہ بھی تو بتائیں عوام کو کہ آپ توایک صحافی تھےلیکن آپ کس کی سفارش پرچیئرمین پیمرا لگے تھے جس کہ بعد آپ نےخوداعلان بھی کیا تھا کہ آپ اب صحافی نہیں رہےآپکو اچھا عہدہ مل گیا ہےکس نےآپکوصحافی سے چیئرمین کا تحفہ کس خوشی میں دیا۔ راؤ امجد ندیم نے کہا کہ یہ بات حاجی ابصار عالم نے اس وقت کیوں نہ بتاٸی؟
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ایک بار پھر رمضان شوگر مل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا اور کہا ہے کہ رمضان شوگر مل میرے والد کی تھی، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ، لاہور کی بینکنگ کورٹ میں مالیاتی اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ میرے اقدامات کی وجہ سے میرے بچوں کی شوگر ملز کو اربوں کا نقصان ہوا، یہ وہی کیس ہے جو نیب میں بھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے شہباز شریف نے کہا تھا کہ میرا شوگر اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں ہے، شوگر ملز کا کاروبار میرے بچوں کا ہے میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، میرے بچے خود مختار ہیں۔ شہبا شریف کا مزید کہنا تھا کہ نہ شوگر مل کا ڈائریکٹر ہوں نہ پالیسی بنانے میں کوئی کردار ہے، مجھ پر جھوٹا کیس بنایا گیا ہے شہباز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ شوگر ملز کاکاروبار میرے والد سے میرے بچوں کو منتقل ہوا میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے پانامہ کیس کے دوران شہباز شریف کے بیان کی ایک ویڈیو شئیر کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے فخر ہے اس بات پہ کہ میرے والد کا تعلق ایک غریب کسان خاندان سے تھا ۔ ہندوستان سے وہ 1930 کی دہائی میں ہجرت کر کے آئے اور لاہور میں اپنے بھائیوں کے ساتھ "مزدوری" شروع کی حافظ توصیف نے اس ویڈیو پر تبصرہ کیا کہ شوگر مل میرے والد کئ تھی شہباز شریف کاروبار میرے بیٹوں کے ہیں شہباز شریف جناب شہباز شریف صاحب آپکو ایک عاق نامہ چاہئے آپکے والد کی طرف سے دوسرا آپکو اظہار لا تعلقی کا اشتہار چاہئے جو آپکی اولاد کئ طرف سے ہو تب عدالتیں اور قوم آپ کے ان بیانوں پر یقین کرے گی ۔ ڈاکٹر منصور کلاسرا نے تبصرہ کیا کہ پہلے بیٹوں کا کہا کہ سب کچھ انکا ہے میرا کوئی تعلق نہیں اب باپ پہ ڈال دیا ہے ،انسان کو ناجائز مال چھپانے کے لیے پتہ نہیں کیا کیا کرنا پڑتا ہے، مدثر نے طنز کیا کہ جی آپکے والد صاحب تو غریب کسان تھے یہ رمضان شوگر مل والا بندہ نوازشریف کا والد ہو گا ۔ احمد ندیم نے شہباز شریف کا حوالہ دیکر طنز کیا تھا کہ ان فیلڈر اپارٹمنٹس کے لئے پیسے میرے والد نے قطری سے لے کر ڈائریکٹ حسین نواز کو دئیے، اس سے نوازشریف کا کوئی تعلق نہیں- اس کا تعلق صرف اس کی کمائی سے ہے- جبکہ نوازشریف تو اب خیر ڈھٹائی سے انھی فلیٹس میں رہ رہا ہے دیگرسوشل میڈیا صارفین نے بھی اس پر تبصرے کئے۔

Back
Top