خبریں

کراچی، اورنگی ٹاؤن کے علاقے منصور نگر میں فائرنگ سے مرنے والے شخص کی شناخت مبینہ ٹارگٹ کلر شاہین بہاری کے نام سے کرلی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق خود کشی کرنے والا ٹارگٹ کلر شاہین بہاری ہے جس نے چند روز قبل ساتھی کے ساتھ مل کر پولیس افسر کو شہید کیا تھا اور اب پولیس چھاپوں سے پریشان ہو کر خود کشی کی ہے۔ ایس ایس پی ویسٹ سہائی عزیز نے بتایا کہ انتہائی مطلوب ٹارگٹ کلر شاہین بہاری نے گرفتاری کے ڈر سے خود کو گولی مار کرخود کشی کرلی ہے۔ شاہین بہاری نامی شخص ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ ایس ایس پی ویسٹ سہائی عزیز نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے ایک پستول اور خود کشی سے پہلے اس کے اپنے ہاتھ کا لکھا خط ملا ہے۔ سہائی عزیز نے کہا کہ شاہین نے ساتھی کے ساتھ 28 اگست کو اے ایس آئی اکرم خان کو شہید کیا تھا جس کے بعد گزشتہ دنوں ملزم کے ساتھی آصف بھایا کو رینجرز اور پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ ایس ایس پی ویسٹ سہائی عزیز کے مطابق اے ایس آئی کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی شاہین بہاری نظر آ رہا تھا۔
لاہور، انویسٹی گیشن پولیس نے زیادتی کے جھوٹے مقدمات درج کرواکر معصوم شہریوں سے لاکھوں روپے بٹورنے والی ملزمہ کو گرفتار کرلیا ہے۔ ملزمہ لاہور سمیت دیگر شیروں میں متعدد جھوٹے مقدمات درج کروا چکی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مختلف سرکاری و سیاسی شخصیات پر زیادتی کے مقدمات درج کرانیوالی ملزمہ کاسراغ لگالیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون نے ایم پی اے، محکمہ داخلہ، انکم ٹیکس افسروں سمیت دیگرشخصیات پر مقدمات درج کرائے۔ گرفتار ملزمہ عظمی شہزادی رحیم یار خان کی رہائشی ہے, عظمیٰ شہزادی نے تحریم، خنسہ، شازیہ اور طیبہ کے نام سے مقدمات درج کرائے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے خلاف بھی فراڈ، چوری، دھمکیوں اور دھوکہ دہی کے 7 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ ملزمہ نے محکمہ داخلہ کے افسر کے خلاف گلشن راوی میں مقدمہ درج کرایا تھا، خنسہ کے نام سے انکم ٹیکس افسر کیخلاف بھی مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ عظمیٰ کے نام سے ایک ایم پی اے کے خلاف مقدمہ درج کرایا جبکہ تمام مقدمات کو جھوٹا ہونے کے باعث خارج کر دیا گیا۔ خاتون مقدمات کے اندراج کے بعد بھاری رقم کا مطالبہ کرتی تھی اور کئی اہم شخصیات خاتون کو بھاری رقم ادا کر چکی ہیں۔ خاتون نے رکن پنجاب اسمبلی فیصل خان نیازی سمیت مختلف افراد کے خلاف زیادتی کے دس جھوٹے مقدمات درج کروائے۔ خاتون مقدمات کے اندراج کے بعد شہریوں سے بھاری رقم کا مطالبہ کرتی تھی، خاتون کے جھوٹے مقدمات سے متاثرہ افراد میں سیاستدان، زمیندار، سرکاری ملازمین اور عام شہری بھی شامل ہیں۔
امریکا نے ایک بار پھر پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کردیا، وزیرخارجہ انٹونی بلکن نے کہا کہ افغانستان کے مستقبل پر پاکستان سے تعلقات کا آئندہ ہفتوں میں دوبارہ جائزہ لیا جائے گا کہ افغانستان کے مستقبل میں واشنگٹن کیا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور پاکستان سے کیا توقعات رکھتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پہلی بار ارکان کانگریس کے سوالوں کے جواب دییے، جس میں انہوں نے واضح کہا کہ جب تک افغان طالبان عالمی مطالبات پورے نہ کرے، خواتین کو حقوق نہ دے، پاکستان طالبان کو تسلیم نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے نکلنے کے خواہشمندوں کو جانے کی اجازت دینے، افغان سرزمین کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بننے کے وعدے کی پاسداری تک پاکستان نئی افغان حکومت تسلیم نہ کرے،افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے متعدد مفادات ہیں جن میں سے کچھ ہمارے مفادات سے اختلاف رکھتے ہیں،ان مفادات میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے مستقل طور پر کوششیں کرنا ہے۔ انٹونی بلنکن نے کہا کہ طالبان کے ممبران کی پشت پناہی، امریکا کے انسداد دہشتگردی کے لیے تعاون ان مفادات میں شامل ہے، گذشتہ بیس سالوں کے دوران پاکستان نے جو کردار ادا کیا ، اور وہ کردار جو ہم آئندہ سالوں میں دیکھنا چاہتے ہیں،پاکستان کا افغانستان میں کردار رہا ہے،پاکستان نے امریکا کے ساتھ تعاون بھی کیا اور ہمارے مفادات کے خلاف بھی رہا۔ وزیرخارجہ نے بتایا کہ افغانستان میں سفارتی مشن شروع کردیا ہے، طالبان نے کابل کی طرف تیز مارچ کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی،افغانستان میں امریکی اہداف حاصل کر لیے گئے تھے، وقت آگیا تھا کہ امریکاکی طویل جنگ کا خاتمہ کیا جاتا، طالبان سے معاہدہ ہمیں پچھلی انتظامیہ سے ملا۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایوان نمائندگان کی کمیٹی کو بتایا کہ اشرف غنی کی حکومت کو بتایا تھا کہ افغانستان کا بھرپور دفاع کریں،اگر صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں مسلح افواج کو تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو خاص تعداد میں امریکی فوج کو افغانستان میں تعینات کرنا پڑتا، تاکہ اپنا دفاع کرنے کے ساتھ طالبان کی چڑھائی کو روکنے کا کام کیا جائے، جس کا مطلب مزید جانوں کا نقصان ہوتا۔
سندھ حکومت نے علیل لیجنڈری اداکار عمر شریف کو امریکا لے جانے کے لیے ائیر ایمبولینس کا بندوبست کردیا ہے،چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری ، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے یقین دہانی کرادی۔ وفاقی حکومت ویزے کے حصول میں عمر شریف کی مدد کرے گی، عمر شریف کی اہلیہ زرین عمر شریف نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عمر شریف ائیر ایمبولینس کے ذریعے امریکی دارالحکومت واشنگٹن جائیں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے عمر شریف کے ویزے کے حوالے لئے ضروری دستاویزات اہل خانہ کے توسط سے امریکی سفارتخانے میں جمع کروا دی گئی ہیں،اداکار عمر شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کے حوالے سے آج ویزا ملنے کا امکان ہے۔ امریکا میں عمرشریف کے ڈاکٹر طارق شہاب کا کہنا ہے کہ عمر شریف کے علاج میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے،عمر شریف کی اہلیہ نے قوم سے دعا کی اپیل کردی، جبکہ عمر شریف کے بیٹے جواد عمر نے والد کے لیے دعا گو تمام افراد کا شکریہ بھی اداکیا۔ عمر شریف کراچی کے اسپتال میں زیر علاج ہیں، ان کی اہلیہ کے مطابق دل کا دورہ پڑنے کے باعث عمر شریف کی شریانوں سے خون بہہ رہا تھا، جس کیلئے فوری کلپنگ کی ضرورت تھی، اہلیہ نے حکومت سے فوری بیرون ملک منقتلی کے انتظامات کی اپیل کی تھی۔ جبکہ سوشل میڈیا پر زریں غزل کی جانب سے ایک پوسٹ شیئر کی گئی ہے ، جس میں اہلیہ عمر شریف نے مداحوں سمیت حکومتی وزراء کا شکریہ اداکرتے ہوئ کہا " اچھی خبر یہ ہے کہ عمر شریف کی طبیعت بہتر ہے اور وہ ائیر ایمبولنس میں سفر کرنے کے قابل ہیں"
برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت 24 ممالک کو رواں ہفتے ریڈ لسٹ سے نکالے جانے کا امکان ہے۔ ان میں ارجنٹینا، بنگلہ دیش، بولیویا، چلی، کولمبیا، ایکواڈور، مصر ایتھوپیا، انڈونیشیا، کینیا، عمان وغیرہ شامل ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے ڈیلی میل کے مطابق پی سی ٹریول ایجنسی کے چیف ایگزیکٹو پال چارلس نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں کورونا کی کوئی نئی قسم سامنے نہیں آئی جب کہ برطانیہ میں کورونا کے ڈیلٹا قسم پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ چارلس نے کہا کہ موجودہ حالات کی روشنی بہت سارے ممالک کو ریڈ لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ سفری شعبے کو مضبوطی سے بحال کرنے میں مدد دینے کے لئے اس فہرست کو مختصر کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں برطانیہ نے پاکستان سمیت متعدد ممالک کو کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ریڈ لسٹ میں شامل کیا تھا۔ برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ ان ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے تاکہ ہم اپنے ملک کو کورونا وائرس کی نئی اقسام سے بچا سکیں۔ برطانوی حکومت نے اس فیصلے کے حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ممالک سے آنے والے ایسے افراد جن کے پاس برطانیہ یا آئرلینڈ کی شہریت موجود ہو یا کسی تیسرے ملک کے ایسے شہری جن کے پاس برطانیہ کا ریزیڈنسی ویزا موجود ہو، انھیں برطانیہ پہنچے پر 10 دن تک سرکاری طور پر منظور شدہ ہوٹل میں لازمی قرنطینہ میں رہنا ہو گا۔ یاد رہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے کیے گئے اعلان کے مطابق پاکستان سے آنے والوں پر 10 روزہ ہوٹل قرنطینہ کی پابندی لازم ہے ، جس کے پیش نظر قرنطینہ میں رہنے والے افراد کو 2 ہزار پاؤنڈ یعنی پانچ لاکھ پاکستانی روپے کے اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں برطانیہ نے ہوٹل میں قرنطینہ کے اخراجات میں بھی تقریباً 400 پاؤنڈ کا اضافہ کر دیا ہے جو قرنطینہ کرنے والوں کو خود ادا کرنا ہوتے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی کال پر متنازع میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل کے خلاف صحافیوں کا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاجی دھرنا جاری ہے، سینئیر اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دھرنے میں پہنچ گئے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کے پیش کیے جانے والے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے قیام اور صحافیوں پر مبینہ غیر اعلانیہ پابندیوں کے خلاف صحافتی تنظیموں کا احتجاج جاری ہے، حکومت کی جانب سے مجوزہ میڈیا اتھارٹی بل کو صحافتی تنظیموں نے یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے صحافتی 'مارشل لا' کے مترادف قرار دیا ہے۔ صحافیوں کے احتجاجی دھرنے میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی اس کے علاوہ وکلا، برطرف سرکاری ملازمین، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے میں شریک ہیں۔ حکومتی بل کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے نیا قانون ہوگا جس میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کے حوالے سے سخت قوانین تجویز کیے گئے ہیں۔ اس موقع پر سینئیر اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ ملک میں میڈیا پر پہلے سے ہی پیمرا کے تحت سخت قوانین لاگو ہیں، وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں اس طرح کے بل کے متعارف کروانے کے بعد آزادی رائے پر کس قسم کی سختی کرنا چاہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کو اقتدار میں لانے کے لئے سپورٹ کرنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہ تبدیلی کا ساتھ دیا تھا یہ علم نہیں تھا کہ ایسی تبدیلی ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف سیاسی ادوار میں میڈیا اور صحافیوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ شرمندگی کی بات نہیں ہے کہ تبدیلی کا ساتھ دیا، انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ روایتی قسم کے سیاستدانوں کا اسٹیٹس کو ختم ہو رہا ہے اور ملک بہتری کی طرف جا رہا ہے لیکن اگر ملک کسی بھی صورت میں 40 سال پیچھے چل جائے تو میری شرمندگی یا افسوف سے کیا ہو گا۔ سینئیر اینکر 2018 کے الیکشن کی شفافیت کت حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2018 سمیت اس ملک میں کوئی بھی انتخابات شفاف نہیں ہوئے، انہوں نے مزید کہ اس ملک میں کوئی بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہیں بنتی۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے پوچھا گیا تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ کسی بھی ملک میں موجود صحافی، سیاستدان، بیوروکریسی، فوج اور دیگر عناصر ملتے ہیں تب اسٹیبلشمنٹ بنتی ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس قسم کے قانون کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ نہیں ہو سکتی، یہ قانون سراسر حکومت کی جانب سے متعارف کروایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ پی ڈی اے ’ایک آزاد، مؤثر اور شفاف‘ اتھارٹی ہو گی جو ہر قسم کے ذرائع ابلاغ بشمول ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرے گی۔اس نئے قانون کے تحت پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں چلانے کے لیے باقاعدہ حکومت سے لائسنس لینا ضروری ہو گا۔ مسودے کے مطابق کوئی بھی آن لائن اخبار، ویب ٹی وی چینل، آن لائن نیوز چینل، کسی بھی قسم کا ویڈیو لاگ، یو ٹیوب چینل، حتیٰ کہ نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم بھی ڈیجیٹل میڈیا کا حصہ ہیں، جن کے لیے لائسنس لینا ضروری ہو گا۔ مسودے میں ریاست کے سربراہ، مسلح افواج، ریاست کے قانون ساز اداروں اور عدالت کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کرنے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ اتھارٹی میڈیا کے اداروں سے مالی معاملات کی معلومات یا دیگر دستاویز بھی طلب کرنے کی مجاز ہو گی۔ اس کے علاوہ مسودہ میں کہا گیا ہے اتھارٹی سے لائسنس لینے والے اتھارٹی سے لکھا ہوا اجازت نامہ لیے بغیر کسی بھی غیر ملکی براڈ کاسٹر کو اپنا ایئر ٹائم نہیں دیں گے۔ ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تین سال تک کی سزا اور ڈھائی کروڑ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
حکومت نے وفاقی کابینہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ کر لیا، وفاقی کابینہ سے منظوری کے لئے سمری تیار کر لی گئی۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل کے روز ہوگا جس میں کابینہ 14 نکاتی ایجنڈا پر غور کرے گی۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی سمری تیار کرلی گئی جبکہ تنخواہوں میں اضافے کی سمری پر فیصلہ کابینہ اجلاس میں کیا جائے گا۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے علاوہ وفاقی کابینہ نئی رویت ہلال کمیٹی کے لیے قانون سازی کی منظوری دے گی، کابینہ ہیوی کمرشل گاڑیوں پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹیز کم کرنے کی منظوری دے گی۔ 14 اگست 2021 کو ایف بی آر ڈیٹا پر سائبر حملے کے تناظر میں آپریشنل ایمرجنسی نافذ کرنے کی بھی منظوری دی جائے گی۔ وفاقی کابینہ دیامر بھاشا ڈویلپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو کی منظوری دے گی، کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کابینہ ایجنڈا میں شامل ہے۔ کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات کے فیصلوں کی توثیق کی جائے گی۔ وفاقی کابینہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کرے گی۔ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق بھی کابینہ ایجنڈا میں شامل ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ کی تحصیل سانگھڑ میں صحافیوں پر حملہ ہوا جس میں صحافی میر الطاف اور قادر ملکونائی شدید زخمی ہوگئے۔ زخمی ہونے والے صحافیوں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما رانا ستار ان پر حملے کے ذمہ دار ہیں، صحافیوں کو شدید زخمی حالت میں مقامی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔ سندھ میں صحافیوں پر حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے صحافی برداری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 16 فروری کو سندھ کے علاقے نوشہروفیروز میں صحافی عزیز میمن کی لاش نہر سے برآمد ہوئی تھی جس پر ان کے اہل خانہ نے کہا تھا کہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔ عزیز میمن سندھی نیوز چینل ’کے ٹی این‘ اور اخبار ’کاوش‘ سے وابستہ سینئر صحافی تھے، رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ 56 سالہ صحافی کو 30 سالہ کیریئر میں اکثر جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوتی رہی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر بار کونسل کی جانب سے احتجاج پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سمجھ نہیں آتا بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ججز تقرری کے معاملے پر ہمیشہ بار کونسلز کی رائے لی گئی، ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلز کے صدور کو متعدد بار دعوت دی، بار کونسلز کے صدور کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ پشاور میں ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آتی بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں، بار کونسلز اور وکلاء کے لیے اب بھی دروازے کھلے ہیں، بار کونسلز اور وکلاء ججز تقرری کے معاملے پر آ کر مجھ سے بات چیت کریں۔ گزشتہ سال عدالتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث مقدمات نمٹانے میں مشکلات کا سامنا رہا اور عدالتوں میں زیر التواء مقدمات میں بھی اضافہ ہوا، اس کے باوجود عدالتوں کا دروازہ عوام کے لیے کھلا رکھا گیا۔ جسٹس گلزار احمد کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر 45 ہزار 644 زیر التواء مقدمات تھے،گزشتہ سال میں 20 ہزار 910 نئے مقدمات درج ہوئے جب کہ 12 ہزار 968 مقدمات نمٹائے گئے، نمٹائے جانے والے مقدمات میں 6 ہزار 797 سول پٹیشن، ایک ہزار 916 سول اپیلیں اور 469 نظر ثانی درخواستیں، 2 ہزار 625 کرمنل پٹیشنز، 681 کرمنل اپیلیں ،37 کرمنل نظر ثانی درخواستیں اور 100 اوریجنل کرمنل درخواستیں نمٹائی گئیں۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ ریفرنس کا مقصد گزشتہ سال کی کرکاردگی اور نئے سال کی منزل کا تعین کرنا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج سے قبل بینچ اور بار کے درمیان اتنی دوریاں کبھی نہ تھیں، اب وکیل ہڑتال کرتے ہیں اور عدالتوں کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ہڑتال مزدوروں کا ہتھیار تھا جو ناانصافیوں کے خلاف استعمال ہوتا تھا، اب ہڑتال کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے نئے سال کے آغاز پر ججز کی تعداد مکمل نہ ہونے کی بھی نشاندہی کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز تقرری سمیت عدلیہ کے تمام مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت ہر وقت تیار ہے۔
سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس میں ازخود نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے )، چیئرمین پیمرا اورآئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کئے جانے سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ اور آئی جی اسلام آباد پولیس قاضی جمیل الرحمان عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ازخود نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی جبکہ چیئرمین پیمرا سے چینلز کیخلاف کارروائی کے اختیار سے متعلق بھی جواب طلب کرلیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا نے صحافیوں یا چینلز کے خلاف کارروائیوں کے ایس اوپیز مرتب کئے؟پیمرا کو آئین میں کارروائی کا طریقہ کارنہیں دیا گیا اس کے لئے ایس اوپیز بتانا ضروری ہیں، سپریم کورٹ ملک کے اعلیٰ ادارے کے طور پر صحافتی آزادی کا تحفظ کرے گا، حدود ہر چیز کی مقرر ہیں،یہ واضح ہونا چاہئے کہ آپ کی حدود کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے۔جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی آرٹیکل 19سے متصادم تو نہیں ہے، گائیڈ لائنز جاری کریں گے جس پر حکومت اورتمام ادارے عمل کریں گے۔ عدالت نے اگلی سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے، چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیےملتوی کردی۔ واضح رہے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے خلاف درخواست پریس ایسوسی ایشن آف ‏سپریم کورٹ کی جانب سےدائرکی گئی۔ 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کی درخواست پر صحافیوں کو ہراساں کرنے پر از خود نوٹس لیا تھا اور رجسٹرار کو کیس 26 اگست کو لگانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اس ازخودنوٹس کا جائزہ لیتے ہوئے اہم سوال اٹھا دیا کہ ازخودنوٹس کا اختیار کس انداز میں استعمال ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار اور معاونت کیلئے صدر سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کئے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے ججوں اور بیوروکریٹس کو پلاٹس الاٹمنٹ کیس پر سماعت کی۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی ڈپٹی کمشنر، ڈائریکٹر اسٹیٹ اور ڈائریکٹر لاء عدالت میں پیش ہوئے، ڈی سی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ نے اس معاملے پر کمیٹی بنا دی ہے جو کابینہ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی زمین کی تقسیم سے متعلق پالیسی وفاقی کابینہ بنائے گی، حکومت کو ہمیں واضح بتانا ہو گا کہ اس کی پالیسی کیا ہے، ایف 14 اور ایف 15 میں کتنے ممبرز ہیں جنہیں پلاٹ نہیں ملا؟ عدالت نے مزید ریمارکس میں کہ کوئی ایک ویٹنگ لسٹ بھی تو ہو گی جس میں سارے ممبرز کو باری آنے پر پلاٹ ملے گا، کرپشن اور مس کنڈکٹ پر برطرف کئے گئے ججوں کو بھی الاٹمنٹ کیسے کر دی گئی، کیا پالیسی یہی ہے کہ کرپشن کی حوصلہ افزائی کی جائے؟ عدالت نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف 14 اور ایف 15 کی قرعہ اندازی معطل کر دی تاہم جن متاثرین سے زمین لی گئی تھی انہیں اگر کوئی الاٹمنٹ ہوئی تو اس پر معطلی کا اطلاق نہیں ہو گا۔
لاہور کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں تحریک انصاف خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر سکی جس کے بعد پارٹی نے اس پر تحقیقات کر کے اس کی وجوہات تلاش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس حوالے سے شکست کی بنیادی وجوہات ڈھونڈ کر اس پر ایک رپورٹ مرتب کر لی گئی ہے۔ رپورٹ میں لاہور میں ترقیاتی کام سے متعلق اہم سوال اٹھاتے ہوئے صوبائی دارالحکومت کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ترجیح نہ دینے کو شکست کی اہم وجہ قرار دیا گیا۔ لاہور کے حوالے سے پارٹی کے مختلف رہنماؤں کا منفی پراپیگنڈہ بھی پی ٹی آئی کی عدم مقبولیت کی وجہ بنا۔ تحریک لبیک کے خلاف محاذ کھولنے کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ دیہی سطح پر تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھی لیکن شہری حلقوں میں تاحال چیلنجز کا سامنا ہے۔ پنجاب میں 25 فیصد کے قریب جعلی ووٹ ہیں جو سابق دور حکومت میں بنے، لاہور اور شہری حلقوں میں جعلی ووٹوں کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع بھی کرچکے ہیں اور کمیشن کو اس حوالے سے خط بھی لکھ چکے ہیں. رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ، تاہم کچھ پارٹی رہنماؤں نے انتخابی مہم میں کام نہیں کیا۔ رپورٹ میں پارٹی قیادت اور حکومتی قیادت کےدرمیان رابطے کو بہتر بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ پارٹی کی تنظیم کی حکومتی سطح پر شنوائی نہ ہونا بھی شکست کی وجہ ہے۔ گزشتہ انتخابات کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواران کی عدم دلچسپی کو بھی شکست کی اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد امیدواران نے حلقے کا رخ نہیں کیا۔ رہنماؤں کی عدم دلچسپی کے باعث کارکنان تذبذب کا شکار رہے۔
گیلپ پاکستان نے اپنے تازہ ترین سروے کے نتائج جاری کردئیے جس کے مطابق عوام نے حکومتی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گیلپ پاکستان نے ایک نیا عوامی سروے جاری کیا ہے جس میں حکومت کو ہر محاذ پر کامیاب دکھایا گیا ہے، گیلپ سروے میں70 فیصد عوام نے امید ظاہر کی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ مگر کچھ سوالات کے نتائج حیران کن ہیں کیونکہ گیلپ کی جانب سے ایک سوال پوچھا گیا کے کس صوبے کے عوام وفاقی حکومت کی کارکردگی کو برا سمجھتے ہیں؟ اس کے جواب میں پنجاب کے50 عوام نے اظہار عدم اطمینان کیا، سندھ کے 45 فیصد، خیبرپختونخوا کے 33 اور بلوچستان کے 26 فیصد عوام مرکزی حکومت سے ناخوش ہیں۔ لسانی بنیادوں پر سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مطابق 54 فیصد پنجابی، 48 فیصد سرائیکی، 43 فیصد اردو بولنے والے، 40 فیصد سندھی، 38 فیصد بلوچی اور 29 فیصد پشتون لوگ وفاقی حکومت کی پرفارمنس سے غیر مطمئن ہیں۔ گیلپ کی جانب سے ایک سوال پوچھا گیا کہ کتنے فیصد پاکستانی اپنی صوبائی حکومتوں سے ناخوش یا غیر مطمئن ہیں؟ جواب میں پنجاب اور سندھ کے 50،50 فیصد عوام نے کہا کہ وہ اپنی حکومتوں سے غیر مطمئن ہیں، خیبرپختونخوا کے33 اور بلوچستان کے 14 فیصد عوام اپنی صوبائی حکومت سے ناخوش نظر آئے۔ جبکہ وہ لوگ جو اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں ان میں پنجاب کے 43 فیصد، سندھ کے 41 فیصد، خیبرپختونخوا کے 63 فیصد اور بلوچستان کے 76 فیصد عوام اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی کو مثبت دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب سروے کے مطابق 69 فیصد عوام نے حکومت کی کورونا وبا پر قابو پانے کیلئے حکومتی کارکردگی کو سراہا ہے جبکہ 58 فیصد خارجہ پالیسی سے مطمئن دکھائی دئیے جبکہ 24 فیصد غیر مطمئن دکھائی دئیے۔ معاشی محاذ کی بات کی جائے تو 45 فیصد عوام معاشی محاذ پر حکومت سے مطمئن ہے جبکہ 44 فیصد عوام غیر مطمئن ہے۔ گیلپ کے اس سروے میں 48 فیصد نے کرپشن کیخلاف حکومت کو کامیاب، 40 فیصد نے ناکام قرار دیا۔ سروے میں حکومت کی تین سالہ کارکردگی سے متعلق بھی عوامی رائے لی گئی جس میں 48 فیصد عوام وزیراعظم عمران خان کی 3 سال حکومتی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دئیے اور 45 فیصد غیر مطمئن نظر آئے جبکہ 7 فیصد نے رائے نہیں دی۔ گیلپ کے مطابق اس سروے کا سیمپل 1200 افراد کی رائے پر مشتمل ہے اور یہ سروے 23 سے 30 اگست کے درمیان کرایا گیا۔
پاکستان کے کنٹونمنٹ بورڈز میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ ہمارا دشمن نمبر ون ہونے کے باوجود بھی ہماری پارٹی کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں اچھے نتائج دے رہی ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مریم نواز نے کہا کہ سب سے بڑا ٹارگٹ اور دشمن نمبر ایک ہونے کے باوجود ناقابلِ یقین طور پر مسلم لیگ (ن) کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں بہت اچھا پرفارم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن پی ٹی آئی سمیت ان تمام حریفوں سے بہتر کام کر رہی ہے جنہوں نے کبھی انتخابی طاقت کی بنیاد پر مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کو ان دیکھی طاقتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل پاکستان مسلم لیگ ن کا ہوگا۔ یاد رہے کہ اتوار کے روز ملک کے 41 کنٹونمنٹ بورڈز کے 212 وارڈز میں انتخابات ہوئے جن میں 1560 امیدواروں نے حصہ لیا۔ ابھی تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے 63، مسلم لیگ (ن) 59، آزاد امیداوار 52، پیپلزپارٹی 17، ایم کیو ایم 10، جماعت اسلامی 10، بی اے پی اور اے این پی کے 2،2 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
لاہور عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج راٸے محمد یاسین شاہین نے خرم لغاری کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، دوران سماعت مقدمے کی مدعیہ خاتون نے عدالت میں ایم پی اے خرم لغاری کو معاف کرنے سے متعلق بیان دیا۔ متاثرہ خاتون نے عدالت میں بیان دیا کہ خرم لغاری کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہماری صلح ہوگئی ہے۔ خرم لغاری کے خلاف کیس کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتی۔ عدالت نے ایم پی اے کی عبوری ضمانت 50زار روپے مچلکے کے عوض کنفرم کر دی ہے۔ اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے خرم لغاری کی 31 اگست تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔ خرم لغاری کی جانب سے 28 اگست کو درخواست دائرکی گئی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ خدشہ ہے کہ لاہور پہنچنے پر پولیس انہیں گرفتار کر لے گی۔ لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے لاہور پولیس کو کہا تھا کہ 31اگست تک خرم لغاری کو گرفتار نہ کریں جبکہ ملزم کو ضمانت کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ پنجاب حکومت کے ایم پی اے خرم سہیل لغاری کے خلاف لاہور کے تھانہ ڈیفنس اے میں متاثرہ خاتون کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مقدمے میں دفعہ 506 بی، 452 اور 440 شامل کی گئیں۔ یاد رہے کہ 30اگست کو عدالت نے خرم لغاری کی عبوری ضمانت 13ستمبر تک منظور کرتے ہوئے پولیس سے ملزم کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی صورتحال پر علاقائی ممالک کو ‏اعتماد میں لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یقین سے کہہ سکتا ہوں ‏کہ ہٹلر اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میں کوئی فرق نہیں۔ ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ بھارت سے متعلق حقائق کھل کر دنیا کے ‏سامنے رکھ رہے ہیں۔ پہلے کچھ چیزوں پر خاموشی اختیار کی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے واضح کیا کہ پاکستان نے ڈو مور کا چیپٹر ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سی آئی اے چیف سے بھی افغانستان کے مسائل اور اس کے آنے والے وقت میں ممکنہ حل پر گفتگو ہوئی ہے، ہم ‏نہیں چاہتے کہ افغانستان میں معاشی، انسانی اور گورننس کا بحران پیدا ہو۔ انہوں نے کہا کہ مودی جس پٹڑی پر چڑھ چکا ہے یہ خود اپنا کباڑہ کرے گا۔ مودی اور ہٹلر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ افغانستان کی ‏حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق فیصلہ وقت آنے پر ہو گا۔ امریکا سمیت تمام ممالک سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والے قائمہ کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس میں مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور فی الحال مغربی سرحد پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مستقبل قریب میں حالات بگڑنے کی توقع نہیں ہے، پاکستان نے تمام سرحدوں پر ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کی تیاری کر رکھی ہے۔
اتوار کے روز ملک کے 41 کنٹونمنٹ بورڈز کے 212 وارڈز میں انتخابات ہوئے جن میں 1560 امیدواروں نے حصہ لیا۔ ابھی تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے 63، مسلم لیگ (ن) 59، آزاد امیداوار 52، پیپلزپارٹی 17، ایم کیو ایم 10، جماعت اسلامی 10، بی اے پی اور اے این پی کے 2،2 امیدوار کامیاب ہوئے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈز سے مسلم لیگ ن سب سے آگے رہی ہے جس نے پنجاب کے 113 وارڈز میں سے 51 وارڈز میں کامیابی حاصل کی، یہاں 32 آزاد امیدوار، پی ٹی آئی 28 اور جماعت اسلامی 2 وارڈز میں کامیابی حاصل کر سکی جبکہ پی پی نے یہاں کسی وارڈ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ سندھ کنٹونمنٹ بورڈز میں کُل 53 وارڈ تھے جن میں سے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے 14،14 وارڈز میں کامیابی حاصل کی، ایم کیو ایم 10، آزاد امیدوار 7، جماعت اسلامی 5 اور مسلم لیگ ن 3 وارڈز میں کامیابی حاصل کر پائی۔ خیبرپختونخوا کنٹونمنٹ بورڈز کے 37 وارڈز میں سے 18 پی ٹی آئی، آزاد امیدوار9، مسلم لیگ ن 5، پیپلزپارٹی 3 اور اے این پی 2 وارڈز میں کامیاب ہوئی۔ بلوچستان کے کنٹونمنٹ بورڈ کے کل 9 وارڈ تھے جن میں سے 4 آزاد امیدوار، 3 پی ٹی آئی اور بی اے پی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان انتخابات میں سب سے زیادہ امیدوار تحریک انصاف کے پاس تھے جن کی تعداد 183 تھی، اس کے بعد مسلم لیگ ن کے144، پیپلز پارٹی کے 113 اور جماعت اسلامی کے 104 امیدوار میدان میں تھے۔ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے 83، ایم کیو ایم پاکستان کے 42، پاک سرزمین پارٹی کے35، مسلم لیگ ق کے 34 اور جے یو آئی کے 25 امیدواروں نے بھی الیکشن میں حصہ لیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک وقت میں 46 ہزار سے زائد اساتذہ کی بھرتی کا عمل سندھ بھر میں شروع ہو گیا۔ خبررساں ادارے کی رپور ٹ سندھ کے وزیر تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کی بھرتی پیر سے شروع ہونے جارہی ہے۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سردار علی شاہ کا کہنا تھا کہ بھرتیوں کا سارا عمل آٹو میٹڈ ہے اور اس میں مکمل شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا، اس پریس کانفرنس کا مقصد ہی بھرتیوں کے پراسیس سے متعلق تحفظات کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر محکمہ تعلیم سندھ میں 46 ہزار549 اساتذہ کو بھرتی کیا جائے گا، بھرتیوں میں کسی قسم کی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی کیونکہ سارا عمل کمپیوٹرائزڈ ہے، نوکری حاصل کرنے کے خواہش مند افراد ہر قسم کے ابہام کو دور کرکے ٹیسٹ دیں، بھرتیاں مکمل طور پر میرٹ پر ہی ہوں گی۔ وزیر تعلیم سندھ نے کہا کہ اساتذہ کی بھرتیوں کیلئے کسی کو ایک روپیہ دینے کا بھی مت سوچیں ، محنت کریں اور اپنی محنت پر یقین رکھیں، محکمے کے کسی شخص کو رشوت ستانی میں ملوث پایا تو نہ صرف اس کی نوکری جائے گی بلکہ اس کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑے گی۔ سندھ میں اساتذہ کی بھرتیوں کیلئے محکمہ تعلیم سندھ اور آئی بی اے سکھر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت کل سے صوبے میں ٹیسٹس شروع ہوں گے، سکھر آئی بی اے کے وائس چانسلر نے وزیر تعلیم سندھ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ امیدواروں کے خدشات کو دور کرنے کیلئے جوابی شیٹ پر امیدوار کانام اور تصویر پرنٹ کی جائے گی جبکہ جوابی شیٹ کی ایک کاربن کاپی بھی ہوگی جو امیدوار اپنے ساتھ لے جاسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کا رزلٹ 48 گھنٹوں میں دے دیں گے، امیدواروں کو اپنے ٹیسٹ کے ساتھ ایک کوڈ دیں گے جس پر بعد میں وہ آن لائن اپنی جوابی شیٹ اور اس کا رزلٹ دیکھ سکے گا کہ اس کے 100 میں سے کتنے سوالات ٹھیک تھے، ٹیسٹ میں کسی قسم کی چیٹنگ یا کسی اور کی جگہ ٹیسٹ دینے کی سزا تین سال ہے جس پر یقینی طور پر عمل کیا جائے گا۔
فیصل آباد میں کار سوا لڑکی سے بدسلوکی اور نازیبا حرکات کرنے والے تین پولیس اہلکار گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فیصل آباد میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں مبینہ طور پر پولیس اہلکار نے تلاشی کیلئے روکی گئی کار میں سوار لڑکی کے ساتھ بدسلوکی اور نازیبا حرکات کیں۔ گاڑی چلانے والے لڑکے نے واقعہ کے بعد ایف آئی آر درج کروائی اور موقف اپنایا کہ وہ اپنی کزن کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد گھر واپس جارہا تھا کہ کینال روڈ پر تعینات پولیس اہلکاروں نے گاڑی رکوائی اور تلاشی دینے کا حکم دیا۔ لڑکے کے مطابق پولیس اہلکاروں نے 2 گھنٹے تک ہمیں سڑک پر روکے رکھا اور اس دوران ہمیں ہراساں کیا جاتا رہا، ایک پولیس اہلکار کی جانب سے لڑکی کی جامہ تلاشی لینے کی کوشش کی گئی اور اس سے نازیباحرکات بھی کیں۔ پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق واقعہ میں ملوث تینوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے اور تفتیش کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود نے مقبوضہ کشمیر میں کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کے ثبوت پیش کر دیئے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر مشتمل ڈوزیئر میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس ڈوزیئر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں پیلٹ گنز کا استعمال، متاثرہ بچوں کی ویڈیوز اور کیمیکل ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے ثبوت بھی شامل ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے، بھارت کشمیریوں کی آواز دبا رہا ہے ، جب سے ہندوتوا حکومت بھارت میں آئی ہے ان پامالیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے محاصرے کو 769 دن ہو چکے ہیں، بھارت کی 9 لاکھ افواج مقبوضہ وادی پرمسلط ہیں۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ آزاد مبصرین کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں، انسانی حقوق کو اس انداز میں پامال کرنا نامناسب ہے۔ سید علی گیلانی کے انتقال پر دنیا نے دیکھا کہ بھارت کی سوچ کیا تھی، ان کی وفات کے بعد اُن کے گھر کے تمام راستے بند کر دیئے گئے، یہ صورت حال دیکھ کر دنیا میں بسنے والے ہر کشمیری کو تکلیف ہوئی۔ ڈوزیئر سے متعلق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ ڈوزیئر 131 صفحات پر مشتمل ہے جس کے 3 حصے ہیں، پہلے حصے میں بھارت کے جنگی جرائم، دوسرے میں فالس فلیگ آپریشن تیسرے اور آخری حصے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بھارت کی مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کا ذکر ہے۔ ہم نے 113 حوالے دیئے ہیں، 32 تنظیموں کی رپورٹس بھی اس کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تفصیلات شامل کی ہیں کہ کس طرح کشمیر میں معصوم لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے، ان کے گھروں میں اسلحہ رکھا جاتا ہے، ہم نے 1128 ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جو انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں، ان میں بھارتی فوج کے میجر جنرل، بریگیڈیئر اور دیگر سینئر افسران شامل ہیں، یہی نہیں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گنز کا استعمال، خواتین کی بے حرمتی اور جلائی گئی املاک کا بھی ذکر ہے۔

Back
Top