canadian
Chief Minister (5k+ posts)
کسی ملک میں ایک ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ساری رعایا اس کے ظلم و ستم سے بہت تنگ تھی۔ ایک دن تنگ آکر رعایا نے بادشاہ کو ملک بدر کر دیا۔
جب نئے بادشاہ کو منتخب کرنے کا وقت آیا تو ہر طرف بحث شروع ہو گئی۔ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی آراء پیش کیں۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ ملک کے سب سے بے ضرر انسان کو بادشاہ بنایا جائے تاکہ عوام پر کوئی ظلم نہ ہو اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں۔ اس کے بعد عوام نے متفقہ طور پر ایک مداری کو اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔
جب ہمسایہ ممالک کو علم ہوا کہ وہاں اب ایک مداری حکومت کر رہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سازباز کر کے حملہ کر دیا۔ محل میں کسی نے آکر مداری کو اطلاع دی کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ مداری کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنے تماشے میں مگن رہا۔ آہستہ آہستہ حملے کی خبر پھیل گئی تو لوگ محل کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ دربان نے مداری کو بتایا کہ بادشاہ سلامت، محل کے باہر سب لوگ جمع ہو گئے ہیں اور کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر مداری نے ڈگڈگی پکڑی اور اپنے بندر کو لے کر محل سے باہر آیا۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ بے فکر رہو میں کاروائی کرنے لگا ہوں۔
اور اس کے بعد سب لوگ بندر کا تماشہ دیکھنے میں محو ہو گئے اور انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دشمن کی فوجیں ان کے سر پر پہنچ چکی ہیں۔ جب ایک ہرکارے نے آخری بار سب کو خطرے سے آگاہ کیا تو مداری اپنے گدھے پر اپنے سازوسامان سمیت سوار ہو گیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ جو میں تمہارے لیے کر سکتا تھا کر دیا، اب تم جانو اور تمہارا ملک
جب نئے بادشاہ کو منتخب کرنے کا وقت آیا تو ہر طرف بحث شروع ہو گئی۔ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی آراء پیش کیں۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ ملک کے سب سے بے ضرر انسان کو بادشاہ بنایا جائے تاکہ عوام پر کوئی ظلم نہ ہو اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں۔ اس کے بعد عوام نے متفقہ طور پر ایک مداری کو اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔
جب ہمسایہ ممالک کو علم ہوا کہ وہاں اب ایک مداری حکومت کر رہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سازباز کر کے حملہ کر دیا۔ محل میں کسی نے آکر مداری کو اطلاع دی کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ مداری کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنے تماشے میں مگن رہا۔ آہستہ آہستہ حملے کی خبر پھیل گئی تو لوگ محل کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ دربان نے مداری کو بتایا کہ بادشاہ سلامت، محل کے باہر سب لوگ جمع ہو گئے ہیں اور کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر مداری نے ڈگڈگی پکڑی اور اپنے بندر کو لے کر محل سے باہر آیا۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ بے فکر رہو میں کاروائی کرنے لگا ہوں۔
اور اس کے بعد سب لوگ بندر کا تماشہ دیکھنے میں محو ہو گئے اور انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دشمن کی فوجیں ان کے سر پر پہنچ چکی ہیں۔ جب ایک ہرکارے نے آخری بار سب کو خطرے سے آگاہ کیا تو مداری اپنے گدھے پر اپنے سازوسامان سمیت سوار ہو گیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ جو میں تمہارے لیے کر سکتا تھا کر دیا، اب تم جانو اور تمہارا ملک