کبھی بہتے دریا نے ہڑتال کی ہے
کبھی ہوا نے ہڑتال کی ہے
کبھی موت بھی ہڑتال پر جاتی ہے
کبھی زندگی بھی ہڑتال کرتی ہے
کبھی سانس بھی ہڑتال پہ جاتی ہے
کبھی غم کو ہڑتال کرتے دیکھا ہے
کبھی خوشی بھی اپنے حقوق کے لئے ہڑتال کرتی ہے
تو پھر مسیحا کس طرح ہڑتال کو حق سمجھتا ہے