Who is Dr Hafeez Sheikh?

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
پاکستان کے نئے مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کون ہیں؟

حفیظ شیخ جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ اب تحریک انصاف کے ساتھ بھی تعلق جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں

پاکستان کے مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ عملی سیاست سے دور رہتے ہیں لیکن گزشتہ 19 برسوں میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی اور وہ قلمدان جن کے کئی سیئنر سیاست دان اور ٹیکنو کریٹ خواب دیکھتے ہوں انہیں مل گیا ہو۔
جیالے والد کا فرزند
عبدالحفیظ شیخ کی پیدائش پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شامل غلام نبی شیخ ایڈووکیٹ کے ہاں ہوئی، جن کا تعلق جیکب آباد سے تھا، لیکن اس کے برعکس حفیظ شیخ جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ اب تحریک انصاف کے ساتھ بھی تعلق جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔

انگریز فوجی جنرل جان جیکب کے بسائے ہوئے شہر جیکب آباد میں حفیظ شیخ کے والد نبی شیخ پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اور سرگرم سماجی رہنما رہے جبکہ ان کے والد عبدالحکیم شیخ کی شناخت ایک استاد کی تھی، شہر میں ان کے نام سے آج بھی ایک ہائی سکول موجود ہے۔

حفیظ شیخ ابتدائی تعلیم سندھ میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ منتقل ہوگئے، جہاں بوسٹن یونیورسٹی کے شعبے اکنامکس میں داخلہ لیا اور وہاں سے پہلے ایم ایس اور بعد میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ امریکہ میں ہی ہارورڈ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔​

عالمی بینک کی ملازمت اور مشاورت
ہارورڈ یونیورسٹی کو انہوں نے 1990 کی دہائی کے آخر میں خیرآباد کہا اور عالمی بینک کی ملازمت اختیار کرلی اور کچھ عرصے کے بعد انہیں سعودی عرب میں عالمی بینک کے پروگرام کا چیئرمین مقرر کردیا گیا۔ سعودی عرب کے علاوہ وہ دنیا کی ابھرتی معشیتوں سری لنکا، ملائشیا، کویت اور بنگلادیش سمیت 25 ممالک میں عالمی بینک کے مشیر رہ چکے ہیں، وہ ارجنٹینا میں نجکاری پر کتاب کے مصنف بھی ہیں۔​

جنرل مشرف کے دور میں سیاست میں آمد
حفیظ شیخ نے پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں سیاست میں قدم رکھا۔ سنہ 2000 میں انہیں سندھ کا وزیرِ خزانہ مقرر کیا گیا۔ اس عرصے میں وہ سندھ میں محصولات کی وصولیوں میں بہتری لائے اور سٹیٹ بینک کے اوور ڈرافٹ سے سندھ کو نجات دلائی۔

اس کے بعد انہیں اس وقت کے وزیرِاعظم کا مشیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔​

پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت
2006 میں حفیظ شیخ نے حکومت کو خیرباد کہہ دیا اور اگلے چار سال تک سیاسی میدان سے غائب رہے اور 2010 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے استعفیٰ دے دیا تو حفیظ شیخ کی دوبارہ سیاست میں واپسی ہوئی اور انہیں مشیر خزانہ کا قلمدان دینے کے ساتھ سینیٹر بھی منتخب کرایا گیا۔ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوبارہ بیرون ملک منتقل ہوگئے اور تقریباً 5 سال کے بعد ان کا سیاست میں دوبارہ ظہور ہوا ہے۔​

’حالات 2012 والے نہیں‘
پاکستان کے معاشی تجزیہ نگار اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ گزشتہ سات آٹھ سال سے پاکستان میں نہیں ہیں اور 2012 کے معاشی معاملات اور آج کے معاملات میں بڑا فرق ہے۔

2012 میں پیرس کلب کے معاملات ری شیڈول ہوچکے تھے، فائنینشل ٹاسک فورس کا ہم اتنا دباؤ نہیں لیتے تھے ان دنوں میں بھی معشیت کوئی اتنی اچھی نہیں تھی اب تو اس سے بھی مشکل مراحل ہیں۔

’اب تو ڈالر کہیں جارہا ہے، ائی ایم ایف کے مذاکرات رکے ہوئے ہیں، مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے، افراط زر اور شرح سود بڑہ چکے ہیں شرح ترقی جی ڈی پی کم سے کم ہوگئی ہے،

ترقیاتی اخراجات بلکل کم کر دیےے گئے ہیں۔ ایف بی آر کی وصولیوں میں شاٹ فال ہے، ایمنٹسی سکیم پر تکرار ہے۔ یہ تمام مقامی مسائل ہیں اگر کوئی مقامی ہوتا تو بہتر ہوتا۔‘

ایک دوسرے ماہر معاشیات جو حکومت کے ساتھ منسلک ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’حفیظ شیخ بھی حکومت کو کوئی بڑا بیل آؤٹ نہیں دے سکیں گے۔ بقول ان کے آئی ایم ایف سے معاہدہ مکمل ہوگیا ہے، اب بجٹ میں اس پر عملدرآمد ہوگا۔ ایک بات ضرور ہے کہ حفیظ شیخ کے کوئی سیاسی عزائم نہیں اس لیے وہ نیک نیتی سے اس پر عملدرآمد کرسکتے ہیں۔‘​
source
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
حتمی طور پر یہ تو نہیں کہہ سکتا کے پاکستان کے معاملات میں بیرونی مداخلت کی نقب زنی کب ہوئی اور اسے پر کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے. لیکن ایک بات حتمی ہے کے معین قریشی، شوکت عزیز، حسین حقانی اور اب عبدالحفیظ اس نقب زنی کی موجودگی کے زندہ جاوید ثبوت ہیں
 

kakamuna420

Chief Minister (5k+ posts)
well his qualification is that he was son of a rich lawyer who could afford his nikhatoo soon with a Boston university fees
 

imisa2

Senator (1k+ posts)
یہ بات سمجھنا چاہیے کہ عمران خان کی حکومت چلانے کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ سستے نعرے لگانے سے حکومت نہین چلتی۔ پچھلے آٹھ ماہ نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ حکومت کا کاروبار بھی تو چلنا ہے چنانچہ مجبوراً چلے ہوئے کارتوسوں سے کام چلانا پڑے گا۔ چلو بہتری نہ سہی یہ بربادی کی رفتار کو تو روک سکتے ہیں۔ ورنہ پچھلے دس سالوں سے ہم جس رفتار سے نیچے جا رہے تھے اور تحریک انصاف نے پاتال کے اس سفر کی رفتار تیز ہی کی ہے، ایسے حالات مین اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ تجربہ کار ٹیکنو کریٹس کو حکومت میں شامل کیا جائے