پاکستان کی 70٪ آبادی دیہات پر مشتمل ھے۔ جہاں 80٪ مساجد میں امام میڑک پاس بھی نہیں۔ صرف نارمل مدرسوں سے ناضرہ قرآن پڑھا ھوا ھے یا حفظ کیا ھوا ھے۔ اور یہ امام مساجد اپنے اپنے مدرسے کو ریپریذنٹ کر رہے ھوتے ھیں۔ مدرسوں کے ناظم اعلی کا یہ ایجنڈا ھوتا ھے کہ ذیادہ سے ذیادہ مساجد پر اپنا قبضہ کرو اور مدرسہ کا سورس آف انکم بڑھاؤ۔ یہ امام مساجد اپنی اپنی مسجد کی آبادی سے صدقہ فطر، کھالیں، فصلوں کے عشر اکھٹے کرتے ھیں اور اپنے مدرسے کو بھیجتے ھیں۔ اسطرح مدرسے کی اور ناظم آعلی کے گھر کی گاڑی چلتی ھے۔ بلکہ فراٹے بھرتی ھے۔ اور علمی اعتبار سے یہ امام بلکل فارغ ھوتے ھیں۔ چند قصے رٹے ھوتے ھیں۔ جو جمعہ اور دوسرے مواقع پر تقریر کی شکل میں لوگوں کو سناتے ھیں۔ ستم ظریفی یہ ھے۔کہ لوگوں کو غلط مسائل بیان کرتے ھیں۔ سب سے بڑا تفر قات کا ماخوز یہ مولوی ھیں۔ جب تک امام مسجد کا ایک میرٹ نہی بنے گا۔ کہ امام مسجد کو کم ازکم ایف اے ھونا ضروری ھے۔ اور قرآن ناضرہ کے ساتھھ ساتھھ فقہی، حدیث اور اسوہءحسنہ کی تعلیم ضروری ھو۔ پھر آپ کہ سکتے ھیں۔ کہ اسطرح ھم کسی حد تک تخلفات پر قابو پا سکتے ھیں۔ اور یہ سب حکومتی لیول پر ھو سکتا ھے۔ اور حکومت کو اس معاملے میں سیریس ھونا چاھیے۔ کیونکہ یہ معمولی ڈسپیوٹ نہی ھے۔ یہ تفرقاتی روش سوسائٹی کو کینسر کی طرح ختم کر رہی ھے۔ اور اس سے سوسائٹی کی تباھی کے ساتھ ساتھ اسلام کو ناقابل تلافی نقصان ھو رہا ھے۔ اس سے نان مسلم کمیونٹی میں ریلیجن آف پیس کا امیج ڈیمج ھو رھاھے۔
Last edited by a moderator: