پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے 42 ویں اوور میں چار وکٹوں کے نقصان پر 222 رنز بنا لیے ہیں۔ دو سیٹ بیٹسمین کریز پر موجود ہیں۔ آسٹریلیا کی بولنگ کافی پریشر میں دکھائی دے رہی ہے اور آج تو مچل سٹارک بھی نہیں ہے۔آپ کے خیال میں بیٹنگ سائیڈ آخری آٹھ اوورز میں کتنے رنز بنائے گی؟ بھئی ماڈرن ون ڈے گیم کے معیار سے کم از کم 60 رنز تو ہون چاہئییں اور اگر کوئی وکٹ نہ گری تو 60 کیا، 80 رنز بھی بن سکتے ہیں۔
لیکن اگر ایک دو وکٹیں گر بھی گئیں، تو بھی 50 یا 60 رنز تو کہیں نہیں گئے۔مگر رکیے!کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان دو سیٹ بیٹسمین میں سے ایک کا نام عمر اکمل ہے؟اب کہیے!بھئی اب اگر فلک کو یہی منظور ہے تو عین ممکن ہے 70، 75 رنز بن جائیں لیکن بعید نہیں کہ 40 بھی نہ بن پائیں۔اور اس کے بعد وہی ہوا جو بعید نہیں تھا۔ 43 ویں اوور کی پہلی گیند پر جب بابر اعظم آوٹ ہوئے تو وہ وکٹ آسٹریلیا نے نہیں، عمر اکمل نے لی تھی۔اننگز کے جس حصے میں جس طرح کا سٹارٹ عمر اکمل نے کیا، اس کے بعد بابر کی اننگز کا اینڈ ایسا ہی ہو سکتا تھا۔
تصویر کے کاپی رائٹعمر اکمل سات سال کھیلنے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ انھیں اپنی ذہانت کا استعمال کب کرنا ہے اور کب نہیںچلیے بابر نے تو اپنی ذمہ داری خوب نبھائی، اب عمر سے غلطی ہو گئی لیکن اس کے پاس آخری آٹھ اوور ہیں، بہت اچھا موقع ہے اپنی غلطی سدھارنے کا اور آج تو امید بھی ہے کہ جتنا ٹائم اس نے اننگ بلڈ کرنے میں لیا ہے، اس کا بدلہ بھی چکائے گا۔
عموماً کرکٹ میں جب پلیئرز ڈراپ ہوتے ہیں تو سال دو سال بعد اس سوچ کے ساتھ آتے ہیں کہ اب جو بھی ہو، وہ دوبارہ ڈراپ نہیں ہوں گے مگر عمر اکمل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی خود اعتمادی کے ہاتھوں بے بس ہیں۔موصوف جانتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ کس طرح سے کرنا ہے۔دنیا کی کسی اور ٹیم کے پاس عمر اکمل جیسا پلیئر نہیں ہے۔ سات سال پہلے ڈیبیو کیا اور اپنی پہلی اننگ میں ہی پاکستانی بیٹنگ کے فیوچر ہیرو دکھائی دیے اور اس کے بعد کے سات سال میں بھی موصوف ہیرو ہی رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ اس ہیروگیری کی وجوہات بیٹنگ پرفارمنس کے علاوہ کچھ اور تھیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں سات سال کا عرصہ خاصا طویل ہوتا ہے اور آج کل تو ایک ہی سال میں کھلاڑی کا پتا چل جاتا ہے۔ ویراٹ کوہلی یا جو روٹ کو سپرسٹار بننے میں کتنے سال لگے؟ حسیب حمید، میٹ رینشا اور سٹیفن کک کے بارے میں ابھی یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کتنا عرصہ کھیلیں گے مگر یہ صاف نظر آتا ہے کہ جتنا بھی کھیلیں گے سپر سٹارز کے جیسا ہی کھیلیں گے۔لیکن عمر اکمل سات سال کھیلنے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ انھیں اپنی ذہانت کا استعمال کب کرنا ہے اور کب نہیں۔
ٹیلنٹ کے معنوں میں دیکھا جائے تو اس جیسا سٹریٹ سمارٹ بیٹسمین کم کم ہی دکھائی دیتا ہے مگر جب ایسا ٹیلنٹ درست شکل میں اپنا اظہار نہ کر پائے تو وہ نہ صرف ٹیم بلکہ پلیئر کی اپنی ذات پر بھی بوجھ بننے لگتا ہے۔پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف آخری آٹھ اوورز میں تین وکٹیں گنوائیں اور صرف 42 رنز بنائے۔ اس کے برعکس اسی دنیا کے ایک اور حصے میں یوراج اور دھونی نے صرف آخری 13 اوورز میں اتنے رنز بنائے جتنے پہلے 34 اوورز میں بنے تھے۔اگر عمر اکمل اس موقعے پر اپنی سٹریٹ سمارٹ کرکٹ کی بجائے کوئی مثبت شاٹ کھیلتے تو عین ممکن تھا کہ ہدف کا دفاع کرتے ہوئے پاکستانی بولنگ اس مشکوک آسٹریلوی بیٹنگ پر زیادہ پریشر ڈال سکتی اور پاکستان سیریز میں برتری حاصل کر لیتا۔
اگر عمر اکمل اتنی گیندیں ضائع کرنے کے بعد اتنے سستے میں آؤٹ نہ ہوتے تو شاید آسٹریلیا کا دھیان میچ سے زیادہ سکور بورڈ پر رہتا اور عماد وسیم پریشر کا فائدہ اٹھا لیتے۔اگر پاکستان نے آخری دس اوورز میں 20، 30 رنز زیادہ کیے ہوتے تو ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن عمر اکمل کریز پر موجود تھے۔
Source

لیکن اگر ایک دو وکٹیں گر بھی گئیں، تو بھی 50 یا 60 رنز تو کہیں نہیں گئے۔مگر رکیے!کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان دو سیٹ بیٹسمین میں سے ایک کا نام عمر اکمل ہے؟اب کہیے!بھئی اب اگر فلک کو یہی منظور ہے تو عین ممکن ہے 70، 75 رنز بن جائیں لیکن بعید نہیں کہ 40 بھی نہ بن پائیں۔اور اس کے بعد وہی ہوا جو بعید نہیں تھا۔ 43 ویں اوور کی پہلی گیند پر جب بابر اعظم آوٹ ہوئے تو وہ وکٹ آسٹریلیا نے نہیں، عمر اکمل نے لی تھی۔اننگز کے جس حصے میں جس طرح کا سٹارٹ عمر اکمل نے کیا، اس کے بعد بابر کی اننگز کا اینڈ ایسا ہی ہو سکتا تھا۔

تصویر کے کاپی رائٹعمر اکمل سات سال کھیلنے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ انھیں اپنی ذہانت کا استعمال کب کرنا ہے اور کب نہیںچلیے بابر نے تو اپنی ذمہ داری خوب نبھائی، اب عمر سے غلطی ہو گئی لیکن اس کے پاس آخری آٹھ اوور ہیں، بہت اچھا موقع ہے اپنی غلطی سدھارنے کا اور آج تو امید بھی ہے کہ جتنا ٹائم اس نے اننگ بلڈ کرنے میں لیا ہے، اس کا بدلہ بھی چکائے گا۔
عموماً کرکٹ میں جب پلیئرز ڈراپ ہوتے ہیں تو سال دو سال بعد اس سوچ کے ساتھ آتے ہیں کہ اب جو بھی ہو، وہ دوبارہ ڈراپ نہیں ہوں گے مگر عمر اکمل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی خود اعتمادی کے ہاتھوں بے بس ہیں۔موصوف جانتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ کس طرح سے کرنا ہے۔دنیا کی کسی اور ٹیم کے پاس عمر اکمل جیسا پلیئر نہیں ہے۔ سات سال پہلے ڈیبیو کیا اور اپنی پہلی اننگ میں ہی پاکستانی بیٹنگ کے فیوچر ہیرو دکھائی دیے اور اس کے بعد کے سات سال میں بھی موصوف ہیرو ہی رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ اس ہیروگیری کی وجوہات بیٹنگ پرفارمنس کے علاوہ کچھ اور تھیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں سات سال کا عرصہ خاصا طویل ہوتا ہے اور آج کل تو ایک ہی سال میں کھلاڑی کا پتا چل جاتا ہے۔ ویراٹ کوہلی یا جو روٹ کو سپرسٹار بننے میں کتنے سال لگے؟ حسیب حمید، میٹ رینشا اور سٹیفن کک کے بارے میں ابھی یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کتنا عرصہ کھیلیں گے مگر یہ صاف نظر آتا ہے کہ جتنا بھی کھیلیں گے سپر سٹارز کے جیسا ہی کھیلیں گے۔لیکن عمر اکمل سات سال کھیلنے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ انھیں اپنی ذہانت کا استعمال کب کرنا ہے اور کب نہیں۔
ٹیلنٹ کے معنوں میں دیکھا جائے تو اس جیسا سٹریٹ سمارٹ بیٹسمین کم کم ہی دکھائی دیتا ہے مگر جب ایسا ٹیلنٹ درست شکل میں اپنا اظہار نہ کر پائے تو وہ نہ صرف ٹیم بلکہ پلیئر کی اپنی ذات پر بھی بوجھ بننے لگتا ہے۔پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف آخری آٹھ اوورز میں تین وکٹیں گنوائیں اور صرف 42 رنز بنائے۔ اس کے برعکس اسی دنیا کے ایک اور حصے میں یوراج اور دھونی نے صرف آخری 13 اوورز میں اتنے رنز بنائے جتنے پہلے 34 اوورز میں بنے تھے۔اگر عمر اکمل اس موقعے پر اپنی سٹریٹ سمارٹ کرکٹ کی بجائے کوئی مثبت شاٹ کھیلتے تو عین ممکن تھا کہ ہدف کا دفاع کرتے ہوئے پاکستانی بولنگ اس مشکوک آسٹریلوی بیٹنگ پر زیادہ پریشر ڈال سکتی اور پاکستان سیریز میں برتری حاصل کر لیتا۔
اگر عمر اکمل اتنی گیندیں ضائع کرنے کے بعد اتنے سستے میں آؤٹ نہ ہوتے تو شاید آسٹریلیا کا دھیان میچ سے زیادہ سکور بورڈ پر رہتا اور عماد وسیم پریشر کا فائدہ اٹھا لیتے۔اگر پاکستان نے آخری دس اوورز میں 20، 30 رنز زیادہ کیے ہوتے تو ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن عمر اکمل کریز پر موجود تھے۔
Source
Last edited by a moderator: