امریکہ کی جانب سے سوویت یونین کے میزائل اور ایٹمی پروگرام کی معلومات حاصل کرنے کے لیے یو ٹو جاسوس طیاروں کا سب سے اہم مشن 1957 میں تھا۔
یہ بات یو ٹو جاسوس طیاروں کے پروگرام کی تاریخ کے عام کی جانے والی دستاویز میں کہی گئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق 6 مئی 1957 میں امریکی صدر آئزن ہاور نے نائب وزیر دفاع، فضائیہ کے سربراہ اور سی آئی اے کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کی۔ امریکی صدر یہ جاننا چاہتے تھے کہ یو ٹو جاسوس طیارے کی سوویت یونین کے اوپر پرواز پر سوویت یونین کا ردِ عمل کیا ہو گا۔
امریکی صدر کو خدشہ تھا کہ سوویت یونین ردِ عمل میں برلن کا راستہ بند نہ کر دے۔
اس اجلاس میں امریکی صدر پورے سوویت یونین پر جاسوس طیارے کی پرواز کے خلاف رہے تاہم انہوں نے چند علاقوں میں جاسوس پروازوں کی اجازت دے دی۔ ان علاقوں میں کمچتکا اور بیکل ندی سمیت ایٹمی تجربہ گاہ بھی شامل تھی۔
اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سوویت یونین کے ان علاقوں پر پروازوں کے لیے پاکستان کے ہوائی اڈوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے ’بشرطیکہ پاکستانی حکومت اجازت دے‘۔
دستاویزات کے مطابق پاکستان کے صوبہ سرحد (جو اب خیبر پختونخوا ہے) کے دارالحکومت پشاور کا ہوائی اڈہ جاسوس طیاروں کی پرواز کے لیے موزوں ترین تھا لیکن ہوائی اڈے پر کام ہو رہا تھا جس کے باعث وہاں سے پروازیں نہیں کی جا سکتی تھیں۔
سافٹ ٹچ
لاہور سے یو ٹو طیاروں کا مشن چار اگست 1957 کو شروع ہوا جو 23 روز جاری رہا۔ اس مشن میں سوویت یونین اور چین پر جاسوس طیاروں کی پروازیں تھیں اور اس مشن کا نام ’سافٹ ٹچ‘ رکھا گیا تھا۔
ترکی کے دارالحکومت انقرہ سے سی 124 میں چار یو ٹو جاسوس طیارے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور لائے گئے۔ان طیاروں کے ساتھ آٹھ پائلٹ اور دیگر عملہ آیا۔
ان چار طیاروں میں سے دو ’ڈرٹی برڈز‘ (Dirty Birds) تھے۔ یعنی وہ جاسوس طیارے جن پر ریڈار سے بچنے کے آلات نصب تھے۔
دستاویزات کی مطابق لاہور سے یو ٹو طیاروں کا مشن چار اگست 1957 کو شروع ہوا جو 23 روز جاری رہا۔ اس مشن میں سوویت یونین اور چین پر جاسوس طیاروں کی پروازیں تھیں اور اس مشن کا نام ’سافٹ ٹچ‘ رکھا گیا تھا۔
ان تئیس روز میں ان جہازوں نے نو پروازیں کیں جن میں سا سات سوویت یونین اور دو چین پر تھیں۔
سی آئی اے کے دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ سوویت یونین پر کی جانے والی سات پروازوں میں سے صرف ایک پرواز ناکام رہی جب اہاز کا کیمرہ نہیں چل سکا۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ سوویت یونین پر لاہور سے پروازوں میں کئی نئی میزائل لانچ سائٹس کا معلوم چلا۔
امریکی صدر آئزن ہاور نے یو ٹو پروازوں پر کڑی نطر رکھی ہوئی تھی۔ امریکی فضائیہ نے درخواست کی تھی کہ ان پروازوں کو فضائیہ کنٹرول میں دیا جائے لیکن امریکی صدر نے یہ درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ ’بہتر ہے کہ یہ پروازیں سویلین اڑائیں‘۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ہر پرواز کی منظوری خود امریکی صدر دیا کرتے تھے۔
دستاویزات کے مطابق پشاور سے بھی کئی یو ٹو پروازیں اڑیں۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر نے پاکستان سے یو ٹو کی سوویت یونین کے اوپر پرواز ختم کرنے کا
عندیہ دیتے ہوئے تیس اپریل 1960 آخری پرواز کی ڈیڈ لائن رکھی۔تاہم یہ ڈیڈ لائن برھا کر 10 اپریل 1960 کر دی گئی۔
پاکستان سے پروازیں ختم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ’حکومتِ پاکستان کی جانب سے پشاور سے پروازیں جاری رکھنے کی اجازت ملنے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ پشاور سے آخری پرواز نو اپریل 1960 میں اُڑی۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130817_pakistan_u2_flights_rh.shtml
Last edited by a moderator: