اور پھر وہ وقت آ ہی گیا جس کا مراثیوں کو خدشہ تھا۔ انہیں انصاف مہیا کرنے والا چوہدری مر گیا۔
اپنی چرب زبانی اورشاطر خصلت کی بنا کر مراثی خوب پھل پھول رہے تھے۔اور پھدو بنانے کا فن انہیں ممتاز سے ممتاز کر رہا تھا۔ ایک دن اپنے گدھے پر سوار جنگل سے گزرتے ہوئے مراثی نے شیر کی دھاڑ سنی جسکے رد عمل کے طور پر اس کا گدھا ڈر کر زمین پر گر گیا۔ اس نے اسے کھڑا کیا تو وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ مراثی نے اس کا سبب پوچھا تو گدھے نے بتایا ،"شیر جنگل کا بادشاہ ہے اور بہت بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ظالم بھی ہے۔بھوک میں اس کے سامنے جو آ جائے چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
مراثی نے سوچا ہمارے ہوتے ہوئے جنگل کا بادشاہ شیر نہیں ہمارا گدھا ہوگا۔ اس نے گدھے کو اپنی سوچ سے آگاہ کیا مگر گدھا سن کر ہنسنے لگا۔ " یہ کیسے ہو سکتا ہے۔شیر شیر ہوتا ہے گدھے کی اس کے سامنے کیا حثییت" مگر مراثی نے کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ گدھا تیار ہو گیا۔
اس نے گدھے کو رنگ کیا،عجیب و غریب دھاریاں بنائیں۔اور ایک نئی مخلوق کی شکل دے دی۔
اس کے بعد مراثی جنگل کے ایک ایک جانور کے پاس گیا ۔ انہیں شیر کے مظالم سے نجات کا عندیہ دیا اور بتایا کہ ایک جانور آیا ہے جو شیر سے بہت طاقتور ہے مگر گوشت خور نہیں ہے۔اس سے جنگل کے جانوروں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور پھر گدھا ان کے سامنے کر دیا۔ جو تھوڑا شعور رکھتے تھے جان گئے گدھے کو رنگا گیا ہے مگر سادہ لوح ،گدھے کے لئے بادشاہ بادشاہ کے نعرے لگانے لگے۔
اور پھر وہ سب جانور گدھے کی معیت میں شیر کے غار کی طرف بڑھے اور اس سے مطالبہ کرنے لگے کہ اصل بادشاہ آ گیا ہے۔اس لئے وہ جنگل چھوڑ کر چلا جائے۔
جنگل کے بہت سے جانور دیکھ کر شیر تھوڑا نروس ہو گیا۔ دور سے ایک رنگ برنگی جانور کی شکل دیکھ کر اسے خدشہ بھی تھا کہ شاید یہ کوئی بہت ہی طاقتور مخلوق نہ ہو۔ سو وہ شش و پنج میں مبتلا دیر تک ان کی خر مستیاں دیکھتا رہا۔
آگے بڑھ کر شیر پر حملہ کرنے کا حوصلہ گدھے میں بھلا کہا ہونا تھا۔ سو وہ دنوں تک شیر کی پہنچ سے دور کھڑا رینکتا رہا۔ مراثی اسے آگے بڑھنے کو بار بار کہتا رہا۔ مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ یہاں تک کے ان کے پیچھے چل پڑنے والے جانوروں کے حوصلے پست ہونے لگے۔مراثی نے اپنا وار خالی جاتے دیکھ کر لومڑی کو پیغام رساں بنا کر کسی منصف سےانصاف کروا لینے کے لئے شیر کو آمادہ کر لیا۔
اور پھر ایک کمشن تشکیل دے دیا گیا۔ جس کے ججز مراثی کی مرضی سے رکھے گئے۔ مراثی کو پورا یقین تھا کہ یہ منصف اس کے پنڈ کے چوہدری ہی کی طرح کا انصاف کریں گے۔
ججز نےگدھے سے پوچھا۔ تم جنگل کا بادشا ہ ہونے کا دعوا کرتے ہو۔ کیا تم شیر سے لڑ کر اسے پچھاڑ کر اپنے دعوے کا ثبوت دے سکتے ہو؟
کیا تم شکار کرنے میں اپنی مہارت شیر سے بڑھ کر دکھانے کے اس کے ساتھ شکار کرنے کا مقابلہ کر سکتے ہو؟
کیا تم شیر سے بڑھ کر اپنی با رعب آواز نکال سکتے ہو جسے سن کر جنگل کے ہر جانور کو یقین ہو جائے کہ واقعی ہمارا بادشاہ بول رہا ہے؟
ججز کے ہر سوال کا جواب گدھے کی طرف سے نفی میں تھا۔
اس کا صرف ایک ہی جواب تھا۔ چونکہ میں کہہ رہا ہوں تومیرا حق ہے مجھے جنگل کا بادشاہ تسلیم کیا جائے۔
منصفوں نے اس گدھے پن کو تسلیم کرنے سے بالاتفاق انکار کر دیا اور گدھے کے دعوے کو مسترد کر دیا۔
اب مراثی مسلسل رورہے ہیں۔ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔
اور اس وقت تک روتے ہی رہیں گے جب تک انہیں ایسا منصف نہ مل جائے جو ان کے گذرے چوہدری کی طرح انصاف نہیں کرتا۔